سیاستدان مسئلہ کشمیرکوحل نہیں کرسکتے
پچھلے 66 سال سے ہندوستان اور پاکستان کے حکمران اور سیاستدان مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔
پچھلے 66 سال سے ہندوستان اور پاکستان کے حکمران اور سیاستدان مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر 66 سال پہلے جہاں تھا آج بھی وہیں کھڑا ہے ان حکمرانوں کی احمقانہ سیاست کی وجہ دونوں ملک دو بڑی جنگوں سے گزرچکے ہیں لیکن آج بھی وہ اسی سیاسی راستے پر چل رہے ہیں جو مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف نہیں لے جائے گا بلکہ کسی تیسری بھیانک جنگ تک پہنچا دے گا جس کے بعد نہ کشمیر رہے گا نہ مسئلہ کشمیر۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدان اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام کیوں رہے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ سیاستدان ہمیشہ سیاسی مفادات کے اسیر رہتے ہیں انھیں ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر وہ کوئی منصفانہ فیصلے کی طرف قدم بڑھائیں تو اپوزیشن قومی اور عوامی مفادات کو پس پشت ڈال کر محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر حکمرانوں کے منصفانہ فیصلے کو ملک دشمن، قوم دشمن فیصلہ قرار دے کر ان کے اقتدار کے لیے خطرہ پیدا کردے گی۔ اس حوالے سے اہل سیاست کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ وہ قومی مفادات کے نام پر سیدھے اورآسان مسئلوں کو اس طرح الجھا دیتے ہیں کہ ایک قابل حل مسئلہ ناقابل حل بن جاتا ہے۔
اس حوالے سے اگر ہم پاکستان کے حکمران طبقات کی کمزوریاں تلاش کرنا چاہیں تو ہمیں مایوسی کا سامنا اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی کوئی حکومت اس مسئلے کے حل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی کیونکہ دنیا کی رائج الوقت سیاست میں کمزور فریق کسی بڑے مسئلے کے حل کی راہ میں رکاوٹ بننے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا اس پس منظر میں ہماری ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور انسان کی مجبوری یہ ہے کہ انھیں بھارت کا حکمران طبقہ ہی مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ میں رکاوٹ بنا نظر آتا ہے۔ طاقتور کمزور کو مارا بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتا۔ اس سامراجی سیاست کو ہم بھارت کے حکمران طبقات میں دیکھ سکتے ہیں۔ بھارتی حکمران مسئلہ کشمیر جمہوری اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں رہے بھارتی حکمرانوں کی اس ہٹ دھرمی کے خلاف اگر پاکستان کے حکمرانوں نے کسی عالمی فورم پر یہ مسئلہ اٹھایا تو بھارتی حکمراں بلبلانے لگ جاتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دو قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں ایک نظریہ اس مسئلے کو محض مذہب کے حوالے سے دیکھنے والوں کا ہے دوسرا نظریہ ان لوگوں کا ہے جو اس مسئلے کو نہ مذہب کے حوالے سے دیکھتے ہیں نہ تنگ نظرانہ قوم پرستی کے حوالے سے دیکھتے ہیں بلکہ وہ اس مسئلے کو برصغیر کے عوام کے درمیان پائی جانے والی اجنبیت اور نفرت کے حوالے سے دیکھتے ہیں اور جنوبی ایشیا کے عوام کے مشترکہ مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس مسئلے کے حل کی راہ میں رکاوٹ بننے والے نہ اپنے ملک کے عوام سے مخلص ہیں نہ جنوبی ایشیا کے عوام کے اجتماعی مفادات کی انھیں پرواہ ہے اس حقیقت کے پیش نظر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جب تک یہ مسئلہ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں رہے گا بندر کا پھوڑا بنا رہے گا دونوں ملکوں کے وہ مخلص افراد اور جماعتیں عشروں سے اس مسئلے کے حل کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ان کی کوششیں دو وجہوں سے ناکام ہوتی رہی ہیں ایک وجہ یہ رہی ہے کہ اس قسم کے مخلص افراد اور جماعتیں اپنی کوششوں کو سیمیناروں، کانفرنسوں، اجلاسوں سے آگے بوجوہ عوام تک نہ پھیلا سکتیں نہ اس مسئلے کو عوامی مسئلہ بنانے میں کامیاب ہوسکیں دوسری وجہ یہ ہے کہ ان حلقوں کو وسائل کی کمی کا سامنا رہا ہے جب کہ مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں وسائل کی بھرمار جاری ہے۔
ہندوستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا ہے کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اس کا سیاسی فلسفہ سیکولرزم ہے لیکن جب ہم کشمیر کے حوالے سے ان دعوؤں پر غور کرتے ہیں تو یہ دونوں وعدے ہوا میں اڑتے نظر آتے ہیں جمہوریت کی بنیاد رائے عامہ کا احترام ہے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکمران طبقہ کشمیر کی رائے عامہ کا احترام کرنے کے بجائے اسے چھ لاکھ بھارتی فوج کی طاقت سے دبانے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے جو جمہوریت کی نفی ہے بھارت کا حکمراں طبقہ کشمیر کے حوالے سے یہ احمقانہ دلیل دیتا آرہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کیا گیا تو سیکولرزم کو نقصان پہنچے گا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کی وجہ پورے جنوبی ایشیا میں سیلولرزم کو نقصان پہنچ رہا ہے اور مذہبی انتہاپسندی کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔
ہندوستان کے محترم اہل قلم اہل دانش کا عالم یہ ہے کہ وہ گجرات کے متعصب وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے خلاف تو سخت مذمتی زبان استعمال کر رہے ہیں اور اس کی جماعت بی جے پی پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے آنے والے الیکشن میں گجرات کے مسلمانوں کے قاتل کو وزیر اعظم نامزد کرکے بھارت کے مستقبل کو داؤ پر لگادیا ہے لیکن یہ محترم اہل دانش یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ سیکولر بھارت میں بی جے پی راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی مذہبی انتہاپسند جماعتیں کریز اور ریاستوں میں کس طرح برسر اقتدار آرہی ہیں؟ کیا بھارتی عوام کو ایسی مذہبی انتہاپسند جماعتوں کو اقتدار میں لانے کی ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر نہیں؟ جو 1947 کے بعد دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے ان کے درمیان محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ کیا بھارت میں سیکولرزم کو کمزور کرنے اور مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دینے میں کشمیر ایک اہم محرک نہیں بنا ہوا ہے؟
بھارت کا حکمراں طبقہ طاقت کے بل پر اپنے قبضے میں رکھنے والے علاقے کو اپنا اٹوٹ انگ کہہ کر بھارتی عوام کو گمراہ نہیں کر رہا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات نے پاکستان میں مذہبی انتہاپسندوں کو جس طرح پالا پوسا ہے اس کی وجہ مسئلہ کشمیر نہیں ہے؟ 66 سال سے بھارت کا حکمراں طبقہ دونوں ملکوں میں جس اعتماد سازی کی بکواس کر رہا ہے اس کی وجہ خود اس کی اعتماد دشمن سیاست نہیں؟ بے چارے عوام خواہ وہ ہندوستان پاکستان کے ہوں یا کسی اور ملک کے ہمیشہ اپنے حکمرانوں کی مفاد پرستانہ سیاست کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ یہ عوام دشمن سیاستدان قوم و ملک کے نام پر عوام کے جذبات سے اس طرح کھیلتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوجاتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا ذکر کیا کردیا ہندوستان کے حکمران طبقے کو فراز کا ایک بہانہ مل گیا۔ نواز شریف نے یہ کہہ کر من موہن سنگھ کو مشتعل کر دیا کہ امریکا مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں معاونت کرے۔ بھارت کے حکومتی نورتن چیخ رہے ہیں کہ شملہ معاہدے کے تحت اس مسئلے کو حل کرنے کے ذمے دار صرف بھارت اور پاکستان ہیں امریکا کو قطعی یہ حق نہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر میں دخل دے۔ اے عقلمندو! 66 سال سے تم اس مسئلے کو کیوں حل نہیں کر رہے ہو، شملہ معاہدے کے مطابق تم دونوں فریق کیوں اس مسئلے کو حل نہیں کر پا رہے ہو؟
تم جب تک ہندو یا ہندوستانی بن کر اس مسئلے کو حل کرنا چاہو گے یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ تمہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذہب و ملت کے حصار سے نکل کر انسان بننا پڑے گا اور یہ کام بحیثیت سیاستدان تم کبھی نہیں کرسکتے کیونکہ تمہارے سامنے صرف اقتدار ہوتا ہے اپنے اور اس خطے کے عوام کا مفاد نہیں ہوتا۔ یہ کام یہ ذمے داری اب تم ایسے اہل قلم ایسے اہل دانش کے حوالے کردو جو سیاست اور اقتدار کے حصار سے آزاد ہوتے ہیں جن کے سامنے صرف اور صرف عوام کے مفادات عوام کا مستقبل ہوتا ہے۔
ہندوستان میں رام داس اور آنجہانی نرملا دیش پانڈے جیسے لوگ موجود ہیں انھیں ڈھونڈو انھیں سامنے لاؤ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک و ملت کی محدود سرحدوں سے آگے دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے دو ان پر شک نہ کرو ان پر اعتماد کرو جب یہ لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے تو حقیقی معنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد بحال ہوگا لیکن تم یہ کام نہیں کرسکتے کیونکہ تمہاری سیاست ہی دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی سیاست ہے۔
اس حوالے سے اگر ہم پاکستان کے حکمران طبقات کی کمزوریاں تلاش کرنا چاہیں تو ہمیں مایوسی کا سامنا اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی کوئی حکومت اس مسئلے کے حل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی کیونکہ دنیا کی رائج الوقت سیاست میں کمزور فریق کسی بڑے مسئلے کے حل کی راہ میں رکاوٹ بننے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا اس پس منظر میں ہماری ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور انسان کی مجبوری یہ ہے کہ انھیں بھارت کا حکمران طبقہ ہی مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ میں رکاوٹ بنا نظر آتا ہے۔ طاقتور کمزور کو مارا بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتا۔ اس سامراجی سیاست کو ہم بھارت کے حکمران طبقات میں دیکھ سکتے ہیں۔ بھارتی حکمران مسئلہ کشمیر جمہوری اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں رہے بھارتی حکمرانوں کی اس ہٹ دھرمی کے خلاف اگر پاکستان کے حکمرانوں نے کسی عالمی فورم پر یہ مسئلہ اٹھایا تو بھارتی حکمراں بلبلانے لگ جاتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دو قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں ایک نظریہ اس مسئلے کو محض مذہب کے حوالے سے دیکھنے والوں کا ہے دوسرا نظریہ ان لوگوں کا ہے جو اس مسئلے کو نہ مذہب کے حوالے سے دیکھتے ہیں نہ تنگ نظرانہ قوم پرستی کے حوالے سے دیکھتے ہیں بلکہ وہ اس مسئلے کو برصغیر کے عوام کے درمیان پائی جانے والی اجنبیت اور نفرت کے حوالے سے دیکھتے ہیں اور جنوبی ایشیا کے عوام کے مشترکہ مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس مسئلے کے حل کی راہ میں رکاوٹ بننے والے نہ اپنے ملک کے عوام سے مخلص ہیں نہ جنوبی ایشیا کے عوام کے اجتماعی مفادات کی انھیں پرواہ ہے اس حقیقت کے پیش نظر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جب تک یہ مسئلہ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں رہے گا بندر کا پھوڑا بنا رہے گا دونوں ملکوں کے وہ مخلص افراد اور جماعتیں عشروں سے اس مسئلے کے حل کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ان کی کوششیں دو وجہوں سے ناکام ہوتی رہی ہیں ایک وجہ یہ رہی ہے کہ اس قسم کے مخلص افراد اور جماعتیں اپنی کوششوں کو سیمیناروں، کانفرنسوں، اجلاسوں سے آگے بوجوہ عوام تک نہ پھیلا سکتیں نہ اس مسئلے کو عوامی مسئلہ بنانے میں کامیاب ہوسکیں دوسری وجہ یہ ہے کہ ان حلقوں کو وسائل کی کمی کا سامنا رہا ہے جب کہ مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں وسائل کی بھرمار جاری ہے۔
ہندوستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا ہے کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اس کا سیاسی فلسفہ سیکولرزم ہے لیکن جب ہم کشمیر کے حوالے سے ان دعوؤں پر غور کرتے ہیں تو یہ دونوں وعدے ہوا میں اڑتے نظر آتے ہیں جمہوریت کی بنیاد رائے عامہ کا احترام ہے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکمران طبقہ کشمیر کی رائے عامہ کا احترام کرنے کے بجائے اسے چھ لاکھ بھارتی فوج کی طاقت سے دبانے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے جو جمہوریت کی نفی ہے بھارت کا حکمراں طبقہ کشمیر کے حوالے سے یہ احمقانہ دلیل دیتا آرہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کیا گیا تو سیکولرزم کو نقصان پہنچے گا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کی وجہ پورے جنوبی ایشیا میں سیلولرزم کو نقصان پہنچ رہا ہے اور مذہبی انتہاپسندی کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔
ہندوستان کے محترم اہل قلم اہل دانش کا عالم یہ ہے کہ وہ گجرات کے متعصب وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے خلاف تو سخت مذمتی زبان استعمال کر رہے ہیں اور اس کی جماعت بی جے پی پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے آنے والے الیکشن میں گجرات کے مسلمانوں کے قاتل کو وزیر اعظم نامزد کرکے بھارت کے مستقبل کو داؤ پر لگادیا ہے لیکن یہ محترم اہل دانش یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ سیکولر بھارت میں بی جے پی راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی مذہبی انتہاپسند جماعتیں کریز اور ریاستوں میں کس طرح برسر اقتدار آرہی ہیں؟ کیا بھارتی عوام کو ایسی مذہبی انتہاپسند جماعتوں کو اقتدار میں لانے کی ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر نہیں؟ جو 1947 کے بعد دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے ان کے درمیان محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ کیا بھارت میں سیکولرزم کو کمزور کرنے اور مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دینے میں کشمیر ایک اہم محرک نہیں بنا ہوا ہے؟
بھارت کا حکمراں طبقہ طاقت کے بل پر اپنے قبضے میں رکھنے والے علاقے کو اپنا اٹوٹ انگ کہہ کر بھارتی عوام کو گمراہ نہیں کر رہا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات نے پاکستان میں مذہبی انتہاپسندوں کو جس طرح پالا پوسا ہے اس کی وجہ مسئلہ کشمیر نہیں ہے؟ 66 سال سے بھارت کا حکمراں طبقہ دونوں ملکوں میں جس اعتماد سازی کی بکواس کر رہا ہے اس کی وجہ خود اس کی اعتماد دشمن سیاست نہیں؟ بے چارے عوام خواہ وہ ہندوستان پاکستان کے ہوں یا کسی اور ملک کے ہمیشہ اپنے حکمرانوں کی مفاد پرستانہ سیاست کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ یہ عوام دشمن سیاستدان قوم و ملک کے نام پر عوام کے جذبات سے اس طرح کھیلتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوجاتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا ذکر کیا کردیا ہندوستان کے حکمران طبقے کو فراز کا ایک بہانہ مل گیا۔ نواز شریف نے یہ کہہ کر من موہن سنگھ کو مشتعل کر دیا کہ امریکا مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں معاونت کرے۔ بھارت کے حکومتی نورتن چیخ رہے ہیں کہ شملہ معاہدے کے تحت اس مسئلے کو حل کرنے کے ذمے دار صرف بھارت اور پاکستان ہیں امریکا کو قطعی یہ حق نہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر میں دخل دے۔ اے عقلمندو! 66 سال سے تم اس مسئلے کو کیوں حل نہیں کر رہے ہو، شملہ معاہدے کے مطابق تم دونوں فریق کیوں اس مسئلے کو حل نہیں کر پا رہے ہو؟
تم جب تک ہندو یا ہندوستانی بن کر اس مسئلے کو حل کرنا چاہو گے یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ تمہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذہب و ملت کے حصار سے نکل کر انسان بننا پڑے گا اور یہ کام بحیثیت سیاستدان تم کبھی نہیں کرسکتے کیونکہ تمہارے سامنے صرف اقتدار ہوتا ہے اپنے اور اس خطے کے عوام کا مفاد نہیں ہوتا۔ یہ کام یہ ذمے داری اب تم ایسے اہل قلم ایسے اہل دانش کے حوالے کردو جو سیاست اور اقتدار کے حصار سے آزاد ہوتے ہیں جن کے سامنے صرف اور صرف عوام کے مفادات عوام کا مستقبل ہوتا ہے۔
ہندوستان میں رام داس اور آنجہانی نرملا دیش پانڈے جیسے لوگ موجود ہیں انھیں ڈھونڈو انھیں سامنے لاؤ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک و ملت کی محدود سرحدوں سے آگے دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے دو ان پر شک نہ کرو ان پر اعتماد کرو جب یہ لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے تو حقیقی معنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد بحال ہوگا لیکن تم یہ کام نہیں کرسکتے کیونکہ تمہاری سیاست ہی دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی سیاست ہے۔