جینی کارل مارکس
جینی کے بارے میں بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئیں
قول تو یہ ہی بیان کیا جاتا ہے کہ ہرکامیاب مرد کے پس پردہ کسی خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ قول جس نے بھی بیان کیا ہے سو فیصد کا اس صداقت کا اعتراف کیا ہے کہ خواتین کسی بھی میدان میں مردوں سے کم تر نہیں بلکہ بعض معاملات میں تو خواتین نے اپنی واضح برتری بھی ثابت کی ہے۔
ہمارے کالم کا موضوع بھی ایک ایسی خاتون ہے یعنی جینی، جوکہ عظیم فلسفی کارل مارکس کی شریک حیات ہونے کے ساتھ ساتھ کارل مارکس کی نقاد بھی تھیں۔ 1814 میں جنم لینے والی جینی کا گھرانہ جرمنی کی سیاست و میدان سپہ گری میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ جینی کے بارے میں بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئیں۔ جینی ایک اعلیٰ خاندانی پس منظر رکھنے کے ساتھ ساتھ زیور تعلیم سے بھی آراستہ تھیں جب کہ کارل مارکس کا خاندان بھی ایک اہل ثروت خاندان تھا مگر جینی کے مقابل کا بہرحال نہ تھا گوکہ کارل مارکس کے والد ایک اچھے ایڈووکیٹ تھے، جینی وکارل مارکس کی شادی اچانک انجام پذیر نہ ہوئی تھی بلکہ دونوں خاندانوں کے درمیان کافی قریبی تعلقات تھے۔
جینی ابھی جوانی کی حدود میں قدم بھی نہ رکھ پائی تھیں کہ ان کی دوستی کارل مارکس کی بہن سے ہوگئی جوکہ بعدازاں کارل مارکس سے محبت کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ کارل مارکس کے جینی کے باپ سے بھی اچھے تعلقات استوار ہوگئے اور انھوں نے کارل مارکس کو اپنا ذاتی کتب خانہ استعمال کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ کارل مارکس کی عمر عزیز فقط 18 اور جینی کی عمر 22 برس تھی کہ ان دونوں کی منگنی کردی گئی۔ شادی کے لیے یہ شرط عائد کر دی گئی کہ کارل مارکس کی جب تعلیم مکمل ہوگی تو اس کے بعد شدی ہوگی۔
چنانچہ باوجود جینی کے سگے بھائی کی مخالفت کے ان دونوں کی شادی 19 جولائی 1843 کو انجام پائی البتہ جینی کا سوتیلا بھائی جوکہ کارل مارکس کا دوست بھی تھا اس شادی سے بہت خوش تھا جینی کی شادی کی دستاویزات پر دستخط کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اب جینی نوابزادی ہونے کے باوجود تمام تر آسائش و آرام سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتی ہے کیونکہ آنے والے وقتوں میں جینی کو لاتعداد مصائب کا سامنا کرنا تھا۔
انسانی سکون کے لیے مالی آسودگی لازم ہے مگر کارل مارکس اور جینی کا خاندان مالی آسودگی سے ناآشنا ہوچکا تھا خود کارل مارکس کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے جوکہ انھوں نے اپنے سب سے عزیز دوست اینجل کو ایک خط کے ذریعے تحریرکیے تھے۔ کارل مارکس نے لکھا کہ جینی بیمار ہے۔
میرا بیٹا اور بیٹی بھی بیمار ہیں مگر ڈاکٹر کو نہیں بلا سکتا کہ ان سب کے علاج کے لیے رقم نہیں ہے کوئی سات یوم ہوئے ہیں کہ فقط ڈبل روٹی و آلو پر گزارا ہے، ممکن ہے جس گھر میں رہائش پذیر ہوں اس گھر کی مالکہ گھر خالی کروالے۔ ایسا اس لیے کہ اس کا 22 پونڈ کی کثیر رقم کا قرض چڑھ چکا ہے اچھا ہو کہ وہ گھر خالی کروالے تاکہ 22 پونڈ قرض کی رقم سے تو نجات مل ہی جائے گی، مگر گھر کی مالکن مجھ پر یہ عنایت کیونکر کرنے لگی، روٹی والے، دودھ والے، سبزی والے، پرچون والے ان سب کا قرض الگ رہا۔ کس طرح ان مصائب سے چھٹکارا ہوگا۔ چند ہفتوں سے مزدوروں سے رقم لے کر گھر چلا رہا ہوں، قرض مانگتے ہوئے شرم تو آتی ہے مگر نہ مانگوں تو بھوکا مر جاؤں، ایسا بھی ہوتا کہ جب کارل مارکس ہفتوں گھر سے نہ نکلتے سبب یہ ہوتا کہ کارل مارکس کے کپڑے کسی کے پاس گروی رکھے ہوتے اپنی 50 ویں سال گرہ پر کارل مارکس نے لکھا کہ آدھی صدی سے زندہ ہوں اور ابھی تک نادار ہوں۔
بات فقط گھر میں مفلسی تک محدود نہ تھی بلکہ یہ بھی سانحات ہوتے رہے کہ جینی و کارل مارکس کے بچے بھی وفات پاتے تو تدفین کے لیے گھر میں رقم نہ ہوتی، پڑوسی و دیگر لوگ یہ اخراجات اٹھاتے، مگر وفا شعار جینی نے کبھی حرف شکایت اپنے منہ سے ادا نہ کیا بلکہ وہ اپنے محبوب شوہر کا حوصلہ بڑھاتی رہتی، ان معاملات میں جب کہ جینی کا ایک بھائی جرمنی کا وزیر داخلہ تھا اس نے اپنی بہن کو خط بھیجا کہ تم انگلستان چھوڑ کر میرے پاس جرمنی چلی آؤ، میں تمہارے اور تمہارے بچوں کے اخراجات اٹھانے کو تیار ہوں، تمام تر مالی مصائب کے باوجود جینی نے اپنے بھائی کو جواب لکھ بھیجا کہ ''میں جرمنی نہیں آسکتی کیونکہ جرمنی میں کارل مارکس اور ان کے ترقی پسند نظریات کا داخلہ منع ہے۔''
بات فقط مفلسی تک محدود ہوتی تو خیر جینی کو اپنے شوہر کے نظریات کے باعث ملکوں ملکوں دربدر بھی ہونا پڑا، جرمنی سے فرانس، بیلجیم و انگلستان تک بارہا اس خاندان کو جلا وطنی کا دکھ جھیلنا پڑا۔ یہ ضرور تھا کارل مارکس کا دوست اینجل ممکن حد تک اس خاندان کی مالی مدد کو آتا مگر کارل مارکس اینجل کے آگے انتہائی مجبوری کی کیفیت میں ہی دست دراز کرتے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کارل مارکس نے سوچا کہ خود کو دیوالیہ ظاہر کردوں، اس سے یہ ہوگا کہ میری بیٹیاں کسی امیر کے بچوں کی دیکھ بھال کی ملازمت کرلیں۔
میں جینی کے ساتھ کسی ایسے ادارے میں چلا جاؤں جہاں بے سہارا و لاوارث لوگوں کو رکھا جاتا ہے مگر اس کی نوبت نہ آئی کہ اینجل کے والد کی وفات ہوگئی اور وہ اب کھلے ہاتھوں اپنے دوست کی مالی مدد کرنے لگا، مگر پے در پے اولاد کے صدمات و مفلسی کے باعث جینی 2 دسمبر 1882 کو وفات پا گئی، ستم یہ ہوا کہ کارل مارکس کو اپنی محبوب بیوی کے جنازے میں شرکت کی ڈاکٹر نے اجازت نہ دی، کیونکہ کارل مارکس خود شدید علیل تھے، جینی کو سپردخاک کیا جا رہا تھا اور کارل مارکس اس تقریب میں شریک نہ تھے۔ وہ جینی جس کے لیے کارل مارکس نے ان الفاظ میں شاعری کی مگر منگنی کے زمانے میں:
میرا دل مکمل طور پر تمہارا اسیر ہوچکا ہے
میری چشم جاں پہلے سے زیادہ روشن ہوگئی ہے
میں نے زندگی میں جو چاہا
تمہاری صورت میں وہ سب کچھ مل گیا
جو کچھ حاصل نہیں کرسکا
کانٹوں بھری زندگی کے کٹھن راستے پر
وہ سب بغیر مانگے
مجھے تمہاری پیار بھری نظر میں مل گیا
اینجل، جینی کے جنازے میں شرکت کے لیے گیا، رسم تقریر کے دوران ان الفاظ میں جینی کو خراج عقیدت پیش کیا کہ اگر کوئی ایسی عورت ہو سکتی ہے جو دوسروں کی خوشی میں خوش ہو تو وہ یہ عورت تھی۔ جینی کی وفات کے فقط 3 ماہ 12 یوم بعد کارل مارکس بھی دنیائے فانی سے کوچ کرگئے مگر جینی و کارل مارکس کی جسمانی موت تھی۔ کارل مارکس کے انسان دوست نظریات آج بھی قابل عمل ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکر سماج میں مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ مگر یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ اگر جینی کارل مارکس کی شریک حیات نہ ہوتی تو وہ اتنا بڑا فلسفی نہ ہوتا آخر میں جینی کو ان کی 137 ویں برسی پر دل سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں بھرپور جدوجہد کے عزم کے ساتھ۔
ہمارے کالم کا موضوع بھی ایک ایسی خاتون ہے یعنی جینی، جوکہ عظیم فلسفی کارل مارکس کی شریک حیات ہونے کے ساتھ ساتھ کارل مارکس کی نقاد بھی تھیں۔ 1814 میں جنم لینے والی جینی کا گھرانہ جرمنی کی سیاست و میدان سپہ گری میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ جینی کے بارے میں بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئیں۔ جینی ایک اعلیٰ خاندانی پس منظر رکھنے کے ساتھ ساتھ زیور تعلیم سے بھی آراستہ تھیں جب کہ کارل مارکس کا خاندان بھی ایک اہل ثروت خاندان تھا مگر جینی کے مقابل کا بہرحال نہ تھا گوکہ کارل مارکس کے والد ایک اچھے ایڈووکیٹ تھے، جینی وکارل مارکس کی شادی اچانک انجام پذیر نہ ہوئی تھی بلکہ دونوں خاندانوں کے درمیان کافی قریبی تعلقات تھے۔
جینی ابھی جوانی کی حدود میں قدم بھی نہ رکھ پائی تھیں کہ ان کی دوستی کارل مارکس کی بہن سے ہوگئی جوکہ بعدازاں کارل مارکس سے محبت کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ کارل مارکس کے جینی کے باپ سے بھی اچھے تعلقات استوار ہوگئے اور انھوں نے کارل مارکس کو اپنا ذاتی کتب خانہ استعمال کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ کارل مارکس کی عمر عزیز فقط 18 اور جینی کی عمر 22 برس تھی کہ ان دونوں کی منگنی کردی گئی۔ شادی کے لیے یہ شرط عائد کر دی گئی کہ کارل مارکس کی جب تعلیم مکمل ہوگی تو اس کے بعد شدی ہوگی۔
چنانچہ باوجود جینی کے سگے بھائی کی مخالفت کے ان دونوں کی شادی 19 جولائی 1843 کو انجام پائی البتہ جینی کا سوتیلا بھائی جوکہ کارل مارکس کا دوست بھی تھا اس شادی سے بہت خوش تھا جینی کی شادی کی دستاویزات پر دستخط کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اب جینی نوابزادی ہونے کے باوجود تمام تر آسائش و آرام سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتی ہے کیونکہ آنے والے وقتوں میں جینی کو لاتعداد مصائب کا سامنا کرنا تھا۔
انسانی سکون کے لیے مالی آسودگی لازم ہے مگر کارل مارکس اور جینی کا خاندان مالی آسودگی سے ناآشنا ہوچکا تھا خود کارل مارکس کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے جوکہ انھوں نے اپنے سب سے عزیز دوست اینجل کو ایک خط کے ذریعے تحریرکیے تھے۔ کارل مارکس نے لکھا کہ جینی بیمار ہے۔
میرا بیٹا اور بیٹی بھی بیمار ہیں مگر ڈاکٹر کو نہیں بلا سکتا کہ ان سب کے علاج کے لیے رقم نہیں ہے کوئی سات یوم ہوئے ہیں کہ فقط ڈبل روٹی و آلو پر گزارا ہے، ممکن ہے جس گھر میں رہائش پذیر ہوں اس گھر کی مالکہ گھر خالی کروالے۔ ایسا اس لیے کہ اس کا 22 پونڈ کی کثیر رقم کا قرض چڑھ چکا ہے اچھا ہو کہ وہ گھر خالی کروالے تاکہ 22 پونڈ قرض کی رقم سے تو نجات مل ہی جائے گی، مگر گھر کی مالکن مجھ پر یہ عنایت کیونکر کرنے لگی، روٹی والے، دودھ والے، سبزی والے، پرچون والے ان سب کا قرض الگ رہا۔ کس طرح ان مصائب سے چھٹکارا ہوگا۔ چند ہفتوں سے مزدوروں سے رقم لے کر گھر چلا رہا ہوں، قرض مانگتے ہوئے شرم تو آتی ہے مگر نہ مانگوں تو بھوکا مر جاؤں، ایسا بھی ہوتا کہ جب کارل مارکس ہفتوں گھر سے نہ نکلتے سبب یہ ہوتا کہ کارل مارکس کے کپڑے کسی کے پاس گروی رکھے ہوتے اپنی 50 ویں سال گرہ پر کارل مارکس نے لکھا کہ آدھی صدی سے زندہ ہوں اور ابھی تک نادار ہوں۔
بات فقط گھر میں مفلسی تک محدود نہ تھی بلکہ یہ بھی سانحات ہوتے رہے کہ جینی و کارل مارکس کے بچے بھی وفات پاتے تو تدفین کے لیے گھر میں رقم نہ ہوتی، پڑوسی و دیگر لوگ یہ اخراجات اٹھاتے، مگر وفا شعار جینی نے کبھی حرف شکایت اپنے منہ سے ادا نہ کیا بلکہ وہ اپنے محبوب شوہر کا حوصلہ بڑھاتی رہتی، ان معاملات میں جب کہ جینی کا ایک بھائی جرمنی کا وزیر داخلہ تھا اس نے اپنی بہن کو خط بھیجا کہ تم انگلستان چھوڑ کر میرے پاس جرمنی چلی آؤ، میں تمہارے اور تمہارے بچوں کے اخراجات اٹھانے کو تیار ہوں، تمام تر مالی مصائب کے باوجود جینی نے اپنے بھائی کو جواب لکھ بھیجا کہ ''میں جرمنی نہیں آسکتی کیونکہ جرمنی میں کارل مارکس اور ان کے ترقی پسند نظریات کا داخلہ منع ہے۔''
بات فقط مفلسی تک محدود ہوتی تو خیر جینی کو اپنے شوہر کے نظریات کے باعث ملکوں ملکوں دربدر بھی ہونا پڑا، جرمنی سے فرانس، بیلجیم و انگلستان تک بارہا اس خاندان کو جلا وطنی کا دکھ جھیلنا پڑا۔ یہ ضرور تھا کارل مارکس کا دوست اینجل ممکن حد تک اس خاندان کی مالی مدد کو آتا مگر کارل مارکس اینجل کے آگے انتہائی مجبوری کی کیفیت میں ہی دست دراز کرتے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کارل مارکس نے سوچا کہ خود کو دیوالیہ ظاہر کردوں، اس سے یہ ہوگا کہ میری بیٹیاں کسی امیر کے بچوں کی دیکھ بھال کی ملازمت کرلیں۔
میں جینی کے ساتھ کسی ایسے ادارے میں چلا جاؤں جہاں بے سہارا و لاوارث لوگوں کو رکھا جاتا ہے مگر اس کی نوبت نہ آئی کہ اینجل کے والد کی وفات ہوگئی اور وہ اب کھلے ہاتھوں اپنے دوست کی مالی مدد کرنے لگا، مگر پے در پے اولاد کے صدمات و مفلسی کے باعث جینی 2 دسمبر 1882 کو وفات پا گئی، ستم یہ ہوا کہ کارل مارکس کو اپنی محبوب بیوی کے جنازے میں شرکت کی ڈاکٹر نے اجازت نہ دی، کیونکہ کارل مارکس خود شدید علیل تھے، جینی کو سپردخاک کیا جا رہا تھا اور کارل مارکس اس تقریب میں شریک نہ تھے۔ وہ جینی جس کے لیے کارل مارکس نے ان الفاظ میں شاعری کی مگر منگنی کے زمانے میں:
میرا دل مکمل طور پر تمہارا اسیر ہوچکا ہے
میری چشم جاں پہلے سے زیادہ روشن ہوگئی ہے
میں نے زندگی میں جو چاہا
تمہاری صورت میں وہ سب کچھ مل گیا
جو کچھ حاصل نہیں کرسکا
کانٹوں بھری زندگی کے کٹھن راستے پر
وہ سب بغیر مانگے
مجھے تمہاری پیار بھری نظر میں مل گیا
اینجل، جینی کے جنازے میں شرکت کے لیے گیا، رسم تقریر کے دوران ان الفاظ میں جینی کو خراج عقیدت پیش کیا کہ اگر کوئی ایسی عورت ہو سکتی ہے جو دوسروں کی خوشی میں خوش ہو تو وہ یہ عورت تھی۔ جینی کی وفات کے فقط 3 ماہ 12 یوم بعد کارل مارکس بھی دنیائے فانی سے کوچ کرگئے مگر جینی و کارل مارکس کی جسمانی موت تھی۔ کارل مارکس کے انسان دوست نظریات آج بھی قابل عمل ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکر سماج میں مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ مگر یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ اگر جینی کارل مارکس کی شریک حیات نہ ہوتی تو وہ اتنا بڑا فلسفی نہ ہوتا آخر میں جینی کو ان کی 137 ویں برسی پر دل سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں بھرپور جدوجہد کے عزم کے ساتھ۔