سماجی انقلابی تبدیلی

دنیا بھر میں مسلسل انقلابی تبدیلیاں ہوتی آرہی ہیں۔ کہیں جزوی اور کہیں کیفیتی۔ پانی اگر 100 سینٹی گریڈپرگرم ہوجائےتو۔۔۔

zb0322-2284142@gmail.com

KARACHI:
دنیا بھر میں مسلسل انقلابی تبدیلیاں ہوتی آرہی ہیں۔ کہیں جزوی اور کہیں کیفیتی۔ پانی اگر 100 سینٹی گریڈ پر گرم ہوجائے تو اسے تبدیلی تو کہیں گے مگر کیفیتی تبدیلی یا انقلابی تبدیلی نہیں کہہ سکتے۔ ہاں اگر پانی بھاپ بن جائے تو کیفیتی تبدیلی یعنی انقلابی تبدیلی کہا جائے گا۔ سماج میں رونما ہونے والے انقلاب اور رد انقلاب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کامیاب اور ناکام انقلاب بھی ہوتے ہیں۔ سرمایہ داری سے منصوبہ بند ریاست جیساکہ روس میں، ریاستی سرمایہ داری جیساکہ برما اور زمبابوے میں، مزدور کسان راج جیساکہ چین میں، سوشلسٹ معیشت جیساکہ شمالی کوریا میں ہے اور مشرقی یورپ میں تھا۔ انقلاب فرانس جاگیرداری اور بادشاہت مخالف تھا۔ پیرس کمیون خواہ وہ 90 دن ہی کیوں نہ رہا ہو کمیونسٹ سماج کی ابتدا تھا۔ اسپین کی عوامی جنگ جہاں 3 سال تک اسٹیٹ لیس سوسائٹی تھی، کیوبا میں منصوبہ بند معیشت وینزویلا، بولیویا، ایکواڈور اور بلاروس میں جزوی سوشلزم کا نفاذ ہے۔

ہر چند کہ یہ تبدیلیاں سماج کی مکمل تبدیلیاں نہیں ہیں۔ مکمل تبدیلی امداد باہمی، پنچایتی یا کمیونسٹ سماج میں مضمر ہے۔ اس طرح کی کیفیتی تبدیلی ابھی تک دنیا کے کسی بھی حصے میں نہیں آئی۔ ان نظاموں میں خرابیاں بھی ہوں گی لیکن سرمایہ دارانہ نظام سے ہزارہا گنا بہتر ہے۔ روس، ماؤزے تنگ کا چین، شمالی کوریا اور کیوبا میں کوئی بھوکا، جاہل، بے روزگار، لاعلاج، بے گھر، منشیات کا عادی قاتل یا گداگر نظر نہیں آیا یا آتا ہے۔ اس لیے کہ سوشلسٹ روس اور چین میں سرمایہ داری نہیں تھی۔ اسی طرح اب بھی بلاروس، کیوبا اور شمالی کوریا میں بھی سرمایہ داری نہیں ہے۔ شمالی کوریا، ایشیا بلکہ مشرق بعید کا صرف 2 کروڑ کی آبادی والا ملک ہے۔ پیجیرو، بی ایم ڈبلیو یا ہر ہاتھ میں موبائل فون نظر تو نہیں آئے گا۔ ہاں مگر یہاں 100 فیصد لوگ خواندہ ہیں، باروزگار ہیں، سب کا معقول، بروقت اور مفت علاج ہوتا ہے۔ رہنے کو گھر ہے، تحقیق اور تخلیق کے مساوی مواقعے ہیں۔ ان کا سفارت خانہ پاکستان میں بھی ہے اور قونصل خانہ کراچی میں ہے۔

گزشتہ دنوں کراچی مسلم جمخانہ میں سوشلسٹ کوریا (شمالی کوریا) کی آزادی کی 65 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب پاک کورین ایسوسی ایشن کے صدر غلام ربانی کی زیر صدارت منعقد ہوئی۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے صوبائی وزیر کچی آبادی جاوید ناگوری تھے۔ اسٹیج سیکریٹری کا کام پاک کورین ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری جاوید انصاری تھے۔ جامعہ کراچی معاشیات کی پروفیسر شاہدہ وزارت اور راقم (زبیررحمن) نے خطاب کیا۔ ایسوسی ایشن کے صدر غلام ربانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا میں انقلاب آیا اور عوام کو ضروریات زندگی فراہم کی گئیں۔ اس انقلاب کو برپا کرنے کے لیے رہنماؤں نے اپنے آپ کو ماڈل بناکر پیش کیا اور عوام نے ان کی تقلید کی، تب جاکر وہاں مساوات قائم ہوئی اور جہالت، بیروزگاری، بھوک، افلاس، گداگری، منشیات، قتل و غارت گری اور خودکشیاں ختم ہوئیں۔اسی طرح آج ہمارے ملک کے منتخب رہنماؤں کو عوام کے سامنے ماڈل بن کر پیش ہونا چاہیے اور ہم ان کی تقلید کریں گے۔

غلام ربانی نے کہا کہ ہم نے ووٹ دے کر انھیں منتخب کیا ہے اور اب ان کا کام ہے کہ مثالی انسان بن کر ہمیں تقلید کا موقع فراہم کریں۔ جس طرح سے شمالی کوریا کے رہنماؤں نے کیا ہے۔ اس تجویز پر حاضرین کی تالیوں سے ہال گونج اٹھا جب کہ ایک آدھ مہمان کو یہ بات نہ بھائی۔ جاوید انصاری نے خطاب کرتے ہوئے شمالی کوریا کی آزادی کے موقعے پر کوریائی حکومت اور عوام کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عوام کو کوریائی انقلاب اور آزادی کو نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ ایسا انقلاب یہاں بھی لانے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ مہمان خصوصی سندھ کچی آبادی کے وزیر جاوید ناگوری نے سوشلسٹ کوریا کے انقلاب کی 65 ویں سالگرہ پر کوریائی حکومت اور عوام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ایسا ہی انقلاب لانے کی پاکستان میں جدوجہد کی۔ بھٹو صاحب کے دور میں صحت اور تعلیم کا بجٹ 43 فیصد تھا۔ مگر سامراجیوں نے بھٹو صاحب کا عدالتی قتل کیا، مگر پی پی پی کے کارکنان اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔


کراچی یونیورسٹی شعبہ معاشیات کی پروفیسر شاہدہ وزارت نے کوریا کی آزادی کے موقعے پر کوریائی حکومت اور عوام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہاں معاشی ناہمواری اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کرنے سے ہی یہ کامیابی حاصل ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ جس امریکی سامراج نے کوریا پر تین سال تک بم گرائے اور وہی امریکا آج شام پر حملہ کرنے کے درپے ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خطے میں سارے امن پسند اور جنگ مخالف قوتیں سامراجی عزائم کے خلاف متحدہ موقف اختیار کریں اور اقدام کریں۔راقم (زبیر رحمن) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوریا نے امریکا سامراج سے تین برس تک مسلح جدوجہد کی جس کے نتیجے میں کوریا حقیقی معنوں میں آزاد ہوا۔ 1951-53 تک سامراجی جنگ لڑنے کے بعد جب فریقین میں صلح ہوئی تو یہ طے پایا کہ جنوبی کوریا سے امریکی افواج اور شمالی کوریا سے دنیا بھر سے آئے ہوئے کمیونسٹ رضاکار واپس چلے جائیں گے۔

بعدازاں کمیونسٹ رضاکار جو ویت نام، چین، لاؤس، تھائی لینڈ، برما، فلپائن اور جاپان وغیرہ سے آئے تھے سب شمالی کوریا سے واپس چلے گئے لیکن جنوبی کوریا سے امریکی افواج واپس نہیں گئیں بلکہ باقاعدہ وہاں اب بھی امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ راقم نے کہا کہ جرمنی کے اتحاد میں امریکا بہت دلچسپی لے رہا تھا جب کہ شمالی اور جنوبی کوریا کے اتحاد میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ کوریائی عوام ایک ایسے عوام ہیں جنھوں نے جاپانی سامراج سے لڑ کر آزادی حاصل کی، پھر فرانس اور آخر کار امریکی سامراج سے مسلح جدوجہد کے ذریعے کوریا کو آزاد کرایا۔ کوریا کا انقلاب صرف کوریائی عوام کا نہیں بلکہ یہ عالمی انقلاب کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ ہر چند کہ یہاں کی کل آبادی 2 کروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت اس سے کانپتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ کوئی طلسماتی قوت ہے بلکہ ان کے پاس جو نظریہ ہے وہ غیر طبقاتی معاشرے کا نظریہ ہے، یہ نظریہ کہیں آس پاس میں پھیل نہ جائے اس سے امریکی سامراج بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔

مگر اب وہ کہاں تک بچے گا، امریکا کے پڑوس میکسیکو میں انقلابی تحریک زوروں پہ ہے اور 100 میل کے فاصلے پر پورا لاطینی امریکا میں سوشلسٹ کمیونسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ کا راج ہے۔ یورپ اب انقلاب کی لپیٹ میں ہے۔ عالمی سرمایہ داری زوال پذیری کا شکار ہے۔ سارے یورپ میں معاشی بدحالی نے گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ اسپین، یونان، اٹلی، پرتگال، فرانس، بلغاریہ، یوکرائن میں انقلابی تحریکیں چل رہی ہیں۔ آئس لینڈ اور آئرلینڈ دیوالیہ ہوچکا ہے۔ یونان، اسپین، پرتگال اور اٹلی تیزی سے دیوالیہ ہونے کی جانب گامزن ہیں۔ چینی محنت کش انقلابی انگڑائی لے رہے ہیں۔ ہندوستان کے 17صوبوں کے 200 اضلاع میں ماؤ نواز کمیونسٹ برسر پیکار ہیں۔ ان میں بیشتر اضلاع میں کمیونسٹوں کا راج ہے۔ یہاں خودکار کمیٹیاں فیصلے کرتی ہیں۔ زیادتی اور ظلم کا بدلہ کمیونسٹ کارکنان خود لیتے ہیں۔ دھان اور گندم پکنے پر کاٹ کر غریب عوام میں بانٹ دی جاتی ہے۔ بھارت، چین، ویت نام اور کوریا کے عوام نئی انقلابی تحریکوں کی تیاری کر رہے ہیں۔

مارکس نے درست کہا کہ ''سماج کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ کبھی کھلے بندوں اور کبھی سطح کے نیچے طوفان چلتا ہے۔'' صرف چین میں گزشتہ سال مزدوروں اور کسانوں کے سوا لاکھ مظاہرے ہوئے، جنوبی کوریا کی موٹر کمپنیوں، الیکٹریکل، الیکٹرونیکل اور میٹالوجیکل اور کیمیکل کے مزدوروں نے قابل ذکر مظاہرے کیے۔ تھائی لینڈ، فلپائن اور انڈونیشیا میں بھی عوامی تحریک زوروں پر ہے۔ اس لیے شمالی کوریا کی انقلابی حکومت اب کوریا تک نہیں محدود رہے گی بلکہ یہ تحریک پورے مشرق بعید، ایشیا اور دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ پھر عالمی طور پر ایسا انقلاب برپا ہوگا جہاں ریاستوں کی سرحدیں ٹوٹ جائیں گی اور اپنی مدد کی بنیاد پر شہری روزمرہ کی کارہائے زندگی کو خود چلائیں گے اور ایسی وال اسٹریٹ قبضہ تحریک 88 ملکوں کے 900 شہروں میں چل چکی ہے۔ یہ چنگاری اب کوریا، چین یا جاپان سے بھڑک سکتی ہے جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
Load Next Story