خیبر پختونخواہ میں سنیما کلچر حالت نزع میں
بدامنی، کیبل اورکمپیوٹرکلچرنے فلم بینوں کوگھروں تک محدودکردیا
ایک زمانہ تھا جب تفریحات شکار اور شادی بیاہ کی رسومات تک محدود تھیں۔
لیکن انسان نے لسانی، سماجی اورمعاشرتی ارتقائی مدارج طے کر کے تفنن طبع کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کا گر بھی سیکھ لیااورپھر وہ آہستہ آہستہ ٹولیوں اورگروہوں کی شکل میں رہنے لگے، اسی سبیل وہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگے اورایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے لگے،پھر یہ سلسلہ رات کو کسی ایک مخصوص جگہ پر مل بیٹھنے تک درازہونے لگا، ہوتے ہوتے مختلف قبائل میں شادی بیاہ پر باقاعدہ ہنسی مذاق ،لطائف سنانے،رقص کی محفلیں سجھانے تک نوبت آگئی اورپھر گشتی تھیٹر کو رواج حاصل ہوا،جس سے شہ پاکر جدید دنیا کے باسیوں نے سنیماکی شکل دے ڈالی اوریہ پہلی کاوش چین میں کی گئی ، ایک رپورٹ کے مطابق آج سب سے زیادہ سنیمارکھنے کا اعزاز بھی چین ہی کو حاصل ہے۔
جب کہ امریکہ اورپڑوسی ملک ہندوستان میں آج زیادہ فلمیں بننے کے باعث لوگ سنیماؤں کا ہی رخ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے آج پوری دنیا میں سنیما کو فلم بینوں کے لیے ایک منفرد تفریح گاہ کا مقام حاصل ہے اس افراتفری کے دور میں ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ذہنی سکون اور تفنن طبع کی تلاش کس طرح حاصل کرسکے ؟ جس کے لیے وہ مختلف ذرائع کی تلاش میں رہتاہے اورذہنی آسودگی حاصل کرتا ہے تاہم دوسرے ذرائع کی طرح اس ذہنی سکون کی تسکین میں سینما جیسے تفریح گاہ کا بھی اہم کرداررہا ہے ۔
نا صرف پاکستان بل کہ پوری دنیا میں سنیما جیسی تفریح گا ہیں لوگوں کو تفریح کا سامان مہیا کرتی ہیں بل کہ اس سے لاکھوں لوگوں کا روز گار بھی وابستہ ہے اور ان کے گھروں کے چولہے اس سے روشن ہیں، سنیماؤں میں فلمیں نا صرف تفریح کا باعث ہوتی تھیں بل کہ اس سے سبق بھی سیکھا جاتا تھاتاہم پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا میںسنیما جیسی تفریح گاہوں کا رواج بڑی تیزی کے ساتھ زوال کی جانب گامزن ہے،ویسے تو اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔
جدید دور میں کمپیوٹر نے فلم بینوں کا رخ اپنی جانب کرکے سینماہالوں کو اجھاڑدیا اور اس کی رونقوں کو ویران کردیاہے ،آج سے تقریبا تین دہائی قبل سینما ہال میں اندھیرے میں ایک بڑے سفید کپڑے پر فلم دیکھنے کے شوقینوں کی بھیڑ لگی ہوتی تھی جن میں کئی لوگ اکثر اوقات ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے واپس گھروں کو مایوس لوٹ کرجاتے تھے اور یا پھر دوسرے شو کا گیٹ کے باہر گھنٹوں انتظار کرتے تھے، کاروباری لحاظ سے بھی سینمامالکان نے فلم بینوں کے اس بے تابی شوق سے بہت فائدہ اٹھایا ،موجودہ دورمیں سی ڈی پلیئر، ، ڈی وی ڈی پلیئر،کمپیوٹر،کیبل یا پھر انٹر نیٹ کے ذریعے آن لائن مفت فلمیں دیکھنا ایک معمول بن چکا ہے اور یہ سہولت جوکہ ہر فلم بین کے گھر کی دہلیز تک پہنچ گئی ہے اور فلم بین سینما جانے کے بجائے اب اپنا شوق اپنے گھر میں پورا کرلیتے ہیں۔
جس کی وجہ سے بڑی تیزی کے ساتھ سینما ہال ویران ہونے لگے ہیں، سینماکی زبوں حالی میں بدامنی نے اپنا کردار اداکیاہے کیوں کہ ملک کے مختلف شہروں کے سینماہالوں پر بم حملے کئے گئے ، پشاورکے تصویرمحل سنیماکے گیٹ پر بم دھماکے کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، مذکورہ بالا دوبڑی وجوہات نے پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوامیں سنیما کے کاوربار کو ناقابل تلافی دھچکا لگا کراس کاروبار کو ٹھپ کررکھ دیاہے جس کی وجہ سے سنیما مالکان دل برداشتہ ہوکر سنیما ہالوں کو مسمارکرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اوروہ متبادل کاروباریاتو شروع کرچکے ہیں یاکرنے والے ہیں ۔
جس سینکڑوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار بھی ہوچکے ہیں اوران کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑنے لگے ہیں ،خیبر پختون خوا کے مختلف اضلاع جن میں سوات،مردان ، نوشہرہ اورپشاورشامل ہیں سینماگھروں کے مرکزکہلایا کرتے تھے ، مردان میں پانچ سینماگھر تھے ،پشاور میں آٹھ ،نوشہرہ میں چار اور سوات میں تین سینما گھر ہوا کرتے تھے لیکن جدیدیت نے ان تفریح گاہوں پر جاڑو پھیر دیا اور اب ان شہروں میں سنیماہالوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اس طرح کئی سنیماہالوں کو فلاپ بزنس ہونے پر مسمار کردیا گیا، پشاور میں کئی سینما گھر وں کو ختم کردیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس ضمن میں اپناکردار ادا کرتے ہوئے سنیماہالوں پر ٹیکس میں چھوٹ کے ساتھ سکیورٹی بھی فراہم کرے اوربطورخاص مرکزی سنسر بورڈکوبھی اس ضمن میں اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔
لیکن انسان نے لسانی، سماجی اورمعاشرتی ارتقائی مدارج طے کر کے تفنن طبع کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کا گر بھی سیکھ لیااورپھر وہ آہستہ آہستہ ٹولیوں اورگروہوں کی شکل میں رہنے لگے، اسی سبیل وہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگے اورایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے لگے،پھر یہ سلسلہ رات کو کسی ایک مخصوص جگہ پر مل بیٹھنے تک درازہونے لگا، ہوتے ہوتے مختلف قبائل میں شادی بیاہ پر باقاعدہ ہنسی مذاق ،لطائف سنانے،رقص کی محفلیں سجھانے تک نوبت آگئی اورپھر گشتی تھیٹر کو رواج حاصل ہوا،جس سے شہ پاکر جدید دنیا کے باسیوں نے سنیماکی شکل دے ڈالی اوریہ پہلی کاوش چین میں کی گئی ، ایک رپورٹ کے مطابق آج سب سے زیادہ سنیمارکھنے کا اعزاز بھی چین ہی کو حاصل ہے۔
جب کہ امریکہ اورپڑوسی ملک ہندوستان میں آج زیادہ فلمیں بننے کے باعث لوگ سنیماؤں کا ہی رخ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے آج پوری دنیا میں سنیما کو فلم بینوں کے لیے ایک منفرد تفریح گاہ کا مقام حاصل ہے اس افراتفری کے دور میں ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ذہنی سکون اور تفنن طبع کی تلاش کس طرح حاصل کرسکے ؟ جس کے لیے وہ مختلف ذرائع کی تلاش میں رہتاہے اورذہنی آسودگی حاصل کرتا ہے تاہم دوسرے ذرائع کی طرح اس ذہنی سکون کی تسکین میں سینما جیسے تفریح گاہ کا بھی اہم کرداررہا ہے ۔
نا صرف پاکستان بل کہ پوری دنیا میں سنیما جیسی تفریح گا ہیں لوگوں کو تفریح کا سامان مہیا کرتی ہیں بل کہ اس سے لاکھوں لوگوں کا روز گار بھی وابستہ ہے اور ان کے گھروں کے چولہے اس سے روشن ہیں، سنیماؤں میں فلمیں نا صرف تفریح کا باعث ہوتی تھیں بل کہ اس سے سبق بھی سیکھا جاتا تھاتاہم پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا میںسنیما جیسی تفریح گاہوں کا رواج بڑی تیزی کے ساتھ زوال کی جانب گامزن ہے،ویسے تو اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔
جدید دور میں کمپیوٹر نے فلم بینوں کا رخ اپنی جانب کرکے سینماہالوں کو اجھاڑدیا اور اس کی رونقوں کو ویران کردیاہے ،آج سے تقریبا تین دہائی قبل سینما ہال میں اندھیرے میں ایک بڑے سفید کپڑے پر فلم دیکھنے کے شوقینوں کی بھیڑ لگی ہوتی تھی جن میں کئی لوگ اکثر اوقات ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے واپس گھروں کو مایوس لوٹ کرجاتے تھے اور یا پھر دوسرے شو کا گیٹ کے باہر گھنٹوں انتظار کرتے تھے، کاروباری لحاظ سے بھی سینمامالکان نے فلم بینوں کے اس بے تابی شوق سے بہت فائدہ اٹھایا ،موجودہ دورمیں سی ڈی پلیئر، ، ڈی وی ڈی پلیئر،کمپیوٹر،کیبل یا پھر انٹر نیٹ کے ذریعے آن لائن مفت فلمیں دیکھنا ایک معمول بن چکا ہے اور یہ سہولت جوکہ ہر فلم بین کے گھر کی دہلیز تک پہنچ گئی ہے اور فلم بین سینما جانے کے بجائے اب اپنا شوق اپنے گھر میں پورا کرلیتے ہیں۔
جس کی وجہ سے بڑی تیزی کے ساتھ سینما ہال ویران ہونے لگے ہیں، سینماکی زبوں حالی میں بدامنی نے اپنا کردار اداکیاہے کیوں کہ ملک کے مختلف شہروں کے سینماہالوں پر بم حملے کئے گئے ، پشاورکے تصویرمحل سنیماکے گیٹ پر بم دھماکے کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، مذکورہ بالا دوبڑی وجوہات نے پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوامیں سنیما کے کاوربار کو ناقابل تلافی دھچکا لگا کراس کاروبار کو ٹھپ کررکھ دیاہے جس کی وجہ سے سنیما مالکان دل برداشتہ ہوکر سنیما ہالوں کو مسمارکرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اوروہ متبادل کاروباریاتو شروع کرچکے ہیں یاکرنے والے ہیں ۔
جس سینکڑوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار بھی ہوچکے ہیں اوران کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑنے لگے ہیں ،خیبر پختون خوا کے مختلف اضلاع جن میں سوات،مردان ، نوشہرہ اورپشاورشامل ہیں سینماگھروں کے مرکزکہلایا کرتے تھے ، مردان میں پانچ سینماگھر تھے ،پشاور میں آٹھ ،نوشہرہ میں چار اور سوات میں تین سینما گھر ہوا کرتے تھے لیکن جدیدیت نے ان تفریح گاہوں پر جاڑو پھیر دیا اور اب ان شہروں میں سنیماہالوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اس طرح کئی سنیماہالوں کو فلاپ بزنس ہونے پر مسمار کردیا گیا، پشاور میں کئی سینما گھر وں کو ختم کردیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس ضمن میں اپناکردار ادا کرتے ہوئے سنیماہالوں پر ٹیکس میں چھوٹ کے ساتھ سکیورٹی بھی فراہم کرے اوربطورخاص مرکزی سنسر بورڈکوبھی اس ضمن میں اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔