حکومت گاڑیاں درآمد کرنے دے ایک ارب ڈالر ریونیو دینگے موٹر ڈیلرز

یہ پرانی گاڑیاں ایندھن کےضیاع کا بھی اہم ذریعہ ہیںجس سےمعیشت کو درآمدی بل کی صورت میں دبائو کاسامنا ہے، ایچ ایم شہزاد

ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کے مطابق اب تک تشکیل دی جانیوالی سابقہ تمام آٹو پالیسیوں سے مخصوص طبقے اور اسمبلرز کو فائدہ پہنچا ہے۔ فوٹو: فائل

آل پاکستان موٹرڈیلرز ایسوسی ایشن نے عوامی آٹو پالیسی کے ذریعے گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ کی اجازت کی صورت میں حکومت کو سالانہ ایک ارب ڈالر کے محصولات کی ادائیگی کی پیش کش کردی ہے۔

ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کے مطابق اب تک تشکیل دی جانیوالی سابقہ تمام آٹو پالیسیوں سے مخصوص طبقے اور اسمبلرز کو فائدہ پہنچا ہے۔ پاکستان میں آٹو کمپنیاں عوام سے گاڑیوں کی ایڈوانس قیمت کی شکل میں اربوں روپے اکھٹے کرکے کاروبار کررہی ہیں اور چار سال کے دوران مقامی سطح پر تیار کردہ گاڑیوں کی قیمت 100فیصد تک بڑھائی جاچکی ہے، نئی حکومت عوام کے مسائل کا ادراک رکھتی ہے اس لیے آٹو ڈیلرز پرامید ہیں کہ آئندہ آٹو پالیسی مخصوص طبقے اور کمپنیوں کے مفاد کو مدنظر رکھنے کے بجائے عوامی مفاد میں تشکیل دی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں گاڑیوں کی طلب اور رسد میں سالانہ 4لاکھ گاڑیوں کے گیپ کا سامنا ہے جو 20سے 25سال پرانی متروک گاڑیوں کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے ان گاڑیوں سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے بلکہ عوام کو پرانی گاڑیوں کے مینٹی نینس کی مد میں بھی بھاری اخراجات اٹھانا پڑرہے ہیں۔





یہ پرانی گاڑیاں ایندھن کے ضیاع کا بھی اہم ذریعہ ہیں جس سے معیشت کو درآمدی بل کی صورت میں دبائو کاسامنا ہے دوسری جانب مقامی سطح پر تیار کی جانیو الی گاڑیاں عوام کی قوت خرید سے باہر جاچکی ہیں اور نئی گاڑی کی خریداری ایک لگژری بن چکی ہے۔ 30سال گزرنے کے باوجود ڈیلیشن کے اہداف پورے نہ ہوسکے فنکشنل انجن، گیئر باکس اور الیکٹرکیل پارٹس اب بھی درآمد کیے جارہے ہیں جبکہ ٹی بی ایس کے تحت تھرڈ کنٹری تھائی لینڈ ملائیشیا سنگاپور اور چین سے پرزہ جات کی آزادانہ درآمد جاری ہے۔ مقامی سطح پر تیار کردہ کوئی گاڑی 6لاکھ روپے سے کم قیمت پر دستیاب نہیں ہے۔ سی کے ڈی کی درآمد پر بھاری زرمبادلہ ملک سے باہر جارہا ہے جبکہ استعمال شدہ گاڑیوں کی شکل میں زرمبادلہ ملک میں لایا جارہا ہے اور ہر چھوٹی گاڑی پر حکومت کو 2لاکھ روپے تک کے محصولات بھی ادا کیے جارہے ہیں۔ گزشتہ سال 55ہزار استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر حکومت کو 30ارب روپے سے زائد کے محصولات ادا کیے گئے۔

اس کے برعکس مقامی سطح پر اسمبل کی جانے والی گاڑیاں عوام سے 100فیصد ایڈوانس رقم لے کر تیار کی جاتی ہیں جن کی ڈلیوری 4سے 6ماہ میں دی جاتی ہے دنیا کے کسی بھی ملک میں عوام کے سرمائے سے اتنا منافع بخش کاروبار چلانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایسوسی ایشن نے حکومت پر زور دیا ہے کہ آئندہ آٹو پالیسی میں عوام کی سہولت کے پیش نظر استعمال شدہ گاڑیوں کی تجارتی بنیادوں پر درآمد کی اجازت دی جائے تو ڈیلرز سالانہ ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں درآمد کریں گے جن میں 80فیصد چھوٹی گاڑیاں ہوں گی جن کی درآمد سے حکومت کو ایک ارب ڈالر تک کا ریونیو حاصل ہوگا جبکہ ایندھن میں کفایت بخش ہونے کی وجہ سے توانائی کے بحران پر قابو پانے قدرتی گیس کی بچت ہوگی سب سے بڑھ کر عوام کو اچھی حالت میں مناسب قیمت پر بین الاقوامی سطح پر رائج سیفٹی اسٹینڈرز پر پورا اترنے والی گاڑیاں دستیاب ہوں گی۔
Load Next Story