یہ جینا بھی کوئی جینا ہے …

اِدھر آپ نے دعا مانگی کہ اللہ میاں، چلتے پھرتے اٹھا لیجیو اور ادَھر سے زنّاٹے سے ایک گولی آئی اور آپ کی دعا قبول۔

کون کہتا ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں؟ اِدھر آپ نے دعا مانگی کہ اللہ میاں، چلتے پھرتے اٹھا لیجیو اور ادَھر سے زنّاٹے سے ایک گولی آئی اور آپ کی دعا قبول۔ اور پشاور میں تو ایک ہی وقت میں سیکڑوں لوگوں کی یہ دعائیں پلک جھپکتے ہی قبول ہو جاتی ہے ۔ ایک مزے دار ، لیکن حقیقت پر مبنی ،ایس ایم ایس زیر گردش ہے ۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

دوسری صف میں کھڑا ہو گیا خودکش بمبار

ہوا کیا پھر، نا پوچھ میرے بھیا اقبال

نہ کوئی بندہ رہا، نہ کوئی بندہ نواز

لگتا ہے کہ شاید علامہ اقبال کے اس شعر میں اور قائداعظم کے فرمودہ میں کچھ الفاظ کا صحیح ادراک ہمارے عوام نہیں کر پائے ۔ مرزا غالب نے فرمایا تھا:

ہم نے مانا کہ تغافل نہ رو گے لیکن


خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک

میں ان کے شعر کے دوسرے مصرع میں ''خاک'' کی جگہ'' راکھ'' کا لفظ استعمال کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ وہ مجھے معاف فرمائینگے ۔ یہ لفظ میں نے اس لیے لکھا ہے کہ اب پاکستان میں لوگ خودکش بمباروں کے ہاتھوں راکھ ہو رہے ہیں۔اب ہماری زندگی یہ رہ گئی ہے کہ صبح سویرے اٹھ کر ریڈیو ٹی وی کھول کر پتہ کرتے ہیں کہ شہر کے حالات صحیح ہیں کہ نہیں، نیز یہ کہ بچوں کے اسکول اور اپنی ملازمت، کاروبار کی جگہ کی سمت میں۔ جب معلوم ہوتا ہے کہ تاوقت خیریت ہے ، تو بچوں کو اسکول کے لیے تیارکرتے ہیں۔ البتہ ریڈیو ٹی وی یہ نہیں بتا سکتے کہ آئندہ چند ساعتوں میں کیا ہوگا۔ بہرحال توکل علی اللہ کرکے بچوں کو بھیجتے ہیں اور اپنی ملازمت اور کاروبار کی طرف سدھارتے ہیں۔(آپ کو یاد ہوگا کہ چوہدری اسلم ، ایس پی ، کے بنگلے پر دھماکا ہوا تھا، جس کے قریب ایک اسکول تھا، جس کی ایک طالبہ شہید ہو گئی تھی)۔ دفتر یا کاروبار کی جگہ پہنچ کر مِس کال دیتے ہیں یا ایس ایم ایس بھیجتے ہیں، کہ بخیریت پہنچ گئے ہیں۔ سارا دان ٹی وی کھلا رہتا ہے ۔کہیں کوئی ایسی پٹی چل گئی کہ ہمارے بچوں یا گھر کے کسی فرد یا کسی عزیز کے علاقے میں کوئی واقعہ رونما ہوا ہے ، تو جان اٹک جاتی ہے کہ یا اللہ خیر ہو۔ سارا دن جان اٹکی رہتی جب تک بچے اور بڑے بخیریت واپس نہ آجائیں۔

بچیوں کا اسکول سے گھر تک بخیریت پہنچنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہے ۔ ہم تو بھئی گھر سے باہر نکلتے وقت سر سے کفن باندھ کے نکلتے ہیں۔ اپنے شناختی کارڈ کی کاپی سے منسلک ایک کاغذ بھی لے کر نکلتے ہیں، جس پر اپنے خون کا گروپ، ورثاء کے نام اور فون نمبرلکھے ہوتے ہیں۔ پھر بھی سالہا سال سے ہمارے حکمران (وہ کوئی بھی ہوں)یہی کہتے آتے ہیں کہ امن و امان کی صورتحال اطمینان بخش ہے ۔اگر بس میں سفر کرو تو اس میں موبائل فون اور پونجی لٹنے کا خوف۔اگر موٹر سائیکل پر سفر کرو تو اس کے چھن جانے کا خوف۔ اگر اپنی گاڑی میں جائو ہر وقت یہ کھٹکا کہ کہیں کوئی اغوا نہ کرلے ۔ گاڑی کے برابر سے اگر کوئی ڈبل سواری والی موٹر سائیکل گزر رہی ہو تو جسم میں لرزہ آجاتا ہے ۔ اور جب وہ بخیریت آگے نکل جائے تب جاکر جان میں جان آتی ہے ۔ اگرگاڑی کہیں کھڑی کر کے کام سے کسی دکان ،مارکیٹ، دفتر یا بینک میں جائو تو پیچھے یہ کھٹکا کہ کہیں وہ چوری نہ ہو جائے یا اس میں سے کوئی سائیڈ والا ایک یا دونوں شیشے نہ چرالیے جائیں۔ اگر صرف ایک یا دونوں شیشے ہی چوری ہو جائیں تو شکر کرتے ہیں۔جان بچی لاکھوں پائے ، گاڑی کے چھن جانے کا خوف تو ہر لمحے رہتا ہی ہے ۔

ویسے گاڑیوں کی چوری کا مسئلہ تو ہماری حکومت نے بخوبی حل کر دیا ہے ۔ پہلے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے چھننے کی تعداد روزانہ اخبارات میں چھپتی تھی، کچھ وقت کے بعد وہ شماریات ہفتہ وار چھاپی جاتی تھیں، پھر ماہ وار اور سال بہ سال اور اب تو ان کا ذکر ہی نہیں ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی چوری اب قصہ پارینہ ہو گئی ہے ۔ یہ ہوتی ہے شاندار اور فقیدالمثال کارکردگی۔ عام طور پر یہ بات مشہور تھی کہ چوری شدہ گاڑیاں بلوچستان جاتی ہیں اور چونکہ وہاں روزگار کے مواقعے بہت معدوم ہیں، اس لیے ان کے لیے یہ ''صنعت'' بہت منافع بخش ہے ۔اسے روکا نہ جائے ۔ یہ ہوتے ہیں روزگار فراہم کرنے کے طریقے ۔

علم کی طلب ہمارا دینی فریضہ ہے ۔اور قانون کی پابندی دینی بھی اور قومی بھی۔ 66 سال سے ہم لوگ ٹریفک کے قوانین نافذ کرنے اور ان پر عمل کرنے کا علم سیکھ رہے ہیں۔ ٹریفک کے قوانین پر عمل تو کجا، ہم تو ابھی تک قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے کا علم بھی پورا سیکھ نہیں پائے ، جس کے لیے ہمیں ابھی 66 سال اور درکار ہیں۔ بھلا، قوموں کی زندگی میں 66 سال کیا ہوتے ہیں۔ یہ بات اور ہے کہ یورپ میں رائج ہونے والا فیشن، ہمارے ہاں بھی اسی دن ہی رائج ہو جاتا ہے ، لیکن وہاں کی ٹریفک کے قانون کی پابندی ہم 66 برسوں میں بھی نہیں سیکھ سکے ۔ وہ تو چھوڑیں، جو لوگ باہر کے ملکوں میں رہتے ہیں، وہ بھی یہاں آکر ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والی کچھ قوموں نے خوامخواہ عجلت دکھائی۔ بھلا، چین، ملائیشیا اور دوسرے ایسے ممالک کو کیا جلدی تھی؟ بہرحال ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے ، ان کو ہو تو ہو، اس سے ہمیں کیا؟

ان 66 برسوں میں ہم رکشائوں کے سائلنسر بھی ٹھیک نہیں کروا پائے کیونکہ ان کے گرجدار آواز ہی ہماری قومی زندگی کا ثبوت ہے اور ان سے نکلتا ہوا دھواں ہماری آتشِ جوانی کا ثبوت ہے ، کہ ابھی ابھی تو آتش جواں ہوا ہے ۔ لال سگنل توڑنا اور سامنے آنیوالی گاڑی کے سامنے جاکر اپنی گاڑی کھڑی کرنا تو ہماری مردانگی کی نشانی ہے ، چاہے اس کی وجہ سے سامنے سے آنیوالا ٹریفک گھنٹوں رکا رہے تو ہماری بلا سے ۔ لال سگنل پر رکنے والے تو نہایت بزدل لوگ ہوتے ہیں، بزدل کہیں کے ۔ کیا آج تک کسی نے یہ سوچا ہے کہ پورے ملک میں ٹریفک رکنے سے جتنا پٹرول، ڈیزل خرچ ہوتا ہے ، اگر ہم وہ بچائیں تو ملک کا کتنا زرمبادلہ بچ سکتا ہے ؟ ہمیں سعودی عرب سے جو تیل بطور خیرات ملتاہے ، اس ہاتھ پھیلانے سے ہم بچ جائینگے اور تھوڑے سے غیرت مند بھی ہو جائیں گے ۔ہم بیچ سڑک کیلے کا چھلکا تو پھینکتے وقت کچھ بھی نہیں سوچتے ، لیکن چاہیے ہمیں جمہوریت اور اسلامی نظام ۔قربان جائیے ان خواہشوںپر سب کچھ چاہیے ، لیکن ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ہم مساجد میں جاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ وہاں بندوق والے گارڈ کھڑے ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال صاحب نے تو کہا تھا، تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں۔ اب ہم تیغوں کے سائے میں نمازیں پڑھتے ہیں۔

اب ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ لوگوں کا اغوا بھی ایک صنعت ہے ۔ ہاں بھئی ہلدی نہ پھٹکڑی، رنگ چوکھا۔ مہنگائی وغیرہ کو تو ہم گردانتے ہی نہیں ہیں۔ وہاںپٹرول کے دام 5 روپیہ فی لیٹر بڑھے ، یہاں ہمارے صنعتکاروں نے اپنی مصنوعات کے دام اس سے زیادہ بڑھا دیے ، بس والوں نے کرائے فی مسافر 10 روپیہ بڑھادیے ۔کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے ۔کبھی کبھار غلطی سے 2 یا 3 روپیہ فی لیٹر گھٹایا بھی گیا، تو ان لوگوں نے اپنے داموں یا کرایوں میں کبھی بھی کمی نہیں کی۔ابھی ایک ہفتہ پہلے ہمارے ہاں پٹرول 5 روپیہ فی لٹر مہنگا کیا گیا، ہندوستان والوں نے 3 روپیہ فی لٹر کم کیا،بنیے کہیں کے ۔ باقی بجلی، گیس وغیرہ کا کیا رونا۔یہ تو ہمارے صبر کا امتحان ہوتا ہے ۔ تندیے نا فراہمیے بجلی، گیس سے نہ گھبرا اے پاکستانی، یہ تو ہوتی ہیں تمہیں آزمانے کے لیے ۔بھلا، یہ جینا بھی کوئی جینا ہے ؟ کوئی بتلائے کہ ہم کیا بتلائے ؟

آپ بہت بور ہو گئے ہونگے ۔ تھوڑا دل پشوری کر لیجیے۔ ایک آدمی گاڑی کی ڈگی میں بغیر لائسنس کے ہتھیار لے جا رہا تھا۔ تلاشی پر پولیس نے اسے تھانے چلنے کو کہا۔ اس نے کہا، میں وہیں تو جا رہا تھا، اِنہیں جمع کرانے۔ پولیس والے نے کہا، شاباش، جائو، جاکر جمع کرائو۔ اور اسے چھوڑ دیا۔
Load Next Story