نسل نو کا المیہ
ہماری نئی نسل نے آنکھ کھولتے ہی مسائل کا سامنا کیا ہے۔
ہماری نئی نسل نے آنکھ کھولتے ہی مسائل کا سامنا کیا ہے۔ انھیں ایسے دور کا سامنا ہے جس میں ہر طرف پیسا بٹورنے کی، چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے، ایک دوڑ لگی ہوئی اور ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ نسل نو کا المیہ کہیں یا بدنصیبی کہ وہ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے، جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے تو ترقی کی لیکن رشتوں میں دراڑیں پڑگئیں، وہ بھی ایسی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہیں۔ استاد اور شاگرد کا عظیم رشتہ بھی کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اسکول، کالجز اور جامعات میں اساتذہ کا عالمی دن منایا گیا، انھیں پھول و کارڈز پیش کیے گئے، اور کہیں کہیں ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا۔ لیکن کیا یہ سب زبانی و ظاہری اعتراف کافی ہے؟
بچوں کی تربیت میں جہاں والدین کا کردار بنیادی نوعیت کا ہے، وہیں اساتذہ کی ذمے داری بھی نہایت اہم ہے۔ اساتذہ کی شفقت و رہنمائی طالب علم کی زندگی بدل دیتی ہے۔ زمانہ قریب میں اساتذہ کسی بھی قسم کے ذاتی اور مالی مفاد سے بالاتر ہوکر ہر شاگرد پر خصوصی توجہ دیتے، انھیں صحیح و غلط کی پہچان کراتے، ان کے ذہنوں پر پڑی گرد جھاڑتے اور دل کی آنکھیں اور کان کھولنے میں مدد دیتے تھے۔ معاشرے میں جہاں اور چیزیں کمرشلائز ہوئیں وہیں ہم نے تعلیم جیسے مقدس پیشے کو بھی تجارتی اور وہ بھی انتہائی منافع بخش بنتے دیکھا۔ سماج کی بدلتی قدروں اور نفسانفسی کی وجہ سے معلم کی توجہ تدریس و تعلیم سے زیادہ کمانے کی طرف ہوتی چلی گئی۔ تعلیم اب مشن نہیں کاروبار ہے، ایسا کاروبار جس میں نقصان کا ذرہ بھر امکان نہیں ہے۔ اب اساتذہ تعلیم کو ایک مقدس فرض نہیں بے تحاشا پیسا کمانے کا آسان نسخہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ادب و احترام میں بھی کمی آئی ہے۔ اب استاد کو لوگ بکائو مال سمجھتے ہیں۔ زمانہ قریب میں سب استاد کی عزت ماں باپ سے زیادہ کرتے تھے، لیکن جیسے جیسے تعلیم تجارتی ہوتی گئی استاد اپنے مقام و مرتبے سے گرتے چلے گئے اور یہ بہت ہی اندوہ ناک صورت حال ہے۔
معلم کا فرض صرف تعلیمی امور میں بچوں کی رہنمائی نہیں ہوتا بلکہ ان کی روحانی، اخلاقی و دینی تربیت کی ذمے داری بھی ان پر عاید ہوتی ہے۔ استاد کا کردار کسی بھی طالب علم کے لیے بڑا آئیڈیل ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ استاد طالب علموں کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے احتیاط نہیں کرتے، اپنے غصے پر قابو نہیں رکھتے اور وہ کچھ کہہ جاتے ہیں یا ایسے القابات و الفاظ سے پکارتے ہیں جن سے بچوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ جن سے نا صرف اساتذہ کے ادب و احترام میں کمی آتی ہے بلکہ طالب علموں کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔ اساتذہ کی کوئی ایسی بات جو سامنے کچھ کہا ہو کسی دوسرے استاد کے سامنے کچھ اور، اس سے طالب علم کی نظروں میں استاد کا مقام گر جاتا ہے اورطالب علم اپنے استاد کو جھوٹا و بددیانت سمجھنے لگتا اور بدظن ہوجاتا ہے۔ جھوٹ گناہوں کا پیش خیمہ ہے۔ جس طرح زندہ رہنے کے لیے آکسیجن ضروری ہے اسی طرح استاد کو اپنا ادب و احترام برقرار رکھنے کے لیے سچا ہونا لازمی ہے، سچائی کے بغیر استاد ایک لمحہ بھی اپنا مقام قائم نہیں رکھ سکتا۔ کسی دانا کا قول ہے کہ ''یقیناً علم کی محتاجی کا علاج سوال کرنے میں ہے'' لیکن ہمارے سماج میںاکثر دیکھا گیا ہے کہ طالب علم کے بار بار سوال کرنے پر آج کل کے اساتذہ جھلا جاتے، اور انھیں سخت سست کہتے ہیں۔ جب کہ پہلے کے اساتذہ بار بار سوال کرنے پر خوش ہوتے اور مزید دل جمعی سے سمجھاتے تھے۔ اس لیے اساتذہ کا فرض ہے کہ اگر طالب علم کو کوئی بات، سوال سمجھ نہیں آرہا ہو تو اس وقت تک سمجھائیں جب تک طالب علم اچھی طرح ذہن نشیں نہ کرلے یا مطمئن نہ ہوجائے۔
اساتذہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ موجودہ حالات میں جب کہ ذہنی الجھنیں بچوں میں بھی بہت بڑھ رہی ہیں ان کی صحیح رہنمائی و تربیت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ان کے ذہن میں پڑی گرہوں کو کھولنا، ان کی ذہنی استعداد کو بڑھانا، اساتذہ کا فرض ہے۔ طالب علم کو اچھا، بہترین، محب وطن اور فرض شناس شہری اور درد مند انسان بنانا، اساتذہ کا اولین فرض و ذمے داری ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عمومی طور پر اور اساتذہ خصوصی طور پر اس طرف توجہ دیں اور طالب علم کی صحیح رہنمائی و تربیت کا فریضہ انجام دیں تاکہ ایک اچھے اور مثالی معاشرے کے قیام کی کوئی صورت بن سکے۔
ذہین بچے کا کلاس میں اول آنا یا اسے پسند کرنا کوئی کمال کی بات نہیں۔ کمال تو جب ہے جب کوئی ایسا طالب علم جو ذہنی لحاظ سے کلاس کے باقی تمام بچوں سے کم ہو یا اپنی صلاحیتیں صحیح پہچان نہیں پا رہا ہو، اسے آگے بڑھنے اور اس کی کامیابی کے حصول میں مدد فراہم کی جائے۔ اس کے برعکس آج کل کے اساتذہ ایسے بچوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، جنھیں توجہ کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی، جتنا باقی بچوں کو اور ان کے سامنے کمزور طلبا کو بار بار تنقید کا نشانہ بناتے اور ان کی کمزوری کا احساس دلاتے ہیں، جس کی وجہ سے تعلیم میں کمزور طالب علم میں بغاوت و حسد پیدا ہوتا ہے جو بعد میں کسی جرم کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ اساتذہ پر آیندہ آنے والی نسل جن پر ہماری تعمیر و ترقی کا بار پڑنے والا ہے، کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما کی عظیم ذمے داری ہے۔ اساتذہ کو اپنی ان ذمے داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ مان لیتے ہیں کہ فی زمانہ پیسے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن کسی استاد کا علم کی ترویج کی بجائے صرف پیسہ کمانا کسی المیے سے کم نہیں۔ استاد کو اپنا گم شدہ مقام دوبارہ سے حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات۔
بچوں کی تربیت میں جہاں والدین کا کردار بنیادی نوعیت کا ہے، وہیں اساتذہ کی ذمے داری بھی نہایت اہم ہے۔ اساتذہ کی شفقت و رہنمائی طالب علم کی زندگی بدل دیتی ہے۔ زمانہ قریب میں اساتذہ کسی بھی قسم کے ذاتی اور مالی مفاد سے بالاتر ہوکر ہر شاگرد پر خصوصی توجہ دیتے، انھیں صحیح و غلط کی پہچان کراتے، ان کے ذہنوں پر پڑی گرد جھاڑتے اور دل کی آنکھیں اور کان کھولنے میں مدد دیتے تھے۔ معاشرے میں جہاں اور چیزیں کمرشلائز ہوئیں وہیں ہم نے تعلیم جیسے مقدس پیشے کو بھی تجارتی اور وہ بھی انتہائی منافع بخش بنتے دیکھا۔ سماج کی بدلتی قدروں اور نفسانفسی کی وجہ سے معلم کی توجہ تدریس و تعلیم سے زیادہ کمانے کی طرف ہوتی چلی گئی۔ تعلیم اب مشن نہیں کاروبار ہے، ایسا کاروبار جس میں نقصان کا ذرہ بھر امکان نہیں ہے۔ اب اساتذہ تعلیم کو ایک مقدس فرض نہیں بے تحاشا پیسا کمانے کا آسان نسخہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ادب و احترام میں بھی کمی آئی ہے۔ اب استاد کو لوگ بکائو مال سمجھتے ہیں۔ زمانہ قریب میں سب استاد کی عزت ماں باپ سے زیادہ کرتے تھے، لیکن جیسے جیسے تعلیم تجارتی ہوتی گئی استاد اپنے مقام و مرتبے سے گرتے چلے گئے اور یہ بہت ہی اندوہ ناک صورت حال ہے۔
معلم کا فرض صرف تعلیمی امور میں بچوں کی رہنمائی نہیں ہوتا بلکہ ان کی روحانی، اخلاقی و دینی تربیت کی ذمے داری بھی ان پر عاید ہوتی ہے۔ استاد کا کردار کسی بھی طالب علم کے لیے بڑا آئیڈیل ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ استاد طالب علموں کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے احتیاط نہیں کرتے، اپنے غصے پر قابو نہیں رکھتے اور وہ کچھ کہہ جاتے ہیں یا ایسے القابات و الفاظ سے پکارتے ہیں جن سے بچوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ جن سے نا صرف اساتذہ کے ادب و احترام میں کمی آتی ہے بلکہ طالب علموں کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔ اساتذہ کی کوئی ایسی بات جو سامنے کچھ کہا ہو کسی دوسرے استاد کے سامنے کچھ اور، اس سے طالب علم کی نظروں میں استاد کا مقام گر جاتا ہے اورطالب علم اپنے استاد کو جھوٹا و بددیانت سمجھنے لگتا اور بدظن ہوجاتا ہے۔ جھوٹ گناہوں کا پیش خیمہ ہے۔ جس طرح زندہ رہنے کے لیے آکسیجن ضروری ہے اسی طرح استاد کو اپنا ادب و احترام برقرار رکھنے کے لیے سچا ہونا لازمی ہے، سچائی کے بغیر استاد ایک لمحہ بھی اپنا مقام قائم نہیں رکھ سکتا۔ کسی دانا کا قول ہے کہ ''یقیناً علم کی محتاجی کا علاج سوال کرنے میں ہے'' لیکن ہمارے سماج میںاکثر دیکھا گیا ہے کہ طالب علم کے بار بار سوال کرنے پر آج کل کے اساتذہ جھلا جاتے، اور انھیں سخت سست کہتے ہیں۔ جب کہ پہلے کے اساتذہ بار بار سوال کرنے پر خوش ہوتے اور مزید دل جمعی سے سمجھاتے تھے۔ اس لیے اساتذہ کا فرض ہے کہ اگر طالب علم کو کوئی بات، سوال سمجھ نہیں آرہا ہو تو اس وقت تک سمجھائیں جب تک طالب علم اچھی طرح ذہن نشیں نہ کرلے یا مطمئن نہ ہوجائے۔
اساتذہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ موجودہ حالات میں جب کہ ذہنی الجھنیں بچوں میں بھی بہت بڑھ رہی ہیں ان کی صحیح رہنمائی و تربیت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ان کے ذہن میں پڑی گرہوں کو کھولنا، ان کی ذہنی استعداد کو بڑھانا، اساتذہ کا فرض ہے۔ طالب علم کو اچھا، بہترین، محب وطن اور فرض شناس شہری اور درد مند انسان بنانا، اساتذہ کا اولین فرض و ذمے داری ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عمومی طور پر اور اساتذہ خصوصی طور پر اس طرف توجہ دیں اور طالب علم کی صحیح رہنمائی و تربیت کا فریضہ انجام دیں تاکہ ایک اچھے اور مثالی معاشرے کے قیام کی کوئی صورت بن سکے۔
ذہین بچے کا کلاس میں اول آنا یا اسے پسند کرنا کوئی کمال کی بات نہیں۔ کمال تو جب ہے جب کوئی ایسا طالب علم جو ذہنی لحاظ سے کلاس کے باقی تمام بچوں سے کم ہو یا اپنی صلاحیتیں صحیح پہچان نہیں پا رہا ہو، اسے آگے بڑھنے اور اس کی کامیابی کے حصول میں مدد فراہم کی جائے۔ اس کے برعکس آج کل کے اساتذہ ایسے بچوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، جنھیں توجہ کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی، جتنا باقی بچوں کو اور ان کے سامنے کمزور طلبا کو بار بار تنقید کا نشانہ بناتے اور ان کی کمزوری کا احساس دلاتے ہیں، جس کی وجہ سے تعلیم میں کمزور طالب علم میں بغاوت و حسد پیدا ہوتا ہے جو بعد میں کسی جرم کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ اساتذہ پر آیندہ آنے والی نسل جن پر ہماری تعمیر و ترقی کا بار پڑنے والا ہے، کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما کی عظیم ذمے داری ہے۔ اساتذہ کو اپنی ان ذمے داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ مان لیتے ہیں کہ فی زمانہ پیسے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن کسی استاد کا علم کی ترویج کی بجائے صرف پیسہ کمانا کسی المیے سے کم نہیں۔ استاد کو اپنا گم شدہ مقام دوبارہ سے حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات۔