بابری مسجد فیصلہ اور مسلمان

ہندوؤں کا دعوی ہے کہ یہ جگہ رام کی جائے پیدائش یا جنم بھومی ہے اور یہاں ایک مندر بھی تھا۔

بابری مسجد ایک انتہائی دیرینہ سیاسی، تاریخی اور سماجی و مذہبی تنازعہ ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک فیصلے میں مسجد کے مقام پر مسلمانوں کے دعویٰ ملکیت کو مسترد کردیا۔ بابری مسجد مغل بادشاہ بابر نے 491 سال قبل 1528میں تعمیر کروائی تھی، 1992میں ہندو جتھے اس پر حملہ آور ہوئے اور عمارت کو منہدم کردیا۔

ہندوؤں کا دعوی ہے کہ یہ جگہ رام کی جائے پیدائش یا جنم بھومی ہے اور یہاں ایک مندر بھی تھا۔ اسی مقام پر ہندوؤں کی ایک کمیٹی کو مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل مقام پر پانچ ایکڑ زمین دی جائے گی۔ اس تنازعے کے پس پردہ اسباب اور عدالتی فیصلے کے اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

تاریخی دستاویزات کے مطابق بابری مسجد ایودھیا کے وسط میں ایک بہت بڑے ٹیلے پر بنائی گئی، اس ٹیلے کو رامادرگ یا رام کوٹ(رام کا قلعہ) کہا جاتا تھا۔ 1528تک وہاں کوئی مندر نہیں تھا، جس کے انہدام کا الزام بابر یا مسلمانوں پر عائد کیا جاتا ہے۔ اس ٹیلے سے کچھ آثار ملے، ممکنہ طور پر یہ کسی مندر کی باقیات بھی ہوسکتی ہیں، لیکن یہ آثار وہاں صدیوں سے دفن تھے اورجس پر ایک ٹیلا بن چکا تھا جس پر مسجد تعمیر کی گئی۔

رام ہندو مت کاایک بڑا دیوتااور شیو کا معروف ترین اوتار ہے۔ ان کے حالات زندگی پر مبنی ''رامائن'' سنسکرت میں ہندوستان کی قدیم ترین رزمیہ داستانوں میں سے ایک ہے۔ اس داستان کو ہندو کلچر میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ مقامی سطح پر رام لیلا فوک تھیڑ کی ایک باقاعدہ روایت ہے۔ اس کہانی پر کئی معروف ٹی وی سیریل بنائے جاچکے ہیں اور اسی وجہ سے یہ داستان ایک طرح ہر ہندو کے حافظے کا حصہ بن چکی ہے۔

اس داستان کے مطابق رام کوسالا کے بادشاہ دشرتھ کے بیٹے تھا، جس کا دارالحکومت ایودھیا کے مقام پر تھا جو آج ہندوستان کے شمال میں اتر پردیش میں واقع ہے۔ جس عہد میں یہ سلطنت قائم تھی اور رام یہاں سکونت پذیر تھے یہ 1100سو سے 500قبل مسیح کا دور بنتا ہے۔ 500 قبل مسیح میں پڑوسی بدھ سلطنت مگدھ نے ایودھیا فتح کیا۔ رام بدھ مت سے قبل 2700 قبل مسیح کے ویدک عہد میں رہے ہوں گے، جو 500 قبل مسیح سے بہت پہلے کا دور بنتا ہے۔

بھارت کی ریاست یو پی کا انتظامی صدر مقام فیض آباد ہے(جسے سرکاری طور پر ایودھیا کہا جاتا ہے)۔ جدید شہر ایودھیا کو رامائن کی داستان سے جوڑا جاتا ہے۔ اس شہر کا اس داستان سے تعلق ہی ایودھیا تنازعے کا بنیادی نقطہ ہے۔ موجودہ عہد کے بعض مؤرخین کے نزدیک آج کا ایودھیا اور رامائن میں مذکور ایودھیا ایک ہی شہر ہیں، دیگر کے نزدیک یہ اساطیری شہر تھا اور چوتھی پانچویں صدی کے گپتا عہد میں موجودہ ایودھیا کو یہ نام دے دیا گیا۔ بعض حوالوں کے مطابق موجودہ ایودھیا قدیم سکیتا ہی کا نام ہے جو کہ قبل مسیح کے پہلے ہزاریے میں کوسالا کی سلطنت کا اہم شہر تھا اور بعد میں دارالحکومت بنا۔

بابری مسجد پانچ سو برس تک غیر متنازعہ رہی اور اس پر پہلے ہندومسلم فسادات انگریز دور میں ہوئے جب انیسویں صدی کے آغاز میں برطانوی ہندومت کو بطور مذہب مجتمع کرچکے تھے۔ تاریخی طور پر ایودھیا میں ہنومان گڑھی کی ایک مسجد کے قریب1850کی دہائی میں مذہبی بنیادوں پر فسادات کی ابتدا ہوئی۔ اس دوران ہندو بابری مسجد پر حملہ آور ہوئے۔


اسی وقت سے ہندوؤں کی جانب سے گاہے بہ گاہے اس مقام پر مندر بنانے کی اجازت کا مطالبہ کیا جاتا رہا، برطانوی حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔ 1946میں ہندو مہا سبھا کی ذیلی تنظیم بھارتیہ رامائن مہاسبھا(اے بی آر ایم)نے اس جگہ کے قبضے کے لیے احتجاج شروع کیا۔ 1949 میں گورکھ ناتھ مٹھ کے سنت دگوجے ناتھ نے اے بی آر ایم میں شمولیت اختیار کی اور نو دن تک تلسی داس کی رامائن کا پاٹ کیا، اس کے بعد ہندو کارکنوں نے مسجد میں گھس کر رام اور سیتا کی مورتیاں رکھ دیں۔ لوگوں نے یہ سمجھا کہ مورتیاں ''معجزاتی'' طور پر مسجد کے اندر ظاہر ہوئیں۔ یہ واقعہ 22دسمبر 1949کو ہوا۔

جب نہرو نے مسجد سے مورتیاں نکالنے پر زور دیا تو انتہا پسندوں کے ساتھ روابط کی شہرت رکھنے والے مقامی افسر کے کے کے نائر نے یہ جواز بنا کر احکامات ماننے سے انکار کردیا کہ اس سے فرقہ ورانہ فسادات پھوٹ پڑیں گے۔ پولیس نے عمارت کے دروازوں پر تالاڈال دیا اور عوام(ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں) کا داخلہ ممنوع کردیا گیا۔ تاہم مورتیاں مسجد کی عمارت ہی میں رکھنے اور روزمرہ پوجا پاٹ کی اجازت دے دی گئی، عملاً مسجد کو مندر میں تبدیل کردیا گیا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں نے اس جگہ پر عدالت میں دعوی دائر کیا۔ اس اراضی کو متنازعہ قرار دے کر دروازوں کو مقفل ہی رکھا گیا۔

1964میں وشیو ہندو پریشد(وی ایچ پی) قائم ہوئی اور اس نے بابری مسجد کی زمین حاصل کرنے کے لیے احتجاج کا آغاز کیا۔ مورتیاں ہٹانے کے حکم کی تعمیل نہ کرنے والے ضلعی مجسٹریٹ نائر کو ایک دن اچانک برطرف کردیا گیا جس کے بعد وہ مقامی ہیرو بن گیااور بعدازاں بھارتیہ جنا سنگھ کا سیاسی رہنما ہوگیا۔ 1984میں وی ایچ پی نے مندر کی تعمیر کے لیے کمیٹی تشکیل دی۔ 6دسمبر 1992کو وی ایچ پی اور اس کی اتحادی تنظیم کے انتہا پسند ہندو کارکنوں نے مسجد شہید کردی اور اس کے بعد مسجد کے مقام پر ہندو قوم پرستوں کی ریلی نے اشتعال انگیزی شروع کردی۔ دوہزار افراد، جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، کو خون میں نہلا دیا گیا۔ اینٹوں اور پتھروں پر انسانوں کا خون بہایا گیا اور ہندو شدت پسندوں کی اس سفاکی پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

2003میں ماہرینِ آثاریات نے عدالتی احکامات پر اس مقام پر مندر ہونے کی تصدیق کرنے کے لیے سروے کیا۔ سروے میں مسجد کی زمین کی تہہ میں مندر ہونے کے شواہد ملنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن متعدد ماہرینِ آثاریات نے ان شواہد کو متنازعہ قرار دیا۔ حالیہ عدالتی فیصلے میں اس سروے رپورٹ کے اقتباسات نقل کیے گئے ہیں جن کے مطابق اگر یہ بات ثابت ہوبھی جائے کہ اس جگہ سے ملنے والی باقیات کسی مندر ہی کی ہیں اس کے باوجود یہ رام کا مقام پیدائش ثابت نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر آج کے ایودھیا کو کوسالا کی سلطنت کا اساطیری دارالحکومت اور رام کا وطن مان بھی لیا جائے تو ان آثار کی قدامت کے تعین کے بارے میں کوئی واضح نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے تو یہی ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں حقائق کے بجائے بی جے پی کے انتہا پسندانہ موقف کو پیش نظر رکھا گیا۔

ایودھیا پر عدالتی فیصلہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی انتہا پسند ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے تاحیات رکن نہیں، یہ ہندو قوم پرستی کی سب سے بڑی نمایندہ تنظیم تسلیم کی جاتی ہے اور بھارتی مسلمانوں کو غیر ملکی، پاکستانی کارندہ یا کم سے کم گمراہ تصور کرتی ہے۔ ان ''گمراہ'' بھارتیوں کو ہندو بنانے کے لیے وہ ''گھر واپسی''کی مہم بھی چلاتی ہے۔ حکمران جماعت بی جے پی بھی اسی فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ 1992میں بابری مسجد کا سانحہ ہو یا 2002کا گجرات میں ہونے والا قتل عام یا پھر ملک بھر میں مسلم کُش فسادات کا جاری سلسلہ مودی اور بی جے پی کی پالیسی ہزاروں بھارتی مسلمانوں کی زندگیاں نگل چکی ہے۔

یہ سب 'سیکیولر' بھارت کی تاریخ کا حصہ ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ بھی بی جے پی کی طرح ہندو انتہا پسندی کی محافظ بن کر سامنے آئی ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھارتی آئین سے آرٹیکل 370اور 35اے کے خاتمے کے بعد آیا ہے اور اس نے بھارتی عدالتوں کی غیر جانب داری اور آزادی کو مشکوک کر دیا ہے۔ کئی بھارتی ماہرین اور سپریم کورٹ کے سابق ججوں نے اس فیصلے پر سوال کھڑے کیے ہیں اور حقائق کے بجائے توہمات کو اس کی بنیاد قرار دیا ہے۔ فیصلہ سامنے آنے سے پہلے ایودھیا اور باقی ملک میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔

کیا بھارت کے مسلمانوں کی آواز دبانے کے لیے یہ سب کچھ کافی رہے گا؟ یہ سوال بھی ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کا دفاع کیا صرف پاکستان کی ذمے داری ہے؟ افغانستان اور بنگلہ دیش میں بسنے والے مسلمان بھارت میں خوف اور مظالم کا شکار اپنے مسلم بھائیوں کے بارے میں کیا احساسات رکھتے ہیں؟یہ سوال عرب و عجم کے سبھی مسلمانوں سے بھی کیا جانا چاہیے، یہ سب مسلمان کہاں ہیں؟

(مضمون نگار اکرام سہگل سیکیورٹی اور دفاعی امور کے ماہر ہیں اور ڈاکٹر بیٹینا روبوٹکا برلن کی ہمبلوٹ یونیورسٹی کے شعبہ برائے جنوبی ایشیا کی سابق سربراہ ہیں)
Load Next Story