استعمال شدہ گرم کپڑے مہنگے ہونے سے غریب پریشان
پرانے درآمدی ملبوسات، کمبل، سویٹرز،جیکٹس کی قیمتیں دگنی ہوگئیں
مو سم سرما کی آمد اور سردی بڑھنے کی پیش گوئیوں کے بعد شہریوں نے موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے گرم ملبوسات کی خریداری شروع کردی ہے۔
مہنگائی کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقہ استعمال شدہ گرم کپڑوں سویٹر، جیکٹس اوررضائیاں خریدتا ہے، روپے کی قدر میں کمی اور استعمال شدہ گرم ملبوسات پر ڈیوٹی و ٹیکسز بڑھنے سے استعمال شدہ گرم کپڑے بھی مہنگے ہوگئے ہیں، گرم کپڑوں کی خریداری کے لیے شہر میں جگہ جگہ لگے لنڈا بازاروں کا رخ کرنے والوں کو قیمت پوچھنے پر حیرت کا جھٹکا لگ رہا ہے ، گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال لنڈا بازاروں کا رخ کرنیوالے غریب اور متوسط طبقے کو مایوسی کا سامنا ہے استعمال شدہ پرانے درآمدی ملبوسات، کمبل، سویٹرز، جیکٹس کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں۔
مہنگائی کی وجہ سے غریب طبقے کے ساتھ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے و الے افراد بھی پرانے ملبوسات کی خریداری کو ترجیح دے رہے ہیں، چیئرمین آل سٹی تاجر الائنس حکیم شاہ نے ٹیکس اور ڈیوٹی کی بلند شرح کو استعمال شدہ گرم کپڑوں کی قیمتوں میں اضافہ کی بنیادی وجہ قرار دیا انھوں نے بتایا کہ حکومت نے غریب طبقے کی ضرورت استعمال شدہ اشیا کو لگژری آئٹمز کی فہرست میں شامل کردیا ہے اور اس پر 10فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی ہے اس کے ساتھ ہی ویلیو ایشن اور امپورٹ ڈیوٹی میں بھی اضافہ کردیا ہے محصولات کی بھرمار کی وجہ سے استعمال شدہ آئٹمز کی قیمت 30سے 35فیصد تک بڑھ گئی ہے۔
جس کے اثرات اس سیزن میں زیادہ سامنے آرہے ہیں انھوں نے بتایا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں ایک کنٹینر پر ڈیوٹی ٹیکسز کی مالیت ڈیڑھ لاکھ روپے تھی جو اب بڑھ کر ساڑھے 3 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے امپورٹ مہنگی ہونے کی وجہ سے ماہانہ بنیاد پر درآمد ہونے والے3000کنٹینرز کی تعداد کم ہوکر 800 سے 1000تک محدود ہوگئی ہے اس طرح امپورٹ میں35 فیصد تک کمی کا سامنا ہے ادھر ملک بھر میں عمومی مہنگائی بڑھنے سے عوام کی قوت خرید میں بھی کمی آئی ہے ایسے میں استعمال شدہ گرم ملبوسات بھی خریدنا دشوار ہورہا ہے، حکیم شاہ کے مطابق پہلے تمام استعمال شدہ آئٹم پر ایک ہی ڈیوٹی کی شرح عائد ہوتی تھی لیکن اب ایف بی آر نے فٹ ویئرز، کپڑوں، بیگز اور لیدر مصنوعات کے لیے الگ الگ کٹیگریز مقرر کردی ہیں جن سے الگ الگ ڈیوٹی وصول کی جارہی ہے۔
مہنگائی:درآمد کنندگان تیسرے درجے کا مال منگوانے لگے
استعمال شدہ اشیا مہنگے ہونے کی وجہ سے درآمد کنندگان تیسرے درجہ ( سی کٹیگری) کا مال امپورٹ کرنے پر مجبور ہیں جن کا معیار زیادہ خراب ہوتا ہے درآمد کنندگان اور استعمال شدہ گرم ملبوسات فروخت کرنے والوں کے مطابق سی کٹیگری کا مال امپورٹ کرنے میں نقصان زیادہ ہے کیونکہ لاٹ میں سے زیادہ تر مال ناقابل استعمال نکلتا ہے جس سے باقی رہ جانے والے قابل فروخت مال کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور گاہک کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سی کٹیگری کے مال کی وجہ سے پاکستان سے استعمال شدہ اشیا کی پڑوسی ملک افغانستان کیلیے خریداری بھی ختم ہوگئی ہے اس سے قبل افغانی تاجر پاکستان سے اچھے معیار کی استعمال شدہ اشیا خرید کر افغانستان بھجواتے تھے لیکن ڈیوٹی ٹیکس زیادہ ہونے اور ریٹ بڑھنے کے بعد اب افغان تاجر استعمال شدہ اشیا کی لاٹیں براہ راست افغان ٹرانزٹ سے درآمد کررہے ہیں جس سے کاروبار بھی متاثر ہورہا ہے۔
استعمال شدہ کپڑوںاوراشیاکی آمدبرصغیر میں برطانیہ سے شروع ہوئی
استعمال شدہ اشیا کے استعمال کا آ غاز کپڑوں سے ہوا جن کی آمد برصغیر میں برطانیہ سے شروع ہوئی، ہر برس برطانیہ کے طول و عرض میں ہزاروں لوگ اپنے استعمال شدہ کپڑے خیرات میں دے دیتے ہیں اور اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ یہ کپڑے ان لوگوں کو دیے جائیں گے جنھیں ان کی ضرورت ہے یا ان کپڑوں کو برطانیہ کے بازاروں میں خیراتی اداروں کی دکانوں میں فروخت کر کے ان اداروں کے لیے رقم اکٹھی کی جائیگی لیکن ان پرانے کپڑوں کی ایک بہت بڑی تعداد دراصل سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کے کاروبار کا حصہ بن جاتی ہے اور خیرات میں دیے ہوئے کپڑے اربوں کی ایک ایسی تجارت میں استعمال کیے جاتے ہیں جس کا دائرہ کئی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔
پاکستان استعمال شدہ کپڑے درآمدکرنیوالا سب سے بڑا ملک بن گیا
امریکا دنیا میں سب سے زیادہ استعمال شدہ کپڑے ایکسپورٹ کرنیوالا جبکہ پاکستان استعمال شدہ کپڑے درآمد کرنیو الا سب سے بڑا ملک ہے، 2017 میں پاکستان نے24کروڑ ڈالر کے استعمال شدہ کپڑے درآمد کیے، پاکستان میں سب سے زیادہ لنڈا مال امریکا اور برطانیہ سے درآمد ہوتا ہے جبکہ ہالینڈ، جرمنی، بیلجیم، جاپان، کوریا، چین سے بھی پرانے ملبوسات کی درآمدات ہو رہی ہے کراچی پورٹ پر اس کو وصول کیا جاتا ہے اور پھر وہ اسے پورے ملک میں اس کی تقسیم کی جاتی ہے جبکہ کوالٹی کے حساب سے چیزوں کو الگ الگ کرکے ہر ایک کی الگ الگ قیمت بھی لگائی جاتی ہے۔
لائٹ ہاؤس ، 50فیصد دکانیں ختم ہونے پر لنڈا بازارشہرمیں پھیل گئے
لائٹ ہاؤس کراچی میں استعمال شدہ اشیا کا سب سے بڑا بازار سمجھا جاتا تھا تاہم تجاوازات کے خاتمے کی مہم کے دوران بازار کی 50 فیصد دکانیں مسمار کردی گئیں یہ دکانیں گزشتہ سیزن کے عین عروج پر نومبر کے مہینے میں مسمار کی گئی تھیں جن کا متبادل تاحال فراہم نہیں کیا گیا دکانداروں نے اس سال سیزن کے آغاز پر انہی مسمار شدہ دکانوں کے ملبے پر اسٹال لگائے تاہم انتظامیہ نے وہ اسٹال بھی ختم کردیے، لائٹ ہاؤس کی مرکزی حیثیت ختم ہونے کے بعد لنڈا کے بازار شہر بھر میں پھیل گئے ہیں جس سے اگرچہ خریداروں کو آسانی ہوئی لیکن ٹریفک کی روانی میں خلل پڑ رہا ہے شہری انتظامیہ اور پولیس نے ٹریفک کی روانی میں پڑنے والے خلل کو ختم کرنے کیلیے سڑکوں پر لگے پتھاروں اور اسٹالوں کو بھی ہٹادیا ہے جس سے شہر بھر میں استعمال شدہ گرم ملبوسات،فٹ ویئرز اور جیکٹوں کے ٹھیلوں کی تعداد میں کمی آگئی ہے۔
استعمال شدہ اشیا کا ایک اہم ذریعہ ہفتہ وار بچت بازار تھے جہاں بڑی تعداد میں استعمال شدہ اشیا کے اسٹال لگائے جاتے تھے تاہم بیشتر علاقوںمیں لگنے والے بچت بازار بھی ختم کردیے گئے ہیں جس سے خریداروں اوراشیا فروخت کرنے والوں کو مشکلات کا سامناہے، استعمال شدہ گرم ملبوسات فروخت کرنے والوں نے لوڈنگ گاڑیوں اور سوزوکی پک اپ میں عارضی دکانیں لگانا شروع کردی ہیں تاکہ انتظامیہ کی جانب سے کارروائی کی صورت میں سوزکیوں کو فوری متحرک کیا جاسکے یہ چلتی پھرتی دکانیں شہر کی مصروف سڑکوں اور چوراہوں پر شام سے رات تک کھڑی کی جاتی ہیں جس میں زیادہ تر گرم جیکیٹں فروخت کی جارہی ہیں۔
مہنگائی کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقہ استعمال شدہ گرم کپڑوں سویٹر، جیکٹس اوررضائیاں خریدتا ہے، روپے کی قدر میں کمی اور استعمال شدہ گرم ملبوسات پر ڈیوٹی و ٹیکسز بڑھنے سے استعمال شدہ گرم کپڑے بھی مہنگے ہوگئے ہیں، گرم کپڑوں کی خریداری کے لیے شہر میں جگہ جگہ لگے لنڈا بازاروں کا رخ کرنے والوں کو قیمت پوچھنے پر حیرت کا جھٹکا لگ رہا ہے ، گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال لنڈا بازاروں کا رخ کرنیوالے غریب اور متوسط طبقے کو مایوسی کا سامنا ہے استعمال شدہ پرانے درآمدی ملبوسات، کمبل، سویٹرز، جیکٹس کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں۔
مہنگائی کی وجہ سے غریب طبقے کے ساتھ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے و الے افراد بھی پرانے ملبوسات کی خریداری کو ترجیح دے رہے ہیں، چیئرمین آل سٹی تاجر الائنس حکیم شاہ نے ٹیکس اور ڈیوٹی کی بلند شرح کو استعمال شدہ گرم کپڑوں کی قیمتوں میں اضافہ کی بنیادی وجہ قرار دیا انھوں نے بتایا کہ حکومت نے غریب طبقے کی ضرورت استعمال شدہ اشیا کو لگژری آئٹمز کی فہرست میں شامل کردیا ہے اور اس پر 10فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی ہے اس کے ساتھ ہی ویلیو ایشن اور امپورٹ ڈیوٹی میں بھی اضافہ کردیا ہے محصولات کی بھرمار کی وجہ سے استعمال شدہ آئٹمز کی قیمت 30سے 35فیصد تک بڑھ گئی ہے۔
جس کے اثرات اس سیزن میں زیادہ سامنے آرہے ہیں انھوں نے بتایا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں ایک کنٹینر پر ڈیوٹی ٹیکسز کی مالیت ڈیڑھ لاکھ روپے تھی جو اب بڑھ کر ساڑھے 3 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے امپورٹ مہنگی ہونے کی وجہ سے ماہانہ بنیاد پر درآمد ہونے والے3000کنٹینرز کی تعداد کم ہوکر 800 سے 1000تک محدود ہوگئی ہے اس طرح امپورٹ میں35 فیصد تک کمی کا سامنا ہے ادھر ملک بھر میں عمومی مہنگائی بڑھنے سے عوام کی قوت خرید میں بھی کمی آئی ہے ایسے میں استعمال شدہ گرم ملبوسات بھی خریدنا دشوار ہورہا ہے، حکیم شاہ کے مطابق پہلے تمام استعمال شدہ آئٹم پر ایک ہی ڈیوٹی کی شرح عائد ہوتی تھی لیکن اب ایف بی آر نے فٹ ویئرز، کپڑوں، بیگز اور لیدر مصنوعات کے لیے الگ الگ کٹیگریز مقرر کردی ہیں جن سے الگ الگ ڈیوٹی وصول کی جارہی ہے۔
مہنگائی:درآمد کنندگان تیسرے درجے کا مال منگوانے لگے
استعمال شدہ اشیا مہنگے ہونے کی وجہ سے درآمد کنندگان تیسرے درجہ ( سی کٹیگری) کا مال امپورٹ کرنے پر مجبور ہیں جن کا معیار زیادہ خراب ہوتا ہے درآمد کنندگان اور استعمال شدہ گرم ملبوسات فروخت کرنے والوں کے مطابق سی کٹیگری کا مال امپورٹ کرنے میں نقصان زیادہ ہے کیونکہ لاٹ میں سے زیادہ تر مال ناقابل استعمال نکلتا ہے جس سے باقی رہ جانے والے قابل فروخت مال کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور گاہک کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سی کٹیگری کے مال کی وجہ سے پاکستان سے استعمال شدہ اشیا کی پڑوسی ملک افغانستان کیلیے خریداری بھی ختم ہوگئی ہے اس سے قبل افغانی تاجر پاکستان سے اچھے معیار کی استعمال شدہ اشیا خرید کر افغانستان بھجواتے تھے لیکن ڈیوٹی ٹیکس زیادہ ہونے اور ریٹ بڑھنے کے بعد اب افغان تاجر استعمال شدہ اشیا کی لاٹیں براہ راست افغان ٹرانزٹ سے درآمد کررہے ہیں جس سے کاروبار بھی متاثر ہورہا ہے۔
استعمال شدہ کپڑوںاوراشیاکی آمدبرصغیر میں برطانیہ سے شروع ہوئی
استعمال شدہ اشیا کے استعمال کا آ غاز کپڑوں سے ہوا جن کی آمد برصغیر میں برطانیہ سے شروع ہوئی، ہر برس برطانیہ کے طول و عرض میں ہزاروں لوگ اپنے استعمال شدہ کپڑے خیرات میں دے دیتے ہیں اور اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ یہ کپڑے ان لوگوں کو دیے جائیں گے جنھیں ان کی ضرورت ہے یا ان کپڑوں کو برطانیہ کے بازاروں میں خیراتی اداروں کی دکانوں میں فروخت کر کے ان اداروں کے لیے رقم اکٹھی کی جائیگی لیکن ان پرانے کپڑوں کی ایک بہت بڑی تعداد دراصل سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کے کاروبار کا حصہ بن جاتی ہے اور خیرات میں دیے ہوئے کپڑے اربوں کی ایک ایسی تجارت میں استعمال کیے جاتے ہیں جس کا دائرہ کئی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔
پاکستان استعمال شدہ کپڑے درآمدکرنیوالا سب سے بڑا ملک بن گیا
امریکا دنیا میں سب سے زیادہ استعمال شدہ کپڑے ایکسپورٹ کرنیوالا جبکہ پاکستان استعمال شدہ کپڑے درآمد کرنیو الا سب سے بڑا ملک ہے، 2017 میں پاکستان نے24کروڑ ڈالر کے استعمال شدہ کپڑے درآمد کیے، پاکستان میں سب سے زیادہ لنڈا مال امریکا اور برطانیہ سے درآمد ہوتا ہے جبکہ ہالینڈ، جرمنی، بیلجیم، جاپان، کوریا، چین سے بھی پرانے ملبوسات کی درآمدات ہو رہی ہے کراچی پورٹ پر اس کو وصول کیا جاتا ہے اور پھر وہ اسے پورے ملک میں اس کی تقسیم کی جاتی ہے جبکہ کوالٹی کے حساب سے چیزوں کو الگ الگ کرکے ہر ایک کی الگ الگ قیمت بھی لگائی جاتی ہے۔
لائٹ ہاؤس ، 50فیصد دکانیں ختم ہونے پر لنڈا بازارشہرمیں پھیل گئے
لائٹ ہاؤس کراچی میں استعمال شدہ اشیا کا سب سے بڑا بازار سمجھا جاتا تھا تاہم تجاوازات کے خاتمے کی مہم کے دوران بازار کی 50 فیصد دکانیں مسمار کردی گئیں یہ دکانیں گزشتہ سیزن کے عین عروج پر نومبر کے مہینے میں مسمار کی گئی تھیں جن کا متبادل تاحال فراہم نہیں کیا گیا دکانداروں نے اس سال سیزن کے آغاز پر انہی مسمار شدہ دکانوں کے ملبے پر اسٹال لگائے تاہم انتظامیہ نے وہ اسٹال بھی ختم کردیے، لائٹ ہاؤس کی مرکزی حیثیت ختم ہونے کے بعد لنڈا کے بازار شہر بھر میں پھیل گئے ہیں جس سے اگرچہ خریداروں کو آسانی ہوئی لیکن ٹریفک کی روانی میں خلل پڑ رہا ہے شہری انتظامیہ اور پولیس نے ٹریفک کی روانی میں پڑنے والے خلل کو ختم کرنے کیلیے سڑکوں پر لگے پتھاروں اور اسٹالوں کو بھی ہٹادیا ہے جس سے شہر بھر میں استعمال شدہ گرم ملبوسات،فٹ ویئرز اور جیکٹوں کے ٹھیلوں کی تعداد میں کمی آگئی ہے۔
استعمال شدہ اشیا کا ایک اہم ذریعہ ہفتہ وار بچت بازار تھے جہاں بڑی تعداد میں استعمال شدہ اشیا کے اسٹال لگائے جاتے تھے تاہم بیشتر علاقوںمیں لگنے والے بچت بازار بھی ختم کردیے گئے ہیں جس سے خریداروں اوراشیا فروخت کرنے والوں کو مشکلات کا سامناہے، استعمال شدہ گرم ملبوسات فروخت کرنے والوں نے لوڈنگ گاڑیوں اور سوزوکی پک اپ میں عارضی دکانیں لگانا شروع کردی ہیں تاکہ انتظامیہ کی جانب سے کارروائی کی صورت میں سوزکیوں کو فوری متحرک کیا جاسکے یہ چلتی پھرتی دکانیں شہر کی مصروف سڑکوں اور چوراہوں پر شام سے رات تک کھڑی کی جاتی ہیں جس میں زیادہ تر گرم جیکیٹں فروخت کی جارہی ہیں۔