پنجاب میں ریشم کے کیڑے پالنے والے خاندانوں قرض حسنہ اور بیج فراہم کرنے کا فیصلہ
پہلے مرحلے میں 200 خاندانوں کو 20 سے 25 ہزار روپے قرض حسنہ دیا جائے گا
محکمہ جنگلات پنجاب کے شعبہ سیری کلچر نے صوبے میں ریشم سازی کوفروغ دینے کے لئے ریشم کے کیڑے پالنے والے خاندانوں کو اخوت اورچینی کمپنی کی معاونت سے قرض حسنہ اور ریشم کا بیج فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شعبہ سیری کلچر پنجاب کی 2 دہائیوں سے جاری محنت بالآخر رنگ لے آئی ہیں، چین سے درآمدی سلک بیج سے پاکستان میں خام ریشم کی پیداوار 22ہزار کلوگرام سے تجاوز کر گئی ہے، اس حوالے سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سیر ی کلچر پنجاب محمد فاروق بھٹی نے ایکسپریس کو بتایا کہ چند برس قبل ریشم کی پیداوار 4 ہزار کلوگرام تھی جو اب بڑھ کر 22 ہزار کلو گرام تک پہنچ گئی ہے اسی اوسط سے ہم چند برسوں میں دنیا میں سب سے زیادہ ریشم پیداکرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہوجائیں گے۔
فاروق بھٹی نے بتایا کہ طلب پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت دنیا میں46.5فیصد مصنوعی ریشم استعمال ہو رہی ہے جس کے انسانی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ نجی شعبہ کے اشتراک سے غیر ملکی سلک بیج سے ریشم کی گھریلو صنعت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا ہے جس سے ملک میں ریشم کی پیداوار کا ہدف حاصل ہونے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں ۔ 2016 میں چھانگامانگا اوراس کے نواح میں ریشم کے کیڑے پالنے والے خاندانوں کی تعداد 100 تھی جو اب بڑھ کر 800 سے تجاوزکرگئی ہے۔ اب ہم اخوت کے ساتھ مل کرریشم سازی سے منسلک خاندانوں کو قرض حسنہ فراہم کریں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ خاندانوں کو روزگارمل سکے، اخوت ایک خاندان کو 4 ہزار روپے قرض دیگی اور یہ کام آئندہ ماہ یعنی دسمبر سے شروع ہوجائے گا۔
پہلے مرحلے میں 200 خاندانوں کو 20 سے 25 ہزار روپے قرض حسنہ دیا جائے گا جس سے وہ ریشم کے کیڑے پالنے کا سامان خرید سکیں گے جبکہ 300 خاندانوں کو 4 ہزار روپے فی خاندان ریشم کا بیج خریدنے کے لئے دیئے جائیں گے۔ چائنہ سے منگوائے جارہے ریشم کے بیج کے ایک پیکٹ کی قیمت 2 ہزار روپے ہے جس سے 30 ہزار کے قریب انڈے پیداہوتے ہیں۔ ریشم کی ٹوٹیاں چھانگامانگا کی مقامی منڈی میں ہی 750 سے 850 روپے فی کلوکے حساب سے فروخت کی جارہی ہیں۔ ایک پیکٹ سے ایک خاندان کو ایک ماہ میں 30 سے 35 ہزار روپے کمائی ہوتی ہے ، اگرایک خاندان دو پیکٹ استعمال کرتا ہے تواس سے آمدن دوگنا ہوجاتی ہے
سیری کلچرکی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان ریشم کی امپورٹ پر64 ارب روپے زرمبادلہ خرچ کررہا ہے، گزشتہ سال 5 لاکھ کلوریشم امپورٹ کیا گیا تھا۔محمدفاروق بھٹی کہتے ہیں کہ اب ہم نے ریشم سازی کی صنعت کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں چھانگا مانگا، چیچہ وطنی، منڈی بہاؤالدین، سرگودھا، فیصل آباد، میاں چنوں ،بہاولپور اور گجرات وغیرہ میں سینکڑوں ایکڑ زمین پر شہتوت کے درخت لگائے گئے اور غیر ملکی ریشم بیج منگوایا گیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماراہدف ایک لاکھ خاندانوں کو روزگارمہیاکرنا ہے جس سے ہم ریشم کی پیداوارمیں خودکفیل ہوجائیں گے اورقیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکے گا۔
ریشم سازی کی صنعت کو فروغ دینے میں چین سے امپورٹ کئے جارہے ریشم کے بیچ نے بھی اہم کردار اداکیا ہے۔ اس بیج کی مدد سے اب سال میں دوبار فروی ،مارچ اوراپریل جبکہ ستمبر،اکتوبر اورنومبرمیں بھی ریشم کے کیڑوں کو پالنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس سے قبل صرف فروی سے اپریل تک ہی کیڑے پالے جاسکتے تھے لیکن اس سال ستمبرمیں بھی ریشم کے کیڑوں کو پالنے کا کامیاب تجربہ کیاگیاہے۔
واضح رہے کہ چندبرس قبل ریشم کے کیڑے پالنے کی صنعت تقریبا ختم ہوگئی تھی جس کی بڑی وجہ چھانگا مانگا جنگل سے شہتوت کے درختوں کا خاتمہ تھا۔ کیونکہ ریشم کے کیڑے شتہوت کے پتے کھا کر پلتے ہیں۔ چھانگا مانگا جنگل سے قیمتی لکڑی کی چوری روکنے کے خلاف مہم کے دوران شہتوت کے درختوں کی بے رحمی سے کٹائی کی گئی جب کہ محکمہ جنگلات کی توجہ دوسری قیمتی لکڑی کو بچانے پر لگی رہی جس کے نتیجہ میں 90 کی دھائی کے بعدپنجاب میں ریشم سازی کی صنعت زبوں حالی کاشکار ہوگئی ۔
شعبہ سیری کلچر پنجاب کی 2 دہائیوں سے جاری محنت بالآخر رنگ لے آئی ہیں، چین سے درآمدی سلک بیج سے پاکستان میں خام ریشم کی پیداوار 22ہزار کلوگرام سے تجاوز کر گئی ہے، اس حوالے سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سیر ی کلچر پنجاب محمد فاروق بھٹی نے ایکسپریس کو بتایا کہ چند برس قبل ریشم کی پیداوار 4 ہزار کلوگرام تھی جو اب بڑھ کر 22 ہزار کلو گرام تک پہنچ گئی ہے اسی اوسط سے ہم چند برسوں میں دنیا میں سب سے زیادہ ریشم پیداکرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہوجائیں گے۔
فاروق بھٹی نے بتایا کہ طلب پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت دنیا میں46.5فیصد مصنوعی ریشم استعمال ہو رہی ہے جس کے انسانی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ نجی شعبہ کے اشتراک سے غیر ملکی سلک بیج سے ریشم کی گھریلو صنعت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا ہے جس سے ملک میں ریشم کی پیداوار کا ہدف حاصل ہونے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں ۔ 2016 میں چھانگامانگا اوراس کے نواح میں ریشم کے کیڑے پالنے والے خاندانوں کی تعداد 100 تھی جو اب بڑھ کر 800 سے تجاوزکرگئی ہے۔ اب ہم اخوت کے ساتھ مل کرریشم سازی سے منسلک خاندانوں کو قرض حسنہ فراہم کریں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ خاندانوں کو روزگارمل سکے، اخوت ایک خاندان کو 4 ہزار روپے قرض دیگی اور یہ کام آئندہ ماہ یعنی دسمبر سے شروع ہوجائے گا۔
پہلے مرحلے میں 200 خاندانوں کو 20 سے 25 ہزار روپے قرض حسنہ دیا جائے گا جس سے وہ ریشم کے کیڑے پالنے کا سامان خرید سکیں گے جبکہ 300 خاندانوں کو 4 ہزار روپے فی خاندان ریشم کا بیج خریدنے کے لئے دیئے جائیں گے۔ چائنہ سے منگوائے جارہے ریشم کے بیج کے ایک پیکٹ کی قیمت 2 ہزار روپے ہے جس سے 30 ہزار کے قریب انڈے پیداہوتے ہیں۔ ریشم کی ٹوٹیاں چھانگامانگا کی مقامی منڈی میں ہی 750 سے 850 روپے فی کلوکے حساب سے فروخت کی جارہی ہیں۔ ایک پیکٹ سے ایک خاندان کو ایک ماہ میں 30 سے 35 ہزار روپے کمائی ہوتی ہے ، اگرایک خاندان دو پیکٹ استعمال کرتا ہے تواس سے آمدن دوگنا ہوجاتی ہے
سیری کلچرکی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان ریشم کی امپورٹ پر64 ارب روپے زرمبادلہ خرچ کررہا ہے، گزشتہ سال 5 لاکھ کلوریشم امپورٹ کیا گیا تھا۔محمدفاروق بھٹی کہتے ہیں کہ اب ہم نے ریشم سازی کی صنعت کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں چھانگا مانگا، چیچہ وطنی، منڈی بہاؤالدین، سرگودھا، فیصل آباد، میاں چنوں ،بہاولپور اور گجرات وغیرہ میں سینکڑوں ایکڑ زمین پر شہتوت کے درخت لگائے گئے اور غیر ملکی ریشم بیج منگوایا گیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماراہدف ایک لاکھ خاندانوں کو روزگارمہیاکرنا ہے جس سے ہم ریشم کی پیداوارمیں خودکفیل ہوجائیں گے اورقیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکے گا۔
ریشم سازی کی صنعت کو فروغ دینے میں چین سے امپورٹ کئے جارہے ریشم کے بیچ نے بھی اہم کردار اداکیا ہے۔ اس بیج کی مدد سے اب سال میں دوبار فروی ،مارچ اوراپریل جبکہ ستمبر،اکتوبر اورنومبرمیں بھی ریشم کے کیڑوں کو پالنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس سے قبل صرف فروی سے اپریل تک ہی کیڑے پالے جاسکتے تھے لیکن اس سال ستمبرمیں بھی ریشم کے کیڑوں کو پالنے کا کامیاب تجربہ کیاگیاہے۔
واضح رہے کہ چندبرس قبل ریشم کے کیڑے پالنے کی صنعت تقریبا ختم ہوگئی تھی جس کی بڑی وجہ چھانگا مانگا جنگل سے شہتوت کے درختوں کا خاتمہ تھا۔ کیونکہ ریشم کے کیڑے شتہوت کے پتے کھا کر پلتے ہیں۔ چھانگا مانگا جنگل سے قیمتی لکڑی کی چوری روکنے کے خلاف مہم کے دوران شہتوت کے درختوں کی بے رحمی سے کٹائی کی گئی جب کہ محکمہ جنگلات کی توجہ دوسری قیمتی لکڑی کو بچانے پر لگی رہی جس کے نتیجہ میں 90 کی دھائی کے بعدپنجاب میں ریشم سازی کی صنعت زبوں حالی کاشکار ہوگئی ۔