پاکستان اور چین
پاکستان اور چین کادوستی کا رشتہ کئی عشروں پر محیط ہے اور دونوں ملکوں نے اس رشتے کو خوبصورتی کے ساتھ نبھایا ہے۔
بالآخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی ہے۔ امریکا نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان تعمیر کیا جانے والا اقتصادی راہدری منصوبہ جو گوادر پہنچ کر اختتام پذیر ہو گا، وہ امریکا کو ناقابل قبول ہے۔ امریکا نے واشگاف الفاظ میں اس راہدری منصوبے کو پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔
جنوبی ایشیاء کے لیے امریکا کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان راہدری منصوبے سے صرف چین کو فائدہ ہو گا جب کہ پاکستانی معیشت کو اس طویل مدتی منصوبے سے نقصان ہو گا کیونکہ اس معاہدے کی شرائط ایسی ہیں جن کو پاکستان کے لیے پورا کرنا مشکل ہو گا ۔ پاکستان اور چین کے درمیان راہدری منصوبے کو دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے لیے خطرہ خیال کرتی ہیں ۔
چین اس وقت دنیا کی ایک بڑی معیشت ہے جس نے امریکا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ایلس ویلز نے پاکستان میں امریکا کی جانب سے سرمایہ کاری کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس پاکستان کی ترقی کا چین سے بہتر ماڈل موجود ہے اور امریکا کی نجی کمپنیوں اور امریکی حکومت کی مدد سے پاکستان کو بہت سے فائدے پہنچ سکتے ہیں۔
امریکا کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہدری کا منصوبہ تیزی سے پایہ تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے اور بہت جلد یہ مکمل طور پر فعال بھی ہو جائے گا جس کو دنیا کی بڑی معیشتیں اپنے لیے خطرہ سمجھ رہی ہیں۔
اس لیے اس میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں اور امریکی سرمایہ کاری کی پیشکش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی اور امریکا کی نئی چال ہے۔ پاکستانیوں سے زیادہ امریکا کو کوئی نہیں جانتا ۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے ہم امریکی کیمپ کا حصہ رہے ہیں اور گزشتہ کئی دہائیوں سے تو امریکا افغانستان میں ہمارے ہمسائے کی شکل میں موجود ہے ۔ ایک ایسے ہمسائے کی شکل میں جس کے ساتھ ہم نے ایک اتحادی کے طور پر کام کیا ہے، اس لیے ہم اسے بہتر جانتے ہیں کہ وہ کس قسم کے ارادے رکھتا ہے اور اس کا مستقبل کا کیا پروگرام ہے۔
پاکستان کے حقیقی دوست چین کے بارے میں بات کی جائے تو چین اب وہ پرانا چین نہیں رہا، وہ اپنی بند سرحدوں سے نکل کر دنیا میں پھیل گیا ہے اور اس نے معاشی ترقی میں اتنی کامیابی حاصل کر لی ہے کہ وہ اب دوسرے ملکوں کی معیشتوں کا حصہ دار بن گیا ہے۔ اس کا مال دنیا کے مختلف بازاروں میں فروخت ہو رہا ہے، عالمی سیاست میں اس کی ایک اہمیت ہے لیکن چین کہتا ہے کہ ہمارے دنیا بھر سے تعلقات اپنی جگہ لیکن کوئی بھی تعلق پاکستان کی دوستی کی قیمت پر قائم نہیں ہو گا۔ چین کے سفیر نے امریکی بیان کا فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ضرورت ہوئی تو قرض واپس نہیں مانگیں گے۔ انھوں نے امریکا کو الزام تراشی سے پرہیز اور احتیاط کا مشورہ دیا ہے۔
گویا چین وہیں کھڑا ہے جہاں پہلے تھا ۔ مجھے یہاں بابائے چین ماؤزے تنگ کی ایک بات یاد آ رہی ہے جب ایک پاکستانی وفد چین میں اسلحہ لینے گیا تو انھوں نے پاکستانی وفد سے کہا کہ خیال رکھنا چواین لائی بہت کنجوس ہے، یہ پرانا اسلحہ دینے کی کوشش کرے گا، تم لوگ چوکنا رہنا ۔ گراں خواب چینیوں کو نئی زندگی دینے والے لیڈر کی پاکستان کے ساتھ یہ محبت کس قدر سنسنی خیز تھی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ امریکا کی پاکستان سے اچانک محبت کیسے جاگ گئی ہے، انھوں نے جس کی امداد بھی بند کی ہوئی ہے،اس ملک کی معیشت کے لیے سات سمند پار بیٹھ کر فکر مندی کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ دراصل امریکا کی یہ فکر اپنی معیشت کی فکر ہے جس کو چین سے خطرہ ہے گوادر کے راستے چینی مصنوعات کی دنیا بھر کے بازاروں تک رسائی آسان ہو جائے گی، اس لیے بڑے ملکوں کو یہ تشویش ہے کہ ان کی معاشی حالت کم قیمت چینی مصنوعات کی وجہ سے خراب ہو جائے گی۔
امریکا نے ہمیشہ اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے پاکستان کو استعمال کیا ہے اور اپنا مطلب نکال لینے کے بعد نگاہیں پھیر لینے میں دیر نہیں لگائی ۔ پاکستانی اس مطلب پرست امریکا کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ افغانستان اور سوویت یونین کی جنگ کی تلخیاں ابھی باقی تھیں کہ امریکا نے ہمیں ایک بار پھر اپنے مفادات کے لیے افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف استعمال کیا جس کو ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔ یعنی امریکا جب چاہے ہمیں استعمال کر لے اور ہماری بدقسمتی یہ کہ ہم استعمال ہونے اور امریکا کے دست نگر بننے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔
پاکستان اور چین کادوستی کا رشتہ کئی عشروں پر محیط ہے اور دونوں ملکوں نے اس رشتے کو خوبصورتی کے ساتھ نبھایا ہے، ہر مشکل کی گھڑی میں چین پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آیا ہے جب کہ امریکا ہر مشکل میں دوسری طرف کھڑا نظر آیا، پہلے پہل تو امریکا ڈپلومیسی سے کام لیتا تھا لیکن اب وہ کھلم کھلا پاکستان دشمنوں کا ساتھ دیتا ہے، صاف صاف الفاظ میں وہ پاکستان کی ترقی کے منصوبے کی مخالفت کر رہا ہے جب کہ پاکستان دنیا کے تمام ملکوں کو پاکستان کی ترقی کے اس اہم منصوبے میں پہلے سے ہی سرمایہ کاری کی پیشکش کر چکا ہے، اس منصوبے کے دور رس نتائج سے سبھی آگاہ ہیں ، اس لیے کوشش یہ کی جارہی ہے کہ اس منصوبہ کی تکمیل میں جس قدر تاخیر ہو سکے، وہ ان ممالک کے لیے فائدہ مند ہو گی جن کو اس منصوبے سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کے مزیدمضبوط ہوتے رشتے میں رخنہ ڈالنے کے لیے امریکا کی جانب سے دونوں ملکوں کے درمیان بد گمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن پاکستانی قوم یہ جانتی ہے کہ بیجنگ اس کے سچے دوستوں کا شہر ہے جہاں سے ہمیں ۔
از ما بجز حکایت مہر و وفا مپرس
کی آواز آتی ہے۔
جنوبی ایشیاء کے لیے امریکا کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان راہدری منصوبے سے صرف چین کو فائدہ ہو گا جب کہ پاکستانی معیشت کو اس طویل مدتی منصوبے سے نقصان ہو گا کیونکہ اس معاہدے کی شرائط ایسی ہیں جن کو پاکستان کے لیے پورا کرنا مشکل ہو گا ۔ پاکستان اور چین کے درمیان راہدری منصوبے کو دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے لیے خطرہ خیال کرتی ہیں ۔
چین اس وقت دنیا کی ایک بڑی معیشت ہے جس نے امریکا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ایلس ویلز نے پاکستان میں امریکا کی جانب سے سرمایہ کاری کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس پاکستان کی ترقی کا چین سے بہتر ماڈل موجود ہے اور امریکا کی نجی کمپنیوں اور امریکی حکومت کی مدد سے پاکستان کو بہت سے فائدے پہنچ سکتے ہیں۔
امریکا کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہدری کا منصوبہ تیزی سے پایہ تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے اور بہت جلد یہ مکمل طور پر فعال بھی ہو جائے گا جس کو دنیا کی بڑی معیشتیں اپنے لیے خطرہ سمجھ رہی ہیں۔
اس لیے اس میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں اور امریکی سرمایہ کاری کی پیشکش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی اور امریکا کی نئی چال ہے۔ پاکستانیوں سے زیادہ امریکا کو کوئی نہیں جانتا ۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے ہم امریکی کیمپ کا حصہ رہے ہیں اور گزشتہ کئی دہائیوں سے تو امریکا افغانستان میں ہمارے ہمسائے کی شکل میں موجود ہے ۔ ایک ایسے ہمسائے کی شکل میں جس کے ساتھ ہم نے ایک اتحادی کے طور پر کام کیا ہے، اس لیے ہم اسے بہتر جانتے ہیں کہ وہ کس قسم کے ارادے رکھتا ہے اور اس کا مستقبل کا کیا پروگرام ہے۔
پاکستان کے حقیقی دوست چین کے بارے میں بات کی جائے تو چین اب وہ پرانا چین نہیں رہا، وہ اپنی بند سرحدوں سے نکل کر دنیا میں پھیل گیا ہے اور اس نے معاشی ترقی میں اتنی کامیابی حاصل کر لی ہے کہ وہ اب دوسرے ملکوں کی معیشتوں کا حصہ دار بن گیا ہے۔ اس کا مال دنیا کے مختلف بازاروں میں فروخت ہو رہا ہے، عالمی سیاست میں اس کی ایک اہمیت ہے لیکن چین کہتا ہے کہ ہمارے دنیا بھر سے تعلقات اپنی جگہ لیکن کوئی بھی تعلق پاکستان کی دوستی کی قیمت پر قائم نہیں ہو گا۔ چین کے سفیر نے امریکی بیان کا فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ضرورت ہوئی تو قرض واپس نہیں مانگیں گے۔ انھوں نے امریکا کو الزام تراشی سے پرہیز اور احتیاط کا مشورہ دیا ہے۔
گویا چین وہیں کھڑا ہے جہاں پہلے تھا ۔ مجھے یہاں بابائے چین ماؤزے تنگ کی ایک بات یاد آ رہی ہے جب ایک پاکستانی وفد چین میں اسلحہ لینے گیا تو انھوں نے پاکستانی وفد سے کہا کہ خیال رکھنا چواین لائی بہت کنجوس ہے، یہ پرانا اسلحہ دینے کی کوشش کرے گا، تم لوگ چوکنا رہنا ۔ گراں خواب چینیوں کو نئی زندگی دینے والے لیڈر کی پاکستان کے ساتھ یہ محبت کس قدر سنسنی خیز تھی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ امریکا کی پاکستان سے اچانک محبت کیسے جاگ گئی ہے، انھوں نے جس کی امداد بھی بند کی ہوئی ہے،اس ملک کی معیشت کے لیے سات سمند پار بیٹھ کر فکر مندی کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ دراصل امریکا کی یہ فکر اپنی معیشت کی فکر ہے جس کو چین سے خطرہ ہے گوادر کے راستے چینی مصنوعات کی دنیا بھر کے بازاروں تک رسائی آسان ہو جائے گی، اس لیے بڑے ملکوں کو یہ تشویش ہے کہ ان کی معاشی حالت کم قیمت چینی مصنوعات کی وجہ سے خراب ہو جائے گی۔
امریکا نے ہمیشہ اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے پاکستان کو استعمال کیا ہے اور اپنا مطلب نکال لینے کے بعد نگاہیں پھیر لینے میں دیر نہیں لگائی ۔ پاکستانی اس مطلب پرست امریکا کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ افغانستان اور سوویت یونین کی جنگ کی تلخیاں ابھی باقی تھیں کہ امریکا نے ہمیں ایک بار پھر اپنے مفادات کے لیے افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف استعمال کیا جس کو ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔ یعنی امریکا جب چاہے ہمیں استعمال کر لے اور ہماری بدقسمتی یہ کہ ہم استعمال ہونے اور امریکا کے دست نگر بننے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔
پاکستان اور چین کادوستی کا رشتہ کئی عشروں پر محیط ہے اور دونوں ملکوں نے اس رشتے کو خوبصورتی کے ساتھ نبھایا ہے، ہر مشکل کی گھڑی میں چین پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آیا ہے جب کہ امریکا ہر مشکل میں دوسری طرف کھڑا نظر آیا، پہلے پہل تو امریکا ڈپلومیسی سے کام لیتا تھا لیکن اب وہ کھلم کھلا پاکستان دشمنوں کا ساتھ دیتا ہے، صاف صاف الفاظ میں وہ پاکستان کی ترقی کے منصوبے کی مخالفت کر رہا ہے جب کہ پاکستان دنیا کے تمام ملکوں کو پاکستان کی ترقی کے اس اہم منصوبے میں پہلے سے ہی سرمایہ کاری کی پیشکش کر چکا ہے، اس منصوبے کے دور رس نتائج سے سبھی آگاہ ہیں ، اس لیے کوشش یہ کی جارہی ہے کہ اس منصوبہ کی تکمیل میں جس قدر تاخیر ہو سکے، وہ ان ممالک کے لیے فائدہ مند ہو گی جن کو اس منصوبے سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کے مزیدمضبوط ہوتے رشتے میں رخنہ ڈالنے کے لیے امریکا کی جانب سے دونوں ملکوں کے درمیان بد گمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن پاکستانی قوم یہ جانتی ہے کہ بیجنگ اس کے سچے دوستوں کا شہر ہے جہاں سے ہمیں ۔
از ما بجز حکایت مہر و وفا مپرس
کی آواز آتی ہے۔