ایک شخصیت ایک رسالہ
کیولری گراؤنڈ کی طرف ٹرن لیا تو جاوید اقبال نے کہا، ہمارے میزبان نے مکان تبدیل کر لیا ہے۔
کار ڈرائیونگ میں کر رہا تھا۔ کیولری گراؤنڈ کی طرف ٹرن لیا تو جاوید اقبال نے کہا، ہمارے میزبان نے مکان تبدیل کر لیا ہے۔ موٹر کار DHA کے Y بلاک کی طرف موڑ لو۔ وہ راستہ بتاتا رہا۔ ایک پارک کے قریب پہنچ کر اس نے ایک مکان کے سامنے مجھے کار روکنے کے لیے کہا جہاں اب گوشہ گمنامی میں رہنے والا لیکن باغ و بہار شخصیت کا مالک کرائے کے نئے مکان میں چند ہفتے قبل شفٹ ہوا تھا۔ اداسی اور خوش مزاجی اس کی شخصیت کے دو ایسے متضاد پہلو ہیں جنھیں کئی ملاقاتوں میں بھی کوئی سمجھ نہیں پائے گا۔ دوستوں کی مجلس میں وہ گفتگو میں ایسا دھنک رنگ بکھیرنے پر قادر ہے کہ کوئی اس کے اندر جھانکنے میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا اور وہ اس کی اجازت بھی نہیں دے گا۔
ہم نے مکان کی تعریف کی تو اس نے مالک مکان سے ملاقات اور کرایہ داری طے ہونے کا واقعہ سنایا۔ پراپرٹی ڈیلر نے اسے بتا دیا تھا اس مکان کا کرایہ ساٹھ ہزار روپے ماہانہ ہو گا اور ڈیل فائنل کرنے کے لیے اسے بڑے صاحب سے جرنیل کالونی میں ملاقات کے لیے جانا ہو گا۔ موصوف نے بڑے صاحب کا ایڈریس لیا اور ان کے در دولت پر جا حاضر ہوا۔ بڑے صاحب نے اس کا سرتاپا جائزہ لیا اور سوال کیا کہ ''تمہارا ذریعہ معاش کیا ہے۔'' سوال سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی لیکن اس کی حِس ظرافت بھی جاگ اٹھی۔ اس نے جواب دیا کہ ''میں طنبورہ بہت اچھا بجاتا ہوں۔ صبح سویرے اپنا طنبورہ لیے داتا دربار جا پہنچتا ہوں اور رات گئے تک دربار کے اردگرد گھومتے ہوئے طنبورہ بجاتا ہوں۔ اللہ لوک خوش ہو کر میری جھولی پیسوں سے بھر دیتے ہیں۔ یہی میرا ذریعہ معاش ہے۔'' مکان کے متوقع کرایہ دار کا جواب سن کر بڑا صاحب پہلے تو غصے سے گنگ ہو گیا پھر گرجدار آواز میں بولا تمہارا نام کیا ہے۔ جواب ملا ''خاکسار کو سرور سکھیرا کہتے ہیں۔'' بڑے صاحب کو جیسے 440 وولٹ کا کرنٹ لگا ہو۔ بولے ''کیا دھنک والا سرور سکھیرا۔'' جواب ملا ''جی ہاں۔'' اس جواب پر وہ خوشی اور شرمندگی کے جذبات لیے کرایہ دار سے مصافحہ کرنے کے لیے صوفے سے اٹھا اور ملازم کو چائے کا آرڈر دے کر معذرت خیز مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے بولا ''میری ڈیمانڈ تو ساٹھ ہزار ہے آپ جو چاہے دے دیں۔'' ملاقات کے اختتام پر بڑے صاحب نے پوچھا ''تو پھر کتنا ماہانہ کرایہ طے کیا جائے۔'' جواب ملا ''چالیس ہزار روپے مناسب ہوں گے۔'' بڑے صاحب نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ''آپ نے جو طے کر دیا مجھے منظور ہے۔''
عجیب بات کہ 1980ء میں اشاعت بند ہو جانے والا پندرہ روزہ دھنک رسالہ لوگوں کو اب بھی یاد ہے اور اس کا کنٹونمنٹ حلقوں میں مقبول ہونا اس سے بھی زیادہ حیران کن۔ سرور سکھیرا جو کئی سال تک ملک چھوڑ کر کینیڈا' امریکا اور برطانیہ میں بالکل مختلف کاروبار کرتا رہا اب ایک دہائی سے پھر پاکستان میں ہے لیکن خلوت پسند ہو جانے کے باوجود جس محفل میں بھی موجود ہو اپنی شناخت کروا لینے پر قادر ہے اور حیرت کی بات کہ مالک مکان جو اپنی شہرت کے مطابق کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا صرف ایک مرحوم رسالے کے ذکر پر اچھل پڑا اورکٹار جیسے چبھنے والے جواب کو بھی ہنس کر پی گیا البتہ 33 سال قبل بند ہو جانے والے رسالے کو وہ نہیں بھولا تھا۔
بعض لوگ کسی حوالے سے اس لیے یاد رکھے جاتے ہیں کہ انھوں نے کچھ ایسا کیا یا کہا ہوتا ہے جو تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ عباس اطہر ایک مستند اور تجربہ کار اخبار نویس تھے۔ لوگ ان کا ذکر آنے پر ہمیشہ ان کے اخبار کی سرخی ''ادھر تم ادھر ہم'' کو دہراتے رہیں گے۔ اسی طرح لوگ پندرہ روزہ رسالے کے مالک و مدیر کو یاد کرتے ہیں تو دھنک غیر ارادی طور پر ان کی نظروں کے سامنے آ جاتا ہے کیونکہ 1972ء سے 1980ء یعنی 8 سال تک رسالوں کے شوقین اس کی اشاعت کا بے صبری سے انتظار کیا کرتے تھے اور دھنک ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتا تھا۔ اس میں مضامین لکھنے والے بعد کے معروف کالم نویس' شاعر اور سفرنامے لکھنے والے کارٹونسٹ تھے۔ چند ایک لوگ ان میں حسن نثار' منیر نیازی' جاوید اقبال' مستنصر حسین تارڑ' ظفر اقبال' پرویز حمید' عمر زماں اور افشار ملک تھے جو دھنک سے منسلک رہے۔ رسالہ تو آٹھ سال کی اشاعت کے بعد بند ہو گیا لیکن سرور سکھیرا کے ملاقاتی اب بھی انھیں مائل کرتے پائے جاتے ہیں لیکن موصوف سو ڈیڑھ سو اردو اور انگریزی کے کالم لکھ کر خاموش ہو رہے ہیں۔
ہفت روزہ دھنک نے اشاعت کے چار سال بعد ایوارڈ دینے کا ایک زبردست پروگرام واپڈا ہاؤس کے آڈیٹوریم میں منعقد کیا۔ اس فنکشن کی ایک ہی خصوصیت سے اس کی کامیابی کا اندازہ لگا لیں کہ اس کی صدارت بیگم نصرت بھٹو نے اور کمپئرنگ ضیا محی الدین نے کی تھی اور جن افراد نے فنکشن میں آنے کی حامی بھری ان میں معمر قذافی' باکسر محمد علی کلے اور فلپائن کے صدر تھے۔ قذافی نے تو فنکشن کے تمام اخراجات اپنے ذمے لینے کی آفر بھی دی تھی۔
کئی لوگوں کو یاد ہو گا کہ بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور وزارت عظمیٰ میں سکھیرا کو اپنا پریس سیکریٹری چنا تھا۔ یہ ڈیوٹی بڑی سخت تھی جو صبح آٹھ بجے شروع ہوتی اور ختم صرف رات کی مختصر نیند پر ہوتی تھی۔ موصوف نے اس ذمے داری کو ایک سال تک تو نبھایا لیکن تھک کر ہاتھ جوڑے اور رخصت لے لی جب کہ محترمہ انھیں فارغ کرنے پر قطعاً تیار نہ تھیں۔
سرور سکھیرا محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی میں ذاتی اور سرکاری حیثیت میں شریک تھے۔ انھوں نے 2003ء میں ایک معروف اخبار میں کالم بھی لکھا جس میں سے چند جملے درج ذیل دیے جاتے ہیں۔
''خبروں میں آنے سے پہلے آصف زرداری کا نام ماسوائے اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کے کم لوگ ہی جانتے ہوں گے۔ جب بی بی کی منگنی اور شادی طے ہونے کی خبر پھیلی تو لوگ متجسس تھے، یہ کون ہے جو بھرا سوئمبر جیت گیا۔ میں نے اور بے شمار دوسرے لوگوں نے پہلی دفعہ اسے دولہا بنے دیکھا وہ توقع سے چھوٹے قد کا سانولا سا عام نقوش والا نوجوان روایتی سندھی لباس پہنے ہوئے تھا اور ہماری بینظیر کی چکاچوند شخصیت کے ساتھ جچ نہیں رہا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری نگاہوں میں اس قدآور جھانسی کی رانی کے ساتھ کوئی راجہ مہاراجہ بھی نہ جچتا۔ اسٹیج کی طرف جو بھی بڑھتا اس نوجوان کو بالکل نظر انداز کر کے باوقار بے باک اور بھرپور شخصیت والی دلہن کو مبارک باد اور تحائف دے کر لوٹ آتا۔''
ہم نے مکان کی تعریف کی تو اس نے مالک مکان سے ملاقات اور کرایہ داری طے ہونے کا واقعہ سنایا۔ پراپرٹی ڈیلر نے اسے بتا دیا تھا اس مکان کا کرایہ ساٹھ ہزار روپے ماہانہ ہو گا اور ڈیل فائنل کرنے کے لیے اسے بڑے صاحب سے جرنیل کالونی میں ملاقات کے لیے جانا ہو گا۔ موصوف نے بڑے صاحب کا ایڈریس لیا اور ان کے در دولت پر جا حاضر ہوا۔ بڑے صاحب نے اس کا سرتاپا جائزہ لیا اور سوال کیا کہ ''تمہارا ذریعہ معاش کیا ہے۔'' سوال سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی لیکن اس کی حِس ظرافت بھی جاگ اٹھی۔ اس نے جواب دیا کہ ''میں طنبورہ بہت اچھا بجاتا ہوں۔ صبح سویرے اپنا طنبورہ لیے داتا دربار جا پہنچتا ہوں اور رات گئے تک دربار کے اردگرد گھومتے ہوئے طنبورہ بجاتا ہوں۔ اللہ لوک خوش ہو کر میری جھولی پیسوں سے بھر دیتے ہیں۔ یہی میرا ذریعہ معاش ہے۔'' مکان کے متوقع کرایہ دار کا جواب سن کر بڑا صاحب پہلے تو غصے سے گنگ ہو گیا پھر گرجدار آواز میں بولا تمہارا نام کیا ہے۔ جواب ملا ''خاکسار کو سرور سکھیرا کہتے ہیں۔'' بڑے صاحب کو جیسے 440 وولٹ کا کرنٹ لگا ہو۔ بولے ''کیا دھنک والا سرور سکھیرا۔'' جواب ملا ''جی ہاں۔'' اس جواب پر وہ خوشی اور شرمندگی کے جذبات لیے کرایہ دار سے مصافحہ کرنے کے لیے صوفے سے اٹھا اور ملازم کو چائے کا آرڈر دے کر معذرت خیز مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے بولا ''میری ڈیمانڈ تو ساٹھ ہزار ہے آپ جو چاہے دے دیں۔'' ملاقات کے اختتام پر بڑے صاحب نے پوچھا ''تو پھر کتنا ماہانہ کرایہ طے کیا جائے۔'' جواب ملا ''چالیس ہزار روپے مناسب ہوں گے۔'' بڑے صاحب نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ''آپ نے جو طے کر دیا مجھے منظور ہے۔''
عجیب بات کہ 1980ء میں اشاعت بند ہو جانے والا پندرہ روزہ دھنک رسالہ لوگوں کو اب بھی یاد ہے اور اس کا کنٹونمنٹ حلقوں میں مقبول ہونا اس سے بھی زیادہ حیران کن۔ سرور سکھیرا جو کئی سال تک ملک چھوڑ کر کینیڈا' امریکا اور برطانیہ میں بالکل مختلف کاروبار کرتا رہا اب ایک دہائی سے پھر پاکستان میں ہے لیکن خلوت پسند ہو جانے کے باوجود جس محفل میں بھی موجود ہو اپنی شناخت کروا لینے پر قادر ہے اور حیرت کی بات کہ مالک مکان جو اپنی شہرت کے مطابق کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا صرف ایک مرحوم رسالے کے ذکر پر اچھل پڑا اورکٹار جیسے چبھنے والے جواب کو بھی ہنس کر پی گیا البتہ 33 سال قبل بند ہو جانے والے رسالے کو وہ نہیں بھولا تھا۔
بعض لوگ کسی حوالے سے اس لیے یاد رکھے جاتے ہیں کہ انھوں نے کچھ ایسا کیا یا کہا ہوتا ہے جو تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ عباس اطہر ایک مستند اور تجربہ کار اخبار نویس تھے۔ لوگ ان کا ذکر آنے پر ہمیشہ ان کے اخبار کی سرخی ''ادھر تم ادھر ہم'' کو دہراتے رہیں گے۔ اسی طرح لوگ پندرہ روزہ رسالے کے مالک و مدیر کو یاد کرتے ہیں تو دھنک غیر ارادی طور پر ان کی نظروں کے سامنے آ جاتا ہے کیونکہ 1972ء سے 1980ء یعنی 8 سال تک رسالوں کے شوقین اس کی اشاعت کا بے صبری سے انتظار کیا کرتے تھے اور دھنک ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتا تھا۔ اس میں مضامین لکھنے والے بعد کے معروف کالم نویس' شاعر اور سفرنامے لکھنے والے کارٹونسٹ تھے۔ چند ایک لوگ ان میں حسن نثار' منیر نیازی' جاوید اقبال' مستنصر حسین تارڑ' ظفر اقبال' پرویز حمید' عمر زماں اور افشار ملک تھے جو دھنک سے منسلک رہے۔ رسالہ تو آٹھ سال کی اشاعت کے بعد بند ہو گیا لیکن سرور سکھیرا کے ملاقاتی اب بھی انھیں مائل کرتے پائے جاتے ہیں لیکن موصوف سو ڈیڑھ سو اردو اور انگریزی کے کالم لکھ کر خاموش ہو رہے ہیں۔
ہفت روزہ دھنک نے اشاعت کے چار سال بعد ایوارڈ دینے کا ایک زبردست پروگرام واپڈا ہاؤس کے آڈیٹوریم میں منعقد کیا۔ اس فنکشن کی ایک ہی خصوصیت سے اس کی کامیابی کا اندازہ لگا لیں کہ اس کی صدارت بیگم نصرت بھٹو نے اور کمپئرنگ ضیا محی الدین نے کی تھی اور جن افراد نے فنکشن میں آنے کی حامی بھری ان میں معمر قذافی' باکسر محمد علی کلے اور فلپائن کے صدر تھے۔ قذافی نے تو فنکشن کے تمام اخراجات اپنے ذمے لینے کی آفر بھی دی تھی۔
کئی لوگوں کو یاد ہو گا کہ بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور وزارت عظمیٰ میں سکھیرا کو اپنا پریس سیکریٹری چنا تھا۔ یہ ڈیوٹی بڑی سخت تھی جو صبح آٹھ بجے شروع ہوتی اور ختم صرف رات کی مختصر نیند پر ہوتی تھی۔ موصوف نے اس ذمے داری کو ایک سال تک تو نبھایا لیکن تھک کر ہاتھ جوڑے اور رخصت لے لی جب کہ محترمہ انھیں فارغ کرنے پر قطعاً تیار نہ تھیں۔
سرور سکھیرا محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی میں ذاتی اور سرکاری حیثیت میں شریک تھے۔ انھوں نے 2003ء میں ایک معروف اخبار میں کالم بھی لکھا جس میں سے چند جملے درج ذیل دیے جاتے ہیں۔
''خبروں میں آنے سے پہلے آصف زرداری کا نام ماسوائے اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کے کم لوگ ہی جانتے ہوں گے۔ جب بی بی کی منگنی اور شادی طے ہونے کی خبر پھیلی تو لوگ متجسس تھے، یہ کون ہے جو بھرا سوئمبر جیت گیا۔ میں نے اور بے شمار دوسرے لوگوں نے پہلی دفعہ اسے دولہا بنے دیکھا وہ توقع سے چھوٹے قد کا سانولا سا عام نقوش والا نوجوان روایتی سندھی لباس پہنے ہوئے تھا اور ہماری بینظیر کی چکاچوند شخصیت کے ساتھ جچ نہیں رہا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری نگاہوں میں اس قدآور جھانسی کی رانی کے ساتھ کوئی راجہ مہاراجہ بھی نہ جچتا۔ اسٹیج کی طرف جو بھی بڑھتا اس نوجوان کو بالکل نظر انداز کر کے باوقار بے باک اور بھرپور شخصیت والی دلہن کو مبارک باد اور تحائف دے کر لوٹ آتا۔''