انتظامی تبدیلیاں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کو روک پائیں گی

اطلاعات باخبر حلقوں میں گردش کر رہی ہیں کہ عمران خان اب سردار عثمان بزدار کی کارکردگی سے مکمل مایوس ہو چکے ہیں۔

اطلاعات باخبر حلقوں میں گردش کر رہی ہیں کہ عمران خان اب سردار عثمان بزدار کی کارکردگی سے مکمل مایوس ہو چکے ہیں۔

پاکستان کی سیاست اور حکومت میں گزشتہ 4 دنوں سے سونامی آیا ہوا ہے۔وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے تحریک انصاف کور کمیٹی کے اجلاس میں پنجاب حکومت کی کارکردگی بالخصوص بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے میں ناکامی پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ کپتان اپنے ''وسیم اکرم پلس'' کی پرفارمنس سے مایوس ہو گئے ہیں،گزشتہ 15 مہینوں سے وہ سردار عثمان بزدار کو اپنے پروں تلے محفوظ رکھتے ہوئے تمام تنقید اور نتائج خود برداشت کر رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ یہی بیان دیا کہ جب تک پنجاب میں ہماری حکومت رہے گی تب تک سردار عثمان بزدار ہی وزیر اعلیٰ برقرار رہیں گے، لیکن اب سردار عثمان بزدار کی غیر تسلی بخش کارکردگی کا ''بوجھ'' اتنا بڑھ گیا ہے کہ اسے مزید اٹھائے رکھنا عمران خان کے بس میں نہیں رہا ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں سے یہ اطلاعات باخبر حلقوں میں گردش کر رہی ہیں کہ عمران خان اب سردار عثمان بزدار کی کارکردگی سے مکمل مایوس ہو چکے ہیں اور انہیں ادراک ہو گیا ہے کہ جتنی بھی کوشش کر لی جائے اس بنجر زمین پر کارکردگی کی کھیتی نہیں اگائی جا سکتی۔تحریک انصاف کے اہم ترین رہنماوں کے مطابق سردار عثمان بزدار کو ''باضابطہ'' طور پر آخری وارننگ اور آخری موقع فراہم کردیا گیا ہے اور عثمان بزدار کے اس شکوہ کہ''بیوروکریسی میرے ساتھ تعاون نہیں کر رہی'' کو دور کرنے کیلئے پنجاب میں تاریخ کی سب سے بڑی ٹرانسفر پوسٹنگ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کور کمیٹی اجلاس میں ابتدائی فیصلہ کیا گیا تھا کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو تبدیل نہیں کیا جائے گا لیکن گزشتہ روز ''یو ٹرن'' لیتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی کے عہدوں پر بھی تبدیلی لائی جائے گی جس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ میجر (ر) اعظم سلمان کو نیا چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کردیا گیا ہے۔

سابق چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر کو چوہدری پرویز الٰہی کے نہایت قریب سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ چند ماہ قبل بھی جب چیف سیکرٹری کو تبدیل کرنے کی بات چلی تھی تو اس وقت بھی مسلم لیگ(ق) کی قیادت کی وجہ سے تبدیلی ملتوی کرد ی گئی تھی۔اعظم سلمان ایک منجھے ہوئے مضبوط اعصاب کے مالک افسر ہیں جو پنجاب کے انتظامی داؤ پیچ کو بخوبی سمجھتے ہیں اوران کی تعیناتی کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے کی بیوورکریسی میں واضح تبدیلی دکھائی دے گی، وزیراعظم نے اعظم سلمان کی تعیناتی براہ راست اپنی مرضی سے کی ہے اور انہیں پنجاب میں نئی بیوروکریٹک ٹیم بنانے کے لیے فری ہینڈ دیا ہے۔آئی جی پنجاب کے عہدے پر بھی تبدیلی متوقع ہے اور نئے پولیس سربراہ کیلئے موزوں افسر کی تلاش جاری ہے۔


پنجاب میں گزشتہ 15 ماہ کے دوران تعینات ہونے والے تمام آئی جی ''ناکام'' قرار دیئے گئے ہیں ،موجودہ پولیس سربراہ عارف نواز خان کے حوالے سے خود ان کے ماتحت سینئر پولیس افسروں کی بڑی تعداد ''آف دی رکارڈ'' بہت تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے۔وزیر اعظم کے ساتھ وزیر اعلی کی گزشتہ دو ملاقاتوں کے دوران انتظامی تبدیلیوں کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے،کچھ نام شارٹ لسٹ بھی کئے گئے ہیں جبکہ ایڈمنسٹریٹو سیکرٹری، ڈی جی، کمشنر، آر پی او، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او عہدوں پر بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کیلئے فائل ورک بھی شروع ہے۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کچھ افسروںکو صوبہ بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔

ابتدائی فیصلہ تو فوری تبدیلیوں کا تھا لیکن اب گزشتہ روز سپریم کورٹ کی جانب سے ایک بڑے عدالتی حکم کے بعد شاید تبدیلیوں کا عمل چند روز کیلئے موخر کردیا جائے یا پھر بیک وقت آرڈر کرنے کی بجائے مرحلہ وار نوٹیفیکیشن جاری ہوں جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر چیف سیکرٹری اور آئی جی کو تبدیل کرنا ہے تو پھر نئے چیف سیکرٹری اور آئی جی کی تعیناتی کے بعد ان کی مشاورت سے تقرر وتبادلے کرنا زیادہ سودمند ثابت ہوگا۔

سردار عثمان بزدار کے دور اقتدار میں بیوروکریسی میں تقرر وتبادلوں کا عمل متنازعہ رہا ہے، ایک افسر ابھی محکمہ میں آکر اسے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ اسے تبدیل کردیا جاتا ہے ،اتنی تیزی اور تسلسل سے ٹرانسفر پوسٹنگ ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی بہت بد دل ہوچکی ہے ۔پنجاب میں سیاسی سفارش کی بنیاد پر تبادلوں کے علاوہ بھی تقرر وتبادلوںکی ''منڈی'' لگی ہوئی ہے ۔

پنجاب بیوروکریسی کو بھی وزیر اعلی سے بہت شکوے شکایات ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ ایوان وزیر اعلی میں ان کی جانب سے بھیجی گئی سمریوں کو بلا جواز موخر کیا جاتا ہے، غیر ضروری اعتراض عائد کیئے جاتے ہیں جبکہ اجلاسوں کے دوران وزیر اعلیٰ پوری طرح سے بریف ہو کر نہیں آتے ،وزیر اعلی کے چند PSO افسروں کے حوالے سے بھی بہت کچھ کہا جارہا ہے جبکہ بیوروکریسی یہ بھی چاہتی ہے کہ وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کے عہدے پر ''پاکستان ایڈ منسٹریٹو سروس'' کا کوئی سینئر افسر تعینات کیا جائے جسے معاملات پر مکمل گرفت بھی ہو اور وہ صوبے کے دیگر ڈی ایم جی افسروں کے ساتھ بلا جھجک مکمل اعتماد اور طاقت کے ساتھ بات کر سکے۔

پنجاب کابینہ میں تبدیلیوں کا معاملہ کئی ماہ سے التواء کا شکار ہے لیکن اب اسے نبٹانا ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ8 یا10 وزراء کو الگ کر کے باقی تمام وزراء کی کارکردگی نہایت مایوس کن ہے ،صرف محکمے بدلنے سے کام نہیں چلے گا چند وزیروں کو گھر بھیجنا ہی ان کی ابتک کی ''کارکردگی'' کی سب سے کم سزا ہو گی۔ چیئرمین نیب نے موجودہ حکومت کے معاملات کی جانچ پڑتال کا جو اعلان کیا ہے وہ اس لیئے قابل غور اور اہم ہے کیونکہ بعض وزراء کے حوالے سے یہ اطلاعات زیر گردش ہیں کہ وہ ''کارروائی'' ڈال رہے ہیں ۔

تحریک انصاف کے اپنے اراکین اسمبلی اور رہنما نجی محفلوں میں نام لیکر کہتے پھر رہے ہیں کہ فلاں وزیر نے فلاں جگہ غلط اقدامات کیئے ہیں۔سردار عثمان بزدار کو تحریک انصاف والے ''پیرا شوٹر'' سمجھتے ہیں جبکہ ریاستی ادارے بھی ان کی پرفارمنس سے خوش نہیں ہیں، میڈیا میں بھی سب سے زیادہ تنقید وزیر اعلی پنجاب پر ہوتی ہے ،کپتان کی اپنے وسیم اکرم پلس سے بڑھتی بے اطمینانی ثابت کرتی ہے کہ پیاء کے من کو کوئی دوسرا بھاہ گیا ہے ۔آنے والے 100 دن تحریک انصاف کیلئے بھی اہم ہیں اور سردار عثمان بزدار کیلئے بھی۔پنجاب کی انتظامی تبدیلیوں سے بھی نتائج نہ برآمد ہوئے تو بڑے کپتان کو چھوٹا کپتان بدلنا پڑے گا۔
Load Next Story