بڑھتی ہوئی آلودگی

آج انسان نے خوراک کے نت نئے ذرایع تلاش کر لیے ہیں لیکن ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

کیا ہماری آیندہ نسل چڑیوں ، جگنوؤں ، تتلیوں کو دیکھنے سے محروم ہوجائے گی؟

آسمانوں کو چھونے والے کوہسار، ہری بھری وادیوں اورگھنے جنگلات اس کرہ ارض کی خوبصورتی کا وسیلہ ہیں، تاہم بے شمار اقسام کے پھول ، پودے ، مچھلیوں، جانور اور چرند پرند نے بھی اس دنیا کے حسن کو چار چاند لگا رکھے ہیں۔ ذرا تصورکیجیے کہ اگر یہ دنیا رنگ برنگی پھولوں ، تتلیوں ، پرندوں کی چہکار اور درندوں کی دھاڑ سے محروم ہوجائے توکتنی سونی لگے۔ انسان اور جانوروں کا ساتھ دراصل آج کا نہیں صدیوں کا ہے ،جب سے انسان نے اس کرہ ارض کو اپنا مسکن بنایا ہے جانور اور پرندے بھی اس کے ساتھ رہتے چلے آ رہے ہیں۔

زمانہ قدیم میں انسان جانوروں کا شکارکرکے اپنی بھوک مٹایا کرتا تھا ،آج انسان نے خوراک کے نت نئے ذرایع تلاش کر لیے ہیں لیکن ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ایک طرف انسان جانوروں اور پرندوں کی لذیذ خوراک کے لیے جنگلوں میں ان کا شکارکھیلتا ہے تو دوسری طرف ان کی بیش قیمت کھالوں اور چمڑوں کے لیے بھی ان کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔ ساتھ ساتھ ان کے حیاتی مسکن یعنی جنگلات اور سمندرکو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔

اگرچہ آج کا انسان تجرباتی طور پر خلاؤں میں قدم رکھ چکا ہے، چاندکی سرزمین اس کے قدم چوم چکی ہے لیکن تاحال اس کے لیے موزوں ترین اور محفوظ ترین جائے پناہ کرہ ارض ہی ہے، یہ مختلف وسائل کا ایسا سرچشمہ ہے جو مدتوں سے اس کی تمام تر ضرورتیں پوری کر رہا ہے لیکن گزشتہ دو صدیوں کے دوران ہونے والی نام نہاد صنعتی اور معاشی ترقی نے اور خاص طور پر بیسویں صدی کی ایک اور دوکے تناسب سے بڑھتی ہوئی آبادی نے زمین کے ماحول کو شدید خطرات سے دوچارکر دیا ہے۔ سڑکوں پر دوڑتی شور مچاتی دھواں اڑاتی گاڑیاں، فصلوں کی حفاظت کے لیے حشرات کش ادویات کا بے جا اور بے محل استعمال ماحول کو آلودہ کر رہا ہے۔

درخت بے دریغ کاٹے جا رہے ہیں، انڈسٹری کے نام پر غیر معیاری اور اصولوں سے ہٹ کر کام کیے جا رہے ہیں ، ان سے نکلنے والی گیس اور بیش تر مادے ہوا اور پانی کو آلودہ کر رہے ہیں ، ایسی آلودگی کے باعث اوزون کی تہہ دن بہ دن پتلی ہوتی جا رہی ہے جب یہ ختم ہوجائے گی توکیا ہوگا؟ یہ سوچ سوچ کر سب ہی پریشان ہیں لیکن اس کے باوجود آلودگی کے جن کو انسان خود شے دے رہا ہے۔ ہماری موجودہ نسل اپنے بزرگوں کی زبانی ماضی کے حوالے اس خطے کے موسمی حالات کے بارے میں باتیں سن کر حیران ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے خطے میں سردیوں کا موسم بہت شدید ہوا کرتا تھا۔ موجودہ نسل سخت سردی کے قصوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ یہی سمجھا جاتا ہے کہ پرانے لوگ ماضی کے قصوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔


ایک زمانہ تھا جب لوگ رنگ برنگی تتلیاں اڑتی ہوئی اکثر گھروں میں بنی پودوں کی کیاریوں میں آکر بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ کوئل کی کوک کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی تھی جب کہ صبح کی میٹھی میٹھی نیند سے بیداری کا آغاز بھی چڑیوں کی چہچہاہٹ سے ہوتا تھا۔ درختوں پر گلہریاں ادھر سے ادھر بھاگتی دوڑتی نظر آتی تھیں جب کہ بلبل چہک چہک کر ماحول خوشگوارکردیتی تھی۔ رات کے وقت پارکوں اور باغات میں جگنو ضرور نظر آجایا کرتے تھے اور برسات کے موقع پر بارش تھمتے ہی بیر بہوٹی بچے پکڑ پکڑ کر جمع کیا کرتے تھے لیکن قدرت کے یہ حسین مناظر اور نمونے نایاب ہوگئے۔

قدرتی ماحول کے خاتمے میں انسان خود پیش پیش ہے۔ انسان کے نئی گاڑیوں کے دھوئیں اور دیگر ذرایع کے بے دریغ استعمال سے ماحول میں پھیلنے والی زبردست آلودگی نے تمام مناظر کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے اور قدرتی مناظرکے حسن کوگہن لگا دیا گیا ہے۔ قدرت کے شاہکار دیکھنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو بے شمار حسین مناظر نظر آجائیں گے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا ملک قدرتی خوبصورتی و مناظر کا منبع ہے۔

ہمارے پاس سرسبز باغات آج بھی ہیں مگر ان میں چہچہاتے پرندے مفقود ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی بڑھی تو پرندے بھی بے گھر ہوتے چلے گئے جہاں ماحول میں گاڑیوں اور صنعتی چمنیوں کا دھواں نہ ہو صنعتی علاقوں کے قیام کے لیے ان جنگلات کا صفایا ہو گیا ہو تو سبزہ بھی ختم ہوتا چلا گیا، اب پرندے نہ ہونے سے گھروں میں لگی پھلواریاں سونی ہوگئی ہیں ،ان کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ہے۔ پرندے جس قدر حسین ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ نازک مزاج بھی ہوتے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی اور موسموں کی سختی سے بچنے کے لیے متحرک نظر آتے ہیں اور بر وقت نقل مکانی کرکے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بہت سے پرندے فضائی آلودگی کی نظر ہوگئے ہمارے ہاں یہ بات کسی بڑے المیے سے کم نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے جانور اور پرندے مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر مر رہے ہیں یا ایسے علاقوں میں ہجرت کر جاتے ہیں جہاں سبزہ زیادہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج نئی نسل بے شمار پرندوں سے ناآشنا ہے اور یوں نئی نسل کو پرندوں سے متعلق معلومات صرف کتابوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

ماحولیاتی صورتحال یکسر تبدیل ہونے کے بعد اب توگھروں کی دیواروں اور چھتوں پرکوے بیٹھنے کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔ جب کہ تتلی اور جگنو تو بالکل ہی ناپید ہوگئے ہیں۔ یہ سب کچھ سبزے کے ناپید ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ایک اندازے کیمطابق سندھ کو فی الوقت دس ملین ایکڑ فٹ پانی مل رہا ہے جب کہ یہ پانی ستائیس ملین ایکڑ فٹ ہونا چاہیے لہٰذا سمندری پانی اندرونی سندھ مختلف علاقوں میں بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے زرعی زمینوں میں نمک بڑھ گیا ہے ، پیداوار پر اثر پڑ رہا ہے، موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی سائبیریا، روس اور دیگر ممالک سے مہمان پرندے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

غول کے غول پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ ساحلی علاقوں میں کینجھر جھیل اور ہالیجی جھیل پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں لیکن گزشتہ سالوں میں ان کی تعداد میں کمی آئی ہے اور پانی کی کمی کی وجہ سے بھی کم تعداد آئی ہے، یہ ہمارے ملک کے حوالے سے انتہائی الارمنگ صورتحال ہے، جس پر قابو پر پانے کے لیے حکومتی سطح پر بہتر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم خود کو ماحول دوست ثابت کرنا ہوگا تب ہی یہ ماحولیاتی آلودگی میں واضح کمی آئے گی اور درت وفطری زندگی کی جانب ہم واپس لوٹ سکیں گے۔
Load Next Story