عوام اِس احتساب پر یقین کیوں نہیں کرتے

ہمارے نظام عدل میں ابھی بہت سی خامیاں ہیں جنھیں دورکرنا بھی ہماری عدلیہ ہی کا کام ہے۔

mnoorani08@gmail.com

کرپشن اور مالی بد عنوانی کے الزامات کے تحت سول اور جمہوری حکمرانوں کو معزول کرنے اور اُن کے خلاف سخت اور کڑے احتساب کے سلسلے ہمارے یہاں کوئی نئے نہیں ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج بھی اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔

لیکن کیا وجہ ہے کہ احتساب کی یہ بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھ پاتی اور یہ سارا ڈرامہ اور کھیل اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ دراصل نیتوں کا فتور ہمیں کبھی کامیاب ہونے نہیں دیتا۔ ہم جب صرف چند مخصوص لوگوں کے خلاف اِس حربے کو استعمال کر کے انھیں عوام کی نظروں میں گرانے کی کوششیں کرتے ہیں اور اپنے چاہنے والے پیاروں اور عزیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں تو پھر اُس بلا امتیاز اور بالاتفریق احتساب کی ساری اہمیت و افادیت زائل ہوجاتی ہے۔

کسی بھی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف نادیدہ قوتوں کی جانب سے جب بھی کوئی بڑا تادیبی ایکشن ہوتا ہے تو پہلی فرصت میں اُسے اقتدار کے بلند وبالا ایوانوں سے بے دخل کرکے اُس پر مبینہ کرپشن اور قومی دولت لوٹنے کے بے تحاشہ الزامات لگا کر تحقیقات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔

قوم یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ جانے والا حکمراں واقعی بہت کرپٹ اور بد عنوان تھا اور آنے والے نئے حکمراں بہت پاکباز ، صادق اور امین ہیں۔ سابق حکمراں چاہے کرپٹ ہوں یا نہ ہوں مگر اُن کے خلاف اندیشوں اور مفروضوں پر مبنی سچے جھوٹے الزامات لگا کر انھیں اتنا بد نام کر دیا جاتا ہے کہ عوام کی اچھی خاصی تعداد اُس پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر اُن سے شدید متنفر ہو جاتی ہے لیکن جب اُن کے معاملات عدل و انصاف کی چھلنی کے گزرنے لگتے ہیں توساری حقیقت کھل کر عیاں ہو جاتی ہے۔ پروسیکیوشن کی جانب سے پیش کردہ سارے ثبوت وشواہد عدلیہ کی نظر میں پکوڑے بیچنے والے کاغذوں سے اہمیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ وہ سارے الزامات سے بری ہوکر ایک بار پھر مظلوم اور معصوم بن کر عوام کے دلوں میں گھر کرنے لگتے ہیں۔

ہمارے موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی یہی بات عدل و انصاف کے حوالے سے دہرائی ہے کہ عدلیہ کسی بھی فیصلے کے لیے پیش کیے گئے ثبوتوں پر انحصارکرتی ہے۔ خواہ وہ جرم بے شک ہوا ہو لیکن جب تک مبینہ مجرم کے خلاف پروسیکیوشن ثبوت فراہم نہیں کرے گا ، عدلیہ اُس ملزم کو مجرم نہیں بناسکتی۔ یہ نظریہ اور قانون ِ عدل ہمارے مذہب دین اسلام میں بھی موجود ہے۔ وہاں بھی گواہوں کو اہمیت دی گئی ہے۔ اُنکے بقول جب تک چارگواہ موجود نہیں ہونگے وہاں بھی کسی ملزم کے خلاف فیصلہ نہیں دیا جاتا۔

ہمارے نظام عدل میں ابھی بہت سی خامیاں ہیں جنھیں دورکرنا بھی ہماری عدلیہ ہی کا کام ہے۔ دیکھا گیا ہے کسی کو اسٹے آڈر دے کر معاملے کوکھٹائی میں ڈالنا بھی ہماری عدلیہ کی جانب سے ہوا کرتا ہے ۔ اِس کے لیے ہم کسی دوسرے کو الزام نہیں دے سکتے۔ اِسی طرح واضح طور پر ایک ثابت شدہ ملزم کوضمانت دے کر بری کر دینا بھی عدل کی فراہمی میں رخنے ڈالنے کے مترادف ہے۔ نقیب اللہ اچکزئی اور سانحہ ساہیوال میں ہم نے یہی دیکھا ہے کہ کس طرح واقعہ کے گواہوں کو منحرف بنایا جاتا ہے۔ جب آج کی عدلیہ خود کو کسی بھی دباؤ سے مبرا اور آزاد تصور کرتی ہے تو پھر ایسے فیصلے کیوں کیے جاتے ہیں جن سے اُس کی عزت و ناموس پر حرف آئے۔


آخرکیا وجہ ہے کہ بلدیہ فیکٹری اور 12مئی 2007ء کوکراچی میں ہونے والے واقعات ابھی تک حل طلب ہیں اور ہماری عدلیہ اُن پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ محترم چیف جسٹس کو اُن معاملات پر بھی ایک نظر کرنی چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ دس بارہ سال بعد بھی کراچی شہر میں ہونے والے اِس اندوہناک واقعہ کے اصل مجرم دندناتے پھر رہے ہیں۔

یہ کھلی دہشتگردی کا ایک ایسا سانحہ تھا جس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتی تھی۔ یہ دہشتگردی کوئی عام انسانوں کے خلاف نہیں تھی ، بلکہ ایک ایسے چیف جسٹس کی کراچی آمد کے خلاف تھی جسے وقت کے طاقتور حکمراں نے جبراً معزول کر دیا تھا اور جو بعد ازاں بحال بھی ہوا۔ غرور و تکبر کے ساتھ اُٹھائے گئے اُس طالع آزما حکمراں کے ہاتھوں کا حوالہ دیتے ہوئے ہمارے چیف جسٹس کراچی کے اِس سانحہ کے فیصلے کے بارے میں بھی کچھ یقین دہانی کروا دیتے توشاید ہمارے لوگوں کو عدلیہ کے آزاد ہونے کا یقین ہو جاتا۔ جنرل مشرف نے اپنے یہ دونوں ہاتھ اُسی شام کراچی کے اِس واقعہ پر اپنی طاقت کے نشے میں اُٹھائے تھے۔

ذکر ہو رہا تھا ملک میں جاری اُس بلا امتیاز سخت اور کڑے احتساب کا جس میں حکومت میں شامل تمام کرپٹ اور بد عنوان افراد آج بھی محفوظ ہیں۔ ہمارے نیب کے موجودہ چیئرمین جاوید اقبال نے گرچہ ہواؤں کے رخ کے بدل جانے کی بات کرتے ہوئے یہ عندیہ ضرور دیا ہے کہ نیب اب حکومت میں شامل افراد کے خلاف بھی کچھ کارروائیاں کرے گا۔ نیب کے پاس مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بہت سے ملزمان اپنے خلاف تحقیقات کے مراحل سے گزر رہے ہیں لیکن وہ تحقیقات ہیں کہ ختم ہی نہیں ہو پارہیں۔ اِن میں بہت سے توایسے ہیں جنھیں بلاوجہ پابند سلاسل کیا گیا ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو تو اپنی بے گناہی پر اتنا بھروسہ اور یقین ہے کہ انھوں نے ابھی تک اپنی ضمانت کی بھی کوئی درخواست کسی عدالت میں جمع نہیں کروائی ہے۔ اِسی طرح مفتاح اسمعٰیل اور رانا ثناء اللہ کے کیس بھی اتنے مشکوک اور غیر معتبر ہیں کہ اُن پر لگائے گئے مبینہ الزامات پر کسی کو یقین ہی نہیں آرہا۔ مگر نیب پروسیکیوٹر ہیں کہ جسمانی ریمانڈ پر ریمانڈ لیے جا رہے ہیں اورکوئی فیصلہ نہیں کر پارہے۔

جب احتساب اور انصاف ایسا ہوگا تو اُس پر انگلیاں تو اُٹھیں گی نا۔ سابق ریلوے منسٹر سعد رفیق بھی اپنے خلاف کچھ ایسے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں جن کی صحت و صداقت کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری اور اُن کے بہت سے ساتھی نیب کی حراست میں کئی ماہ سے زندگی گزار رہے ہیں مگر تحقیقات کا مرحلہ ہے کہ اختتام پذیر ہی نہیں ہو رہا۔ اِس سے پہلے ڈاکٹر عاصم علی اور ایان علی کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا گیا مگر وہ دونوں آج ضمانت پر رہا ہیں بلکہ بیرونِ ملک آرام وسکون سے رہ رہے ہیں۔ حسین لوائی کو گرفتار ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن نیب ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر پایا ہے۔

جب عدل و انصاف کا معیار یہ ہوگا تو پھر اُس پر قوم کا اعتماد اور اعتبار تو یقینا مجروح ہوگا۔ پھر انصاف کے ذمے داروں کا یہ شکوہ بجا نہیں ہے کہ لوگ اُن پر اعتماد نہیں کرتے۔ عوام تو عدل و انصاف فراہم کرنے والوں کے عزم کی پختگی کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اِس منصب پر ایسے لوگوں کو دیکھناچاہتے ہیں.

جن کا ماضی صاف اور بے داغ ہو اور جو سیاسی اپنے سیاسی عزائم اور وابستگی سے بے نیاز ہو کر کرپٹ اور بدعنوانوں کا بلا امیتاز محاسبہ کر سکیں خواہ اُن کا تعلق کسی جماعت سے ہو۔ ایسا محاسبہ نہ ہوجس میں اپنے پسندیدہ چہروں کا نقشہ جمانا اور نامطلوب افراد کا راستہ روکنا مقصود ہو۔ محاسبہ اندھا ، گونگا اور بہرہ ہونا چاہیے۔ وہ کسی بھی ان دیکھے دباؤ سے آزاد اور بے باک اور نڈر ہو۔ تبھی جا کر عوام کو اُس پر اعتبار اور یقین ہوگا۔ ورنہ ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی شروع ہونے والا یہ احتساب کا سلسلہ دم توڑتی آرزؤں کا المیہ اور تشنہ تعبیر رہ جانے والے خوابوں کا نوحہ ہی ثابت ہوگا۔
Load Next Story