وحید مراد کو بچھڑے 36 برس گزر گئے مداح آج تک نہیں بھولے
انہوں نے فلم ’دوراہا،عندلیب، سالگرہ، انجمن، جہاں تم وہاں ہم، پھول میرے گلشن کا، دیور بھابھی سمیت 124 فلموں میں کام کیا
پاکستانی فلم انڈسٹری کے مایہ ناز اداکار اور چاکلیٹی ہیرو کہلانے والے وحید مراد کی 36 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔
اپنی لازوال اداکاری سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے وحید مراد نے 2 اکتوبر 1938ء کو فلم ساز نثار مراد کے گھر آنکھ کھولی۔ کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا بعد ازاں فلمی کیرئیر کی شروعات 1962ء میں بننے والی فلم 'اولاد' سے کی۔
برصغیر میں دلیپ کمار کے بعد وحید مراد وہ واحد ہیرو تھے جن کے ہیراسٹائل اور ملبوسات کی نقل کی گئی۔ وحید مراد کی ایک خاص بات جو انھیں دیگر اداکاروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ ان کے انتقال کو تین دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ اپنے مداحوں کے دل و دماغ میں بسے ہوئے ہیں۔
پچیس سالہ فلمی کیریئر کے دوران وحید مراد نے شہرت کی وہ بلندی دیکھی جس کی مثال بہت کم ملتی ہے، یوں تو بطور ہیرو وحید مراد کی پہلی فلم 'ہیرا اور پتھر' تھی مگر سلور اسکرین پر پچھتر ہفتے مسلسل چلنے والی فلم 'ارمان' نے وحید مراد کو بام عروج پر پہنچایا اور وہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے پہلے باقاعدہ سپر اسٹار کہلائے۔
وہ ایک دور میں ہدایت کار پرویز ملک کی ٹیم میں رہے جس میں گیت نگار مسرور انور، موسیقار سہیل رعنا اور گلوکار احمد رشدی بھی شامل تھے اس ٹیم نے کامیاب فلموں کے ریکارڈ قائم کیے۔ فلمی ناقدین کہتے ہیں کہ وحید مراد ایک فرد نہیں بلکہ ایک دور تھے۔
چاکلیٹی ہیرو وحید مراد نے فلم 'دوراہا، عندلیب، جب جب پھول کھلے، سالگرہ، انجمن، جہاں تم وہاں ہم، پھول میرے گلشن کا، دیور بھابھی سمیت' 124 فلموں میں کردار نگاری کی۔ وحید مراد کے فلمی عروج و زوال کو ہالی ووڈ ایکٹر ایلوس پریسلے سے تشبیہ دی جاتی ہے جنھوں نے طویل شہرت کے بعد ایک دم زوال کا منہ دیکھا۔
23 نومبر 1983ء کو پاکستانی فلم انڈسٹری کو نئی جدتیں دینے والے وحید مراد دار فانی سے کوچ کرگئے۔ فنی خدمات کے صلے میں و حید مراد کو ستارہ امتیاز، نگار، گریجویٹ، نیشنل، مصور سمیت دیگر اعزازات سے نوازا گیا۔
اپنی لازوال اداکاری سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے وحید مراد نے 2 اکتوبر 1938ء کو فلم ساز نثار مراد کے گھر آنکھ کھولی۔ کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا بعد ازاں فلمی کیرئیر کی شروعات 1962ء میں بننے والی فلم 'اولاد' سے کی۔
برصغیر میں دلیپ کمار کے بعد وحید مراد وہ واحد ہیرو تھے جن کے ہیراسٹائل اور ملبوسات کی نقل کی گئی۔ وحید مراد کی ایک خاص بات جو انھیں دیگر اداکاروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ ان کے انتقال کو تین دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ اپنے مداحوں کے دل و دماغ میں بسے ہوئے ہیں۔
پچیس سالہ فلمی کیریئر کے دوران وحید مراد نے شہرت کی وہ بلندی دیکھی جس کی مثال بہت کم ملتی ہے، یوں تو بطور ہیرو وحید مراد کی پہلی فلم 'ہیرا اور پتھر' تھی مگر سلور اسکرین پر پچھتر ہفتے مسلسل چلنے والی فلم 'ارمان' نے وحید مراد کو بام عروج پر پہنچایا اور وہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے پہلے باقاعدہ سپر اسٹار کہلائے۔
وہ ایک دور میں ہدایت کار پرویز ملک کی ٹیم میں رہے جس میں گیت نگار مسرور انور، موسیقار سہیل رعنا اور گلوکار احمد رشدی بھی شامل تھے اس ٹیم نے کامیاب فلموں کے ریکارڈ قائم کیے۔ فلمی ناقدین کہتے ہیں کہ وحید مراد ایک فرد نہیں بلکہ ایک دور تھے۔
چاکلیٹی ہیرو وحید مراد نے فلم 'دوراہا، عندلیب، جب جب پھول کھلے، سالگرہ، انجمن، جہاں تم وہاں ہم، پھول میرے گلشن کا، دیور بھابھی سمیت' 124 فلموں میں کردار نگاری کی۔ وحید مراد کے فلمی عروج و زوال کو ہالی ووڈ ایکٹر ایلوس پریسلے سے تشبیہ دی جاتی ہے جنھوں نے طویل شہرت کے بعد ایک دم زوال کا منہ دیکھا۔
23 نومبر 1983ء کو پاکستانی فلم انڈسٹری کو نئی جدتیں دینے والے وحید مراد دار فانی سے کوچ کرگئے۔ فنی خدمات کے صلے میں و حید مراد کو ستارہ امتیاز، نگار، گریجویٹ، نیشنل، مصور سمیت دیگر اعزازات سے نوازا گیا۔