جہاں گشت

اپنا یہ پگلا بچہ رب تعالیٰ کے حکم پر تمہیں سونپ رہا ہوں، احتیاط کرنا بہت پاگل ہے یہ ۔۔۔۔۔ !

مجھ سے وہ زنجیر نہ ٹوٹی جو تُونے پہنائی تھی۔اپنا یہ پگلا بچہ رب تعالیٰ کے حکم پر تمہیں سونپ رہا ہوں، احتیاط کرنا بہت پاگل ہے یہ ۔۔۔۔۔ !

ISLAMABAD:
قسط نمبر69

بابا نے فقیر کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور ہم جانے کے لیے تیار تھے کہ ان مُجسّموں میں اچانک زندگی کے آثار نمودار ہوئے اور پھر وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے، سر جھکائے ہوئے تھے وہ اور ان کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ پہلے وہ پھوار بنے اور پھر گرج چمک کے ساتھ برسن ہارے رم جھم، رم جھم ہوئے۔ منظر یک سر بدل گیا تھا، جیسے برسات کے بعد آکاش نکھر جاتا ہے۔

بابا نے میرا ہاتھ چھوڑا اور ان کے سروں پر اپنا دست شفقت رکھا، بابا کے دست شفقت کی تاثیر یہ کمّی کمین بہت اچھی طرح سے جانتا تھا کہ کیسے دل کی بے قراری کو قرار آجاتا ہے، یہی ہُوا ان پر سکینت اتر آئی تھی، اس ماہ وش کے والد بابا سے لپٹے ہوئے سسک رہے تھے اور ان کے والدہ ساتھ کھڑی ہوئی زمین کو تک رہی تھی، ملازم یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہا تھا اور فقیر تو رہا ہی ہمیشہ محو حیرت ہے جی۔ اتنے میں اطلاعی گھنٹی نے کسی کے آنے کا مژدہ سنایا اور ملازم نے باہر دوڑ لگائی، واپسی میں اس کے ساتھ وہ پَری رُو ماہ وش تھی۔

اس نے آتے ہی بابا کو جُھک کر سلام کیا اور اس کے لیے بھی بابا کا دست شفقت مقدر تھا، پھر وہ اپنے والدین کی حالت دیکھ کر پریشان ہوئی۔ کیا ہُوا آپ کو ۔۔۔ ؟ اس نے اُن نے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ وہ لب کُشا کرتے بابا بول پڑے: کچھ نہیں ہوا پگلی! ہم تمہارے متعلق باتیں کر رہے تھے تو بات ذرا تفصیل سے ہوگئی، یہ بہت نیک دل ہیں ناں ان کا جی بھر آیا، تم سے اتنا پیار جو کرتے ہیں۔

اوہو! تو یہ بات ہے، ہاں یہ تو سچ ہے کہ میرے بنا تو ماما پاپا جی ہی نہیں سکتے۔ اچھا بابا! آپ رکیے میں ابھی آتی ہوں، کہہ کہ وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں اور بابا صوفے پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگے۔ تب اس کے والد نے بابا سے کہا: ہم سے جو غلطی ہوئی، اس کے لیے ہم انتہائی شرمندہ ہیں، آپ بڑے ہیں، آپ کا دل بھی بڑا ہے، ہمیں معاف کر دیجیے، آج سے آپ ہی ہمارے سرپرست ہیں، ہمیں قبول کرلیجیے، اور رہی ہماری بیٹی تو اسے تو آپ اپنی بیٹی کہہ ہی چکے ہیں تو بس آج سے سارے اختیارات آپ کے ہیں، آپ جو فیصلہ کریں گے ہم دل و جاں سے اسے قبول کرتے ہیں، لیکن ہمیں اب تنہا مت چھوڑیے گا۔

ارے ارے! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، فقیر کا کام تو بس سمجھانا ہے جی، باقی کام تو رب تعالٰی کے ہیں کہ وہ فقیر کی بات میں برکت ڈالے اور وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں رب تعالی اپنے گناہوں پر ندامت کی کرامت مرحمت فرماتا ہے، بہت خوش مقدّر ہوتے ہیں وہ جی! انسان تو خطا و نسیان میں گُندھا ہوا ہے، خطاکار و گناہ گار ہے جی! اور کون ہے، جو خطا و گناہ سے پاک نہ ہو، انسان ہو اور خطا کار نہ ہو، ممکن ہی نہیں، بس وہ لوگ ہیں۔

اس سے مبّرا جنہیں رب تعالٰی ایسا بنائے کہ وہ معصوم ہوں، لیکن وہ لوگ ہوتے ہیں رب کے چہیتے جو اپنی غلطیوں کا ندامت سے اعتراف کریں ، اس پر کبھی جواز نہ لائیں اور اس کا ارتکاب بھی نہ کریں بل کہ اپنی زیادتیوں کو حسنات سے بدلنے کی سعی کریں، جتنا بھی ممکن ہو سکے اور رب تعالٰی سے دعا کرتے رہیں کہ مالک ہم سے غلطی ہوئی، ہم خطاکار ہیں اور اس پر شرمندہ ہیں بس تُو ہمیں معاف کردے اور اپنی پناہ میں کھ لے۔

ہمارے لیے ہر وہ راہ کھوٹی کردے جو تیری حکم عدولی کی طرف لے جائے اور ہمیں اپنے فضل و کرم سے اس راہ کا مسافر بنادے جو تیری رضا کی طرف جاتی ہو، وہ نیک بخت لوگ بس تیری رضا میری تسلیم جپتے رہتے ہیں جی! اور پھر رب تعالٰی ان کی خطاؤں سے درگزر کردیتا اور انہیں اپنی رضا کا پروانہ عطا فرما دیتا ہے اور یہی نجات کا سندیسہ ہے جی! آپ نے رجوع کیا تو بس بات ہی ختم ہوئی، اب بس رب تعالٰی سے لو لگائیے اور سکھی رہیے، فقیر کو آپ نے جو عزت دی رب تعالٰی آپ کو اس کا احسن بدل عنایت فرمائے اور آپ کو راہ راست پر رکھے۔

بابا کی بات میں وقفہ آیا ہی تھا کہ وہ ماہ وش کمرے میں داخل ہوکر بابا کے پاس بیٹھ گئی، پھر اس نے میری جانب دیکھا اور کہا: تمہیں کیا ہُوا ہے، یہ کیا حال بنایا ہُوا ہے تم نے اپنا، زیادہ شوق تھا تو گلے میں کوئی اچھی سی چَین پہن لیتے ناں۔ فقیر نے مُسکرا کر اس کی جانب دیکھا تو بابا بو ل پڑے: بٹیا! یہ زنجیریں تو میں نے اسے پہنائی ہیں، بک بک بہت کرتا ہے ناں، اتنا بڑا ہوگیا ہے اور کبھی کبھی اڑیل گدھا بھی بن جاتا ہے، تو اسے ذرا سیدھا کرنا تھا، تالا تو اس کے مونہہ کو لگانا چاہیے تھا لیکن بس اس کے ساتھ رعایت کی، تم اس کی زیادہ فکر مت کرو۔ اس نے بابا کی باتیں حیرت سے سنیں اور پھر اس میں حنیف بھائی کی روح داخل ہوگئی۔

حنیف بھائی میری وجہ سے بابا سے الجھ جاتے تھے، لیکن کچھ عرصے سے وہ خاموش تھے، بابا مجھے کچھ بھی کہیں وہ کبھی مداخلت نہیں کرتے تھے، فقیر کو جب پابہ زنجیر کیا گیا تھا تو اس نے سوچا تھا کہ حنیف بھائی قیامت مچا دیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تھا، لیکن اب فقیر کے سامنے وہ ماہ وش بابا سے مزاحم تھی، عجب ہے ناں یہ، جی بہت عجیب، فقیر کو یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ماہ وش حنیف بھائی اور حنیف بھائی ماہ وش بن گئے تھے۔

اس نے بابا کی بات سنی اور پھر تو غضب ہی ہوگیا وہ میرے ساتھ آکر بیٹھ گئی اور بابا سے مخاطب ہوئی: یہ کیا بات ہوئی بابا! یہ کون سا طریقہ ہے سمجھانے کا، آپ اسے بڑا کہہ رہے ہیں، کہاں سے لگتا ہے یہ بڑا، قد بڑا ہونے سے کوئی بڑا ہوجاتا ہے کیا، آپ نے زیادتی کی اس کے ساتھ اور ۔۔۔۔ ۔ بابا نے اس کی بات درمیان میں سے ہی اچک لی اور گویا ہوئے: دیکھو پگلی! سنو ہماری دنیا اس دنیا سے مختلف ہے، تم سمجھ رہی ہو کہ میں نے اس سے زیادتی کی، نہیں، نہیں میں تو ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا، مجھے تو اس سے بے پناہ انس ہے پگلی، میرا بچہ ہے یہ اور چہیتا بھی اور یہ جو کچھ کیا ہے بہت پیار سے کیا ہے میں نے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی پیچھے ہٹنے والی کہاں تھی، اس نے بھی بابا کی بات درمیان سے کاٹ ڈالی اور بولی: بابا اچھی محبّت ہے یہ، اچھا اُنس ہے کہ اسے قید کردیا اور کہہ رہے ہیں کہ بہت پیار سے کیا ہے یہ سب کچھ، میری سمجھ سے بالا ہے آپ کا پیار، اسے چہیتا بھی کہہ رہے ہیں اور سزا بھی دے رہے ہیں، آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

لیکن اب جو آپ نے کیا وہ تو ہوگیا اب آپ فورا اسے آزاد کریں بس۔ اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا، فقیر اس کی جرأت اور جسارت پر حیران تھا کہ اس نے بابا سے اس لہجے میں ناصرف بات کی بل کہ ان پر تنقید کی اور اپنا حکم بھی سنا ڈالا۔ اس کے والدین بھی اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے لیکن بابا مسکرا رہے تھے اور پھر وہ بولے: بہت پگلی ہو تم، اچھا تو ہم سوچیں گے کہ تمہارے اس چھوٹے بھائی کا کوئی اور علاج کریں، چلو اب تو خوش ناں۔ ہاں بس جلد سوچیے گا، کہہ کر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے کمرے میں لے آئی۔ فقیر یہ سمجھا کہ اب وہ حنیف بھائی کا معلوم کرے گی لیکن نہیں صاحب وہ تو فقیر کو کھوجنے کی مشتاق تھی۔ اس نے فقیر سے ایک ہی سانس میں اتنے سارے سوال پوچھ لیے تھے کہ فقیر الجھ گیا تھا۔ کون ہو تم، کہاں سے آئے ہو، بابا کے پاس کیسے پہنچے، کیا کرتے ہو، کیا سوچتے ہو، تم بہت ضدّی ہو کیا۔

پڑھنے جاتے ہو، کام کیا کرتے ہو، کھانا کون بناتا ہے، کپڑے کون دھوتا ہے، کیوں بولتے ہو تم اتنا، اپنا بھی کچھ سوچا ہے، کیا کروگے آگے، یہ بال اتنے کیوں بڑھائے ہوئے ہیں تم نے، اور نہ جانے کیا کیا وہ جاننا چاہتی تھیں لیکن فقیر ان کے سوال کا کیا جواب دیتا کہ وہ تو خود بھی کچھ نہیں جانتا اور اس وقت تک عامی ہی ہے، کیسے انہیں بتاتا کہ وہ کون ہے، اس کا جواب تو ہنوز فقیر کے پاس نہیں ہے، بابا کے پاس کیسے پہنچا تھا فقیر یہ کوئی مختصر داستان تو نہیں تھی ناں اور پھر کیسے انہیں بتاتا کہ وہ کیا سوچتا ہے، چلیے سارے سوالات کے جوابات چاہے درست نہ ہوں پھر بھی دیے جاسکتے ہیں لیکن یہ کیسے بتایا جاسکتا ہے کہ آگے کیا سوچا ہے، فقیر تو اب تک صرف یہ جان پایا ہے کہ لمحۂ موجود ہے زندگی بس، آگے کا کیا معلوم جی! خیر فقیر نے اس کے سوالات کو آسودہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی لیکن اس کے بعد اس کی حیرت کو کیسے سنبھالا جاتا تو فقیر نے باہر کی راہ لیتے ہوئے اس کی جانب دیکھا، اس کی آنکھیں تو برسات بنی ہوئی تھیں۔


میں باہر آکر بابا کے پاس بیٹھ گیا تھا، خاموشی تھی، اس کے بعد بابا نے دعا کے لیے اپنے پاکیزہ ہاتھ رب تعالٰی کے حضور بلند کیے: یااﷲ! ہم تیرے نادارو بے بس و لاچار بندے ہیں، ہم سے کوتاہیاں ہوئی ہیں، گناہ ہوئے ہیں اور ہم انسان ہیں یہ تو ہوتے رہیں گے، لیکن ہم تیری رحمت پر یقین رکھتے ہیں کہ تُو پشیمان بندوں سے درگزر فرماتا ہے تو ہمیں اپنی رحمت سے معاف فرما دے، ہمارے لیے ہر وہ راہ کھوٹی کردے جو تجھ سے دور کردے، ہمارے لیے ہر اس راہ کو منتخب اور آسان فرمادے جو تیری رضا تک پہنچا دے، تُو ہمیں اپنی رضا میں پیکر تسلیم بنا دے۔

ہماری غلطیاں درگزر ہوتی رہیں، ہم نادان انسان ہیں تو ہمارے فیصلے بھی ناقص ہیں، تُو ہمارے فیصلوں میں برکت عطا فرما اور انہیں آسانی سے کامل فرما، ہر شر و فساد سے اپنی پناہ میں رکھ لے اور تیرے جن دو بندوں کے بندھن کا تیرے نام اور یقین کامل سے فیصلہ کیا ہے اسے آسانی سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے بعد ان کے لیے اپنی رحمت کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھ، انہیں اپنی کسی بھی مخلوق کا محتاج مت رکھنا اور صرف خود ہی کافی ہوجانا اور ابد تک۔ آمین

قصۂ مختصر کیے دیتا ہے فقیر! شادی کی ساری تفصیلات طے ہوگئی تھیں اور ایک دن فقیر حنیف بھائی کا ایک جوڑا ناپ کے لیے ان کے گھر دینے گیا تھا۔ مجھے وہ دن بہت اچھی طرح سے یاد ہے جب حنیف بھائی کو لوگوں کے ساتھ اس ماہ وش کے والدین نے دولہا بنے ہوئے پہلی بار دیکھا تھا، وہ حیرت کے ساتھ انتہائی خُوش تھے۔ جی اس سے پہلے انہوں نے حنیف بھائی سے ملنے پر کوئی اصرار نہیں کیا تھا کہ وہ اپنے سارے اختیارات پہلے ہی بابا کو سونپ چکے تھے۔ فقیر آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہے کہ حنیف بھائی کو رب تعالٰی نے انتہائی وجیہہ بنایا تھا، قوی اور بلند قامت، کشادہ پیشانی اور روشن آنکھیں، دودھ مکھن جس میں زعفران گندھا ہوا ہو جیسی رنگت، واہ جی واہ! سبحان اﷲ و بہ حمد۔ حنیف بھائی کے لیے ساری خریداری اس ماہ وش کے والدین نے کی تھی جس کی ساری ادائی بہ اصرار بابا نے کی تھی۔ ساری تقاریب سادگی سے انجام پزیر ہوئیں اور حنیف بھائی اور وہ ماہ وش جیون بھر کے لیے بندھ گئے تھے۔

یاد ہے فقیر کو وہ دن بھی جب ولیمہ تھا اور بابا انتہائی مطمئن تھے، دیگر مہمانوں کے ساتھ ہمارے مزدور بھائی بھی اس میں شریک تھے۔ اور پھر وہ گھڑی آگئی تھی جب میں اور بابا واپس جانے کے لیے تیار تھے۔ بابا نے حنیف بھائی کو سینے سے لگایا ہوا تھا اور وہ اشک بار تھے، حنیف بھائی بھی، بابا کی زبان پر بس ایک ہی ورد تھا: مالک انہیں بس تیرے ہی سپرد کیا ہے، تُو نے مجھ ناتواں پر جو ذمے داری ڈالی تھی، اسے تیرے ہی کرم سے انجام دیا ہے، شُکر لازم ہے مجھ ناتواں پر، پَر کیسے ادا ہو پائے گا تیرا شُکر! حمد بس تیری ہے، بس تیرے ہی حوالے کیا ہے انہیں۔

کیسا سماں تھا وہ، جی بیان کیسے کیا جائے کہ آنکھیں برسنے سے نہیں رکتیں، رکتی ہی نہیں۔ ان سب کا اصرار تھا کہ ہم اس رات کو وہیں رکیں لیکن بابا نے یک سر انکار کردیا تھا۔ بابا کی ایک عادت تھی کہ وہ سب سے ملنے کے بعد بہ آواز بلند فرماتے: ''اب رخصت'' اور اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اس دن بھی انہوں نے سب سے رخصت ہونے کے بعد یہی کہا تھا اور فقیر کا ہاتھ تھامے تیزی سے وہاں سے نکل آئے تھے۔ جی فقیر نے پیچھے مڑ کر کئی مرتبہ دیکھا تھا حنیف بھائی کو، کیسے بتائے ان کا حال بھی تو بس قصہ ختم ہوا۔ رب تعالٰی انہیں سدا اپنی امان میں رکھے۔

ہم پیر ودھائی پہنچ کر ایک ویگن میں سوار ہوئے اور پھر ٹیکسلا آگیا تھا۔ اپنی کٹیا تک ہم بالکل خاموشی سے پیدل آئے تھے، رات کا پہلا پہر گزر چکا تھا اور بابا وضو کرنے کے بعد سجدہ ریز تھے۔ جی فقیر ان کی سسکیوں کو سُن سکتا تھا، وہ پوری رات شب شُکر تھی۔ صبح بابا کی طبیعت ناساز تھی فقیر نے بابا کو ناشتا دیتے ہوئے چھیڑا تھا: بابا ایسا لگتا ہے کہ حنیف بھائی آپ کے بیٹے نہیں، بیٹی تھی جسے آپ نے رخصت کردیا۔ وہ فقیر کو دیکھ کر مسکرائے تھے لیکن اشک بار اور کہا تھا: نہیں باز آئے گا ناں تُو پگلے! لیکن سچ کہہ رہا ہے تُو جب میں اس کی ماں بن سکتا ہوں تو پھر وہ میری بیٹی کیوں نہیں بن سکتا۔ ہاں فقیر اپنے نصیب پر نازاں ہے کہ بابا نے اسے کئی مرتبہ کہا: تُو ہے ناں میرا پاگل بچہ، میرا لاڈلا بیٹا۔

بابا کی حالت نہیں سنبھل پائی تھی۔ دو دن بعد انہوں نے حنیف بھائی کے لیے ایک خط مجھ فقیر سے ہی لکھوایا تھا، فقیر اس کے مندرجات بتانے سے قاصر ہے۔ وہ دن بھی فقیر کو بہت اچھی طرح سے یاد رہے گا جب وہ لوہار بابا کٹیا میں داخل ہوئے اور کہا تھا: سرکار حاضر ہوں، اور بابا نے اسے سینے سے لگا کر کہا تھا: اپنا کام ختم ہوا الحمدﷲ، اب تمہارا کام ہے آگے، اپنا یہ پگلا بچہ رب تعالٰی کے حکم پر تمہیں سونپ رہا ہوں، احتیاط کرنا بہت پاگل ہے یہ۔ اور اس کے ہاتھ میں فقیر کا ہاتھ دے دیا تھا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑے سر جھکائے کپکپا رہے تھے اور بس اتنا کہا تھا: حضور! دعا کیجیے گا اور کبھی اس بندے کو تنہا مت چھوڑیے گا۔

وہ گھڑی کیسے فراموش کی جائے جب بابا نے نماز فجر ادا کی تھی، فقیر اور لوہار بابا انہیں دیکھ رہے تھے، پھر انہوں نے ہماری جانب دیکھا تھا اور مسکرائے تھے، ہمیں اپنے پاس بلا کر بوسہ دیا اور وہیں لیٹ کر کچھ پڑھنے لگے اور پھر اچانک کلمۂ طیبہ بلند ہوا اور بابا اس عارضی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی تجہیز و تکفین میں ہمارے کارخانے کے مزدور اور نہ جانے کہاں کہاں سے خلق خدا امڈ آئی تھی، نہ جانے کس نے انہیں اطلاع دی تھی۔ وہ فقیر کو پہلے ہی منع کرچکے تھے کہ حنیف بھائی کو اس کی اطلاع نہیں دی جائے گی، جب بھی ان سے ملاقات ہوگی تو بس بابا حضور کا خط انہیں دے دیا جائے۔ حنیف بھائی کا حال بعد میں سنائے گا فقیر! چلیے اب رخصت۔

لیکن بتانے دیجیے ناں اپنے غم کا حال

اُس کا سینہ بھی زخمی تھا، اُس کے سُر بھی بوجھل تھے

میرا درد سمجھنے والا کوئی نہ تھا، شہنائی تھی

اور بابا حضور کی عنایات کا بھی جی!

دنیا کا ہر بندھن میں نے توڑ دیا اعجاز مگر

مجھ سے وہ زنجیر نہ ٹوٹی جو تُونے پہنائی تھی
Load Next Story