وزیر اعظم ’’اسلامک اکنامک فورم‘‘ اور ’’سہ فریقی مذاکرات‘‘ میں شرکت کےلئےلندن روانہ
کرزئی، کیمرون سے ملاقات میں خطے میں قیام امن کے حوالے سے مثبت پیشرفت کا امکان
لاہور:
وزیراعظم نواز شریف ورلڈ اسلامک اکنامک فورم اور پاکستان، افغانستان و برطانیہ کی چوتھی سہ فریقی کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن روانہ ہوگئے۔
29 سے 31 اکتوبر تک ''نئے تعلقات، بدلتی دنیا'' کے عنوان سے لندن میں منعقدہ ورلڈ اسلامک اکنامک فورم میں اسلامی ممالک اور ان کے تجارتی شراکت داروں کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کے مواقع تلاش کئے جائیں گے، فورم کے اہم ترین موضوعات میںاسلامی بینکنگ اور فنانس، ٹیکنالوجی، انفراسٹراکچر ڈویلپمنٹ، صحت، برآمدات، تعلیم اور امور جواناں شامل ہیں، ورلڈ اسلامک اکنامک فورم کے اس سے قبل ملائیشیا، قازقستان، انڈونیشیا، کویت اور پاکستان میں کامیاب اجلاس منعقد ہو چکے ہیں، وزیر اعظم کی معاونت ان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کریں گے، وزیر اعظم نواز شریف اپنے دورہ برطانیہ کے دوران لندن میں ہونیوالی چوتھی سہ فریقی سربراہی کانفرنس میں بھی شریک ہوں گے، جس میں ان کی ملاقات اور مذاکرات برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی سے ہوں گے ، دورہ برطانیہ کی اہم ترین ملاقات یہی ہو گی جس میں افغان صدر وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے وفد سے یہ معلوم کرنا چاہیں گے کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان سے رہا کئے گئے طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر اس وقت کہاں ہیں۔
افغان حکومت کا خیال ہے کہ ملا عبدالغنی برادر افغان طالبان میں ملا عمر کے بعد اہم ترین طالبان رہنما ہیں، افغان حکومت کا خیال ہے کہ ملا عبدالغنی برادر کو حکومت پاکستان نے جیل سے رہا کرنے کے بعد مکمل طور پر آزاد نہیں کیا اور انہیں پشاور کے کسی سیف ہائوس میں نظر بند رکھا گیا ہے جبکہ حکومت پاکستان متعدد مواقع پر واضح کر چکی ہے کہ افغان حکومت کی خواہش کے احترام میں ملاعبدالغنی برادر کو رہا کر دیا گیا ہے اور اب وہ اپنے وطن واپس جانے کیلئے آزاد ہیں، وہ جب مناسب اور اپنے آپ کو افغانستان میں محفوظ سمجھیں گے وطن واپس چلے جائیں گے، پاکستان میں اس وقت بھی 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین مقیم ہیں اور حکومت پاکستان چاہتی ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے بعد یہ تمام مہاجرین بخیریت اپنے وطن جائیں اور پُرامن و خوشحال زندگی گزاریں۔
برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون پہلے سربراہ حکومت تھے جنہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد 30 جون کو اسلام آباد کا دورہ کیا، وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت بھی اپنا اصولی موقف واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک مستحکم اور پُرامن افغانستان ہی پاکستان میں امن و استحکام کا ضامن ہو سکتا ہے اور خطے میں قیام امن کیلئے کی جانیوالی ہر کوشش میں حکومت پاکستان بھر پور کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے، منگل کے روز لندن میں ہونے والی ڈیوڈ کیمرون، حامد کرزئی اور نواز شریف کی ملاقات میں خطے میں قیام امن کے حوالے سے مثبت پیشرفت ہو گی، اس ملاقات و مذاکرات سے مثبت نتائج کا حصول تب ہی ممکن ہے جب افغان صدر دسمبر 2014ء سے پہلے نیٹو کی 87 ہزار افواج کی واپسی اور اپریل 2014ء کو افغانستان میں ہونیوالے انتخابات کے پُرامن انعقاد جیسے اہم موضوعات کے تناظر میں کھلے دل و دماغ سے بات چیت کیلئے مذاکرات کی میز پر بیھٹیں گے اور اگر انہوں نے خطے کی دیگر طاقتوں کا آلہ کار بننے کی اپنی سابقہ روایات پر قائم رہتے ہوئے محض پاکستان کو ہدفِ تنقید بنانے کی کوشش کی تو وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی جانب سے خطے میں امن، خوشحالی و ترقی کے نئے دور کے آغاز کی پُر خلوص امید اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے اچھے دوستوں کی طرح بہترین سہولت کار کی مثبت سوچ اور کوششیں پھر رائیگاں چلی جائیں گی۔
وزیراعظم نواز شریف ورلڈ اسلامک اکنامک فورم اور پاکستان، افغانستان و برطانیہ کی چوتھی سہ فریقی کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن روانہ ہوگئے۔
29 سے 31 اکتوبر تک ''نئے تعلقات، بدلتی دنیا'' کے عنوان سے لندن میں منعقدہ ورلڈ اسلامک اکنامک فورم میں اسلامی ممالک اور ان کے تجارتی شراکت داروں کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کے مواقع تلاش کئے جائیں گے، فورم کے اہم ترین موضوعات میںاسلامی بینکنگ اور فنانس، ٹیکنالوجی، انفراسٹراکچر ڈویلپمنٹ، صحت، برآمدات، تعلیم اور امور جواناں شامل ہیں، ورلڈ اسلامک اکنامک فورم کے اس سے قبل ملائیشیا، قازقستان، انڈونیشیا، کویت اور پاکستان میں کامیاب اجلاس منعقد ہو چکے ہیں، وزیر اعظم کی معاونت ان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کریں گے، وزیر اعظم نواز شریف اپنے دورہ برطانیہ کے دوران لندن میں ہونیوالی چوتھی سہ فریقی سربراہی کانفرنس میں بھی شریک ہوں گے، جس میں ان کی ملاقات اور مذاکرات برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی سے ہوں گے ، دورہ برطانیہ کی اہم ترین ملاقات یہی ہو گی جس میں افغان صدر وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے وفد سے یہ معلوم کرنا چاہیں گے کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان سے رہا کئے گئے طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر اس وقت کہاں ہیں۔
افغان حکومت کا خیال ہے کہ ملا عبدالغنی برادر افغان طالبان میں ملا عمر کے بعد اہم ترین طالبان رہنما ہیں، افغان حکومت کا خیال ہے کہ ملا عبدالغنی برادر کو حکومت پاکستان نے جیل سے رہا کرنے کے بعد مکمل طور پر آزاد نہیں کیا اور انہیں پشاور کے کسی سیف ہائوس میں نظر بند رکھا گیا ہے جبکہ حکومت پاکستان متعدد مواقع پر واضح کر چکی ہے کہ افغان حکومت کی خواہش کے احترام میں ملاعبدالغنی برادر کو رہا کر دیا گیا ہے اور اب وہ اپنے وطن واپس جانے کیلئے آزاد ہیں، وہ جب مناسب اور اپنے آپ کو افغانستان میں محفوظ سمجھیں گے وطن واپس چلے جائیں گے، پاکستان میں اس وقت بھی 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین مقیم ہیں اور حکومت پاکستان چاہتی ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے بعد یہ تمام مہاجرین بخیریت اپنے وطن جائیں اور پُرامن و خوشحال زندگی گزاریں۔
برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون پہلے سربراہ حکومت تھے جنہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد 30 جون کو اسلام آباد کا دورہ کیا، وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت بھی اپنا اصولی موقف واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک مستحکم اور پُرامن افغانستان ہی پاکستان میں امن و استحکام کا ضامن ہو سکتا ہے اور خطے میں قیام امن کیلئے کی جانیوالی ہر کوشش میں حکومت پاکستان بھر پور کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے، منگل کے روز لندن میں ہونے والی ڈیوڈ کیمرون، حامد کرزئی اور نواز شریف کی ملاقات میں خطے میں قیام امن کے حوالے سے مثبت پیشرفت ہو گی، اس ملاقات و مذاکرات سے مثبت نتائج کا حصول تب ہی ممکن ہے جب افغان صدر دسمبر 2014ء سے پہلے نیٹو کی 87 ہزار افواج کی واپسی اور اپریل 2014ء کو افغانستان میں ہونیوالے انتخابات کے پُرامن انعقاد جیسے اہم موضوعات کے تناظر میں کھلے دل و دماغ سے بات چیت کیلئے مذاکرات کی میز پر بیھٹیں گے اور اگر انہوں نے خطے کی دیگر طاقتوں کا آلہ کار بننے کی اپنی سابقہ روایات پر قائم رہتے ہوئے محض پاکستان کو ہدفِ تنقید بنانے کی کوشش کی تو وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی جانب سے خطے میں امن، خوشحالی و ترقی کے نئے دور کے آغاز کی پُر خلوص امید اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے اچھے دوستوں کی طرح بہترین سہولت کار کی مثبت سوچ اور کوششیں پھر رائیگاں چلی جائیں گی۔