ڈرون پالیسی پر نظرثانی کے لیے امریکا کی ’’ڈومور‘‘ کی شرط
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 2002ء سے لے کر 2012ء تک ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستانی قیادت کی رضامندی شامل تھی، ذرائع
وزیراعظم نوازشریف کے حالیہ دورہ امریکا کے دوران اگرچہ ڈرون حملوں پر پاکستان کے موقف کو واضح الفاظ میں پیش کیاگیا تاہم امریکہ کی جاری پالیسی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی جسکا برملا اظہارامریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران واضح الفاظ میں کردیا تھا۔
تاہم پھر بھی موجودہ حکومت کویقین تھاکہ آل پارٹیزکانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ کی صورت میں اسے امن وامان کے قیام کے حوالے سے جومینڈیٹ دیاگیا ہے،اسی تناظر وہ امریکی حکام کو قائل کرنے میں کامیاب ہوجائیگی مگر امریکی حکام نے پاکستان کے موقف کو نظرانداز کرکے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے علاقوں میں دہشتگردوں کیخلاف اقدامات کرے تاکہ ڈرون حملوں کی پالیسی پر نظرثانی کی جاسکے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 2002ء سے لے کر 2012ء تک ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستانی قیادت کی رضامندی شامل تھی ۔ اس دوران پاکستان کو 27 ارب ڈالر امداد دی گئی جس میں زیادہ تر فوجی امداد تھی اور کم تناسب میں معاشی معاملات کیلئے تھی۔
تاہم پھر بھی موجودہ حکومت کویقین تھاکہ آل پارٹیزکانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ کی صورت میں اسے امن وامان کے قیام کے حوالے سے جومینڈیٹ دیاگیا ہے،اسی تناظر وہ امریکی حکام کو قائل کرنے میں کامیاب ہوجائیگی مگر امریکی حکام نے پاکستان کے موقف کو نظرانداز کرکے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے علاقوں میں دہشتگردوں کیخلاف اقدامات کرے تاکہ ڈرون حملوں کی پالیسی پر نظرثانی کی جاسکے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 2002ء سے لے کر 2012ء تک ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستانی قیادت کی رضامندی شامل تھی ۔ اس دوران پاکستان کو 27 ارب ڈالر امداد دی گئی جس میں زیادہ تر فوجی امداد تھی اور کم تناسب میں معاشی معاملات کیلئے تھی۔