امید ہے ڈرون کا مسئلہ اب حل ہو جائیگا نواز شریف

ڈرون حملوں کا معاملہ وہاں اٹھایا جہاں اٹھایا جانا چاہیے تھا ، ہم جو کہتے ہیں وہ کرکے دکھاتے ہیں،وزیراعظم

اوباما کے خیالات مثبت ہیں، بھارت مسئلہ کشمیر میں تیسرا فریق نہیں چاہتا، صحافیوں سے گفتگو فوٹو؛ اے ایف پی/فائل

ISLAMABAD:
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کی خلاف ورزی ہیں۔

امید ہے کہ صدر اوباما کے ساتھ ملاقات کے بعد یہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا۔ ہم جو کہتے ہیں وہ کرکے دکھاتے ہیں ، امریکی حکام کے ساتھ تمام امور پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہے۔ امریکا کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلیے کردار ادا کرنا چاہیے، امریکی سرمایہ کاروں کو توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔ وہ امریکا کے 4 روزہ دورے سے واپسی پر لندن میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ ڈرون حملوں کا مسئلہ ابس پاکستانی عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہو جائے گا، اس معاملے پر یقیناً پیشرفت ہو گی۔

دورہ امریکا کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے تمام امور پر تبادلہ خیال کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی میں ان تمام معاملات پر بات چیت ہونی چاہیے تھی ، اگر ان معاملات پر بات نہیں ہوئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب ہم بھی ان پر بات نہ کریں۔ جو کچھ ہم نے کہا ہے اس پر عمل کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کو منافقت سے پاک ہونا چاہیے۔ سڈرون حملوں کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے نے کہا کہ جو کچھ رپورٹ میں کہا گیا ہے یہ ان کا موقف ہے۔


لیکن ہم نے یہ معاملہ وہاں اٹھایا ہے جہاں اٹھایا جانا چاہئے تھا۔جموں و کشمیر کے تنازعہ کے حل کیلئے امریکی رہنمائوں کے ساتھ ہم اپنی بات چیت سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ اگرچہ بھارت اس معاملے میں امریکا کا کردار نہیں چاہتا تاہم پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ اپنا کردار ادا کرے۔ اگر دوطرفہ مذاکرات کار کامیاب نہیں ہوتے تو کوئی تیسرا فریق مسئلے کے حل میں مدد دے سکتا ہے اس کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ہم نے ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر بات کی اور اب ہم وطن واپس جا رہے ہیں، صورتحال کا جائزہ لیں گے اور اس کے بارے میں سوچیں گے اور اپنے مکمل جائزے کے بعد ان معاملات پر صحافیوں سے بات ہوگی۔



انھوں نے کہا کہ امریکا اور پاکستان دونوں نے اپنے اپنے خدشات اٹھائے ہیں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خدشات کو سمجھیں اور پھر انھیں حل کریں، اب ہم نے مذاکرات کا عمل شروع کر دیا ہے۔ صدر اوباما نے جو کچھ کہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ان کے خیالات مثبت ہیں۔ نوازشریف نے کہا کہ اپنے دورے کے دوران انھوں نے امریکی انتظامیہ کی انتہائی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں جنھوں نے معیشت، توانائی اور تعلیم کے مسائل کے حل میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔

صدر اوباما کے ساتھ ملاقات طویل رہی اور اس میں ہم نے تمام امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے امریکی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے سرمایہ کاروں سے کہیں کہ وہ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکی سرمایہ کار پن بجلی، گڈانی کول پراجیکٹ اور ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں ۔ہم نے بھاشا ڈیم پر کام شروع کر دیا ہے اس لیے یقین ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آ کر اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں گے' ہم توانائی کا مسئلہ جلد حل کرنا چاہتے ہیں۔نواز شریف نے یہ بھی بتایا کہ امریکی صدر نے بات چیت میں ان سے سرحد پار دہشت گردی اور جماعت الدعوہ کے حوالے سے بھی بات کی اور ممبئی حملوں کے مجرموں کو اب تک سزا نہ ملنے کا معاملہ بھی اٹھایا۔
Load Next Story