ایک نیام میں 2 تلواریں کیسے رہتیں
وسیم کو یہ سمجھنا ہوگا، سب سے پہلے وہ آستینیں جھاڑیں اور دیکھ بھال کر لوگوں پر اعتماد کریں۔
زیادہ پرانی بات نہیں اس وقت احسان مانی سے میرے اچھے تعلقات تھے، ایک دن دبئی میں کافی پیتے ہوئے ہوٹل میں ان سے سوال کیا کہ وسیم خان کے آنے سے اب پی سی بی میں سبحان احمد کا مستقبل کیا ہوگا، اس پر چیئرمین نے سی او او کی ایمانداری اور کمٹمنٹ کے گن گاتے ہوئے انھیں بورڈ کا اثاثہ قرار دیا، ساتھ ہی اپنے آئی سی سی میں دور کے 2 واقعات سنائے جب انھوں نے سبحان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا تھا، ہر بڑا آدمی (پوزیشن کے حساب سے)کانوں کا کچا ہوتا ہے احسان مانی بھی ویسے ہی نکلے۔
ڈائریکٹر میڈیا نے میرے خلاف ان کے اتنے کان بھرے کہ وہ اپنا مخالف سمجھنے لگے، نجم سیٹھی کو بھی ایسا ہی لگتا تھا، پاکستان میں مسئلہ یہی ہے کہ آپ اپنی رپورٹس کے ذریعے حقائق سامنے لائیں تو لوگ ناراض ہو جاتے ہیں، میں بعض ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو ہر صاحب اقتدار کی تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کیے رہتے ہیں، پھر جب ان کا جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے ٹائر لے کر سمندر میں کود کر دوسرے جہاز پر سوار ہو جاتے ہیں، پھر ڈوبتے جہاز کی جانب دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہیں، اقتدار کے نشے میں چور حکام کو ایسے ہی لوگ پسند بھی ہوتے ہیں،خیر بات سبحان کی ہو رہی تھی۔
ان کے بارے میں دبئی میں ہی انٹرویو کے دوران وسیم خان نے بھی یہی کہا تھا کہ ''وہ بورڈ کے اہم آفیسر ہیں، دونوں میں اختیارات کے حوالے سے کوئی تناؤ نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ'' مگر ایسا ہوگیا اور سبحان کو گھر جانا پڑا، سی او او برسوں سے پی سی بی میں سیاہ و سفید کے مالک تھے، ان کی دستخط سے ہی ہر چھوٹا بڑا کام ہوتا تھا، کئی چیئرمین آئے اور گئے مگر سبحان کو کوئی نہ ہلا سکا، نجم سیٹھی کو بھی نہ چاہتے ہوئے انھیں برداشت کرنا پڑا، جب ان کی فائلز پر اعتراضات زیادہ ہی سامنے آنے لگے تو انھوں نے سی او او کے اختیارات محدود کر دیے خصوصاً پی ایس ایل سے انھیں دور ہی رکھا، پھر اچانک سبحان کے خلاف ایف آئی اے کی تحقیقات شروع ہونے لگیں۔
مجھے ایک صاحب نے بتایا تھا کہ وہاں سی او او کو صبح بلایا جاتا اور شام تک انتظار کے بعد سابقہ دور میں ہونے والے بعض فیصلوں پر سوالات کر کے گھر بھیج دیا جاتا، ایسا کس نے کیا تھا یہ کوئی راز نہیں، اس مسئلے سے تو سبحان باہر نکل آئے مگر احسان مانی کے آنے سے ان کی نئی مشکلات کا آغاز ہوگیا، ایم ڈی کے تقرر سے ہی یہ اندازہ ہوگیا کہ سبحان کا بورڈ میں ٹائم مکمل ہونے والا ہے، آئی سی سی و دیگر بورڈز کے ساتھ وہی ڈیل کرتے تھے، مگر یہ کام وسیم خان کو سونپ دیا گیا، اس کے علاوہ بھی بیشتر اختیارات بعد میں سی ای او بننے والے وسیم کوہی حاصل ہو گئے،شاید ایسا کسی پلاننگ کے تحت ہی ہو رہا تھا، پی سی بی میں کئی ایسے آفیشلز ہیں جو بغیر کام کیے تنخواہیں بٹورتے رہتے ہیں، سب سے بڑی مثال ذاکر خان ہیں۔
نجم سیٹھی نے انھیں سائیڈ لائن کیا، وہ روز دفتر میں حاضری لگاتے، اکیڈمی میں ایکسرسائز کرتے کھانا کھاتے اور گھر چلے جاتے، کئی برس تک ہر ماہ لاکھوں روپے تنخواہ کے ساتھ دیگر مراعات بھی انھیں حاصل رہیں، کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ انھیں ہلا سکتا، سب جانتے تھے کہ وہ عمران خان کے قریبی دوست ہیں، پھر جب سابق کپتان وزیر اعظم بنے تو ذاکر کے وارے نیارے ہو گئے، اب تو بورڈ کے ایوانوں میں ان کا راج ہے،سبحان اس معاملے میں کمزور تھے، انھوں نے دوست نہیں بنائے، پی سی بی میں انھیں سپورٹ کرنے والا کوئی موجود نہیں، میڈیا سے بھی روابط نہیں رکھے، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کسی صحافی کی کال ریسیو نہیں کرتے۔
اس تنہائی پسندی کا انھیں نقصان ہی ہوا اورمشکل وقت میں ساتھ دینے کیلیے کوئی ساتھ کھڑا نہیں ہوا، پی سی بی میں زیادہ پسند نہ کیے جانے کی مثال یہ ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے مسلسل سبحان کے بارے میں میڈیا میں منفی خبریں آتی رہیں مگر کبھی بورڈ نے ان کا دفاع نہیں کیا،آپ وسیم خان کے بارے میں ایک لائن لکھ دیں پورا میڈیا ڈپارٹمنٹ ہل جاتا ہے، ماضی میں نجم سیٹھی کے حوالے سے ایسا ہوتا تھا، مگر سبحان کے معاملے میں ایسا نہ تھا،ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں وسیم کو مانی چونکہ خود لے کر آئے لہذا انھیں نکال نہیں سکتے تھے اس لیے سبحان کا جانا یقینی تھا۔
اب سی ای او پی سی بی میں طاقت کا سرچشمہ ہیں، وہ اپنی مرضی کا کوئی سی او او لا کر بٹھا دیں گے جو ہاں میں ہاں ملاتے رہے گا، البتہ وسیم خان کو اندازہ نہیں کہ وہ کانٹوں کی سیج پر بیٹھے ہیں، کشتیاں جلا کر پی سی بی میں آنے والے ایک غیرمحفوظ آفیسر ان کا استعمال کرتے ہوئے پاکستانی کلچر سے ان کی عدم واقفیت کا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں، افسوسناک طور پر وہ بھی ان پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے ہر بات مان لیتے ہیں، پاکستان کرکٹ جس تباہی کی جانب جا رہی ہے اس سے بورڈ پردباؤ بڑھنے لگا، ڈومیسٹک کرکٹ کا تیاپانچہ کر دیا گیا، بے روزگاری سے پریشان کرکٹرز ٹیکسیاں چلانے پر مجبور ہیں۔
بعض کوچز اورکیوریٹرز وغیرہ جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے، پی ایس ایل میں سنگین نوعیت کے مسائل ہیں، فرنچائزز بورڈ سے خوش نہیں، قومی کرکٹ ٹیم کا حال سب کے سامنے ہے، یہ سب کچھ انھیں لے ڈوبے گا، عملاً اب بھی احسان مانی ہر فیصلے میں شریک ہیں مگر ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ ایسا وسیم خان نے کیا، جب پانی سر سے اونچا ہونے لگے گا تو ایک دن سارا ملبہ سی ای او پر ہی گرا کر دامن جھاڑ لیا جائے گا کہ برطانیہ سے آئے ہوئے آفیشل کو پاکستان کرکٹ کے معاملات کا اندازہ نہیں تھا اس لیے سنبھال نہیں پائے۔
وسیم کو یہ سمجھنا ہوگا، سب سے پہلے وہ آستینیں جھاڑیں اور دیکھ بھال کر لوگوں پر اعتماد کریں، یہ دیکھیں کہ کہیں کوئی اپنے مقاصد کیلیے ان کا استعمال تو نہیں کر رہا، پھر مکمل اتھارٹی سے اپنے فیصلے کریں، اب سبحان احمد بورڈ میں نہیں رہے، وسیم خان کو بغیر کسی مخالفت کے اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں تب ہی کوئی بہتری آ سکے گی۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر @saleemkhaliq پر مجھے فالو کر سکتے ہیں)
ڈائریکٹر میڈیا نے میرے خلاف ان کے اتنے کان بھرے کہ وہ اپنا مخالف سمجھنے لگے، نجم سیٹھی کو بھی ایسا ہی لگتا تھا، پاکستان میں مسئلہ یہی ہے کہ آپ اپنی رپورٹس کے ذریعے حقائق سامنے لائیں تو لوگ ناراض ہو جاتے ہیں، میں بعض ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو ہر صاحب اقتدار کی تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کیے رہتے ہیں، پھر جب ان کا جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے ٹائر لے کر سمندر میں کود کر دوسرے جہاز پر سوار ہو جاتے ہیں، پھر ڈوبتے جہاز کی جانب دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہیں، اقتدار کے نشے میں چور حکام کو ایسے ہی لوگ پسند بھی ہوتے ہیں،خیر بات سبحان کی ہو رہی تھی۔
ان کے بارے میں دبئی میں ہی انٹرویو کے دوران وسیم خان نے بھی یہی کہا تھا کہ ''وہ بورڈ کے اہم آفیسر ہیں، دونوں میں اختیارات کے حوالے سے کوئی تناؤ نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ'' مگر ایسا ہوگیا اور سبحان کو گھر جانا پڑا، سی او او برسوں سے پی سی بی میں سیاہ و سفید کے مالک تھے، ان کی دستخط سے ہی ہر چھوٹا بڑا کام ہوتا تھا، کئی چیئرمین آئے اور گئے مگر سبحان کو کوئی نہ ہلا سکا، نجم سیٹھی کو بھی نہ چاہتے ہوئے انھیں برداشت کرنا پڑا، جب ان کی فائلز پر اعتراضات زیادہ ہی سامنے آنے لگے تو انھوں نے سی او او کے اختیارات محدود کر دیے خصوصاً پی ایس ایل سے انھیں دور ہی رکھا، پھر اچانک سبحان کے خلاف ایف آئی اے کی تحقیقات شروع ہونے لگیں۔
مجھے ایک صاحب نے بتایا تھا کہ وہاں سی او او کو صبح بلایا جاتا اور شام تک انتظار کے بعد سابقہ دور میں ہونے والے بعض فیصلوں پر سوالات کر کے گھر بھیج دیا جاتا، ایسا کس نے کیا تھا یہ کوئی راز نہیں، اس مسئلے سے تو سبحان باہر نکل آئے مگر احسان مانی کے آنے سے ان کی نئی مشکلات کا آغاز ہوگیا، ایم ڈی کے تقرر سے ہی یہ اندازہ ہوگیا کہ سبحان کا بورڈ میں ٹائم مکمل ہونے والا ہے، آئی سی سی و دیگر بورڈز کے ساتھ وہی ڈیل کرتے تھے، مگر یہ کام وسیم خان کو سونپ دیا گیا، اس کے علاوہ بھی بیشتر اختیارات بعد میں سی ای او بننے والے وسیم کوہی حاصل ہو گئے،شاید ایسا کسی پلاننگ کے تحت ہی ہو رہا تھا، پی سی بی میں کئی ایسے آفیشلز ہیں جو بغیر کام کیے تنخواہیں بٹورتے رہتے ہیں، سب سے بڑی مثال ذاکر خان ہیں۔
نجم سیٹھی نے انھیں سائیڈ لائن کیا، وہ روز دفتر میں حاضری لگاتے، اکیڈمی میں ایکسرسائز کرتے کھانا کھاتے اور گھر چلے جاتے، کئی برس تک ہر ماہ لاکھوں روپے تنخواہ کے ساتھ دیگر مراعات بھی انھیں حاصل رہیں، کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ انھیں ہلا سکتا، سب جانتے تھے کہ وہ عمران خان کے قریبی دوست ہیں، پھر جب سابق کپتان وزیر اعظم بنے تو ذاکر کے وارے نیارے ہو گئے، اب تو بورڈ کے ایوانوں میں ان کا راج ہے،سبحان اس معاملے میں کمزور تھے، انھوں نے دوست نہیں بنائے، پی سی بی میں انھیں سپورٹ کرنے والا کوئی موجود نہیں، میڈیا سے بھی روابط نہیں رکھے، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کسی صحافی کی کال ریسیو نہیں کرتے۔
اس تنہائی پسندی کا انھیں نقصان ہی ہوا اورمشکل وقت میں ساتھ دینے کیلیے کوئی ساتھ کھڑا نہیں ہوا، پی سی بی میں زیادہ پسند نہ کیے جانے کی مثال یہ ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے مسلسل سبحان کے بارے میں میڈیا میں منفی خبریں آتی رہیں مگر کبھی بورڈ نے ان کا دفاع نہیں کیا،آپ وسیم خان کے بارے میں ایک لائن لکھ دیں پورا میڈیا ڈپارٹمنٹ ہل جاتا ہے، ماضی میں نجم سیٹھی کے حوالے سے ایسا ہوتا تھا، مگر سبحان کے معاملے میں ایسا نہ تھا،ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں وسیم کو مانی چونکہ خود لے کر آئے لہذا انھیں نکال نہیں سکتے تھے اس لیے سبحان کا جانا یقینی تھا۔
اب سی ای او پی سی بی میں طاقت کا سرچشمہ ہیں، وہ اپنی مرضی کا کوئی سی او او لا کر بٹھا دیں گے جو ہاں میں ہاں ملاتے رہے گا، البتہ وسیم خان کو اندازہ نہیں کہ وہ کانٹوں کی سیج پر بیٹھے ہیں، کشتیاں جلا کر پی سی بی میں آنے والے ایک غیرمحفوظ آفیسر ان کا استعمال کرتے ہوئے پاکستانی کلچر سے ان کی عدم واقفیت کا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں، افسوسناک طور پر وہ بھی ان پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے ہر بات مان لیتے ہیں، پاکستان کرکٹ جس تباہی کی جانب جا رہی ہے اس سے بورڈ پردباؤ بڑھنے لگا، ڈومیسٹک کرکٹ کا تیاپانچہ کر دیا گیا، بے روزگاری سے پریشان کرکٹرز ٹیکسیاں چلانے پر مجبور ہیں۔
بعض کوچز اورکیوریٹرز وغیرہ جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے، پی ایس ایل میں سنگین نوعیت کے مسائل ہیں، فرنچائزز بورڈ سے خوش نہیں، قومی کرکٹ ٹیم کا حال سب کے سامنے ہے، یہ سب کچھ انھیں لے ڈوبے گا، عملاً اب بھی احسان مانی ہر فیصلے میں شریک ہیں مگر ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ ایسا وسیم خان نے کیا، جب پانی سر سے اونچا ہونے لگے گا تو ایک دن سارا ملبہ سی ای او پر ہی گرا کر دامن جھاڑ لیا جائے گا کہ برطانیہ سے آئے ہوئے آفیشل کو پاکستان کرکٹ کے معاملات کا اندازہ نہیں تھا اس لیے سنبھال نہیں پائے۔
وسیم کو یہ سمجھنا ہوگا، سب سے پہلے وہ آستینیں جھاڑیں اور دیکھ بھال کر لوگوں پر اعتماد کریں، یہ دیکھیں کہ کہیں کوئی اپنے مقاصد کیلیے ان کا استعمال تو نہیں کر رہا، پھر مکمل اتھارٹی سے اپنے فیصلے کریں، اب سبحان احمد بورڈ میں نہیں رہے، وسیم خان کو بغیر کسی مخالفت کے اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں تب ہی کوئی بہتری آ سکے گی۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر @saleemkhaliq پر مجھے فالو کر سکتے ہیں)