سیاسی کہانیاں

اگر حکومت کو بغیر کسی ڈیل کے نتیجے میں چلتا کیا جاتا ہے تو ایک بار پھر کنٹینر تیار ہوگا

عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے کے آپشن کی طرف جاتے ہیں تو یہ ان کی غلطی ہوگی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہور:
2018 کے الیکشن سے قبل کی بات ہے ایک محفل میں انتخابی نتائج کے حوالے سے بحث جاری تھی۔ محفل میں شریک ہر کوئی اپنی پیش گوئیاں کررہا تھا۔ کوئی خیبرپختونخوا میں اے این پی اور ایم ایم اے کی مشترکہ حکومت بنانے کے بارے میں امکان ظاہر کررہا تھا تو کوئی ایک بار پھر ایم ایم اے کے برسراقتدار آنے کے بارے میں اپنی رائے دے رہا تھا۔ محفل میں موجود تمام سیاسی مبصرین کی رائے کے بعد ہمارے ایک دوست نے تجزیہ دیا کہ پاکستان تحریک انصاف نہ صرف خیبرپختونخوا میں دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی، بلکہ مرکز میں بھی حکومت بنائے گی اور وہ اگلا وزیراعظم عمران خان کو ہی دیکھ رہے ہیں۔ یہی نہیں خیبرپختونخوا سے بڑے بڑے سیاسی برج بھی گریں گے۔

ہر ایک نے بڑی سیاسی شخصیات کی پارلیمانی سیاست سے باہر ہونے کی رائے سے اختلاف کیا۔ اس محفل میں ہمارے دوست کو خوب تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ 2018 کے انتخابات ہوئے اور نتائج سامنے آئے تو سب حیران رہ گئے اور ہمارے قریبی دوست نے انتخابات سے قبل جو سیاسی تجزیہ دیا تھا وہ درست ثابت ہوا۔

2018 کے انتخابات سے قبل کوئی بھی یہ توقع نہیں کررہا تھا کہ خیبرپختونخوا سیاست کی بڑی شخصیات اسفندیار ولی خان، آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور مولانا فضل الرحمان اپنی نشستیں ہار جائیں گے اور ان کے مقابلے میں ایسے امیدوار کامیاب ہوں گے جو کبھی ایسی شخصیات سے انتخابی دنگل میں مقابلے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

انتخابات کے کچھ عرصے بعد ایک بار پھر ان دوستوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا اتفاق ہوا اور محفل میں یہ سوال اٹھا کہ پی ٹی آئی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرپائے گی؟ محفل میں شریک ہر کسی نے اپنا سیاسی تجزیہ دیا۔ اس بار ہر کسی کا موقف تھا کہ جس طرح پی ٹی آئی برسراقتدار آئی ہے، مستقبل میں حکومت کےلیے کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے گی۔ لیکن ہمارے دوست جنہوں نے پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کی پیش گوئی کی تھی، ان کا تجزیہ اس بار مختلف تھا۔ ان کا تجزیہ تھا کہ 2020 میں عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نئے انتخابات کی طرف جائیں گے اور انتخابات میں عمران خان عوام کے سامنے یہ عرضی پیش کریں گے چونکہ انھیں واضح اکثریت نہیں ملی، اس لیے وہ اپنے منشور کے مطابق کام نہیں کرسکے۔ اسی وجہ سے عوام کو بھی ریلیف نہیں مل سکا۔ اگر انھیں دو تہائی اکثریت مل جائے تو قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

ہمارے تجزیہ کار دوست کے مطابق عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے کے آپشن کی طرف جاتے ہیں تو یہ ان کی غلطی ہوگی۔ ہمارے دوست نے حکومت کے جانے کی جو نشانیاں بتائی تھیں، اس کے مطابق حالات وہی بنتے نظر آرہے ہیں۔ حکومت کی مشکل کی پہلی نشانی نواز شریف کی بیرون ملک روانگی، دوسری نشانی پی ٹی آئی کی غیرملکی فنڈنگ کیس کی سماعت، تیسری نشانی حکومت مخالف فیصلے آنا اور چوتھی نشانی وزیراعظم کے لہجے میں تبدیلی بتائی گئی تھی۔


وزیراعظم کا لہجہ وہی نظر آرہا ہے جو کنٹینر پر استعمال کیا کرتے تھے۔ وزیراعظم حکومتی کارکردگی کے حوالے سے اس بات کا بھی اظہار کرچکے ہیں کہ انھیں ٹیم ٹھیک نہیں ملی، اسی لیے وہ ڈیلیور نہیں کرسکے۔

مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف تین ہفتوں کا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تو مختلف حلقوں کی جانب سے یہ باتیں سامنے آرہی تھیں کہ مولانا فضل الرحمان خالی جھولی لے کر اٹھے ہیں اور کسی کا موقف تھا کہ مولانا فضل الرحمان کبھی خالی ہاتھ نہیں گئے اور اس بار وہ جھولی بھر کرگئے ہیں۔ لیکن مولانا فضل الرحمان کافی پرامید نظر آرہے ہیں۔ بنوں میں ہونے والے جلسے میں مولانا فضل الرحمان نے واضح طور پر اشارہ دیدیا تھا کہ وہ اسلام آباد سے خالی ہاتھ نہیں آئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا خالی ہاتھ نہیں آئے تو وہ کیا لے کر آئے ہیں؟ اس حوالے سے یا تو مولانا جانتے ہیں یا مولانا اور حکومت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے والے پرویز الٰہی جانتے ہیں۔ لیکن مولانا فضل الرحمان کی تازہ بات چیت جو سامنے آئی ہے اس کے مطابق انھیں بلوچستان حکومت، چیئرمین سینیٹ اور گورنر کے پی کے عہدوں کی پیشکش ہوئی اور مولانا نے بڑے پراعتماد انداز میں کہا کہ نئے الیکشن اور حکومت کے خاتمے کی جلد نوید عوام کو ملے گی۔

مولانا اسلام آباد سے کیا لے کر آئے یا اس ڈیل کے نیتجے میں کیا ہونے جارہا ہے، مولانا کا بیان بھی سامنے آگیا ہے لیکن 'جتنے منہ اتنی باتیں' والی صورتحال ہے۔ ہر تجزیہ کار اپنا خیالی پلاؤ پکا رہا ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ اِن ہاؤس تبدیلی لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں، ان ہاؤس وزیراعظم کےلیے ایسا نام بھی سامنے آسکتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔ یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگی ہیں کہ مختصر مدت کےلیے نگران حکومت بھی قائم کی جاسکتی ہے اور نگران وزیراعظم کےلیے میاں محمد سومرو کے نام پر اتفاق کیا جارہا ہے، لیکن اس پر مسلم لیگ ن کا اتفاق نہیں۔ یہ بھی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف دور کی طرح شوکت عزیز جیسی کسی شخصیت کو باہر سے امپورٹ کیا جائے۔ اور کچھ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کچھ بھی نہیں ہونےوالا نہیں۔

سیاسی صورتحال میں کیا ہونے جارہا ہے، ہمارے سیاسی تجزیہ کار دوست کہتے ہیں کہ آنے والے سیاسی افق کی صورتحال رواں ماہ واضح ہوجائے گی۔ ان کا اشارہ 27 نومبر کی طرف تھا۔ لیکن یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ حکومت کو مارچ تک کا وقت دے دیا گیا ہے کہ اگر مارچ تک ملکی معاشی صورتحال درست سمت میں نہ آئی تو تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا اور مختصر مدت کےلیے نگران حکومت قائم کرنے کے بعد ملک میں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں گے۔ لیکن نگران حکومت کے نتیجے میں اتنی جلدی انتخابات ممکن نظر نہیں آتے۔ اگر حکومت کو بغیر کسی ڈیل کے نتیجے میں چلتا کیا جاتا ہے تو ایک بار پھر کنٹینر تیار ہوگا۔ گو گو کے نعرے پھر گونجیں گے۔ لیکن سیاسی صورتحال واضح ہونے تک ایسی کئی کہانیاں سننے کو ملیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story