معاشی فیصلوں کے اثرات
حکومتی پالیسیوں کی بدولت آج پاکستان پہلی بارجرمنی اورروس جیسی دنیا کی مستحکم معیشتوں کے شانہ بہ شانہ کھڑا نظرآرہاہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے تقریباً 16ماہ ہوگئے ہیں ۔ اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ہی قوم سے اپنے پہلے خطاب میں بطور وزیر اعظم عمران خان نے اپنا 100دن کا پروگرام دیا ، جس میں کئی وعدے اور کئی اصلاحات کا عزم تھا، لیکن عملی شاہراہ پر قدم رکھتے ہی اُنہیں اندازہ ہوگیا کہ وعدے کرنے میں کوئی Investment نہیں کرنی پڑتی ، اصلاحات کا سوچنے اور پروگرام کا Document تیار کرنے میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آتی مگر وعدوں کی تکمیل اور اصلاحات کو نافذالعمل کرتے وقت قدم قدم پر قانونی ، آئینی اور انتظامی و معاشی پُل ِ صراط پار کرنی پڑتی ہے ، جب کہ اُن کے نتائج بھی فی الفور نہیں ہوتے ، جنھیں دکھاکر عوام کو اپنی بہتر کارکردگی، صاف و شفاف قیادت اور گڈ گورننس ہونے کے ثمرات بتائے جاسکیں ۔
کئی عشروں سے ملک کی جڑوں میں گھر کرگئی کرپشن پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ سی پیک کی مؤثر فعالیت ، کشمیر ایشو ، دیوالیہ ہونے کے قریب قومی خزانہ ، بیرونی قرضوں کا بوجھ اور اُن پر چڑھنے والے سود کی اقساط کی ادائیگی سر پر ہونے جیسے اُمور کسی بھی نئی حکومت کے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی تھے ، اوپر سے 100دن کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے میں ناکامی نے حکومتی صفوں میں کھلبلی مچادی ۔
کئی خاص مہروں اور اہم ٹیم ارکان کی دھوبی پچھاڑ ہوئی لیکن پھر بھی حکومتی صفوں میں اطمینان پیدا نہیں ہوسکا مگر کم از کم عوام یہ سمجھ گئے کہ پہلی بار اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کی خوشی اور جوش میںعمران خان نے یہ بڑے بڑے وعدے اور اعلانات کردیے ہیں، کیونکہ عوام کو ماضی کا تجربہ تھا ۔ وہ جانتے تھے کہ ہمارے ملکی حالات اور سیاسی انتظامی و آئینی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ سب ممکن نہیں ۔
اس لحاظ سے عوام نے رائے قائم کی کہ اس پروگرام کے کام 100دن میں نہ سہی اگر آئندہ 5سالوں میں بھی یہ پورے نہ سہی صرف اس کے نصف جتنے پورے کر پائے تو بھی ملکی اُمور پٹری پر آجائیں گے ۔ کہتے ہیں کہ رائے عامہ ہی اصلیت ہوتی ہے ۔ اس لحاظ سے اقتدار کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے جو غلطیاں ہوئیں ، جو قدم ڈگمگائے ، اُسے عوام نے اسی پی ٹی آئی حکومت کے پہلے موقع کے تناظر میں دیکھا اور عام رائے عمران خان کے حق میں رہی ، جوکہ عوام کا بھروسہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔
عوام کے اُسی اعتماد کی بناء پر ہی شاید عمران خان اور اُس کی ٹیم کو نیا حوصلہ ملااور وہ ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھے ۔ پھر کئی اسپیڈ بریکر اور کئی بار یو ٹرن لینے کے بعد جاکر کچھ ایسے اشارے ضرور دیکھنے میں آئے ہیں کہ جنھیں دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بھلے ہی اب تک حکومتی کارکردگی واضح نتائج دینے میں صفر رہی ہو لیکن موجودہ حکومت نے کئی ایسے اقدامات ضرور کیے ہیں جو دور رس نتائج کے حامل ہیں ۔
جیسے گرین پاکستان اسکیم ۔ جس کے تحت ابتدائی طور پر 19 پائلٹ شہروں میں ''میرا شہر ، میری ذمے داری '' کے تحت ٹھوس فضلے ، مائع فضلے کا انتظام ، صحت و صفائی ، حفظان ِ صحت اور شہری ہریالی جیسے بنیادی اُمور کو شامل کیا گیا ہے ۔جب کہ حکومت نے عالمی بینک کے ساتھ ایک MoUپر دستخط کیے ہیں کہ عالمی بینک پاکستان کو 787ملین ڈالر قرضہ فراہم کرے گا جو کہ شہروں میں ماس ٹرانزٹ ، پانی کی فراہمی و نکاسی کے نظام کو بہتر بنانے میں معاون ہوگا ۔ کیونکہ ماحولیاتی آلودگی ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے ۔
کراچی اس وقت دنیا کے گندے ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے تو لاہور بھی دنیا کا دوسرا یا تیسرا گندہ ترین شہر بن گیا ہے ۔ جہاں اسموگ آلودگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں ۔ اس کے لیے وزیر اعظم کی جانب سے ''کلین اینڈ گرین پاکستان انڈیکس '' منصوبے کا افتتاح اور اس میں تقابلی ماحول کو اُجاگر کرنا ایک بہترین ، بروقت اور مؤثر قدم ہے لیکن اس پر مکمل عمل کے مراحل کامیابی سے پار کرنا ہی ہماری آئندہ نسلوں کے لیے روشن و صاف ستھرے اور صحت مند پاکستان کی ضانت ہو گا ، ورنہ کہیں تباہ کن انسانی المیہ ہی ہمارا مقدر نہ بن جائے ۔ ہمارے یہاں یہی ہوتا آیا ہے کہ پالیسیاں تو بے شمار بنا دی جاتی ہیں مگر ان پر من و عن عمل درآمد نہیں ہوتا اوراس کے لیے مختص فنڈکا بڑا حصہ بھی ہڑپ ہو جاتا ہے۔
ماضی میںملک میں جتنے بجٹ پیش ہوئے وہ یا تو کسان دوست کہلائے یا تاجر دوست اور کوئی صنعتکار دوست کہلائے تو کبھی ایک آدھ عوام دوست بھی کہلائے لیکن حکومت کا اس سال کا بجٹ ایسا ہے کہ سوائے حکومت اور حکومتی نمائندوں کے کوئی بھی اس سے خوش نہیں ۔ اس لحاظ سے اس بجٹ کو صرف حکومت دوست کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ اس بجٹ میں ٹیکس ریفارمز اور Indirectٹیکسز کے باعث ملک میں عوام سے کسانوں تک ، تاجروں اور صنعتکاروں سے ٹرانسپورٹرز اور خدمات فراہم کنندگان تک تمام حلقے پریشان دکھائی دے رہے ہیں ۔ عوام کی تو خیر اس ملک میں کبھی سنی نہیں گئی لیکن اس مرتبہ تقریباً ہر شعبہ کی جانب سے احتجاج کیا گیا لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔
آج جب ملکی مالیاتی اداروں اور عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان کی معیشت میں استحکام کے مثبت اشارے ملنے کی خبریں گردش کررہی ہیں تو اس کو حکومت اپنے اس سخت گیر رویے اور اپنی پالیسی پرسختی سے ثابت قدم رہنے کی وجہ سے ممکن ہونا بتاتی ہے ۔ یہ بات کس قدر حقیقت ہے یہ جاننے کے لیے آئیے رواں مالیاتی سال کے پہلے چار مہینوں کے دوران حکومت کی کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے اپنی تین گزشتہ رپورٹس میں معاشی ابتری کی دکھائی گئی صورتحال کے بعد رواں ماہ کے شروعاتی دنوں میں جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے اور ایف بی آر کی جانب سے بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان ٹیکس ریفارمز اور حکومت کے سخت اقدامات کی وجہ سے ملکی خزانے میں580 ارب روپے جمع ہوئے ہیں ، جس سے قومی سرمایہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے ۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صرف وقتی پکڑ دھکڑ کے ذریعے عارضی فائدہ ہے جب کہ ملک کی مجموعی معیشت کے دیرپا استحکام کی راہ میں ناکامی کہ وجہ سے پبلک سیکٹر کارپوریشنز میں نقصانات ، برآمدی ڈھانچے میں خامیاں ، پیداواری سیکٹر میں جمود کے ساتھ ساتھ حکومت کرنے میں مشکلات اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس لیے حکومت جس اقتصادی بہتری کے دعوے کررہی ہے اس میں پائیداری نظر نہیں آتی، کیونکہ ایک طرف معیشت پھیل رہی ہے تو دوسری طرف عوام کی زندگی کا معیار پست سے پست تر ہوتا جارہا ہے ۔ ملک میں خود کشیوں کے واقعات میںبے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے ۔
غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں غربت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور حکومت کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ اقتصادی ترقی سے غربت از خود کم ہوجائے گی ۔ ماضی میں ایوب خان حکومت نے بھی یہی غلطی کی تھی جو کہ حکومت کی عارضی کامیابی کے بعد عوام کے احتجاجاً روڈوں پر آجانے سے ملک انتشار کا باعث بن کر دو لخت ہوگیا تھا ۔ اس لیے حکومت کو اس تناظر میں کئی ایسے اقدامات کی شدید ضرورت ہے جس سے یہ عارضی معاشی کامیابی دیرپا استحکام میں تبدیل ہوسکے ۔ اس لیے حکومت کو عوام کے پست سے پست تر ہوتے معیار ِ زندگی پر بھی توجہ دینی چاہیے ۔
اشیائے خورد و نوش خصوصاً آٹا ، چینی ، سبزیاں ، پھلوںاور پیٹرول ، گیس و بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کو بریک لگاکر عوام کو یہ بنیادی چیزیں و سہولیات سستے داموں پر فراہمی کے بندوبست پر خصوصی اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ کسی بھی ملک کے معاشی ، سیاسی و سماجی استحکام کا دارومدار ہی عوام کو سہولیات کی فراہمی اور خوشحالی سے جڑا ہوتا ہے ، اور اگر کوئی حکومت یا حکومتی نظام عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی،لوگوں کی فلاح و بہبود اور انفرادی ترقی میں ناکام رہے تو پھر حکومت اور حکومتی نظام کس کام کے ؟ مگر حکومت کو شاید اس کا ادراک نہیں ہے کہ مہنگائی ایسی بلا ہے جو عوام کاتو جینا جنجال بناہی دیتی ہے لیکن ساتھ ہی حکومت اور حکومتی نظام کی بنیادوں کو بھی ہلادیتی ہے ۔ جس کی تازہ مثال اس وقت ایران اور لبنان ہیں ۔
دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان میں عوامی سہولیات بالخصوص صحت کی صورتحال انتہائی گمبھیر ہے ۔ ملک میں 936لوگوں پر صرف ایک ڈاکٹر اور اسپتالوں میں 1600آبادی پر ایک بستر دستیاب ہے ، 5برس کے کم عمر بچوں کی شرح اموات ایک ہزار آبادی پر 74اور ملک میں مجموعی طور پر موت کی شرح میں 62فیصد بچوں کی ہے ۔ 1000پیدا ہونے والے بچوں میں سے 178بچے زچگی کے دوران وفات پاجاتے ہیں ۔ صحت کے شعبے پر مجموعی پیداوار کا 0.97 فیصد ہی خرچ ہوتا ہے ۔ ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد صرف 2لاکھ بیس ہزار ہے ۔
ہم اپنی نسلوں کو غیر صحت مند ، غذائی قلت اور وبائی و موذی امراض ورثے میں دے رہے ہیں ۔ صحت کار ڈ جاری کیے گئے ہیں لیکن تھر جیسے آفت زدہ علاقے میں بھی صحت کارڈ کارگر اور کارآمد نہیں ہوپارہے ، جہاں گزشتہ 11ماہ میں 780بچے موت کا شکار بن چکے ہیں ۔ اس لیے حکومت کو اس ضمن میں بھرپور اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عوام نے جو عمران خان کی قیادت پر اعتماد کیا ہے وہ بحال رہ سکے ۔ ویسے بھی عوام نے یہ اعتماد اس لیے کیا ہے کہ ملکی مسائل کے حل کے لیے مطلوبہ قیادتی قوت ِ ارادی کی نایاب ہوتی جھلک بڑے عرصے بعد عوام کو عمران خان میں نظر آگئی ۔
عمران خان کی قیادت میں وفاقی حکومت کی کوششوں کی بدولت یو اے ای میں خصوصی افراد کے لیے پہلے ایکسپیبلٹی ایکسپو کا انعقاد ہوا۔ جس میں پاکستانی پلیٹ فارم پہلے 10میں شامل تھا ۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے 30ارب اضافی مختص کیے گئے ہیں ۔ جاری قرضہ جات کے مسائل کے حل کے لیے حکومت نے 250 ارب روپے اضافی رکھے ، جس کے نتیجے میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی ۔ احساس پروگرام ، ای ویزہ پالیسی کے تحت دنیا کے لیے پاکستان کے دروازے کھول دیے ، جوکہ کاروبار اور سیاحت کے فروغ کا سبب بن رہا ہے ۔
کرتارپور راہداری کی فوری اور تیز ترین تعمیرسے جہاں خطے میں پون صدی سے جاری مذہبی منافرت کے خاتمے اور ہم آہنگی بڑھانے میں مدد ملی ہے ، وہیں ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی اُمید پیدا ہوئی ہے جب کہ اس سے کروڑوں سکھ یاتریوں کے آنے سے مقامی سطح پر متوسط کاروباری طبقے کو فائدہ پہنچ رہا ہے ۔ عوام کے اس اعتماد قائم کرنے میں وزیر اعظم سٹیزن پورٹل نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ، جہاں 15مہینوں کے مختصر عرصے میں ملک بھر سے مجموعی طور پر تقریباً 10لاکھ لوگوں نے رابطہ کیا اور اُن کے مسائل پر فوری کارروائی عمل میں آئی ، جس پر 40%لوگوں نے اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے ۔
اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ اس رپورٹ میں معیشت میں بہتری کے جو اشارے دکھائے گئے ہیں وہ بھی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے درست سمت میں ہونے کو تسلیم کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 4مہینوں (جولائی تا اکتوبر ) کے دوران بیرونی براہ راست تجارت میں 238فیصد اضافے کیساتھ 650ملین ڈالر کا کاروبار ہوا ہے ۔جوکہ گزشتہ برس اکتوبر میں صرف 191.9ملین ڈالر تھا ۔ اسی طرح چار سال کے بعد جاری کھاتے ماہانہ 99ملین ڈالرز سے سرپلس رہے ہیں ۔ جس سے واضح نظر آرہا ہے کہ مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 73.5 فیصد کم ہوا ہے۔ جب کہ عام اشیائے صرف اور خدمات کی برآمدگی میں 9.6%اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔
ایکسچینج ریٹ کو مستحکم رکھ کر درآمد پر سبسڈی اور برآمدات پر ٹیکس لاگو کرنا بھی مجموعی طور پر معاشی استحکام کی طرف پیش قدمی کا واضح اشارہ ہے ۔ اسٹیٹ بینک کے بقول اُن کے پاس غیر قرضہ جات زرمبادلہ کے ذخائر میں 1117ملین ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے ، جس سے روپے کی گرتی ہوئی قدر کو بریک لگ گئے ہیں اور اب اس کی قدر میں بہتری کے اشارے بھی مل رہے ہیں ۔جوکہ ایک اچھا اور نیک شگون ہے کیونکہ جب روپے کی قدر گرتی ہے تو مہنگائی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔
رپورٹ میں ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ظاہر ہونے پر وزیر اعظم FBRکو مبارکباد دیتے نظر آئے، ملک میں ٹیکس ادا کنندگان کی تعداد پہلے 19لاکھ تھی جو کہ حکومتی پالیسیوں سے بڑھ کر 25لاکھ ہوگئی ہے ۔جب کہ رپورٹ میں یہ بھی دکھا یا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران کل غیر ملکی قرض ادائیگی میں 25%اضافہ ہوا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی پالیسیوں کی بدولت آج پاکستان پہلی بار جرمنی اور روس جیسی دنیا کی مستحکم معیشتوں کے شانہ بہ شانہ کھڑا نظر آرہا ہے ۔ بس اب اس کامیابی کو برقرار رکھنے اور عوام کے لیے فائدہ مند بنانے کے لیے بھی حکومت ایسے اقدامات کرے جس سے یہ معاشی بہتری کے اشارے مکمل طور پر معیشت کے استحکام کا باعث بن جائیں ، تاکہ ہم بطور قوم طویل عرصہ سے ہاتھوں میں تھامے کشکول کو توڑ نے اور اقوام ِ متحدہ میں برابری اور توقیر کے ساتھ سر اُٹھاکر اقوام ِ عالم کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوسکیں !
کئی عشروں سے ملک کی جڑوں میں گھر کرگئی کرپشن پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ سی پیک کی مؤثر فعالیت ، کشمیر ایشو ، دیوالیہ ہونے کے قریب قومی خزانہ ، بیرونی قرضوں کا بوجھ اور اُن پر چڑھنے والے سود کی اقساط کی ادائیگی سر پر ہونے جیسے اُمور کسی بھی نئی حکومت کے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی تھے ، اوپر سے 100دن کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے میں ناکامی نے حکومتی صفوں میں کھلبلی مچادی ۔
کئی خاص مہروں اور اہم ٹیم ارکان کی دھوبی پچھاڑ ہوئی لیکن پھر بھی حکومتی صفوں میں اطمینان پیدا نہیں ہوسکا مگر کم از کم عوام یہ سمجھ گئے کہ پہلی بار اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کی خوشی اور جوش میںعمران خان نے یہ بڑے بڑے وعدے اور اعلانات کردیے ہیں، کیونکہ عوام کو ماضی کا تجربہ تھا ۔ وہ جانتے تھے کہ ہمارے ملکی حالات اور سیاسی انتظامی و آئینی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ سب ممکن نہیں ۔
اس لحاظ سے عوام نے رائے قائم کی کہ اس پروگرام کے کام 100دن میں نہ سہی اگر آئندہ 5سالوں میں بھی یہ پورے نہ سہی صرف اس کے نصف جتنے پورے کر پائے تو بھی ملکی اُمور پٹری پر آجائیں گے ۔ کہتے ہیں کہ رائے عامہ ہی اصلیت ہوتی ہے ۔ اس لحاظ سے اقتدار کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے جو غلطیاں ہوئیں ، جو قدم ڈگمگائے ، اُسے عوام نے اسی پی ٹی آئی حکومت کے پہلے موقع کے تناظر میں دیکھا اور عام رائے عمران خان کے حق میں رہی ، جوکہ عوام کا بھروسہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔
عوام کے اُسی اعتماد کی بناء پر ہی شاید عمران خان اور اُس کی ٹیم کو نیا حوصلہ ملااور وہ ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھے ۔ پھر کئی اسپیڈ بریکر اور کئی بار یو ٹرن لینے کے بعد جاکر کچھ ایسے اشارے ضرور دیکھنے میں آئے ہیں کہ جنھیں دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بھلے ہی اب تک حکومتی کارکردگی واضح نتائج دینے میں صفر رہی ہو لیکن موجودہ حکومت نے کئی ایسے اقدامات ضرور کیے ہیں جو دور رس نتائج کے حامل ہیں ۔
جیسے گرین پاکستان اسکیم ۔ جس کے تحت ابتدائی طور پر 19 پائلٹ شہروں میں ''میرا شہر ، میری ذمے داری '' کے تحت ٹھوس فضلے ، مائع فضلے کا انتظام ، صحت و صفائی ، حفظان ِ صحت اور شہری ہریالی جیسے بنیادی اُمور کو شامل کیا گیا ہے ۔جب کہ حکومت نے عالمی بینک کے ساتھ ایک MoUپر دستخط کیے ہیں کہ عالمی بینک پاکستان کو 787ملین ڈالر قرضہ فراہم کرے گا جو کہ شہروں میں ماس ٹرانزٹ ، پانی کی فراہمی و نکاسی کے نظام کو بہتر بنانے میں معاون ہوگا ۔ کیونکہ ماحولیاتی آلودگی ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے ۔
کراچی اس وقت دنیا کے گندے ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے تو لاہور بھی دنیا کا دوسرا یا تیسرا گندہ ترین شہر بن گیا ہے ۔ جہاں اسموگ آلودگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں ۔ اس کے لیے وزیر اعظم کی جانب سے ''کلین اینڈ گرین پاکستان انڈیکس '' منصوبے کا افتتاح اور اس میں تقابلی ماحول کو اُجاگر کرنا ایک بہترین ، بروقت اور مؤثر قدم ہے لیکن اس پر مکمل عمل کے مراحل کامیابی سے پار کرنا ہی ہماری آئندہ نسلوں کے لیے روشن و صاف ستھرے اور صحت مند پاکستان کی ضانت ہو گا ، ورنہ کہیں تباہ کن انسانی المیہ ہی ہمارا مقدر نہ بن جائے ۔ ہمارے یہاں یہی ہوتا آیا ہے کہ پالیسیاں تو بے شمار بنا دی جاتی ہیں مگر ان پر من و عن عمل درآمد نہیں ہوتا اوراس کے لیے مختص فنڈکا بڑا حصہ بھی ہڑپ ہو جاتا ہے۔
ماضی میںملک میں جتنے بجٹ پیش ہوئے وہ یا تو کسان دوست کہلائے یا تاجر دوست اور کوئی صنعتکار دوست کہلائے تو کبھی ایک آدھ عوام دوست بھی کہلائے لیکن حکومت کا اس سال کا بجٹ ایسا ہے کہ سوائے حکومت اور حکومتی نمائندوں کے کوئی بھی اس سے خوش نہیں ۔ اس لحاظ سے اس بجٹ کو صرف حکومت دوست کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ اس بجٹ میں ٹیکس ریفارمز اور Indirectٹیکسز کے باعث ملک میں عوام سے کسانوں تک ، تاجروں اور صنعتکاروں سے ٹرانسپورٹرز اور خدمات فراہم کنندگان تک تمام حلقے پریشان دکھائی دے رہے ہیں ۔ عوام کی تو خیر اس ملک میں کبھی سنی نہیں گئی لیکن اس مرتبہ تقریباً ہر شعبہ کی جانب سے احتجاج کیا گیا لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔
آج جب ملکی مالیاتی اداروں اور عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان کی معیشت میں استحکام کے مثبت اشارے ملنے کی خبریں گردش کررہی ہیں تو اس کو حکومت اپنے اس سخت گیر رویے اور اپنی پالیسی پرسختی سے ثابت قدم رہنے کی وجہ سے ممکن ہونا بتاتی ہے ۔ یہ بات کس قدر حقیقت ہے یہ جاننے کے لیے آئیے رواں مالیاتی سال کے پہلے چار مہینوں کے دوران حکومت کی کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے اپنی تین گزشتہ رپورٹس میں معاشی ابتری کی دکھائی گئی صورتحال کے بعد رواں ماہ کے شروعاتی دنوں میں جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے اور ایف بی آر کی جانب سے بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان ٹیکس ریفارمز اور حکومت کے سخت اقدامات کی وجہ سے ملکی خزانے میں580 ارب روپے جمع ہوئے ہیں ، جس سے قومی سرمایہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے ۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صرف وقتی پکڑ دھکڑ کے ذریعے عارضی فائدہ ہے جب کہ ملک کی مجموعی معیشت کے دیرپا استحکام کی راہ میں ناکامی کہ وجہ سے پبلک سیکٹر کارپوریشنز میں نقصانات ، برآمدی ڈھانچے میں خامیاں ، پیداواری سیکٹر میں جمود کے ساتھ ساتھ حکومت کرنے میں مشکلات اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس لیے حکومت جس اقتصادی بہتری کے دعوے کررہی ہے اس میں پائیداری نظر نہیں آتی، کیونکہ ایک طرف معیشت پھیل رہی ہے تو دوسری طرف عوام کی زندگی کا معیار پست سے پست تر ہوتا جارہا ہے ۔ ملک میں خود کشیوں کے واقعات میںبے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے ۔
غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں غربت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور حکومت کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ اقتصادی ترقی سے غربت از خود کم ہوجائے گی ۔ ماضی میں ایوب خان حکومت نے بھی یہی غلطی کی تھی جو کہ حکومت کی عارضی کامیابی کے بعد عوام کے احتجاجاً روڈوں پر آجانے سے ملک انتشار کا باعث بن کر دو لخت ہوگیا تھا ۔ اس لیے حکومت کو اس تناظر میں کئی ایسے اقدامات کی شدید ضرورت ہے جس سے یہ عارضی معاشی کامیابی دیرپا استحکام میں تبدیل ہوسکے ۔ اس لیے حکومت کو عوام کے پست سے پست تر ہوتے معیار ِ زندگی پر بھی توجہ دینی چاہیے ۔
اشیائے خورد و نوش خصوصاً آٹا ، چینی ، سبزیاں ، پھلوںاور پیٹرول ، گیس و بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کو بریک لگاکر عوام کو یہ بنیادی چیزیں و سہولیات سستے داموں پر فراہمی کے بندوبست پر خصوصی اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ کسی بھی ملک کے معاشی ، سیاسی و سماجی استحکام کا دارومدار ہی عوام کو سہولیات کی فراہمی اور خوشحالی سے جڑا ہوتا ہے ، اور اگر کوئی حکومت یا حکومتی نظام عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی،لوگوں کی فلاح و بہبود اور انفرادی ترقی میں ناکام رہے تو پھر حکومت اور حکومتی نظام کس کام کے ؟ مگر حکومت کو شاید اس کا ادراک نہیں ہے کہ مہنگائی ایسی بلا ہے جو عوام کاتو جینا جنجال بناہی دیتی ہے لیکن ساتھ ہی حکومت اور حکومتی نظام کی بنیادوں کو بھی ہلادیتی ہے ۔ جس کی تازہ مثال اس وقت ایران اور لبنان ہیں ۔
دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان میں عوامی سہولیات بالخصوص صحت کی صورتحال انتہائی گمبھیر ہے ۔ ملک میں 936لوگوں پر صرف ایک ڈاکٹر اور اسپتالوں میں 1600آبادی پر ایک بستر دستیاب ہے ، 5برس کے کم عمر بچوں کی شرح اموات ایک ہزار آبادی پر 74اور ملک میں مجموعی طور پر موت کی شرح میں 62فیصد بچوں کی ہے ۔ 1000پیدا ہونے والے بچوں میں سے 178بچے زچگی کے دوران وفات پاجاتے ہیں ۔ صحت کے شعبے پر مجموعی پیداوار کا 0.97 فیصد ہی خرچ ہوتا ہے ۔ ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد صرف 2لاکھ بیس ہزار ہے ۔
ہم اپنی نسلوں کو غیر صحت مند ، غذائی قلت اور وبائی و موذی امراض ورثے میں دے رہے ہیں ۔ صحت کار ڈ جاری کیے گئے ہیں لیکن تھر جیسے آفت زدہ علاقے میں بھی صحت کارڈ کارگر اور کارآمد نہیں ہوپارہے ، جہاں گزشتہ 11ماہ میں 780بچے موت کا شکار بن چکے ہیں ۔ اس لیے حکومت کو اس ضمن میں بھرپور اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عوام نے جو عمران خان کی قیادت پر اعتماد کیا ہے وہ بحال رہ سکے ۔ ویسے بھی عوام نے یہ اعتماد اس لیے کیا ہے کہ ملکی مسائل کے حل کے لیے مطلوبہ قیادتی قوت ِ ارادی کی نایاب ہوتی جھلک بڑے عرصے بعد عوام کو عمران خان میں نظر آگئی ۔
عمران خان کی قیادت میں وفاقی حکومت کی کوششوں کی بدولت یو اے ای میں خصوصی افراد کے لیے پہلے ایکسپیبلٹی ایکسپو کا انعقاد ہوا۔ جس میں پاکستانی پلیٹ فارم پہلے 10میں شامل تھا ۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے 30ارب اضافی مختص کیے گئے ہیں ۔ جاری قرضہ جات کے مسائل کے حل کے لیے حکومت نے 250 ارب روپے اضافی رکھے ، جس کے نتیجے میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی ۔ احساس پروگرام ، ای ویزہ پالیسی کے تحت دنیا کے لیے پاکستان کے دروازے کھول دیے ، جوکہ کاروبار اور سیاحت کے فروغ کا سبب بن رہا ہے ۔
کرتارپور راہداری کی فوری اور تیز ترین تعمیرسے جہاں خطے میں پون صدی سے جاری مذہبی منافرت کے خاتمے اور ہم آہنگی بڑھانے میں مدد ملی ہے ، وہیں ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی اُمید پیدا ہوئی ہے جب کہ اس سے کروڑوں سکھ یاتریوں کے آنے سے مقامی سطح پر متوسط کاروباری طبقے کو فائدہ پہنچ رہا ہے ۔ عوام کے اس اعتماد قائم کرنے میں وزیر اعظم سٹیزن پورٹل نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ، جہاں 15مہینوں کے مختصر عرصے میں ملک بھر سے مجموعی طور پر تقریباً 10لاکھ لوگوں نے رابطہ کیا اور اُن کے مسائل پر فوری کارروائی عمل میں آئی ، جس پر 40%لوگوں نے اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے ۔
اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ اس رپورٹ میں معیشت میں بہتری کے جو اشارے دکھائے گئے ہیں وہ بھی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے درست سمت میں ہونے کو تسلیم کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 4مہینوں (جولائی تا اکتوبر ) کے دوران بیرونی براہ راست تجارت میں 238فیصد اضافے کیساتھ 650ملین ڈالر کا کاروبار ہوا ہے ۔جوکہ گزشتہ برس اکتوبر میں صرف 191.9ملین ڈالر تھا ۔ اسی طرح چار سال کے بعد جاری کھاتے ماہانہ 99ملین ڈالرز سے سرپلس رہے ہیں ۔ جس سے واضح نظر آرہا ہے کہ مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 73.5 فیصد کم ہوا ہے۔ جب کہ عام اشیائے صرف اور خدمات کی برآمدگی میں 9.6%اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔
ایکسچینج ریٹ کو مستحکم رکھ کر درآمد پر سبسڈی اور برآمدات پر ٹیکس لاگو کرنا بھی مجموعی طور پر معاشی استحکام کی طرف پیش قدمی کا واضح اشارہ ہے ۔ اسٹیٹ بینک کے بقول اُن کے پاس غیر قرضہ جات زرمبادلہ کے ذخائر میں 1117ملین ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے ، جس سے روپے کی گرتی ہوئی قدر کو بریک لگ گئے ہیں اور اب اس کی قدر میں بہتری کے اشارے بھی مل رہے ہیں ۔جوکہ ایک اچھا اور نیک شگون ہے کیونکہ جب روپے کی قدر گرتی ہے تو مہنگائی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔
رپورٹ میں ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ظاہر ہونے پر وزیر اعظم FBRکو مبارکباد دیتے نظر آئے، ملک میں ٹیکس ادا کنندگان کی تعداد پہلے 19لاکھ تھی جو کہ حکومتی پالیسیوں سے بڑھ کر 25لاکھ ہوگئی ہے ۔جب کہ رپورٹ میں یہ بھی دکھا یا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران کل غیر ملکی قرض ادائیگی میں 25%اضافہ ہوا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی پالیسیوں کی بدولت آج پاکستان پہلی بار جرمنی اور روس جیسی دنیا کی مستحکم معیشتوں کے شانہ بہ شانہ کھڑا نظر آرہا ہے ۔ بس اب اس کامیابی کو برقرار رکھنے اور عوام کے لیے فائدہ مند بنانے کے لیے بھی حکومت ایسے اقدامات کرے جس سے یہ معاشی بہتری کے اشارے مکمل طور پر معیشت کے استحکام کا باعث بن جائیں ، تاکہ ہم بطور قوم طویل عرصہ سے ہاتھوں میں تھامے کشکول کو توڑ نے اور اقوام ِ متحدہ میں برابری اور توقیر کے ساتھ سر اُٹھاکر اقوام ِ عالم کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوسکیں !