بھارتی بیٹنگ آرڈر میں جارح مزاج بیٹسمینوں کا راج
چتیشور پجارا جیسے مضبوط بیٹسمین کو ٹیم کا حصہ بنانے کا مطالبہ سامنے آگیا
ISLAMABAD:
بھارتی بیٹنگ آرڈر پر جارح مزاج بیٹسمینوں کا راج قائم ہوگیا، کھلاڑیوں کی تکنیک کے حوالے سے سوالات اٹھائے جانے لگے، چتیشور پجارا جیسے مضبوط بیٹسمین کو ٹیم کا حصہ بنانے کا مطالبہ سامنے آگیا۔
تفصیلات کے مطابق بھارت کے بیٹنگ آرڈر کے بارے میں کچھ نہ کچھ غیر یقینی کیفیت تو پائی جاتی ہے، ٹاپ آرڈر پر روہیت شرما اور مڈل میں سریش رائنا اور یوراج سنگھ جیسے جارح مزاج کھلاڑی ورلڈ چیمپئنز کی توقعات پر پورا نہیں اترتے۔ بھارت اپنے بیٹنگ وسائل بہتر بناسکتا ہے، جب وہ آسٹریلیا میں ورلڈ کپ کے دفاع کیلیے جائیں گے تو بیٹنگ آرڈر کو پچ کی غیر یقینی صورتحال پر قابو پانے کی ضرورت ہوگی جہاں ہر گیم میں 300 سے زیادہ رنز بنتے ہیں۔ تاریخی طور پر بھارت کے پاس نچلے آرڈر میں اچھے پلیئرز نہیں ہیں ، ٹیم کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ایسے بیٹسمین کی ضرورت ہے جو مستحکم تکنیک کے ساتھ فیلڈ پر جما رہے۔
کچھ عرصے قبل بھارت کے پاس راہول ڈریوڈ جیسا زبردست کھلاڑی موجود تھا جس نے اپنی تکنیک سے ایک روزہ میچز میں بہتر کارکردگی دکھائی، ڈریوڈ کے جانے کے بعد بھارت کے پاس اس جیسا ایک بیٹسمین ہے، بھارت کو اب چتیشور پجارا کو آزمانا چاہیے، پجارا اگرچہ روہیت ، یوراج یا رائنا جیسا کھیل پیش نہیں کرسکتا لیکن ایک روزہ میچز میں صرف مار دھاڑ کافی نہیں ہوسکتی، خصوصاً آسٹریلیا میں۔ جنوبی افریقہ کے پاس ہاشم آملہ جیسا پلیئر ہے جو گذشتہ برس ایک روزہ میچز میں سب سے زیادہ رنز بنانیوالوں میں شامل ہیں، وہ مار دھاڑ سے زیادہ ایک مکمل بیٹسمین ہیں، مصباح الحق کے ساتھ پاکستان نے بھی بہتر کارکردگی دکھائی ہے جبکہ انگلینڈ میں بھی الیسٹر کک جیسے اچھے کھلاڑی موجود ہیں۔
ماردھاڑ ہی ایک روزہ میچز میں کامیابی کا فارمولا نہیں ہے۔ 22 گیمز میں 66.9 کے تناسب سے ایم ایس دھونی اور 8 گیمز میں ویرت کوہلی کے علاوہ دیگر بھارتی کھلاڑیوں کا ایورج یا تو اوسطاً یا کمزور قرار دیا جاسکتا ہے جس میں رائنا 13گیمز کے ساتھ 34 اور روہیت 17 گیمز میں 29 کے اوسط پر ہیں۔ پجارا کو عام طور پر غیر مانوس کنڈیشنز میں نہیں کھلایا جاتا لیکن کرن مورے جیسے افراد کے مطابق پجارا کا دور شروع ہوگیا ہے۔
سلیکٹرز کے سابق چیئرمین کہتے ہیں کہ سلیکٹرز کے پاس کوئی انتخاب نہیں لیکن انھیں پجارا کو آزمانا چاہیے، اس کے پاس ڈریوڈ جیسی آسان، غیر پیچیدہ تکنیک ہے ، میں نہیں کہہ رہا کہ اسے کس نمبر پر کھلایا جائے کیونکہ اس کا فیصلہ سلیکٹرز کو کرنا ہوتا ہے، بہرحال ہمیں نمبر 4 کے پلیئر کا مسئلہ درپیش ہے۔دھونی پجارا پر زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں، رواں برس کے اوائل میں انگلینڈ کے خلاف 5 ایک روزہ میچز میں پجارا ان کے ساتھ تھے لیکن دھونی نے انھیں کوئی موقع نہیں دیا، ٹیم کے سیریز جیتنے کے بعد بھی پجارا کو نظر انداز کیا گیا، بظاہر دھونی پجارا کی ایک روزہ صلاحیتوں کو وقعت نہیں دیتے ہیں لیکن ابتدائی طور پر ڈریوڈ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا، انھوں نے ایک روزہ میچز میں 10 ہزار سے زائد رنز بنائے ہیں۔
بھارتی بیٹنگ آرڈر پر جارح مزاج بیٹسمینوں کا راج قائم ہوگیا، کھلاڑیوں کی تکنیک کے حوالے سے سوالات اٹھائے جانے لگے، چتیشور پجارا جیسے مضبوط بیٹسمین کو ٹیم کا حصہ بنانے کا مطالبہ سامنے آگیا۔
تفصیلات کے مطابق بھارت کے بیٹنگ آرڈر کے بارے میں کچھ نہ کچھ غیر یقینی کیفیت تو پائی جاتی ہے، ٹاپ آرڈر پر روہیت شرما اور مڈل میں سریش رائنا اور یوراج سنگھ جیسے جارح مزاج کھلاڑی ورلڈ چیمپئنز کی توقعات پر پورا نہیں اترتے۔ بھارت اپنے بیٹنگ وسائل بہتر بناسکتا ہے، جب وہ آسٹریلیا میں ورلڈ کپ کے دفاع کیلیے جائیں گے تو بیٹنگ آرڈر کو پچ کی غیر یقینی صورتحال پر قابو پانے کی ضرورت ہوگی جہاں ہر گیم میں 300 سے زیادہ رنز بنتے ہیں۔ تاریخی طور پر بھارت کے پاس نچلے آرڈر میں اچھے پلیئرز نہیں ہیں ، ٹیم کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ایسے بیٹسمین کی ضرورت ہے جو مستحکم تکنیک کے ساتھ فیلڈ پر جما رہے۔
کچھ عرصے قبل بھارت کے پاس راہول ڈریوڈ جیسا زبردست کھلاڑی موجود تھا جس نے اپنی تکنیک سے ایک روزہ میچز میں بہتر کارکردگی دکھائی، ڈریوڈ کے جانے کے بعد بھارت کے پاس اس جیسا ایک بیٹسمین ہے، بھارت کو اب چتیشور پجارا کو آزمانا چاہیے، پجارا اگرچہ روہیت ، یوراج یا رائنا جیسا کھیل پیش نہیں کرسکتا لیکن ایک روزہ میچز میں صرف مار دھاڑ کافی نہیں ہوسکتی، خصوصاً آسٹریلیا میں۔ جنوبی افریقہ کے پاس ہاشم آملہ جیسا پلیئر ہے جو گذشتہ برس ایک روزہ میچز میں سب سے زیادہ رنز بنانیوالوں میں شامل ہیں، وہ مار دھاڑ سے زیادہ ایک مکمل بیٹسمین ہیں، مصباح الحق کے ساتھ پاکستان نے بھی بہتر کارکردگی دکھائی ہے جبکہ انگلینڈ میں بھی الیسٹر کک جیسے اچھے کھلاڑی موجود ہیں۔
ماردھاڑ ہی ایک روزہ میچز میں کامیابی کا فارمولا نہیں ہے۔ 22 گیمز میں 66.9 کے تناسب سے ایم ایس دھونی اور 8 گیمز میں ویرت کوہلی کے علاوہ دیگر بھارتی کھلاڑیوں کا ایورج یا تو اوسطاً یا کمزور قرار دیا جاسکتا ہے جس میں رائنا 13گیمز کے ساتھ 34 اور روہیت 17 گیمز میں 29 کے اوسط پر ہیں۔ پجارا کو عام طور پر غیر مانوس کنڈیشنز میں نہیں کھلایا جاتا لیکن کرن مورے جیسے افراد کے مطابق پجارا کا دور شروع ہوگیا ہے۔
سلیکٹرز کے سابق چیئرمین کہتے ہیں کہ سلیکٹرز کے پاس کوئی انتخاب نہیں لیکن انھیں پجارا کو آزمانا چاہیے، اس کے پاس ڈریوڈ جیسی آسان، غیر پیچیدہ تکنیک ہے ، میں نہیں کہہ رہا کہ اسے کس نمبر پر کھلایا جائے کیونکہ اس کا فیصلہ سلیکٹرز کو کرنا ہوتا ہے، بہرحال ہمیں نمبر 4 کے پلیئر کا مسئلہ درپیش ہے۔دھونی پجارا پر زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں، رواں برس کے اوائل میں انگلینڈ کے خلاف 5 ایک روزہ میچز میں پجارا ان کے ساتھ تھے لیکن دھونی نے انھیں کوئی موقع نہیں دیا، ٹیم کے سیریز جیتنے کے بعد بھی پجارا کو نظر انداز کیا گیا، بظاہر دھونی پجارا کی ایک روزہ صلاحیتوں کو وقعت نہیں دیتے ہیں لیکن ابتدائی طور پر ڈریوڈ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا، انھوں نے ایک روزہ میچز میں 10 ہزار سے زائد رنز بنائے ہیں۔