ذرا چین تک

چھ دن پہلے ہم ہانگ کانگ سے چین جانے والی فیری میں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ شاید چین اتناترقی یافتہ نہ ہوجتنا ہانگ کانگ ہے۔

wabbasi@yahoo.com

چھ دن پہلے ہم ہانگ کانگ سے چین جانے والی فیری میں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ شاید چین اتنا ترقی یافتہ نہ ہو جتنا ہانگ کانگ ہے۔

ہم اپنے آفس کے کام کے سلسلے میں چار دن سے ہانک کانگ میں تھے اور اب دو دن کے لیے چین جارہے تھے۔ ہانگ کانگ اپنی ترقی کے لیے جانا جاتا ہے یہاں کی بلند و بالا فلک شگاف عمارتیں نیو یارک مین ہٹن کے مقابلے میں دگنی تعداد میں ہیں لیکن ہمارے ذہن میں چین وہی تھا جو شاید ہم نے اپنے بچپن میں ٹی وی کی ڈاکومنٹریز میں دیکھا تھا، چھوٹے چھوٹے گھر، تنگ گلیاں اور زندگی کی ہر مشکل سے نبرد آزما چینی باشندے۔

فیری کا ایک گھنٹے کا سفر کرکے ہم چین کے شہر جوہائین پہنچے، ہانگ کانگ کی طرح یہاں کے عام لوگ انگریزی نہیں بولتے ہیں اور نہ ہی یہاں سڑکوں اور پبلک جگہوں پر سائن بورڈ انگریزی میں ہیں۔ اس کا اندازہ ہمیں جوہائین پہنچتے ہی ہوگیا۔

فیری اسٹیشن پر ہم کو ''مسٹرلی'' ملے، یہ ایک چائنیز بزنس مین ہیں اور اگلے دو دن تک چین دکھانے کی ذمے داری ان کی تھی۔ مسٹرلی کو دیکھنے سے ایسا لگتا تھا کہ وہ ایک مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی آمدنی بس واجبی ہے لیکن ان کی ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ کی جدید ترین ماڈل کی گاڑی پارکنگ لاٹ میں دیکھنے کے بعد ہمارا اندازہ غلط ثابت ہوا۔

گاڑی میں بیٹھے اور ہمارا وہ سفر شروع ہوا جس میں ہم نے کئی باتیں چین کے بارے میں جانیں، ہم نے ان دو دنوں میں کئی مثالیں دیکھیں اور سیکھا کہ چین کا ایک عام آدمی کیسے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم چین کے بارے میں بہت غلط سوچ رہے تھے جب کہ جوہائین بیجنگ اور شنگھائی کے مقابلے میں بڑا شہر نہیں ہے اس کے باوجود وہاں ان گنت ہائی رائز بلڈنگس موجود ہیں دنیا کے بہترین ہوٹل اور ڈیزائنرز کی دکانیں ہر کونے میں نظر آرہی تھیں۔ دنیا کی بہترین گاڑیاں سڑکوں پر نظر آنا ایک عام سی بات تھی۔


عمدہ سڑکوں اور ٹریفک کے نظام سے متاثر ہوکر ہم نے مسٹر لی سے چائنا اور ان کے بارے میں پوچھنا شروع کیا، وہ سلسلہ جو اگلے دو دن تک چلتا رہا، انھوں نے بتایا کہ پچھلے دس سال میں چائنا نے امریکا سے سات گنا زیادہ grow کیا ہے لیکن ان کا جی ڈی پی دنیا میں اکیانوے نمبر پر آتا ہے یعنی وہاں ایک عام شخص بوسنیا میں رہنے والے شخص سے کم خرچ کر رہا ہے، چین میں اس وقت صنعتی عروج ہے۔ دنیا میں بکنے والے اسی فیصد (80%) کھلونے چین میں بنتے ہیں۔ اسی طرح پلاسٹک کے کرسمس ٹری 85 فیصد چائنا بناتا ہے اور اسی طرح کی سیکڑوں چیزوں کی مارکیٹ ہے جب کہ چین میں امیروں کی کمی نہیں اس کے باوجود یہاں کا عام آدمی کم کماتا ہے اور اس میں خوش رہنا جانتا ہے۔ بیجنگ کا ایک عام فیکٹری ورکر اگر سارا سال بھی اپنی تنخواہ بچائے تو وہ صرف دس فٹ رہائشی جگہ خرید پائے گا۔ شنگھائی اور بیجنگ کے بیچ چلنے والی ٹرین اس وقت امریکا کی تیز ترین ٹرین سے ڈبل اسپیڈ میں چلتی ہے، چین میں اتنی تیزی سے ترقی ہورہی ہے کہ 2025 تک اتنی ہائی رائز عمارتیں ہوجائیں گی کہ نیویارک جیسے دس شہر بن جائیں۔ ایک سروے کے مطابق 74% چینی چاہتے ہیں کہ وہ جو بھی کام کریں ان کے ملک کو اس سے فائدہ ہو جب کہ امریکا میں ایسی سوچ رکھنے والوں کی تعداد محض 42% ہے جب آپ چائنیز اسٹاک میں پیسہ لگاتے ہیں تو اس کا فائدہ براہ راست ان کی حکومت کو ہوتا ہے کیوں کہ شنگھائی اسٹاک ایکسچینج کے ٹاپ دس اسٹاکس حکومت کی ملکیت ہیں۔

اس وقت جب کہ ایک عام چینی باشندہ غریب ہے اس کے باوجود پندرہ سال میں چین کا جی ڈی پی امریکا سے آگے نکل جائے گا۔ مسٹر لی نے بتایا کہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں لیکن بہت چھوٹی عمر سے ایک فیکٹری میں کام کرنے لگے تھے انھیں شوق تھا کام سیکھنے کا محنت کرنے کا اور آگے بڑھنے کا اسی لیے انھوں نے دن رات کام کرنا شروع کردیا، فیکٹری میں کام کرتے کرتے انھوں نے ترقی کی منزلیں طے کیں فیکٹری کے مالک نے ان کے کام سے خوش ہوکر انھیں پروموشن دینے شروع کردیے اور جب مسٹر لی نے اپنا کاروبار شروع کرنے کا ارادہ کیا تو اسی فیکٹری کے مالک نے انھیں بینک سے قرضہ لینے میں مدد کی، حکومت کی طرف سے کئی ایسے منصوبے اور قرضوں کی فراہمی ہوتی ہے جوکہ ایک بزنس سیٹ کرنے والوں کے لیے مددگار ہوتے ہیں دس سال کے عرصے میں مسٹر لی دو فیکٹریوں کے مالک ہوگئے اور اب وہ دو ایسے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں جو اگلے دو تین سال میں اپنی خود کی فیکٹریاں قائم کرلیں گے۔

چائنیز جسمانی طور پر بہت مضبوط نہیں ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ ذہین لیکن انھوں نے ایک بات سیکھ لی کہ مل کر کام کرو اور ایک دوسرے کی مدد کرو، ہر فیکٹری ورکر صبح نو بجے سے رات نو بجے تک کام کرتا ہے، لیکن اس کے کام کی رفتار یا جذبے میں کمی نہیں ہوتی ایک اور بات جو ہم نے محسوس کی کہ چین میں ہر شخص اپنے ملک اور قوم کو پروموٹ کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے، چاہے وہ کوئی بس ڈرائیور ہے یا وہ کسی دکان پر کھڑا ہو یا کسی فیکٹری کا مالک ہو چین کے بارے میں پوچھنے پر ان کے جواب میں کہیں نہ کہیں چین کی تعریف ضرور ہوتی ہے۔

جوہائین سے گون جو جاتے ٹرین کے سفر میں ہم نے پھیلے ہوئے کھیت اور ایسی جھونپڑیاں دیکھیں جوکہ انڈیا پاکستان میں عام ہیں۔ چار مختلف موقعوں پر جب ہم نے ان جھونپڑیوں کا ذکر اپنے ساتھ موجود چائنیز سے کیا تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ جس رفتار سے ہمارا ملک ترقی کر رہا ہے تو جلد ہی یہ پکے مکانوں میں تبدیل ہوجائیں گی ان کی اس بات سے یہ صاف ظاہر تھی کہ وہ چین سے پیار کرتے ہیں اور اپنے وطن و قوم کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔واپسی کے وقت مسٹر لی سے ہاتھ ملاتے ہوئے خیال آیا کہ میرا پاکستان ان سے ایک سال پہلے آزاد ہوگیا تھا لیکن ہم کہاں رہ گئے اور یہ کہاں نکل گئے، میرے ملک میں کتنے ''لیاقت'' ایسے تھے جو مسٹر لی کے مقابلے میں کتنے زیادہ باصلاحیت تھے لیکن جہاں چائنا کے سسٹم نے اس اوسط ذہانت والے شخص کو کروڑ پتی بنادیا وہیں ہمارے یہاں کا ذہین لڑکا موقع کی تلاش میں اپنی زندگی ضایع کردیتا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب چینی سب سے زیادہ سادہ لوح قوم سمجھی جاتی تھی لیکن ایک دن ان کی آنکھیں کھلیں اور انھوں نے دنیا بدل دی۔

آئے گا ایک دن ایسا بھی جب ہماری آنکھیں کھلیں گی ہمارے نوجوانوں کو مواقعے ملیں گے۔ وہ دن جب ہمارے آگے نہ کوئی چائنا ہوگا اور نہ امریکا۔
Load Next Story