ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں اصلاحات

پالیسی بنانے کے لیے صرف ایف بی آر پر انحصار کرنا عبث ہے۔

KARACHI:
ملک چلانے کے لیے ٹیکس اکٹھا کرنا ضروری ہے اور ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے ایف بی آر کا موثر ہونا ناگزیر ہو گیا ہے۔ ٹیکسوں کے حوالے سے متعلق ایک منفی تاثر عوامی حلقوں میں جاگزین کر چکا ہے ۔ اس کی وجہ ازکار رفتہ پالیسیاں اور غیر پیداواری نظام ہے۔

حقیقی اصلاحات اور موثر پالیسی میں مستقل مزاجی کے بغیر ٹیکس اہداف حاصل کرنا دقیق نظر آرہا ہے۔ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے ایف بی آر کا انحصار ٹیکس کمشنرز پر ہوتا ہے۔ ٹیکس کمشنر مقابلے کا امتحان پاس کر کے آتے ہیں۔ گو کہ انھیں ٹیکس معاملات پر ٹریننگ دی جاتی ہے لیکن کمشنر کی نو ماہ کی ٹریننگ چارٹرڈ اکاونٹٹ کی چھ سال اور فیلو چارٹرڈ اکاونٹنٹ کی دس سال کی تعلیم اور ٹریننگ کے مدمقابل نہیں ہو سکتی۔

انٹرنیشنل اکاؤنٹنگ اسٹینڈرڈز اور انٹرنیشنل آڈٹنگ اسٹینڈرڈز وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ عملی میدان میں انھیں کب کیسے اور کہاں استعمال کرنا ہے اس حوالے سے بہترین علم اور مہارت چارٹرڈ اکاونٹنٹس کے پاس موجود ہوتی ہے جب کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ٹیکس ڈپارٹمنٹ اکاؤنٹنگ اور آڈٹنگ اسٹینڈرڈز میں کم علمی کی بدولت فنانشل اسٹیٹمنٹس پر اعتراضات لگا کر نوٹس بھیج دیتا ہے جس کی وجہ سے ڈپارٹمنٹ کو بعدازاں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو کہ قوم کا پیسہ اور ڈپارٹمنٹ کا وقت ضایع کرنے کا باعث بنتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر چارٹرڈ اکاونٹنٹس تکنیکی بنیادوں پر ٹیکس کمشنرز سے اپنے کلائنٹس کو ریلیف دلوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

عام آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ ریاست اس سے ناجائز ٹیکس لے رہی ہے اور اپنے غلط موقف کو ثابت کرنے کے لیے جھوٹے سچے دلائل بھی دے رہی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اگر ٹیکس ایسسمنٹ غلط ثابت ہو جائے تو متعلقہ ٹیکس کمشنر متاثرہ شہری سے معافی مانگے اور تین غلط ایسسمنٹس پر کمشنر کو سرکار کی جانب سے مالی جرمانہ کیا جائے۔ جس کا کچھ حصہ ان شہریوں کو دیا جائے جو کمشنر کی نااہلی کی وجہ سے اذیت سے گزرے ہیں تا کہ عام آدمی میں تحفظ کا احساس پیدا ہو سکے۔ وہ اس سوچ کو بھی پروان چڑھا سکے کہ ریاست باپ کی طرح ذمے دار اور ماں کی طرح محبت کرنے والی ہے۔

وہ کسی قیمت پر بھی اپنے شہریوں کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گی اور جہاں تک ممکن ہو سکے وہ عام آدمی کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ ایف بی آر میں بیوروکریٹس کے علاوہ چارٹرڈ اکاونٹنٹس کو بھی ٹیکس کمشنر کے عہدے پر تعینات کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔ اس سے ٹیکس اکٹھا کرنے کے ساتھ بیوروکریٹس ٹیکس کمشنرز کو تکنیکی مسائل سمجھنے اور بہتر حل نکالنے میں مدد مل سکے گی۔

اچھے پریسیڈنٹس قانون کی کتابوں کا حصہ بن سکیں گے۔ ایک سال بعد دونوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ اگر چارٹرڈ اکاونٹنٹس بہتر پرفارم کریں تو ٹیکس ڈپارٹمنٹس میں تعیناتیاں مقابلے کے امتحان کی بجائے مستقل طور پر مہارت اور پروفیشنلزم کی بنیاد پر کی جائیں۔ دوسرا اہم پہلو اپیل کے معاملات ہیں۔ اِنکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کیسز میں ٹیکس نوٹس جاری کرنیوالا، انوسٹی گیشن کرنیوالا، حتمی فیصلہ جاری کرنیوالا عمومی طور پر ایک ہی آفیسر ہوتاہے۔


آفیسر کے آرڈر کے خلاف پہلی اپیل کمشنر کو کی جاتی ہے جو کہ اسی ڈپارٹمنٹ سے منسلک ہوتا ہے۔ کمشنر کے فیصلے کے خلاف ٹرابیونل میں اپیل کی جاتی ہے جہاں ایک جوڈیشل ممبر اور دوسرا اکاونٹنٹ ممبر ہوتا ہے۔ اکاونٹنٹ ممبر ٹیکس کمشنر ہوتا ہے جو کہ اسی ڈپارٹمنٹ کا نمایندہ ہوتا ہے جس کے خلاف اپیل سنی جارہی ہوتی ہے۔ عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ڈپارٹمنٹ کے نمایندہ کے لیے اپنے ہی ڈپارٹمنٹ کے خلاف فیصلہ دینا مشکل ہو سکتا ہے۔ یہاں سے کیس اپیل کے لیے ہائیکورٹ جاتا ہے جہاں حقائق اور اعدادو شمار پر بات نہیں کی جاسکتی صرف قانون پر بات ہو سکتی ہے۔ یعنی کہ اگر ٹربیونل میں اعدادوشمار کے حوالے سے آپ کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے تو آپ کی داد رسی ممکن نہیں ہو سکے گی۔

اس مسئلے کے حل کے لیے ٹریبونل میں ایک جوڈیشل ممبر کے ساتھ ایک آزاد ممبر کو تعینات کیا جا سکتا ہے جس کا تعلق ٹیکس ڈپارٹمنٹ سے نہ ہو۔ وہ نمایندہ ایک چارٹرڈ اکاونٹنٹ یا ٹیکس کنسلٹنٹ ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ ٹیکس عدالتوں کا قیام بھی مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔ جہاں اعدادوشمار سمیت تمام قانونی پہلووں سے معاملے کو دیکھا جا سکے گا۔ اس طرح ہائیکورٹس پر کیسوں کا بوجھ بھی کم ہو سکے گا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے راستے بھی کھل سکیں گے۔کسٹم میں آزاد عدالتی نظام موجود ہے جب کہ ایف بی آر میں اس نظام کو متعارف نہیں کروایا گیا جس کے باعث پاکستانی شہری ٹیکس ڈپارٹمنٹس میں غیر منصفانہ نظام کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

تیسرا اہم پہلو ٹیکس کی قانون سازی میں سٹیک ہولڈرز کی اہمیت ہے۔ پالیسی سازی اور پالیسی کو عملی شکل دینے کی ذمے داری ایک ہی ڈپارٹمنٹ کی نہیں ہونی چاہیے۔ پالیسی وزارت خزانہ بنائے اور اس کو عملی شکل دینا ایف بی آر کی ذمے داری ہونی چاہیے۔ ایف بی آر کے ملازمین نے ٹیکس ٹارگٹ پورا کرنا ہوتا ہے ۔وہ ایسی پالیسی تجویز کرتے ہیں جس سے ان کے ٹارگٹس تو بآسانی پورے ہو جائیں ،چاہے عوام پر زندگی تنگ ہو جائے۔ مثال کے طور پر ٹیکس اکٹھا کرنے کا سب سے آسان طریقہ ان ڈائریکٹ ٹیکسز ہیں۔

ایف بی آر نمایندے اکثر تجاویز دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان ڈائریکٹ ٹیکس بڑھا دیں یا نئے انڈائریکٹ ٹیکسز لگا دیں۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس میں وہ لوگ بھی ٹیکس دیتے ہیں جن کی آمدن ٹیکس ایبل نہیں ہے۔ریڑھی والا، موچی، مزدور، صفائی والا، کوڑیوالا سمیت کروڑوں لوگوں کی آمدن ٹیکس کے زمرے میں نہیں آتی لیکن وہ پھر بھی ٹیکس کی چکی میں پس رہے ہیں۔

کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ اگر ستر فیصد آمدن ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے ہی حاصل کرنی ہے تو پھر ایف بی آر میں ملازمین کی فوج ظفر موج کی کیا ضرورت ہے؟ پالیسی بنانے کے لیے صرف ایف بی آر پر انحصار کرنا عبث ہے۔ لیت و لعل کے شکار اس ٹیکس نظام سے ہُن برسنے کی امید پیدا ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ایف بی آر کمشنرزان تجاویز کو آج کے کج فہم لڑکوں بالوں کا خیال اور گیتی افروز کو روشنی دکھانا قرار دیتے ہیں۔

میری حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیکس اکٹھا کرنے کا ایسا حل تجویز کیا جائے جس پر عوامی نمایندوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز متفق ہوں۔ ٹیکس پالیسی بنانے سے پہلے ملک کے مایا ناز اکانومسٹس، سیاسی شخصیات، ٹیکنو کریٹس، چارٹرڈ اکاونٹنٹس، ٹیکس کنسلٹنٹس اور بیوروکریٹس کو شامل کیا جائے تا کہ متوازن اور فقیدالمثال پالیسی عوام کے سامنے آ سکے اور قانون سازی عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہو سکے۔
Load Next Story