3 سال گزر گئے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وی سی اجمل خان بازیاب نہ ہوسکے
اجمل خان کی رہائی کیلیے طالبان نے کئی شرائط رکھی ہیں خاندان آج بھی انکی واپسی کی جانب نظریں لگائے بیٹھاہے
KARACHI:
7 ستمبر2010 کو اغوا ہونیوالے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر اجمل خان کی بازیابی کیلیے حکومتی سطح پرموثراقدامات نہ ہونے کے باعث انکی بازیابی معمہ بنکررہ گئی ہے۔
یہاںتک کہ مغوعی وائس چانسلرکے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی خان کے قریبی رشتے دارہونے کے باوجودبھی سابقہ صوبائی حکومت اپنابھرپورکردارادانہ کرسکی۔7 ستمبرکی صبح 9 بجے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلراپنے گھرسے سرکاری گاڑی A-9450 میںاپنے ڈرائیورمحب اللہ کیساتھ یونیورسٹی جارہے تھے کہ اس دوران 1986 ماڈل کی ایک سفیدرنگ کی گاڑی میںبیٹھے 3 مسلح افراد نے وائس چانسلراوران کے ڈرائیورکو اغوا کر لیا ، جسکے بعدعینی شاہدین کے مطابق اغوا کار انہیںخیبرایجنسی کی جانب لے گئے۔اجمل خان کے اغوا کے بعدانکی طالبان کیساتھ کئی ویڈیو پیغامات بھی نشر ہوئے جن میں طالبان نے انکی رہائی کے بدلے میں اپنے کچھ مطالبات رکھے اوران ویڈیو پیغامات میںاجمل خان کی جانب سے حکومت سے کئی بار درخواست بھی کی گئی مگرگزشتہ حکومت انہیںرہائی نہ دلواسکی ۔
جب کہ دوسری جانب اغواکاروںنے تقریبا2سال کے بعدوی سی اجمل خان کے ڈرائیورمحب اللہ کو رہاکردیاجس کے بعدمحب اللہ نے واپس آ کراسلامیہ کالج یونیورسٹی میںاپنی ڈیوٹی دوبارہ سے شروع کردی۔ اجمل خان اپنے دور اغوا میں ہی ملازمت سے ریٹائرڈہو گے جسکے بعدسابقہ حکومت نے انکے خاندان پریہ احسان کیاکہ انکی ریٹائر منٹ میںمزید3 سال کی توسیع کردی۔ اجمل خان کی بازیابی کے حوالے سے گورنر خیبرپختونخوا انجینئر شوکت اللہ نے گومل زام ڈیم کے مغویوںکی بازیابی کے بعد میڈیا کیساتھ بات چیت کے دوران کہاتھاکہ جلدمغوعی وائس چانسلراجمل خان بھی باز یاب ہوجائیں گے اوران کی بازیابی کے حوالے سے حکومت قبائلی رواج کے مطابق اقدامات اٹھارہی ہیںتاہم اس کے باوجود تاحال مغوعی وائس چانسلر اجمل خان کاخاندان انکی واپسی کی جانب نظریں لگائے بیٹھاہے۔
7 ستمبر2010 کو اغوا ہونیوالے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر اجمل خان کی بازیابی کیلیے حکومتی سطح پرموثراقدامات نہ ہونے کے باعث انکی بازیابی معمہ بنکررہ گئی ہے۔
یہاںتک کہ مغوعی وائس چانسلرکے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی خان کے قریبی رشتے دارہونے کے باوجودبھی سابقہ صوبائی حکومت اپنابھرپورکردارادانہ کرسکی۔7 ستمبرکی صبح 9 بجے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلراپنے گھرسے سرکاری گاڑی A-9450 میںاپنے ڈرائیورمحب اللہ کیساتھ یونیورسٹی جارہے تھے کہ اس دوران 1986 ماڈل کی ایک سفیدرنگ کی گاڑی میںبیٹھے 3 مسلح افراد نے وائس چانسلراوران کے ڈرائیورکو اغوا کر لیا ، جسکے بعدعینی شاہدین کے مطابق اغوا کار انہیںخیبرایجنسی کی جانب لے گئے۔اجمل خان کے اغوا کے بعدانکی طالبان کیساتھ کئی ویڈیو پیغامات بھی نشر ہوئے جن میں طالبان نے انکی رہائی کے بدلے میں اپنے کچھ مطالبات رکھے اوران ویڈیو پیغامات میںاجمل خان کی جانب سے حکومت سے کئی بار درخواست بھی کی گئی مگرگزشتہ حکومت انہیںرہائی نہ دلواسکی ۔
جب کہ دوسری جانب اغواکاروںنے تقریبا2سال کے بعدوی سی اجمل خان کے ڈرائیورمحب اللہ کو رہاکردیاجس کے بعدمحب اللہ نے واپس آ کراسلامیہ کالج یونیورسٹی میںاپنی ڈیوٹی دوبارہ سے شروع کردی۔ اجمل خان اپنے دور اغوا میں ہی ملازمت سے ریٹائرڈہو گے جسکے بعدسابقہ حکومت نے انکے خاندان پریہ احسان کیاکہ انکی ریٹائر منٹ میںمزید3 سال کی توسیع کردی۔ اجمل خان کی بازیابی کے حوالے سے گورنر خیبرپختونخوا انجینئر شوکت اللہ نے گومل زام ڈیم کے مغویوںکی بازیابی کے بعد میڈیا کیساتھ بات چیت کے دوران کہاتھاکہ جلدمغوعی وائس چانسلراجمل خان بھی باز یاب ہوجائیں گے اوران کی بازیابی کے حوالے سے حکومت قبائلی رواج کے مطابق اقدامات اٹھارہی ہیںتاہم اس کے باوجود تاحال مغوعی وائس چانسلر اجمل خان کاخاندان انکی واپسی کی جانب نظریں لگائے بیٹھاہے۔