نتیش کمار اور ڈاکٹر عبدالمالک
طویل مدت کے بعد ڈاکٹر ارشد بٹ سے تفصیلی نشست ہوئی۔ وہ ایک حیران کن مرد صحرا ہے۔ صبح کی میڈیکل پریکٹس صرف۔۔۔
طویل مدت کے بعد ڈاکٹر ارشد بٹ سے تفصیلی نشست ہوئی۔ وہ ایک حیران کن مرد صحرا ہے۔ صبح کی میڈیکل پریکٹس صرف، اس لیے چھوڑ رکھی ہے کہ باغ جناح کی قائداعظم لائبریری میں مطالعہ میں حرج ہو رہا تھا۔ علم کے لیے پیسے کو پائوں کی گرد سمجھنے کی روایت آج کل تقریباََ ختم ہو چکی ہے۔ وہ تاریخ اسلام، سیاسیات، موسیقی اور اردو ادب پر مکمل عبور رکھتا ہے۔ اس فکری نشست کے بعد میں بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا۔
ملک، صوبوں، ضلعوں اور تحصیلوں کی حد تک یہ امر انتہائی اہم ہے کہ ان کا انتظامی سربراہ کون ہے۔ عام لوگوں کے بیشتر مسائل تحصیل کی حد تک ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کی قسمت کے اصل مالک تھانہ کچہری، پٹوار، مقامی اسپتال اور محکمہ انہار کے تحصیل کے درجہ کے ملازمین ہوتے ہیں۔ جو بھی سیاست دان معاملات کو نچلی سطح پر حل کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ عام لوگوں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔
چند سال پہلے بہار، ہندوستان کا پسماندہ ترین اور بد انتظامی کی بدترین شہرت رکھنے والا صوبہ تھا۔ چالیس سال سے وہاں ہندو برہمن، بمہارس اور ہندو راجپوت حکومت کر رہے تھے۔ لالو پرشاد ایک نچلی ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے وہ اپنے بھائی کے گھر میں رہتا تھا جو پٹنہ میں جانوروں کے اسپتال میں چپڑاسی تھا۔ جب لالو پرشاد وزیر اعلیٰ ہائوس پہنچا تو اس کے نو بچے بھی اس کے ساتھ تھے۔ مگر اس کی اصل وزارت اعلیٰ، اس کی بیوی کے دو بھائیوں کے ہاتھ میں چلی گئی تھی جو ہر قیمت پر اپنی اور اپنے بہنوئی کی غربت ختم کرنا چاہتے تھے۔ بہار ایک ایسی ریاست میں تبدیل ہو گیا جہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ بہار کی معیشت دم توڑ رہی تھی۔ نئی فیکٹریاں لگنی بالکل بند ہو چکی تھیں۔ سڑکوں کی صورتحال ابتر تھی۔ ڈاکو دن کی روشنی میں لوگوں کو اغوا کر لیتے تھے۔ تاوان کے زیادہ تر فیصلے لالو پرشاد کی سرکاری رہائش گاہ میں طے پاتے تھے۔ کوئی صاحب ثروت شخص اغوا برائے تاوان کی زد سے محفوظ نہیں تھا۔ لاکھوں لوگ بہار سے ہجرت کر گئے۔ اور وہ دیگر صوبوں میں مزدوری کرتے تھے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ تھی کہ بہار میں غریب آدمی کے لیے زندہ رہنے کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تھے۔
اساتذہ کو تنخواہ ملتی نہیں تھی اور اگر ملتی تھی تو اُس کو حاصل کرنے کے لیے انھیں اسکول بند کرنے پڑتے تھے۔ امتحانات کا بائیکاٹ کرنا اپنی تنخواہ حاصل کرنے کا مجرب نسخہ تھا۔ اسپتال بند ہو چکے تھے اور عام مریضوں کو دوائی ملنی ناممکن تھی۔ وزارت اعلیٰ کے دو ادوار میں لالو پرشاد اور اس کا خاندان بے انتہا امیر ہو چکا تھا۔ لوڈ شیڈنگ کا یہ حال تھا کہ بہار کے دارالحکومت پٹنہ کو بجلی فراہم کرنے کے لیے مختلف قصبوں میں ہفتوں کے حساب سے بجلی کی ترسیل بند رکھی جاتی تھی۔ "چارہ اسکینڈل" جیسے اسکینڈل بالکل عام تھے۔ ہندوستان میں بہار کے متعلق مشہور تھا کہ وہاں صرف "جنگل راج" ہے۔
اس صورت حال میں نتیش کمار صوبہ بہار کا وزیر اعلیٰ بنا۔ بہار کی دس کروڑ کی آبادی اور معاشی ترقی کا نہ ہونا، نئے وزیر اعلیٰ کے سامنے بھیانک مسائل کھڑے تھے۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ نیا وزیر اعلیٰ کچھ بھی نہیں کر پائے گا۔ مگر نتیش کمار نے اپنے تمام ناقدین کو حیرت زدہ کر دیا۔
اُس نے پہلا قدم یہ اُٹھایا کہ بہار کے عام لوگوں کو حالات کے اچھا ہونے کی"حقیقی اُمید" دی۔ نتیش کمار عام لوگوں جیسے کپڑے پہنتا تھا اور اُس کا رہن سہن بھی اُن جیسا تھا۔ عام لوگ اُس کو اپنی ہی طرح کا انسان سمجھتے تھے۔ اس نے ترقی کے معنی ہی بدل دیے۔ اس نے روایتی ترقی کو بہار کے لیے زہر قاتل قرار دے دیا۔ اس کا منشور تھا کہ "ترقی انصاف کے ساتھ" ہونی چاہیے۔ وہ جانتا تھا کہ اگر ترقی صرف چند شہروں یا چند خاندانوں میں مقید رہی تو بہار ہمیشہ پسماندہ ہی رہے گا۔ اس کا دوسرا قدم اپنے خاندان کو سیاست اور میڈیا سے مکمل دور رکھنا تھا۔ نتیش کمار کا ایک ہی بیٹا ہے جو انجینئر ہے۔ بہار کے انتظامی معاملات میں اس کے بیٹے کا کسی قسم کا کوئی کردار نہیں ہے۔
نتیش کمار نے بہار کے معاشرہ کو جو ذات پات پر ایمان رکھتا تھا، مکمل تبدیل کر دیا۔ اُس نے ذات پات اور برادری کی سیاست کو تقریباً ختم کر کے رکھ دیا۔ اُس نے اپنے کام اور خلوص نیت سے یہ کٹھن مرحلہ طے کر لیا۔ اُس نے اپنے صوبہ کے عام مسلمانوں سے رابطہ قائم کیا اور مسلمانوں کو بہار کی اشرافیہ کے ذریعے کنٹرول کرنے کی پرانی روش کو یکسر ختم کر دیا۔
نتیش نے اپنے ابتدائی اقدامات میں بہار کی انتظامیہ کو ٹھیک کیا۔ اُس نے پولیس فورس کو اسلحہ، گاڑیاں اور ہمت دی۔ اُس نے اپنے اچھے افسروں کو حوصلہ دیا۔ ان پر سے سیاسی دبائو بالکل ختم کر دیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں ستر ہزار ملزم گرفتار کر لیے گئے۔ نتیش کمار نے سرکاری وکلاء اور گواہان کے ساتھ رابطہ مضبوط کیا۔ عدالتی نظام میں تبدیلیاں کیں۔ فوری انصاف کی عدالتیں بھی تشکیل دیں۔ مجرموں کو فوری سزائیں اور انتظامیہ کے فعال کردار نے بہار کا لاء اینڈ آرڈر ٹھیک کر کے رکھ دیا۔ لوگوں میں پہلی بار قانون کا خوف پیدا ہوا۔ لیکن ایک اصول جو ان تمام اقدامات کی بنیاد بنی وہ یہ کہ قانون کی عملداری معاشرہ کے تمام طبقوں کے لیے بالکل برابر کر دی گئی۔ امیر، غریب، سیاستدان یا جو بھی قانون کی گرفت میں آیا۔ اسکو قرار واقعی سزا ملی۔
بہار میں دو لاکھ گائوں ہیں۔ نتیش کمار نے تمام پسماندہ علاقوں کی ترقی کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ اُس نے ان تمام دیہاتوں میں "سڑکوں" کا جال بن دیا۔ اُن سڑکوں کو زیادہ اہمیت دی گئی جو اسکولوں کی طرف جاتی تھیں۔ سرکاری اسکولوں میں دوپہر کا کھانا، کتابیں، کپڑے اور طالب علموں کے آنے جانے کے لیے مفت سائیکلوں کا انتظام کیا۔ اس نے بچیوں کو بھی سمجھایا کہ وہ سائیکل پر اسکول جائیں۔ اور تعلیم ضرور حاصل کریں۔ حکومت نے طالب علموں میں لاکھوں سائیکلیں تقسیم کر دیں۔ تھوڑے عرصے میں بہار میں بچیوں کی شرح ناخواندگی70% سے کم ہو کر صرف40% رہ گئی۔ اسکولوں کے لیے بغیر کسی سفارش کے ڈیڑھ لاکھ ٹیچر بھرتی کیے گئے۔ گائوں، دیہات اور چھوٹے قصبوں کے لیے لا تعداد ترقیاتی اور معاشی اسکیمیں بنائی گئیں۔ چند ہی سال میں پورے ہندوستان سے لوگ بہار میں روزگار کی تلاش میں آنے لگے۔ نتیش کمار نے فوڈ پروسیسنگ کو بہت اہمیت دی۔ اس نے کوئی بلند بانگ دعویٰ نہیں کیا بلکہ بہار میں معمولی اور عام انجینئرنگ سے بننے والی اشیا ء کے کارخانہ لگوائے۔ اُس نے بہار کی مذہبی سیاحت کو فروغ دیا کیونکہ بدھ مت یہیں سے شروع ہوا تھا۔
اس کی وزارت اعلیٰ کے پہلے دور میں ترقی کی شرح دس فیصد پر پہنچ گئی اور دوسرے دور میں چودہ فیصد تک جا پہنچی۔ اس نے غیر ملکی اداروں کو اپنے صوبے کی ترقی کے لیے مہارت سے استعمال کیا۔ ورلڈ بینک سے اس نے نئے روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کی۔ ایشین ڈویلپمنٹ فنڈ اور جاپان کی مدد سے سڑکیں بنوائیں۔UNDP اورUNICEF کو تعلیم، صحت اور بچوں کے صورت حال ٹھیک کرنے کے لیے استعمال کیا۔ آج پوری دنیا سے بہار کی ترقی کے ماڈل کو دیکھنے کے لیے غیر ملکی ماہرین آتے ہیں۔ یہاں تک کہ بل گیٹس اور ان کی اہلیہ بھی بہار آئے اور بہار کی ترقی کا ماڈل دیکھ کر ششدر رہ گئے۔
اب میں پاکستان کی طرف آتا ہوں ۔ آپ یقین کیجیے کہ میں بالکل مایوس نہیں ہوں۔ ہماری سیاسی قیادت قطعاًء بانجھ نہیں ہے اور اس کی صفوں میں کئی نتیش کمار موجود ہیں۔ میں آپ کو چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک ایک مردِ عجیب ہے۔ جب وہ حلف لینے کے لیے آئے تو اُنکے پاس ڈھنگ کا ویسٹ کوٹ نہیں تھا۔ وہ ہنگامی بنیادوں پر خریدا گیا اور وہ ویسٹ کوٹ بہت معمولی درجے کا تھا۔ جب میں نے یہ بات سنی تو میرا پہلا تاثر تھا کہ یہ بات شاید زیب داستان کے لیے ہے۔ لیکن میں یہ سن کر حیران ہو گیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک کوئٹہ میں ایک نہایت عام درجہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ اس شخص نے وزیر اعلیٰ ہائوس میں منتقل ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ مگر سیکیورٹی کی وجہ سے مجبورََا اُن کو ایک انیکسی میں منتقل کیا گیا۔ حلف کے لیے جاتے ہوئے، اس شخص کے ہاتھ میں فیض احمد فیضؔ کا شعری مجموعہ ـ"نسخہ ہائے وفا" موجود تھا۔ سابقہ وزرائے اعلیٰ کے کپڑے دُھلانے کا ماہانہ بل تقریباََ ایک لاکھ روپیہ تھا۔ یہ پیسے سرکاری خزانے سے خرچ ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ سال ہا سال سے جاری تھا۔ لیکن اب یہ بند ہو چکا ہے کیونکہ ڈاکٹر مالک کے کپڑے ان کے اہل خانہ دھوتے ہیں۔ لہذا کم از کم ایک سال میں 10-12 لاکھ کی سرکاری بچت تو صرف یہ ہے۔ لیکن یہ تو شخصی باتیں ہیں ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچستان میں شعبہ تعلیم کا Endowment Fund پانچ ارب روپے کر دیا ہے۔ آبادی کے تناسب سے یہ پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ میری نظر میں یہ تمام باتیں انتہائی غیر معمولی ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ ہم لوگ بانجھ نہیں ہیں۔ اگر بہار انتہائی بگڑی ہوئی حالت سے بہت بہتر ہو سکتا ہے تو ہمارا ہر صوبہ بھی ترقی کی روشن مثال بن سکتا ہے۔ لیکن کیا ہمارا نظام کسی اچھے آدمی کو اوپر آ کر کام کرنے کی اجازت دے گا؟ میں جب بھی اس سوال کا جواب سوچتا ہوں تو طرح طرح کے اندیشے ذہن میں بگولوں کی طرح دوڑنے لگتے ہیں۔ مجھے کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ شاید میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے؟ لیکن کیا آپ کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟
ملک، صوبوں، ضلعوں اور تحصیلوں کی حد تک یہ امر انتہائی اہم ہے کہ ان کا انتظامی سربراہ کون ہے۔ عام لوگوں کے بیشتر مسائل تحصیل کی حد تک ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کی قسمت کے اصل مالک تھانہ کچہری، پٹوار، مقامی اسپتال اور محکمہ انہار کے تحصیل کے درجہ کے ملازمین ہوتے ہیں۔ جو بھی سیاست دان معاملات کو نچلی سطح پر حل کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ عام لوگوں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔
چند سال پہلے بہار، ہندوستان کا پسماندہ ترین اور بد انتظامی کی بدترین شہرت رکھنے والا صوبہ تھا۔ چالیس سال سے وہاں ہندو برہمن، بمہارس اور ہندو راجپوت حکومت کر رہے تھے۔ لالو پرشاد ایک نچلی ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے وہ اپنے بھائی کے گھر میں رہتا تھا جو پٹنہ میں جانوروں کے اسپتال میں چپڑاسی تھا۔ جب لالو پرشاد وزیر اعلیٰ ہائوس پہنچا تو اس کے نو بچے بھی اس کے ساتھ تھے۔ مگر اس کی اصل وزارت اعلیٰ، اس کی بیوی کے دو بھائیوں کے ہاتھ میں چلی گئی تھی جو ہر قیمت پر اپنی اور اپنے بہنوئی کی غربت ختم کرنا چاہتے تھے۔ بہار ایک ایسی ریاست میں تبدیل ہو گیا جہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ بہار کی معیشت دم توڑ رہی تھی۔ نئی فیکٹریاں لگنی بالکل بند ہو چکی تھیں۔ سڑکوں کی صورتحال ابتر تھی۔ ڈاکو دن کی روشنی میں لوگوں کو اغوا کر لیتے تھے۔ تاوان کے زیادہ تر فیصلے لالو پرشاد کی سرکاری رہائش گاہ میں طے پاتے تھے۔ کوئی صاحب ثروت شخص اغوا برائے تاوان کی زد سے محفوظ نہیں تھا۔ لاکھوں لوگ بہار سے ہجرت کر گئے۔ اور وہ دیگر صوبوں میں مزدوری کرتے تھے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ تھی کہ بہار میں غریب آدمی کے لیے زندہ رہنے کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تھے۔
اساتذہ کو تنخواہ ملتی نہیں تھی اور اگر ملتی تھی تو اُس کو حاصل کرنے کے لیے انھیں اسکول بند کرنے پڑتے تھے۔ امتحانات کا بائیکاٹ کرنا اپنی تنخواہ حاصل کرنے کا مجرب نسخہ تھا۔ اسپتال بند ہو چکے تھے اور عام مریضوں کو دوائی ملنی ناممکن تھی۔ وزارت اعلیٰ کے دو ادوار میں لالو پرشاد اور اس کا خاندان بے انتہا امیر ہو چکا تھا۔ لوڈ شیڈنگ کا یہ حال تھا کہ بہار کے دارالحکومت پٹنہ کو بجلی فراہم کرنے کے لیے مختلف قصبوں میں ہفتوں کے حساب سے بجلی کی ترسیل بند رکھی جاتی تھی۔ "چارہ اسکینڈل" جیسے اسکینڈل بالکل عام تھے۔ ہندوستان میں بہار کے متعلق مشہور تھا کہ وہاں صرف "جنگل راج" ہے۔
اس صورت حال میں نتیش کمار صوبہ بہار کا وزیر اعلیٰ بنا۔ بہار کی دس کروڑ کی آبادی اور معاشی ترقی کا نہ ہونا، نئے وزیر اعلیٰ کے سامنے بھیانک مسائل کھڑے تھے۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ نیا وزیر اعلیٰ کچھ بھی نہیں کر پائے گا۔ مگر نتیش کمار نے اپنے تمام ناقدین کو حیرت زدہ کر دیا۔
اُس نے پہلا قدم یہ اُٹھایا کہ بہار کے عام لوگوں کو حالات کے اچھا ہونے کی"حقیقی اُمید" دی۔ نتیش کمار عام لوگوں جیسے کپڑے پہنتا تھا اور اُس کا رہن سہن بھی اُن جیسا تھا۔ عام لوگ اُس کو اپنی ہی طرح کا انسان سمجھتے تھے۔ اس نے ترقی کے معنی ہی بدل دیے۔ اس نے روایتی ترقی کو بہار کے لیے زہر قاتل قرار دے دیا۔ اس کا منشور تھا کہ "ترقی انصاف کے ساتھ" ہونی چاہیے۔ وہ جانتا تھا کہ اگر ترقی صرف چند شہروں یا چند خاندانوں میں مقید رہی تو بہار ہمیشہ پسماندہ ہی رہے گا۔ اس کا دوسرا قدم اپنے خاندان کو سیاست اور میڈیا سے مکمل دور رکھنا تھا۔ نتیش کمار کا ایک ہی بیٹا ہے جو انجینئر ہے۔ بہار کے انتظامی معاملات میں اس کے بیٹے کا کسی قسم کا کوئی کردار نہیں ہے۔
نتیش کمار نے بہار کے معاشرہ کو جو ذات پات پر ایمان رکھتا تھا، مکمل تبدیل کر دیا۔ اُس نے ذات پات اور برادری کی سیاست کو تقریباً ختم کر کے رکھ دیا۔ اُس نے اپنے کام اور خلوص نیت سے یہ کٹھن مرحلہ طے کر لیا۔ اُس نے اپنے صوبہ کے عام مسلمانوں سے رابطہ قائم کیا اور مسلمانوں کو بہار کی اشرافیہ کے ذریعے کنٹرول کرنے کی پرانی روش کو یکسر ختم کر دیا۔
نتیش نے اپنے ابتدائی اقدامات میں بہار کی انتظامیہ کو ٹھیک کیا۔ اُس نے پولیس فورس کو اسلحہ، گاڑیاں اور ہمت دی۔ اُس نے اپنے اچھے افسروں کو حوصلہ دیا۔ ان پر سے سیاسی دبائو بالکل ختم کر دیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں ستر ہزار ملزم گرفتار کر لیے گئے۔ نتیش کمار نے سرکاری وکلاء اور گواہان کے ساتھ رابطہ مضبوط کیا۔ عدالتی نظام میں تبدیلیاں کیں۔ فوری انصاف کی عدالتیں بھی تشکیل دیں۔ مجرموں کو فوری سزائیں اور انتظامیہ کے فعال کردار نے بہار کا لاء اینڈ آرڈر ٹھیک کر کے رکھ دیا۔ لوگوں میں پہلی بار قانون کا خوف پیدا ہوا۔ لیکن ایک اصول جو ان تمام اقدامات کی بنیاد بنی وہ یہ کہ قانون کی عملداری معاشرہ کے تمام طبقوں کے لیے بالکل برابر کر دی گئی۔ امیر، غریب، سیاستدان یا جو بھی قانون کی گرفت میں آیا۔ اسکو قرار واقعی سزا ملی۔
بہار میں دو لاکھ گائوں ہیں۔ نتیش کمار نے تمام پسماندہ علاقوں کی ترقی کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ اُس نے ان تمام دیہاتوں میں "سڑکوں" کا جال بن دیا۔ اُن سڑکوں کو زیادہ اہمیت دی گئی جو اسکولوں کی طرف جاتی تھیں۔ سرکاری اسکولوں میں دوپہر کا کھانا، کتابیں، کپڑے اور طالب علموں کے آنے جانے کے لیے مفت سائیکلوں کا انتظام کیا۔ اس نے بچیوں کو بھی سمجھایا کہ وہ سائیکل پر اسکول جائیں۔ اور تعلیم ضرور حاصل کریں۔ حکومت نے طالب علموں میں لاکھوں سائیکلیں تقسیم کر دیں۔ تھوڑے عرصے میں بہار میں بچیوں کی شرح ناخواندگی70% سے کم ہو کر صرف40% رہ گئی۔ اسکولوں کے لیے بغیر کسی سفارش کے ڈیڑھ لاکھ ٹیچر بھرتی کیے گئے۔ گائوں، دیہات اور چھوٹے قصبوں کے لیے لا تعداد ترقیاتی اور معاشی اسکیمیں بنائی گئیں۔ چند ہی سال میں پورے ہندوستان سے لوگ بہار میں روزگار کی تلاش میں آنے لگے۔ نتیش کمار نے فوڈ پروسیسنگ کو بہت اہمیت دی۔ اس نے کوئی بلند بانگ دعویٰ نہیں کیا بلکہ بہار میں معمولی اور عام انجینئرنگ سے بننے والی اشیا ء کے کارخانہ لگوائے۔ اُس نے بہار کی مذہبی سیاحت کو فروغ دیا کیونکہ بدھ مت یہیں سے شروع ہوا تھا۔
اس کی وزارت اعلیٰ کے پہلے دور میں ترقی کی شرح دس فیصد پر پہنچ گئی اور دوسرے دور میں چودہ فیصد تک جا پہنچی۔ اس نے غیر ملکی اداروں کو اپنے صوبے کی ترقی کے لیے مہارت سے استعمال کیا۔ ورلڈ بینک سے اس نے نئے روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کی۔ ایشین ڈویلپمنٹ فنڈ اور جاپان کی مدد سے سڑکیں بنوائیں۔UNDP اورUNICEF کو تعلیم، صحت اور بچوں کے صورت حال ٹھیک کرنے کے لیے استعمال کیا۔ آج پوری دنیا سے بہار کی ترقی کے ماڈل کو دیکھنے کے لیے غیر ملکی ماہرین آتے ہیں۔ یہاں تک کہ بل گیٹس اور ان کی اہلیہ بھی بہار آئے اور بہار کی ترقی کا ماڈل دیکھ کر ششدر رہ گئے۔
اب میں پاکستان کی طرف آتا ہوں ۔ آپ یقین کیجیے کہ میں بالکل مایوس نہیں ہوں۔ ہماری سیاسی قیادت قطعاًء بانجھ نہیں ہے اور اس کی صفوں میں کئی نتیش کمار موجود ہیں۔ میں آپ کو چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک ایک مردِ عجیب ہے۔ جب وہ حلف لینے کے لیے آئے تو اُنکے پاس ڈھنگ کا ویسٹ کوٹ نہیں تھا۔ وہ ہنگامی بنیادوں پر خریدا گیا اور وہ ویسٹ کوٹ بہت معمولی درجے کا تھا۔ جب میں نے یہ بات سنی تو میرا پہلا تاثر تھا کہ یہ بات شاید زیب داستان کے لیے ہے۔ لیکن میں یہ سن کر حیران ہو گیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک کوئٹہ میں ایک نہایت عام درجہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ اس شخص نے وزیر اعلیٰ ہائوس میں منتقل ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ مگر سیکیورٹی کی وجہ سے مجبورََا اُن کو ایک انیکسی میں منتقل کیا گیا۔ حلف کے لیے جاتے ہوئے، اس شخص کے ہاتھ میں فیض احمد فیضؔ کا شعری مجموعہ ـ"نسخہ ہائے وفا" موجود تھا۔ سابقہ وزرائے اعلیٰ کے کپڑے دُھلانے کا ماہانہ بل تقریباََ ایک لاکھ روپیہ تھا۔ یہ پیسے سرکاری خزانے سے خرچ ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ سال ہا سال سے جاری تھا۔ لیکن اب یہ بند ہو چکا ہے کیونکہ ڈاکٹر مالک کے کپڑے ان کے اہل خانہ دھوتے ہیں۔ لہذا کم از کم ایک سال میں 10-12 لاکھ کی سرکاری بچت تو صرف یہ ہے۔ لیکن یہ تو شخصی باتیں ہیں ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچستان میں شعبہ تعلیم کا Endowment Fund پانچ ارب روپے کر دیا ہے۔ آبادی کے تناسب سے یہ پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ میری نظر میں یہ تمام باتیں انتہائی غیر معمولی ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ ہم لوگ بانجھ نہیں ہیں۔ اگر بہار انتہائی بگڑی ہوئی حالت سے بہت بہتر ہو سکتا ہے تو ہمارا ہر صوبہ بھی ترقی کی روشن مثال بن سکتا ہے۔ لیکن کیا ہمارا نظام کسی اچھے آدمی کو اوپر آ کر کام کرنے کی اجازت دے گا؟ میں جب بھی اس سوال کا جواب سوچتا ہوں تو طرح طرح کے اندیشے ذہن میں بگولوں کی طرح دوڑنے لگتے ہیں۔ مجھے کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ شاید میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے؟ لیکن کیا آپ کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟