سیاست کے باؤجی
سیاست کے باؤ جی علاج کےلیے ان دنوں لندن میں موجود ہیں، لیکن ان کی بیماری آج بھی ہماری ملکی سیاست کا سب سے بڑا موضوع ہے
ہمارے دیہی کلچر میں لفظ "باؤ" کی بڑی اہمیت ہے۔ دیہاتوں میں اگر آج بھی کوئی پڑھا لکھا نوجوان ہو، کسی سرکاری و نیم سرکاری محکمے میں نوکری کرتا ہو، پینٹ کوٹ پہنتا ہو، بات چیت کرنے کا فن اور مسائل کا حل جانتا ہو تو لوگ اسے "باؤ جی" کہتے ہیں، سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور اس کے فیصلوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ہماری ملکی سیاست میں بھی "باؤ" نام کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔
اس لفظ کے عوامی سطح پر اس وقت بہت چرچے ہوئے جب ایک سال قبل سابق وزیراعظم نواز شریف کی ایک وڈیو وائرل ہوئی، جس میں وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں لندن کے اسپتال میں بیڈ پر پڑی اپنی بیگم کلثوم نواز سے یہ کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں ''کلثوم اٹھو، میں باؤ جی، آنکھیں کھولو''۔ اس سے پہلے شریف فیملی اور ان کے قریب ساتھی تو اس نام سے واقف ضرور تھے لیکن ان کے چاہنے والے نواز شریف کے اس نک نیم کو نہیں جانتے تھے۔
سیاست کے باؤ جی نواز شریف کی ملکی سیاست میں اہمیت سے کسی بھی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جب بھی ایٹمی دھماکوں اور موٹروے سمیت ملکی میگا پروجیکٹس کی بات آئے گی تو باؤ جی کا نام ضرور لیا جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ قسمت کے دھنی ہیں۔ نواز شریف کی 38 سالہ سیاسی تاریخ کو سامنے رکھ کر دیکھیں، اس دوران ان کے راستے میں کیسے کیسے موڑ آئے کہ سب کہنے لگے کہ اب گئے کہ اب گئے۔ مگر وہ معجزاتی انداز میں صاف بچتے رہے۔ ان کا مخالف ہو یا موافق، اس بات کو کوئی بھی مفہوم دے، مگر کچھ تو ایسی بات ہے کہ وہ ہر بھنور سے صاف صاف نکلنے میں کامیاب رہے۔
عام تاثر یہی تھا کہ عمران خان جیسے اصولوں کے پکے وزیراعظم کے ہوتے ہوئے نواز شریف کا علاج کےلیے بیرون ملک جانا آسان نہیں ہوگا۔ لیکن وہ جس انداز میں لندن روانہ ہوئے، اس کے بعد ہر کوئی یہاں تک کہ حکومتی وزرا بھی یہ کہنے اور سوچنے پر مبجور ہیں کہ نواز شریف کی سیاست کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
باؤ جی کو اسپورٹس کوٹہ پر ریسلنگ کی وجہ سے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ملا۔ وہ خود تو کبھی اچھے ریسلر نہ بن سکے، البتہ انہوں نے پہلوانوں کے عالمی شہرت یافتہ خاندان میں شادی ضرور کی۔ بیگم کلثوم نواز رستم زماں گاما پہلوان کی نواسی تھیں۔ تعلیمی کیریئر کے دوران ہی باؤ جی نے بڑا کرکٹر بننے کی کوشش کی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ساٹھ کے عشرے کے آخر میں لاہور جیمخانہ میں عمران خان اور نواز شریف اکٹھے کھیلتے بھی رہے ہیں۔ دونوں کی خواہش تھی کہ پاکستانی ٹیم کی طرف سے کھیلیں، لیکن 70 کے عشرے میں عمران کا نصیب بازی لے جاتا ہے اور وہ پاکستانی ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں اور نواز شریف بظاہر ناکام ہوجاتے ہیں لیکن عمران خان کے ہوتے ہوئے پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ سے قبل پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے مابین وارم اپ میچ ہوا تھا اور اس میں میاں نواز شریف پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے۔ اس میچ کے دوران ویسٹ انڈیز کے خطرناک بولرز کا سامنا کرنے کےلیے جانے والے میاں نواز شریف نے کوئی خاطرخواہ حفاظتی انتظامات بھی نہیں کیے تھے۔ پاکستان کے مایہ ناز کرکٹر اور موجودہ وزیراعظم عمران خان، جو اب میاں نواز شریف کے سب سے بڑے مخالف سمجھتے جاتے ہیں، نے اپنی خودنوشت "میں اور میرا پاکستان" میں لکھا ہے کہ "اس میچ میں مدثر نذر نے بیٹنگ پیڈز، پنڈلیوں، رانوں، سینے اور بازﺅوں کی حفاظت کےلیے سیفٹی گارڈ اور ہاتھوں پر دستانے پہنے، سر پر ہیلمٹ بھی تھا لیکن نواز شریف صرف بیٹنگ پیڈ پہنے اور اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے ایک ایسی ٹیم کے خلاف میدان میں اتر گئے جس کے پاس کرکٹ کی تاریخ کے بہترین اور تیز ترین فاسٹ بولرز تھے''۔
کہا جاتا ہے کہ میاں شریف اپنے بڑے بیٹے نواز شریف کے مستقبل کے حوالے سے خاصے پریشان رہتے تھے۔ انہیں بھولا اور سیدھا سمجھتے تھے، جبکہ شہباز شریف کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ یہ تیز طرار ہے اور کسی بھی شعبے میں باآسانی اپنا مقام بنا لے گا۔ سچ یہی ہے کہ نواز شریف نے ابتدا میں جس میدان میں بھی قدم رکھا، زیادہ تر انہیں ناکامیوں کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ سیاست کی دنیا میں آئے اور آتے ہی چھا گئے۔
وہ 1981 میں پنجاب کے وزیر خزانہ بن کر سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہیں اور صرف چار سال بعد 1985 میں مخدوم حسن محمود اور ملک اللہ یار جیسے ہیوی ویٹس کو پیچھے چھوڑ کر پنجاب کے وزیرِاعلیٰ بن جاتے ہیں۔ ان کی خوش نصیبی کا دائرہ مبالغہ آمیز حد تک پھیلتا جاتا ہے۔ تین سال بعد دوبارہ وزیرِاعلیٰ بن کر پیپلزپارٹی اور بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر کے مقابل آجاتے ہیں تو ان کی خوش نصیبی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ناکامی سے دوچار کرکے انہیں بے نظیر سے زیادہ مقبولیت عطا کردیتی ہے اور صرف دو سال بعد وہ پاکستان کے وزیرِاعظم بن جاتے ہیں۔ اس دوران جو بھی شخص ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے تو نواز شریف کی خوش بختی اسے ہڑپ کرجاتی ہے۔
باؤ جی نے آصف نواز جنجوعہ، جہانگیر کرامت، غلام اسحاق خان، سجاد علی شاہ، فاروق لغاری کو پچھاڑا۔ 1997 کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کی وجہ سے دوسری بار وزیراعظم بنے۔ طیارہ سازش کیس میں قید کے بعد جلاوطن ہوئے تو خیال یہی کیا جارہا تھا کہ شریف فیملی کی سیاست کا سورج غروب ہوگیا لیکن وہ پھر پاکستان آکر ملکی سیاست میں چھاگئے۔ 2008 کے الیکشن میں چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب بنواتے ہیں تو 2013 کے انتخابات میں خود تیسری بار وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
سیاست کے باؤ جی علاج کےلیے ان دنوں لندن میں موجود ہیں، لیکن ان کی بیماری آج بھی ہماری ملکی سیاست کا سب سے بڑا موضوع ہے۔ ہمارے قومی اخبارات کی زیادہ تر شہ سرخیاں اور الیکٹرانک میڈیا کی بریکنگ نیوز ان کی بیماری کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ باؤ جی کی بیماری کے حوالے سے ایک حلقے کا خیال ہے کہ باؤ جی نے ذوالفقار علی بھٹو بننے کے بجائے وقتی طور پر سمجھوتہ کرنے کو ترجیح دی ہے جبکہ دوسرے حلقے کے مطابق وہ شدید بیمار ہیں اور مکمل صحت یاب ہوکر دوبارہ پاکستان آکر دل وجان سے ملک وقوم کی خدمت کرتے نظر آئیں گے۔
دیکھنا یہ ہے سیاست کے باؤ جی بیماری کو مات دے کر وطن واپس آتے ہیں یا اس ملک کے پہلے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا کی طرح باقی زندگی یورپ میں ہی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں؟ اس کا ہمیں اور آپ کو انتظار رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس لفظ کے عوامی سطح پر اس وقت بہت چرچے ہوئے جب ایک سال قبل سابق وزیراعظم نواز شریف کی ایک وڈیو وائرل ہوئی، جس میں وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں لندن کے اسپتال میں بیڈ پر پڑی اپنی بیگم کلثوم نواز سے یہ کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں ''کلثوم اٹھو، میں باؤ جی، آنکھیں کھولو''۔ اس سے پہلے شریف فیملی اور ان کے قریب ساتھی تو اس نام سے واقف ضرور تھے لیکن ان کے چاہنے والے نواز شریف کے اس نک نیم کو نہیں جانتے تھے۔
سیاست کے باؤ جی نواز شریف کی ملکی سیاست میں اہمیت سے کسی بھی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جب بھی ایٹمی دھماکوں اور موٹروے سمیت ملکی میگا پروجیکٹس کی بات آئے گی تو باؤ جی کا نام ضرور لیا جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ قسمت کے دھنی ہیں۔ نواز شریف کی 38 سالہ سیاسی تاریخ کو سامنے رکھ کر دیکھیں، اس دوران ان کے راستے میں کیسے کیسے موڑ آئے کہ سب کہنے لگے کہ اب گئے کہ اب گئے۔ مگر وہ معجزاتی انداز میں صاف بچتے رہے۔ ان کا مخالف ہو یا موافق، اس بات کو کوئی بھی مفہوم دے، مگر کچھ تو ایسی بات ہے کہ وہ ہر بھنور سے صاف صاف نکلنے میں کامیاب رہے۔
عام تاثر یہی تھا کہ عمران خان جیسے اصولوں کے پکے وزیراعظم کے ہوتے ہوئے نواز شریف کا علاج کےلیے بیرون ملک جانا آسان نہیں ہوگا۔ لیکن وہ جس انداز میں لندن روانہ ہوئے، اس کے بعد ہر کوئی یہاں تک کہ حکومتی وزرا بھی یہ کہنے اور سوچنے پر مبجور ہیں کہ نواز شریف کی سیاست کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
باؤ جی کو اسپورٹس کوٹہ پر ریسلنگ کی وجہ سے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ملا۔ وہ خود تو کبھی اچھے ریسلر نہ بن سکے، البتہ انہوں نے پہلوانوں کے عالمی شہرت یافتہ خاندان میں شادی ضرور کی۔ بیگم کلثوم نواز رستم زماں گاما پہلوان کی نواسی تھیں۔ تعلیمی کیریئر کے دوران ہی باؤ جی نے بڑا کرکٹر بننے کی کوشش کی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ساٹھ کے عشرے کے آخر میں لاہور جیمخانہ میں عمران خان اور نواز شریف اکٹھے کھیلتے بھی رہے ہیں۔ دونوں کی خواہش تھی کہ پاکستانی ٹیم کی طرف سے کھیلیں، لیکن 70 کے عشرے میں عمران کا نصیب بازی لے جاتا ہے اور وہ پاکستانی ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں اور نواز شریف بظاہر ناکام ہوجاتے ہیں لیکن عمران خان کے ہوتے ہوئے پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ سے قبل پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے مابین وارم اپ میچ ہوا تھا اور اس میں میاں نواز شریف پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے۔ اس میچ کے دوران ویسٹ انڈیز کے خطرناک بولرز کا سامنا کرنے کےلیے جانے والے میاں نواز شریف نے کوئی خاطرخواہ حفاظتی انتظامات بھی نہیں کیے تھے۔ پاکستان کے مایہ ناز کرکٹر اور موجودہ وزیراعظم عمران خان، جو اب میاں نواز شریف کے سب سے بڑے مخالف سمجھتے جاتے ہیں، نے اپنی خودنوشت "میں اور میرا پاکستان" میں لکھا ہے کہ "اس میچ میں مدثر نذر نے بیٹنگ پیڈز، پنڈلیوں، رانوں، سینے اور بازﺅوں کی حفاظت کےلیے سیفٹی گارڈ اور ہاتھوں پر دستانے پہنے، سر پر ہیلمٹ بھی تھا لیکن نواز شریف صرف بیٹنگ پیڈ پہنے اور اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے ایک ایسی ٹیم کے خلاف میدان میں اتر گئے جس کے پاس کرکٹ کی تاریخ کے بہترین اور تیز ترین فاسٹ بولرز تھے''۔
کہا جاتا ہے کہ میاں شریف اپنے بڑے بیٹے نواز شریف کے مستقبل کے حوالے سے خاصے پریشان رہتے تھے۔ انہیں بھولا اور سیدھا سمجھتے تھے، جبکہ شہباز شریف کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ یہ تیز طرار ہے اور کسی بھی شعبے میں باآسانی اپنا مقام بنا لے گا۔ سچ یہی ہے کہ نواز شریف نے ابتدا میں جس میدان میں بھی قدم رکھا، زیادہ تر انہیں ناکامیوں کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ سیاست کی دنیا میں آئے اور آتے ہی چھا گئے۔
وہ 1981 میں پنجاب کے وزیر خزانہ بن کر سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہیں اور صرف چار سال بعد 1985 میں مخدوم حسن محمود اور ملک اللہ یار جیسے ہیوی ویٹس کو پیچھے چھوڑ کر پنجاب کے وزیرِاعلیٰ بن جاتے ہیں۔ ان کی خوش نصیبی کا دائرہ مبالغہ آمیز حد تک پھیلتا جاتا ہے۔ تین سال بعد دوبارہ وزیرِاعلیٰ بن کر پیپلزپارٹی اور بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر کے مقابل آجاتے ہیں تو ان کی خوش نصیبی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ناکامی سے دوچار کرکے انہیں بے نظیر سے زیادہ مقبولیت عطا کردیتی ہے اور صرف دو سال بعد وہ پاکستان کے وزیرِاعظم بن جاتے ہیں۔ اس دوران جو بھی شخص ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے تو نواز شریف کی خوش بختی اسے ہڑپ کرجاتی ہے۔
باؤ جی نے آصف نواز جنجوعہ، جہانگیر کرامت، غلام اسحاق خان، سجاد علی شاہ، فاروق لغاری کو پچھاڑا۔ 1997 کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کی وجہ سے دوسری بار وزیراعظم بنے۔ طیارہ سازش کیس میں قید کے بعد جلاوطن ہوئے تو خیال یہی کیا جارہا تھا کہ شریف فیملی کی سیاست کا سورج غروب ہوگیا لیکن وہ پھر پاکستان آکر ملکی سیاست میں چھاگئے۔ 2008 کے الیکشن میں چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب بنواتے ہیں تو 2013 کے انتخابات میں خود تیسری بار وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
سیاست کے باؤ جی علاج کےلیے ان دنوں لندن میں موجود ہیں، لیکن ان کی بیماری آج بھی ہماری ملکی سیاست کا سب سے بڑا موضوع ہے۔ ہمارے قومی اخبارات کی زیادہ تر شہ سرخیاں اور الیکٹرانک میڈیا کی بریکنگ نیوز ان کی بیماری کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ باؤ جی کی بیماری کے حوالے سے ایک حلقے کا خیال ہے کہ باؤ جی نے ذوالفقار علی بھٹو بننے کے بجائے وقتی طور پر سمجھوتہ کرنے کو ترجیح دی ہے جبکہ دوسرے حلقے کے مطابق وہ شدید بیمار ہیں اور مکمل صحت یاب ہوکر دوبارہ پاکستان آکر دل وجان سے ملک وقوم کی خدمت کرتے نظر آئیں گے۔
دیکھنا یہ ہے سیاست کے باؤ جی بیماری کو مات دے کر وطن واپس آتے ہیں یا اس ملک کے پہلے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا کی طرح باقی زندگی یورپ میں ہی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں؟ اس کا ہمیں اور آپ کو انتظار رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔