ہم گردوں کے امراض سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں
پاکستان میں2.4 ملین اموات کا سبب بننے والی بیماریوں کا تعلق گردوں سے ہوتا ہے
غذاء کا تغیر و تبدل جہاں مثبت نتائج برآمد کرتاہے وہاںغذا کی بیاعتدالی پُرخطر نتائج کا سبب بھی بنتی رہی ہے۔
دورحاضر میں پاکستان میں2.4 ملین اموات کا سبب بننے والی بیماری گردے کی بیماری (امراض کلیہ) ہے اور اس کی تعداد بڑھ رہی ہے، تعدادکے بڑھنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مرض میں مبتلا شخص سمجھتا ہے کہ اسے کوئی دوسرا مرض لاحق ہے، یوں وہ گُردوں پر توجہ نہیں دیتا کیونکہ ان کے نزدیک انہیں بول وبراز کی مقدار معتدل آتی ہے بلکہ اصل بات بول کے قوام ،بو،اور رنگ(لُون)پر منحصر ہوتی ہے۔بار بار مداومت کرنے پرجواب ملتا ہے کہ فلاں بوڑھے طبیب کا قول ہے کہ معدے میںورم ہے مگر چند سال بعد وہ''نیفرولوجی ڈیپارٹمنٹ '' کے بستر پر نظر آتے ہیں۔ گردے کی بیماری کبھی یکدم لاحق نہیں ہوتی،رفتہ رفتہ لاحق ہوتی ہے، جو بھی بیماری ٹھہرٹھہر کے پیدا ہوتی ہے وہ کافی دیر سے جاتی ہے۔
اسباب:
1۔ موٹاپا ، 2۔ فشارالدم،3۔ پکوان کا بے جا استعمال،4۔ گدلا پانی پینا، 5۔ ذیابیطس،6۔ کم معیار کی غذاء،7۔ زیادہ گرم ادویہ کا استعمال، 8۔جگر کے امراض،9۔ کم پانی پینا اور زیادہ مشقت، 10۔ زیادہ تیزابیت پیدا کرنے والی خوراک۔
وضاحت:
1۔ پانی ہمیشہ صاف اور معتدل القوام استعمال کریں،جس کی نشانی یہ ہے کہ صحت افزاء پا نی جلد ٹھنڈا اور اُبالنے پر جلد گرم ہوتا ہے، نیز اس کا ذائقہ لیس دار نہیں ہوتا، اصطلاح میں قابل استعمال پانی کو''سافٹ واٹر اور غیر قابل استعمال پانی کو ہارڈ واٹر '' کہتے ہیں ۔
2۔ نمک کا معتدل استعمال کریں یعنی بعض حضرات کو سستی ہوتی ہے تو سمجھتے ہیں کے ان کا بلڈپریشر کم ہے،چیک کیے بغیر نمک کا زیادہ استعمال شروع کر دیتے ہیںجس کے نتیجے میںبرق پاشیدوں کا توازن (الیکٹرولائٹ بیلنس) خراب ہوجاتا ہے، اور گردہ متاثر ہوتا ہے، ایسے حضرات ''ہائی بلڈپریشر'' میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، یہ اشخاص امراضِ قلب کی ادویہ لینے لگتے ہیں،اکثر ادویہ قلب گردے کے لیئے مضر ہوتی ہیں۔
3۔ موٹاپا: دیکھنے میں مریض موٹا دکھائی دیتا ہے مگر طبی نگاہ میں موٹے اشخاص میں ''ان فلٹریشن'' کا انعقاد ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تم دیکھو گے کہ اکثر موٹاپے کے شکار حضرات ''یورک ایسڈ''کے مسائل سے دوچار ہیں۔
4۔گدلا پانی: مسافر حضرات کو چاہیے کہ اپنے ساتھ پانی اور خوراک ضرور لے جایا کریں کیونکہ زیادہ پیاس کی موجودگی اس امر پر مجبور کرتی ہے کہ جو پانی میسر ہے وہی پئیں۔ اکثر گدلا پانی گرد یمیں پتھری پیدا کرتا ہے جسم میں خشکی لاتا ہے۔ یہی حال غذا کا ہے۔ کم معیاری غذا سے ہماری مراد ایسی غذا ہے جس میں گھی اور مصالحے کی غلط مقدار کا استعمال ہے جو اکثر باورچی کر لیتے ہیں، گھی کی زیاد ہ مقدارہ خلیات، معدے اور آنتوں پر بھی بوجہ بنتی ہیں،بالکل اسی طرح کہ کوئی گھی کو کپڑے سے چھاننے کی کوشش کرے،جو کیفیت کپڑے کی ہو گی وہی ہماری اعضاء کی ہوتی ہے۔
5۔ادویہ ہوں یا اغذیہ، ان کی ایک تاثیر اور مزاج ضرور ہوتا ہے، علم طب میںہر طالب علم کو چار مزاج کا علم سکھایا جاتا ہے،کچھ اشخاص کثرت سے کالی پتی کے قہوے ، بغیر اصلاح کیے استعمال کرتے ہیں، کچھ اشخاص گرم مصالحے بکثرت استعمال کرتے ہیں،جس سے گردے کی چربی متاثر ہوتی ہے۔اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ایلو پیتھک ادویہ سردی، گرمی، تری اور خشکی جیسی کیفیات کی حامل نہیں ہیں۔ اگر وہ درست ہیں تو ان میں بعض ادویہ معدے میں ایسا السر پیدا کرتی ہیں جن کا مندمل ہونا دشوار ہوتا ہے۔ طب میں ایسی دوا گرم خشک چہارم درجے میں کہلاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایلو پیتھی ادویہ بھی ایک خاص کیفیت ضرور رکھتی ہیں ان کا لحاظ رکھ کر استعمال کرانا چاہیے۔
6۔ گردہ اور جگر ایک دوسرے کے اثرات کوقبول کرتے ہیں ، جب گردہ متاثر ہوتو جگر ضرور اثر پاتا ہے، اسی طرح اگر جگر متاثر ہو تو گردہ اثر قبول کرتا ہے اسی لیے دیکھناکہ یرقان میں مبتلا فرد کے بول کا لُون (رنگ) اُترجی (مالٹائی)ہوتا ہے۔
7۔ زیادہ تیزابیت پیدا کرنے والی اشیاء کے استعمال سے خون میں تیزابیت بڑھتی ہے، لہذا گردے کو زیادہ کام کرنا ہوتا ہے،کیونکہ گردہ خون کو قلوی یا تیزابی ہونے سے بچاتا ہے۔
احتیاط:
1۔ پانی کی کثیر مقدار استعمال کریں، پانی کا معیار ی ہونالازمی ہے۔
2۔بول وبراز کے رنگ کو ضرور ی مدِّنظر رکھیں۔
3۔ پھل،سبزیاں ضرور استعمال کریں۔
4۔کوئی بے اعتدالی ہو جائے تو تدارک لازمی کریں مثلاََگدلاپانی پی لیا جائے تو مدّرِ بول (بول آور) یا غذا ضرور کھائیں۔
5۔ میوہ جات استعمال کرتے وقت یہ ضرور خیال رکھیں کہ ایک میوہ اگلے کی اصلاح کرے جیسے بادام لیں تو ساتھ پستہ،اخروٹ کے ساتھ کشمش وغیرہ۔
6۔نمک کا زیادہ استعمال نہ کریںتاہم حسب ذائقہ استعمال صحت مند رہنے کے لئے ضروری ہے۔
7۔ پوٹاشیم ملی ادویہ کا بے جا استعمال غلط ہے۔
8۔ تمباکو سے پرہیز کریں۔
9۔ جو اشخاص سمجھتے ہیں کہ ان کا گردہ کمزور ہے یا ان کے آباء و اجداد میںگردے کے مبتلا حضرات گزرے ہیں، انہیں ہفتے میں کم ازکم ایک بار ضرورگردہ صاف کرنا چاہئے، اس کا طریقہ کار درج ذیل ہے: ۔
رات سوتے وقت ککرنڈا کی جڑ، اجمود،سونف، ادرک کا قہوہ تیار کریں اور گوکھرو خورد کے سفوف کے ساتھ استعمال کریں۔
گردے کی کمزوری کی علامات:
1۔ بول کی مقدار کا بدلنا۔گاہے بکثرت آتا ہے گاہے قلیل آتا ہے۔
2۔غذا کے ہضم میں خرابی۔
3۔ معدے میں درد۔
4۔ گردے کے مقام ، کبھی مثانے کے اور کبھی حالبین (یوریٹر) کے مقام میں جلن۔
5۔ہتھیلی اور تلوؤں میں گرمی کا احساس (کیونکہ خون میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے)۔
6۔ بول کی بو میں غیر معمولی تبدیلی۔
7۔ خون کی کمی۔
8۔جسم میں بھر بھراہٹ اور ورم (ایڈیما)۔
9۔ بائی کاربونیٹ کی زیادتی۔
لیب ٹیسٹ:
بنیادی طور پر دو لیب ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں:
1۔ ایلبومینٹ ٹو کری ٹی نائن ریشو یورین ٹیسٹ، 2۔گلومیولر فلٹریشن ریٹ بلڈٹیسٹ
امراض گردہ کا علاج:
سوائے موت کے ہر بیماری کا علاج ربّ نے پیدا فرمایا ہے (الحدیث)۔ گردے ناکارہ ہونے کا علاج ڈائیالیسز کے علاوہ مدّرِ بول ادویہ مع مصفی خون سے ممکن ہے مگرمریضا اور معالج دونوں میں استقامت اختیار کریں۔ یاد رکھیں کہ شفاء رب کے ہاتھ میں ہے معالج کے پاس کچھ نہیں ، دواء استعمال کرنا سنت سے ثابت ہے۔ درج ذیل ادویہ مجرب ہیںہر حال پر رب پر بھروسہ رکھیں اور انہیں استعمال کریں۔
طب یونانی کے ذریعے علاج:
اگر گردہ ناکارہ ہو جائے تو اکثر ''ڈائیالیسز''کرایا جاتا ہے، جو گردے کے بدل کے طور پر کام انجام دیتا ہے۔ مگر اکثر نتیجہ بہتر نہیں نکلتا ۔ گردے کا مرض ثابت ہو جائے تو درج ذیل نسخہ استعمال کریں:
زنجبیل،پودینہ،پوست ہلیلہ زرد،پوست بہیڑہ، ناگر موتھا، فلفل سیاہ، برادہ دندان فیل،سونف تمام اجزاء ہم وزن لیں اور قہوہ تیار کریں۔
طب مغربی کے ذریعے علاج:
وٹامین ڈی، سوڈیم بائی کاربونیٹ(اگر ہتھیلیوں اور تلوؤں پر جلن ہو )، فولاد (کمزور گردے والے اشخاص کے جسم میں فولاد کی کمی ہوتی ہے)، بول آور ادویہ (مثلاََتھایازائیڈ: کلورتھالیڈون 50 ملی گرام، میٹولاذون2.5 ملی گرام، اِنڈاپامائیڈ 1.5 ملی گرام)
انتباہ: ان ادویہ کے نقصانات فائدے کی نسبت زیادہ ہیں، بہتر ہے کہ طب یونانی نسخہ استعمال کریں۔
دورحاضر میں پاکستان میں2.4 ملین اموات کا سبب بننے والی بیماری گردے کی بیماری (امراض کلیہ) ہے اور اس کی تعداد بڑھ رہی ہے، تعدادکے بڑھنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مرض میں مبتلا شخص سمجھتا ہے کہ اسے کوئی دوسرا مرض لاحق ہے، یوں وہ گُردوں پر توجہ نہیں دیتا کیونکہ ان کے نزدیک انہیں بول وبراز کی مقدار معتدل آتی ہے بلکہ اصل بات بول کے قوام ،بو،اور رنگ(لُون)پر منحصر ہوتی ہے۔بار بار مداومت کرنے پرجواب ملتا ہے کہ فلاں بوڑھے طبیب کا قول ہے کہ معدے میںورم ہے مگر چند سال بعد وہ''نیفرولوجی ڈیپارٹمنٹ '' کے بستر پر نظر آتے ہیں۔ گردے کی بیماری کبھی یکدم لاحق نہیں ہوتی،رفتہ رفتہ لاحق ہوتی ہے، جو بھی بیماری ٹھہرٹھہر کے پیدا ہوتی ہے وہ کافی دیر سے جاتی ہے۔
اسباب:
1۔ موٹاپا ، 2۔ فشارالدم،3۔ پکوان کا بے جا استعمال،4۔ گدلا پانی پینا، 5۔ ذیابیطس،6۔ کم معیار کی غذاء،7۔ زیادہ گرم ادویہ کا استعمال، 8۔جگر کے امراض،9۔ کم پانی پینا اور زیادہ مشقت، 10۔ زیادہ تیزابیت پیدا کرنے والی خوراک۔
وضاحت:
1۔ پانی ہمیشہ صاف اور معتدل القوام استعمال کریں،جس کی نشانی یہ ہے کہ صحت افزاء پا نی جلد ٹھنڈا اور اُبالنے پر جلد گرم ہوتا ہے، نیز اس کا ذائقہ لیس دار نہیں ہوتا، اصطلاح میں قابل استعمال پانی کو''سافٹ واٹر اور غیر قابل استعمال پانی کو ہارڈ واٹر '' کہتے ہیں ۔
2۔ نمک کا معتدل استعمال کریں یعنی بعض حضرات کو سستی ہوتی ہے تو سمجھتے ہیں کے ان کا بلڈپریشر کم ہے،چیک کیے بغیر نمک کا زیادہ استعمال شروع کر دیتے ہیںجس کے نتیجے میںبرق پاشیدوں کا توازن (الیکٹرولائٹ بیلنس) خراب ہوجاتا ہے، اور گردہ متاثر ہوتا ہے، ایسے حضرات ''ہائی بلڈپریشر'' میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، یہ اشخاص امراضِ قلب کی ادویہ لینے لگتے ہیں،اکثر ادویہ قلب گردے کے لیئے مضر ہوتی ہیں۔
3۔ موٹاپا: دیکھنے میں مریض موٹا دکھائی دیتا ہے مگر طبی نگاہ میں موٹے اشخاص میں ''ان فلٹریشن'' کا انعقاد ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تم دیکھو گے کہ اکثر موٹاپے کے شکار حضرات ''یورک ایسڈ''کے مسائل سے دوچار ہیں۔
4۔گدلا پانی: مسافر حضرات کو چاہیے کہ اپنے ساتھ پانی اور خوراک ضرور لے جایا کریں کیونکہ زیادہ پیاس کی موجودگی اس امر پر مجبور کرتی ہے کہ جو پانی میسر ہے وہی پئیں۔ اکثر گدلا پانی گرد یمیں پتھری پیدا کرتا ہے جسم میں خشکی لاتا ہے۔ یہی حال غذا کا ہے۔ کم معیاری غذا سے ہماری مراد ایسی غذا ہے جس میں گھی اور مصالحے کی غلط مقدار کا استعمال ہے جو اکثر باورچی کر لیتے ہیں، گھی کی زیاد ہ مقدارہ خلیات، معدے اور آنتوں پر بھی بوجہ بنتی ہیں،بالکل اسی طرح کہ کوئی گھی کو کپڑے سے چھاننے کی کوشش کرے،جو کیفیت کپڑے کی ہو گی وہی ہماری اعضاء کی ہوتی ہے۔
5۔ادویہ ہوں یا اغذیہ، ان کی ایک تاثیر اور مزاج ضرور ہوتا ہے، علم طب میںہر طالب علم کو چار مزاج کا علم سکھایا جاتا ہے،کچھ اشخاص کثرت سے کالی پتی کے قہوے ، بغیر اصلاح کیے استعمال کرتے ہیں، کچھ اشخاص گرم مصالحے بکثرت استعمال کرتے ہیں،جس سے گردے کی چربی متاثر ہوتی ہے۔اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ایلو پیتھک ادویہ سردی، گرمی، تری اور خشکی جیسی کیفیات کی حامل نہیں ہیں۔ اگر وہ درست ہیں تو ان میں بعض ادویہ معدے میں ایسا السر پیدا کرتی ہیں جن کا مندمل ہونا دشوار ہوتا ہے۔ طب میں ایسی دوا گرم خشک چہارم درجے میں کہلاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایلو پیتھی ادویہ بھی ایک خاص کیفیت ضرور رکھتی ہیں ان کا لحاظ رکھ کر استعمال کرانا چاہیے۔
6۔ گردہ اور جگر ایک دوسرے کے اثرات کوقبول کرتے ہیں ، جب گردہ متاثر ہوتو جگر ضرور اثر پاتا ہے، اسی طرح اگر جگر متاثر ہو تو گردہ اثر قبول کرتا ہے اسی لیے دیکھناکہ یرقان میں مبتلا فرد کے بول کا لُون (رنگ) اُترجی (مالٹائی)ہوتا ہے۔
7۔ زیادہ تیزابیت پیدا کرنے والی اشیاء کے استعمال سے خون میں تیزابیت بڑھتی ہے، لہذا گردے کو زیادہ کام کرنا ہوتا ہے،کیونکہ گردہ خون کو قلوی یا تیزابی ہونے سے بچاتا ہے۔
احتیاط:
1۔ پانی کی کثیر مقدار استعمال کریں، پانی کا معیار ی ہونالازمی ہے۔
2۔بول وبراز کے رنگ کو ضرور ی مدِّنظر رکھیں۔
3۔ پھل،سبزیاں ضرور استعمال کریں۔
4۔کوئی بے اعتدالی ہو جائے تو تدارک لازمی کریں مثلاََگدلاپانی پی لیا جائے تو مدّرِ بول (بول آور) یا غذا ضرور کھائیں۔
5۔ میوہ جات استعمال کرتے وقت یہ ضرور خیال رکھیں کہ ایک میوہ اگلے کی اصلاح کرے جیسے بادام لیں تو ساتھ پستہ،اخروٹ کے ساتھ کشمش وغیرہ۔
6۔نمک کا زیادہ استعمال نہ کریںتاہم حسب ذائقہ استعمال صحت مند رہنے کے لئے ضروری ہے۔
7۔ پوٹاشیم ملی ادویہ کا بے جا استعمال غلط ہے۔
8۔ تمباکو سے پرہیز کریں۔
9۔ جو اشخاص سمجھتے ہیں کہ ان کا گردہ کمزور ہے یا ان کے آباء و اجداد میںگردے کے مبتلا حضرات گزرے ہیں، انہیں ہفتے میں کم ازکم ایک بار ضرورگردہ صاف کرنا چاہئے، اس کا طریقہ کار درج ذیل ہے: ۔
رات سوتے وقت ککرنڈا کی جڑ، اجمود،سونف، ادرک کا قہوہ تیار کریں اور گوکھرو خورد کے سفوف کے ساتھ استعمال کریں۔
گردے کی کمزوری کی علامات:
1۔ بول کی مقدار کا بدلنا۔گاہے بکثرت آتا ہے گاہے قلیل آتا ہے۔
2۔غذا کے ہضم میں خرابی۔
3۔ معدے میں درد۔
4۔ گردے کے مقام ، کبھی مثانے کے اور کبھی حالبین (یوریٹر) کے مقام میں جلن۔
5۔ہتھیلی اور تلوؤں میں گرمی کا احساس (کیونکہ خون میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے)۔
6۔ بول کی بو میں غیر معمولی تبدیلی۔
7۔ خون کی کمی۔
8۔جسم میں بھر بھراہٹ اور ورم (ایڈیما)۔
9۔ بائی کاربونیٹ کی زیادتی۔
لیب ٹیسٹ:
بنیادی طور پر دو لیب ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں:
1۔ ایلبومینٹ ٹو کری ٹی نائن ریشو یورین ٹیسٹ، 2۔گلومیولر فلٹریشن ریٹ بلڈٹیسٹ
امراض گردہ کا علاج:
سوائے موت کے ہر بیماری کا علاج ربّ نے پیدا فرمایا ہے (الحدیث)۔ گردے ناکارہ ہونے کا علاج ڈائیالیسز کے علاوہ مدّرِ بول ادویہ مع مصفی خون سے ممکن ہے مگرمریضا اور معالج دونوں میں استقامت اختیار کریں۔ یاد رکھیں کہ شفاء رب کے ہاتھ میں ہے معالج کے پاس کچھ نہیں ، دواء استعمال کرنا سنت سے ثابت ہے۔ درج ذیل ادویہ مجرب ہیںہر حال پر رب پر بھروسہ رکھیں اور انہیں استعمال کریں۔
طب یونانی کے ذریعے علاج:
اگر گردہ ناکارہ ہو جائے تو اکثر ''ڈائیالیسز''کرایا جاتا ہے، جو گردے کے بدل کے طور پر کام انجام دیتا ہے۔ مگر اکثر نتیجہ بہتر نہیں نکلتا ۔ گردے کا مرض ثابت ہو جائے تو درج ذیل نسخہ استعمال کریں:
زنجبیل،پودینہ،پوست ہلیلہ زرد،پوست بہیڑہ، ناگر موتھا، فلفل سیاہ، برادہ دندان فیل،سونف تمام اجزاء ہم وزن لیں اور قہوہ تیار کریں۔
طب مغربی کے ذریعے علاج:
وٹامین ڈی، سوڈیم بائی کاربونیٹ(اگر ہتھیلیوں اور تلوؤں پر جلن ہو )، فولاد (کمزور گردے والے اشخاص کے جسم میں فولاد کی کمی ہوتی ہے)، بول آور ادویہ (مثلاََتھایازائیڈ: کلورتھالیڈون 50 ملی گرام، میٹولاذون2.5 ملی گرام، اِنڈاپامائیڈ 1.5 ملی گرام)
انتباہ: ان ادویہ کے نقصانات فائدے کی نسبت زیادہ ہیں، بہتر ہے کہ طب یونانی نسخہ استعمال کریں۔