قفس میں قید کشمیری
کشمیر کے چار رنگ شہیدوں کے لہو سے سرخ ہیں۔
بھارت کسی اور معاملے میں دنیا کے ریکارڈز میں اضافہ کرسکا یا نہیں ، لیکن مقبوضہ کشمیر میں اس نے یقینا طویل المدت غاصبانہ کرفیوکا ریکارڈ ضرور قائم کر دیا ہے۔ ایک سو پندرہ دن ہونے کو ہیں اور وہاں معمولات زندگی بحال نہیں ہوئے۔
اس قدر طویل کرفیو نے سب ہی شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے تھوڑی دیر کو سوچیے چند دنوں کے کرفیو سے کس طرح زندگی میں ہلچل ہو جاتی ہے خوراک، دوائیاں، اسکول، روزگار کس قدر متاثر ہوتے ہیں اور یہ تو سو سے بھی اوپر دن ہونے کو آئے ہیں کیسے گزر بسر ہو رہی ہوگی، مائیں شیر خوار بچوں کو کیسے دلاسے دیتی ہوں گی بزرگ و بیمار کس طرح اپنی دوائیاں حاصل کرتے ہوں گے ، اتنے ہفتے ان تکلیفوں کو جھیل رہے ہوں گے، جو ہم سے ایک دن دوا نہ ملنے کی صورت میں برداشت نہیں ہوتیں۔
تعلیمی ادارے بند ہیں نظام زندگی مفلوج ہو چکا ہے انٹرنیٹ، موبائل دنیا سے رابطے کے سارے وسائل پر پابندی ہے، مارکیٹیں بند ، سڑکیں ویران ہیں روزانہ کمانے والے کاروبار، کھیتوں باغوں کا گلشن کس طرح چلتا ہو گا ، کیا سب اجڑ نہیں گیا ہو گا۔ محض ایک زمین کے چھوٹے ٹکڑے کی لالچ میں سب کچھ اپنی انا کے بھینٹ چڑھا دینا کہاں کا انصاف ہے اور یہ دنیا کا انصاف کرنے والے ادارے کہاں سوئے ہوئے ہیں انھیں مظلوموں کی آہ و زاری، بھوک، دکھ تکلیفیں لاچاری کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ آخر یہ ظلم و جبر کا طوفان کب تھمے گا؟
کشمیر کے چار رنگ شہیدوں کے لہو سے سرخ ہیں۔ اس میں 72 سال کا طویل سفر اور تین نسلوں کا خراج شامل ہے جو اس بے نظیر وادی کو آزادی کی قیمت ادا کرتے نہیں تھکتے اور آزادی دلانے تک نہ کبھی ہاریں گے۔ کشمیر جو پندرہویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک مسلمانوں کا تھا انگریزوں نے اس جنت ارض وطن کو ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں محض 75 لاکھ نانک شاہی روپیہ کے فروخت کیا۔
اس وقت کے حساب سے یہاں کے باشندوں کی قیمت سات روپے فی کس پڑی تھی۔ 24 اکتوبر 1947ء کو جموں وکشمیر کے عوام نے اپنی آزادی کا اعلان کیا ، جسے بٹوارے کے بعد پاکستان میں شامل ہونا تھا مگر بدقسمتی سے اس وقت کے وائسرائے اور ہندو لیڈروں کی شاطرانہ منصوبہ بندی نے اس کو غلامی کا طوق پہنا دیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ ریاست چھوڑکر بھاگ گیا۔ بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں اتار دیں، مجاہدین بھارتی حکومت کے خلاف جہاد میں مصروف عمل ہو گئے جو آج تک جاری ہے۔
اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے پنڈت جواہر لال نہرو کے بین الاقوامی سطح پر یہ جھوٹے دعوے کہ بھارت جموں کشمیر کی آزادی کا فیصلہ غیر جانبداری سے وہاں کے باشندوں کی مرضی سے کرائے گا۔ یو این کمیشن نے تجویز پیش کی تھی کہ کشمیر سے بھارتی افواج کے انخلا کا فیصلہ ایک ثالث کے ذریعے طے کروایا جائے پاکستان نے اسے قبول کر لیا مگر بھارت نے ترامیم سے تمام تجاویز عملی طور پر مسترد کر دیں۔
اس دوران پاکستان نے مسئلے کے حل کی خاطر سلامتی کونسل میں کئی کانفرنسیں کروائیں۔ 1950ء میں بھارت کے اپنے نئے آئین کے تحت انڈیا کو مقبوضہ کشمیر میں اپنی مرضی کے قوانین نافذ کرنے کا حق حاصل ہو گیا۔ اس نے نام نہاد آئین کے ذریعے کشمیر میں انتخاب کرائے اورکٹھ پتلی لیڈر شیخ عبداللہ کو صدر بنا کر اس کی ڈور دہلی کے تخت سے باندھ لی۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ جمانے کے لیے جس مجرمانہ غفلت، مکاری اور سازشی جارحیت سے کام لیا اس کی حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے۔
بھارتی افواج نے عام کشمیریوں سے ہتک آمیز سلوک، خواتین کی بے حرمتی، شناخت پریڈ، گھر گھر تلاشی اور کریک ڈاؤن کے نام پر حقارت بھرا رویہ اپنایا ہوا ہے جس نے کشمیریوں کی قومی انا کو زخمی کر دیا۔ کشمیر میں بھارت سے نفرت اور سیاسی اضطراب پہلے ہی موجود تھا ان حرکتوں نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں نے بھارت کا یوم آزادی ہمیشہ یوم سیاہ کے طور پر منایا ہے۔
اس وقت کشمیر میں ہر دس کشمیریوں کے لیے ایک فوجی تعینات ہے، 6 ہزار اجتماعی قبریں ہیں جن میں ہزار ہا حراست میں ہیں۔ ان بے گناہ کشمیریوں کو تشدد کے بعد شہید کیا گیا۔ ہزاروں بچے یتیم ہیں عصمت دری کے سب سے زیادہ واقعات کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہو رہے ہیں۔ پیلٹ گنوں و دیگر جدید اسلحے کے استعمال کی بھارتی فوج کو کھلی اجازت ہے۔ نوجوان مستقبل سے مایوس ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اس وقت دنیا کا متنازعہ ترین علاقہ ہے ، سلامتی کونسل میں 18 قراردادیں اور عمران خان کی پر اثر تقریر بھی اب تک کشمیریوں کو انصاف نہیں دلا سکی۔
ہیومن رائٹس کے مطابق جنوری 1989ء سے 31 دسمبر 2004ء تک ایک لاکھ سے زائد انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کشمیر میں سات سو نو قبرستان شہیدوں سے مزین اپنے چراغ سحری کا انتظار کر رہے ہیں۔ کشمیریوں کو اپنے لیڈروں اور قیادت پر اعتماد ہے۔ تازہ خبروں کے مطابق اب ان لیڈروں کی جائیدادیں بھی ضبط کر لی گئی ہیں لیکن وہ پرعزم ہیں کہ ان کے محب وطن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک کشمیر کو آزاد نہ کرا لیں۔ سخت پہرے، پابندیوں کے باوجود بھارتی جیلوں میں قید کشمیری لیڈرز مجاہدین عام کشمیریوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔ غاصب بھارتی افواج کی قید میں جکڑے کشمیری اپنی اساس، اپنے چمن کی آزادی کے لیے طوفان بن کر بھارتی افواج پر پل پڑے ہیں۔
کہاں ایک طرف جدید اسلحے، مارٹر گولے، میزائل بم سے لیس تربیت یافتہ چار گنا زیادہ بڑی فوج اور دوسری جانب جنون آزادی میں محض پتھروں سے مقابلے کے لیے کمربستہ محصورین پرعزم کہ جسے جینا ہے وہ مرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ جب نشیمن ہی نہیں تو قفس سے آزادی کی یہی سبیل ہے۔ راستہ دشوار ہے منزل نظر نہیں آتی لیکن سرفروشان وطن کے آگے اجل زندگی سے کانپتی ہے۔ دنیا میں بڑی حیرت انگیز جغرافیائی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ایک دن بھارت کو کشمیر کا فیصلہ کرنے کا حق خود اس کے باشندوں کو دینا ہی ہو گا۔ ہمیں یقین ہے قفس میں قید کشمیری عوام کے گلے میں بندھا غلامی کا طوق آزادی میں ضرور تبدیل ہو گا۔
اس قدر طویل کرفیو نے سب ہی شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے تھوڑی دیر کو سوچیے چند دنوں کے کرفیو سے کس طرح زندگی میں ہلچل ہو جاتی ہے خوراک، دوائیاں، اسکول، روزگار کس قدر متاثر ہوتے ہیں اور یہ تو سو سے بھی اوپر دن ہونے کو آئے ہیں کیسے گزر بسر ہو رہی ہوگی، مائیں شیر خوار بچوں کو کیسے دلاسے دیتی ہوں گی بزرگ و بیمار کس طرح اپنی دوائیاں حاصل کرتے ہوں گے ، اتنے ہفتے ان تکلیفوں کو جھیل رہے ہوں گے، جو ہم سے ایک دن دوا نہ ملنے کی صورت میں برداشت نہیں ہوتیں۔
تعلیمی ادارے بند ہیں نظام زندگی مفلوج ہو چکا ہے انٹرنیٹ، موبائل دنیا سے رابطے کے سارے وسائل پر پابندی ہے، مارکیٹیں بند ، سڑکیں ویران ہیں روزانہ کمانے والے کاروبار، کھیتوں باغوں کا گلشن کس طرح چلتا ہو گا ، کیا سب اجڑ نہیں گیا ہو گا۔ محض ایک زمین کے چھوٹے ٹکڑے کی لالچ میں سب کچھ اپنی انا کے بھینٹ چڑھا دینا کہاں کا انصاف ہے اور یہ دنیا کا انصاف کرنے والے ادارے کہاں سوئے ہوئے ہیں انھیں مظلوموں کی آہ و زاری، بھوک، دکھ تکلیفیں لاچاری کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ آخر یہ ظلم و جبر کا طوفان کب تھمے گا؟
کشمیر کے چار رنگ شہیدوں کے لہو سے سرخ ہیں۔ اس میں 72 سال کا طویل سفر اور تین نسلوں کا خراج شامل ہے جو اس بے نظیر وادی کو آزادی کی قیمت ادا کرتے نہیں تھکتے اور آزادی دلانے تک نہ کبھی ہاریں گے۔ کشمیر جو پندرہویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک مسلمانوں کا تھا انگریزوں نے اس جنت ارض وطن کو ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں محض 75 لاکھ نانک شاہی روپیہ کے فروخت کیا۔
اس وقت کے حساب سے یہاں کے باشندوں کی قیمت سات روپے فی کس پڑی تھی۔ 24 اکتوبر 1947ء کو جموں وکشمیر کے عوام نے اپنی آزادی کا اعلان کیا ، جسے بٹوارے کے بعد پاکستان میں شامل ہونا تھا مگر بدقسمتی سے اس وقت کے وائسرائے اور ہندو لیڈروں کی شاطرانہ منصوبہ بندی نے اس کو غلامی کا طوق پہنا دیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ ریاست چھوڑکر بھاگ گیا۔ بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں اتار دیں، مجاہدین بھارتی حکومت کے خلاف جہاد میں مصروف عمل ہو گئے جو آج تک جاری ہے۔
اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے پنڈت جواہر لال نہرو کے بین الاقوامی سطح پر یہ جھوٹے دعوے کہ بھارت جموں کشمیر کی آزادی کا فیصلہ غیر جانبداری سے وہاں کے باشندوں کی مرضی سے کرائے گا۔ یو این کمیشن نے تجویز پیش کی تھی کہ کشمیر سے بھارتی افواج کے انخلا کا فیصلہ ایک ثالث کے ذریعے طے کروایا جائے پاکستان نے اسے قبول کر لیا مگر بھارت نے ترامیم سے تمام تجاویز عملی طور پر مسترد کر دیں۔
اس دوران پاکستان نے مسئلے کے حل کی خاطر سلامتی کونسل میں کئی کانفرنسیں کروائیں۔ 1950ء میں بھارت کے اپنے نئے آئین کے تحت انڈیا کو مقبوضہ کشمیر میں اپنی مرضی کے قوانین نافذ کرنے کا حق حاصل ہو گیا۔ اس نے نام نہاد آئین کے ذریعے کشمیر میں انتخاب کرائے اورکٹھ پتلی لیڈر شیخ عبداللہ کو صدر بنا کر اس کی ڈور دہلی کے تخت سے باندھ لی۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ جمانے کے لیے جس مجرمانہ غفلت، مکاری اور سازشی جارحیت سے کام لیا اس کی حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے۔
بھارتی افواج نے عام کشمیریوں سے ہتک آمیز سلوک، خواتین کی بے حرمتی، شناخت پریڈ، گھر گھر تلاشی اور کریک ڈاؤن کے نام پر حقارت بھرا رویہ اپنایا ہوا ہے جس نے کشمیریوں کی قومی انا کو زخمی کر دیا۔ کشمیر میں بھارت سے نفرت اور سیاسی اضطراب پہلے ہی موجود تھا ان حرکتوں نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں نے بھارت کا یوم آزادی ہمیشہ یوم سیاہ کے طور پر منایا ہے۔
اس وقت کشمیر میں ہر دس کشمیریوں کے لیے ایک فوجی تعینات ہے، 6 ہزار اجتماعی قبریں ہیں جن میں ہزار ہا حراست میں ہیں۔ ان بے گناہ کشمیریوں کو تشدد کے بعد شہید کیا گیا۔ ہزاروں بچے یتیم ہیں عصمت دری کے سب سے زیادہ واقعات کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہو رہے ہیں۔ پیلٹ گنوں و دیگر جدید اسلحے کے استعمال کی بھارتی فوج کو کھلی اجازت ہے۔ نوجوان مستقبل سے مایوس ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اس وقت دنیا کا متنازعہ ترین علاقہ ہے ، سلامتی کونسل میں 18 قراردادیں اور عمران خان کی پر اثر تقریر بھی اب تک کشمیریوں کو انصاف نہیں دلا سکی۔
ہیومن رائٹس کے مطابق جنوری 1989ء سے 31 دسمبر 2004ء تک ایک لاکھ سے زائد انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کشمیر میں سات سو نو قبرستان شہیدوں سے مزین اپنے چراغ سحری کا انتظار کر رہے ہیں۔ کشمیریوں کو اپنے لیڈروں اور قیادت پر اعتماد ہے۔ تازہ خبروں کے مطابق اب ان لیڈروں کی جائیدادیں بھی ضبط کر لی گئی ہیں لیکن وہ پرعزم ہیں کہ ان کے محب وطن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک کشمیر کو آزاد نہ کرا لیں۔ سخت پہرے، پابندیوں کے باوجود بھارتی جیلوں میں قید کشمیری لیڈرز مجاہدین عام کشمیریوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔ غاصب بھارتی افواج کی قید میں جکڑے کشمیری اپنی اساس، اپنے چمن کی آزادی کے لیے طوفان بن کر بھارتی افواج پر پل پڑے ہیں۔
کہاں ایک طرف جدید اسلحے، مارٹر گولے، میزائل بم سے لیس تربیت یافتہ چار گنا زیادہ بڑی فوج اور دوسری جانب جنون آزادی میں محض پتھروں سے مقابلے کے لیے کمربستہ محصورین پرعزم کہ جسے جینا ہے وہ مرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ جب نشیمن ہی نہیں تو قفس سے آزادی کی یہی سبیل ہے۔ راستہ دشوار ہے منزل نظر نہیں آتی لیکن سرفروشان وطن کے آگے اجل زندگی سے کانپتی ہے۔ دنیا میں بڑی حیرت انگیز جغرافیائی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ایک دن بھارت کو کشمیر کا فیصلہ کرنے کا حق خود اس کے باشندوں کو دینا ہی ہو گا۔ ہمیں یقین ہے قفس میں قید کشمیری عوام کے گلے میں بندھا غلامی کا طوق آزادی میں ضرور تبدیل ہو گا۔