بنجر زمینوں کےلیے بایو آرگینک مائع کھاد کا استعمال
سمندری جڑی بوٹیوں کی مدد سے تیار کی گئی بایو آرگینک مائع کھاد زمین میں کیچوے پیدا کرتی ہے
لاہور:
ہماری منزل پنجاب کا سرحدی علاقہ ظفروال تھی، جہاں ہم کاشت کی گئی چاول کی فصل دیکھنے جارہے تھے۔ پنجاب کی یہ سرحدی پٹی دنیا کا بہترین چاول پیدا کرتی ہے۔ یہاں کاشت کیے جانے والے چاول کی کئی اقسام، بالخصوص سپر باسمتی بیرون ملک ایکسپورٹ کی جاتی ہیں، جس سے پاکستان خاطرخواہ زرمبادلہ کماتا ہے۔
لاہور سے تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت طے کرکے ہم ظفروال کے نواحی علاقے میں پہنچ گئے۔ گاؤں کے شروع میں ہی ایک ڈیرے پر ہمارا استقبال کیا گیا۔ تعارفی نشست کے بعد میزبانوں نے خوشخبری سنائی کہ کھیتوں میں جانے سے پہلے کھانا کھالیا جائے، جو تیار ہوچکا ہے۔ دوپہر کے تقریباً دو بج چکے تھے اور سب ساتھیوں کو بھوک بھی محسوس ہورہی تھی، اس لیے سب سے پہلے کھانا کھایا گیا۔ میزبانوں نے کھانے کا بہترین انتظام کیا تھا۔
کھانے کے بعد ہم دوبارہ گاڑی میں بیٹھے۔ ہمارے ساتھ سید بابر علی بخاری بھی تھے، جن کی دعوت پر ہم یہاں آئے تھے اور دیکھنا چاہتے تھے کہ شاہ جی نے جو سمندری جڑی بوٹیوں سے بایو آرگینک مائع کھاد تیار کی ہے، اس کے استعمال کا کیا نتیجہ سامنے آیا ہے۔ چند منٹوں بعد ہم دھان کے کھیت میں پہنچ گئے، جہاں تیار فصل کو ہارویسٹر کے ذریعے کاٹا جارہا تھا۔ گاؤں کے بزرگوں، کسانوں اور کاشتکاروں کی بڑی تعداد بھی یہاں پہنچ چکی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے سب یہاں کوئی عجوبہ دیکھنے آئے ہیں۔ جب ہم کھیتوں میں پہنچ گئے تو سینہ تانے کھڑی دھان کی تیار فصل کی خوشبو نے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ بڑے عرصے بعد ایسی سوندھی سوندھی مہک محسوس کی تھی۔ یہ سپر باسمتی کی مہک تھی۔ باس مہک کو کہتے ہیں اور متی کا مطلب ہے مٹی، یعنی مٹی کی خوشبو۔ تنوں پر پھل کافی زیادہ تھا اور دانہ معمول کی فصل سے تھوڑا لمبا تھا۔ چھلکا اتار کر دیکھا تو چاول سفید کے بجائے سنہری رنگت لیے ہوئے تھا۔
بابر حسین بخاری نے بتایا کہ انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں سمیت ظفروال (نارووال) کے نواحی گاؤں میں 25 ایکڑ زمین پر چاول کی فصل کاشت کرکے کامیاب تجربہ کیا ہے۔ پنجاب کی مشرقی سرحد کے ساتھ دنیا کا بہترین چاول کاشت ہوتا ہے، تاہم یہاں کمزور زرعی رقبے پر تجرباتی طور پر سپر باسمتی کاشت کی گئی تھی اور یہاں بایو آرگینک مائع کھاد استعمال کی گئی ہے، جس کی وجہ سے چاول کی پیداوار اس علاقے میں معمول کی پیداوار سے 35 سے 40 فیصد زیادہ ہوئی ہے۔ سمندری جڑی بوٹیوں کی مدد سے تیار کی گئی بایو آرگینک مائع کھاد زمین میں کیچوے پیدا کرتی ہے، جو بنجر اور کمزور زمین کی مٹی کو بطور خوراک کھا کر ایسا مواد خارج کرتے ہیں جو زمین کی زرخیزی بڑھا دیتے ہیں۔ کیچوے زمین کی چند انچ کی اوپری سطح سے نیچے جاتے ہیں اور اس زمین کو نرم کردیتے ہیں، جس سے زمین کی قدرتی طاقت بڑھ جاتی ہے۔
بابر حسین نے دعویٰ کیا کہ اس فارمولے سے بنجر زمینوں کو بھی قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں 73 سال سے کاشت کےلیے زمین صرف 10 انچ استعمال کی جاتی رہی ہے، جو بار بار کھادوں اور پیسٹی سائیڈ سے زہر آلود ہوچکی ہے، جس سے تمام اجناس اور پھل بیماری زدہ پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہمارا ملک بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ اس فارمولے سے کیچوے زمین کے اندر چار فٹ کی گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں اور زمین 10 انچ کے بجائے 40 سے 48 انچ تک قابل استعمال ہوجاتی ہے، جس سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ممکن ہے، بلکہ کھاد کے زہر سے پاک حقیقی غذائیت بھی حاصل ہوگی۔
پیداوار میں کمی کو پورا کرنے کےلیے کھادوں اور پیسٹی سائیڈ کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، جو پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے کاشتکار پیداوار کی کمی کو آفات اور بیماریوں پر ڈال دیتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے، ہمیں اپنی زمین کو بہتر اور قابل کاشت بنانا ہے۔
بایو آرگینک مائع کھاد استعمال کرنے والوں کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ان کےلیے حیران کن ہے۔ اس علاقے میں سپر باسمتی کی فی ایکڑ پیداوار 20 سے 25 من تک ہے، لیکن جہاں یہ کھاد استعمال کی گئی ہے وہاں 35 سے 40 من تک پیداوار آئی ہے، جبکہ چاول کا دانہ بھی معمول سے بڑا اور فصل زیادہ خوشبودار ہے۔ کھیت کی نمی بھی برقرار ہے اور اس کی زرخیزی بڑھ گئی ہے۔
اس فارمولے سے حاصل کی گئی چاول کی فصل کھانے میں کیسی ہے ہمارے لیے یہ تجربہ کرنا ابھی باقی ہے، کیونکہ یہ چاول ابھی مارکیٹ میں عام دستیاب نہیں ہیں اور جس علاقے میں گئے تھے وہاں سے حاصل ہونے والی فصل سے چاول حاصل کرنے میں چند دن لگ جائیں گے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ حکومت کو زرعی شعبے میں بہتری لانے کے لیے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، جبکہ کاشتکاروں میں بھی آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
غذائی قلت اس وقت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، ہم نے اگر اپنی زرعی پیداوار اور اس کی کوالٹی بڑھانے پر توجہ نہ دی تو آنے والے چند سال میں شاید ہمیں گندم اور چاول بھی امپورٹ کرنا پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہماری منزل پنجاب کا سرحدی علاقہ ظفروال تھی، جہاں ہم کاشت کی گئی چاول کی فصل دیکھنے جارہے تھے۔ پنجاب کی یہ سرحدی پٹی دنیا کا بہترین چاول پیدا کرتی ہے۔ یہاں کاشت کیے جانے والے چاول کی کئی اقسام، بالخصوص سپر باسمتی بیرون ملک ایکسپورٹ کی جاتی ہیں، جس سے پاکستان خاطرخواہ زرمبادلہ کماتا ہے۔
لاہور سے تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت طے کرکے ہم ظفروال کے نواحی علاقے میں پہنچ گئے۔ گاؤں کے شروع میں ہی ایک ڈیرے پر ہمارا استقبال کیا گیا۔ تعارفی نشست کے بعد میزبانوں نے خوشخبری سنائی کہ کھیتوں میں جانے سے پہلے کھانا کھالیا جائے، جو تیار ہوچکا ہے۔ دوپہر کے تقریباً دو بج چکے تھے اور سب ساتھیوں کو بھوک بھی محسوس ہورہی تھی، اس لیے سب سے پہلے کھانا کھایا گیا۔ میزبانوں نے کھانے کا بہترین انتظام کیا تھا۔
کھانے کے بعد ہم دوبارہ گاڑی میں بیٹھے۔ ہمارے ساتھ سید بابر علی بخاری بھی تھے، جن کی دعوت پر ہم یہاں آئے تھے اور دیکھنا چاہتے تھے کہ شاہ جی نے جو سمندری جڑی بوٹیوں سے بایو آرگینک مائع کھاد تیار کی ہے، اس کے استعمال کا کیا نتیجہ سامنے آیا ہے۔ چند منٹوں بعد ہم دھان کے کھیت میں پہنچ گئے، جہاں تیار فصل کو ہارویسٹر کے ذریعے کاٹا جارہا تھا۔ گاؤں کے بزرگوں، کسانوں اور کاشتکاروں کی بڑی تعداد بھی یہاں پہنچ چکی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے سب یہاں کوئی عجوبہ دیکھنے آئے ہیں۔ جب ہم کھیتوں میں پہنچ گئے تو سینہ تانے کھڑی دھان کی تیار فصل کی خوشبو نے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ بڑے عرصے بعد ایسی سوندھی سوندھی مہک محسوس کی تھی۔ یہ سپر باسمتی کی مہک تھی۔ باس مہک کو کہتے ہیں اور متی کا مطلب ہے مٹی، یعنی مٹی کی خوشبو۔ تنوں پر پھل کافی زیادہ تھا اور دانہ معمول کی فصل سے تھوڑا لمبا تھا۔ چھلکا اتار کر دیکھا تو چاول سفید کے بجائے سنہری رنگت لیے ہوئے تھا۔
بابر حسین بخاری نے بتایا کہ انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں سمیت ظفروال (نارووال) کے نواحی گاؤں میں 25 ایکڑ زمین پر چاول کی فصل کاشت کرکے کامیاب تجربہ کیا ہے۔ پنجاب کی مشرقی سرحد کے ساتھ دنیا کا بہترین چاول کاشت ہوتا ہے، تاہم یہاں کمزور زرعی رقبے پر تجرباتی طور پر سپر باسمتی کاشت کی گئی تھی اور یہاں بایو آرگینک مائع کھاد استعمال کی گئی ہے، جس کی وجہ سے چاول کی پیداوار اس علاقے میں معمول کی پیداوار سے 35 سے 40 فیصد زیادہ ہوئی ہے۔ سمندری جڑی بوٹیوں کی مدد سے تیار کی گئی بایو آرگینک مائع کھاد زمین میں کیچوے پیدا کرتی ہے، جو بنجر اور کمزور زمین کی مٹی کو بطور خوراک کھا کر ایسا مواد خارج کرتے ہیں جو زمین کی زرخیزی بڑھا دیتے ہیں۔ کیچوے زمین کی چند انچ کی اوپری سطح سے نیچے جاتے ہیں اور اس زمین کو نرم کردیتے ہیں، جس سے زمین کی قدرتی طاقت بڑھ جاتی ہے۔
بابر حسین نے دعویٰ کیا کہ اس فارمولے سے بنجر زمینوں کو بھی قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں 73 سال سے کاشت کےلیے زمین صرف 10 انچ استعمال کی جاتی رہی ہے، جو بار بار کھادوں اور پیسٹی سائیڈ سے زہر آلود ہوچکی ہے، جس سے تمام اجناس اور پھل بیماری زدہ پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہمارا ملک بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ اس فارمولے سے کیچوے زمین کے اندر چار فٹ کی گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں اور زمین 10 انچ کے بجائے 40 سے 48 انچ تک قابل استعمال ہوجاتی ہے، جس سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ممکن ہے، بلکہ کھاد کے زہر سے پاک حقیقی غذائیت بھی حاصل ہوگی۔
پیداوار میں کمی کو پورا کرنے کےلیے کھادوں اور پیسٹی سائیڈ کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، جو پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے کاشتکار پیداوار کی کمی کو آفات اور بیماریوں پر ڈال دیتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے، ہمیں اپنی زمین کو بہتر اور قابل کاشت بنانا ہے۔
بایو آرگینک مائع کھاد استعمال کرنے والوں کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ان کےلیے حیران کن ہے۔ اس علاقے میں سپر باسمتی کی فی ایکڑ پیداوار 20 سے 25 من تک ہے، لیکن جہاں یہ کھاد استعمال کی گئی ہے وہاں 35 سے 40 من تک پیداوار آئی ہے، جبکہ چاول کا دانہ بھی معمول سے بڑا اور فصل زیادہ خوشبودار ہے۔ کھیت کی نمی بھی برقرار ہے اور اس کی زرخیزی بڑھ گئی ہے۔
اس فارمولے سے حاصل کی گئی چاول کی فصل کھانے میں کیسی ہے ہمارے لیے یہ تجربہ کرنا ابھی باقی ہے، کیونکہ یہ چاول ابھی مارکیٹ میں عام دستیاب نہیں ہیں اور جس علاقے میں گئے تھے وہاں سے حاصل ہونے والی فصل سے چاول حاصل کرنے میں چند دن لگ جائیں گے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ حکومت کو زرعی شعبے میں بہتری لانے کے لیے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، جبکہ کاشتکاروں میں بھی آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
غذائی قلت اس وقت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، ہم نے اگر اپنی زرعی پیداوار اور اس کی کوالٹی بڑھانے پر توجہ نہ دی تو آنے والے چند سال میں شاید ہمیں گندم اور چاول بھی امپورٹ کرنا پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔