تجاوزات کا انہدام
آج کل بلدیہ عظمیٰ کراچی نے غیر قانونی تجاوزات کو منہدم کرنے کی مہم چلائی ہوئی ہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں سے۔۔۔
آج کل بلدیہ عظمیٰ کراچی نے غیر قانونی تجاوزات کو منہدم کرنے کی مہم چلائی ہوئی ہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں سے تجاوزات ہٹا دی گئی ہیں یا منہدم کردی گئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تجاوزات کا قیام کئی مسئلوں کو جنم دیتا ہے۔ جس میں اہم مسئلہ ٹریفک جام کا مسئلہ ہے۔ بے ہنگم طور پر تجاوزات کا قیام اور پتھارے داروں و ٹھیلہ برداروں کا بے ترتیبی سے کھڑا ہونا بے وجہ نہیں ہوتا۔
کیونکہ ان پتھارے داروں اور ٹھیلے برداروں کا روزگار کا مسئلہ ہے اس لیے وہ مجبور ہیں جہاں جگہ مل جاتی ہے وہیں کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان پتھارے داروں اور ٹھیلے والوں کو کوئی مخصوص جگہ بلدیہ عظمیٰ کی طرف سے کیوں نہیں الاٹ کی جاتی یا حدود کیوں مقرر نہیں کی جاتیں۔ اگر بلدیہ عظمیٰ اس جانب توجہ دے اور سخت نگرانی کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ پتھارے دار یا ٹھیلہ بردار کسی بدنظمی کا باعث بنیں۔ بلدیہ کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ ہر علاقے کے کمرشل ایریاز کی نگرانی کرے۔
ٹھیلے والے ہوں یا پتھارے والے یا پھر دکاندار حضرات کی طرف سے بھی ناجائز تجاوزات کی تعمیرات ہوں ان کو شروع ہی سے تجاوزات قائم کرنے سے روک دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ناجائز تجاوزات قائم ہوں۔ مگر مسئلہ تو کچھ اور ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ جس کے ذمے دار بلدیہ کے ملازمین اور دکاندار حضرات ہی ہیں۔ ایک طرف بلدیہ کے ملازمین چشم پوشی کرتے ہیں تو دوسری طرف دکاندار بھی اپنے کاروباری مفادات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ بلدیہ کے ملازمین میں ایسا ربط رہتا ہے کہ دکاندار اپنی دکان کے باہر سامان رکھنا شروع کردیتے ہیں۔
اور بعض دکاندار تو خود اپنا سامان ٹھیلوں پر رکھواکر دکانوں کے سامنے ، فٹ پاتھوں پر یا روڈ آئی لینڈز کے درمیان کھڑا کروا دیتے ہیں تاکہ دکان کی سیل کے مدھم ہونے پر ٹھیلے پر فروخت جاری رہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ عوام (خریدار) ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ دکان پر جو اشیا ایک مقررہ قیمت پر ملتی ہے وہی چیزیں ٹھیلوں پر سستی ملتی ہیں اور پھر بھاؤ تاؤ کرنے کی گنجائش بھی رہتی ہے۔ عام لوگوں کا مشاہدہ ضرور ہوگا کہ ایک سبزی والا اپنی دکان کے سامنے ہی ایک ٹھیلے والے کو کھڑا کرتا ہے حالانکہ سامان اسی کا ہوتا ہے لیکن عوام کیا جانیں کہ یہ اسی دکان والے کا ٹھیلہ ہے وہ تو ٹھیلے پر خریدنے کے فوائد سے مطلب رکھتے ہیں بہ نسبت دکان سے خریدنے کے۔ دیکھا آپ نے یہی سلسلہ دوسرے دکاندار (یعنی کریانہ مرچنٹ، چکی والے، مصالحے والے اور دیگر اشیا والے) حضرات نے بھی اپنایا ہوتا ہے۔
لہٰذا پتھاروں یا ٹھیلوں کے ذریعے تجاوزات کا قیام لازمی ہوتا ہے اور تو اور آج کل دکاندار حضرات نے ایک نیا حربہ استعمال کرنا شروع کیا ہے کہ دکان کے آگے چبوترے بنوا لیتے ہیں یا پھر اسٹیل کے ڈبے یا ریکس بنوا کر رکھ لیتے ہیں اور وہ بھی پہیے والے ہوتے ہیں جنھیں بوقت ضرورت ہٹایا جاسکے۔ جیسے بلدیہ کے عملے کا چھاپہ ایڈمنسٹریٹر یا مجسٹریٹ حضرات کا دورہ ہوجائے تو فوراً باہر رکھے ہوئے سامان کو اندر دھکیل دیا جاتا ہے۔
اس طرح مجسٹریٹ یا ایڈمنسٹریٹر کو چقمہ دے کر جرمانوں سے بچا لیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے کارنامے اور حربے ہوتے ہیں ان دکانداروں کے ہر کوئی (یعنی اچانک آنے والا) ان حربوں یا کارناموں کو نہیں سمجھ سکتا بلکہ جو روز مرہ کے ان سے رابطے میں رہنے والے ہوتے ہیں یعنی گاہک یا محلے کے رہائشی۔ جن سے دکانداروں کے تعلقات قائم ہوجاتے ہیں وہی ان کی (دکانداروں) حکمت عملیوں کو سمجھتے ہیں۔ لیکن وہ قانون نافذ کرنے والے تو نہیں ہوتے جو ان محرکات کا نوٹس لیں اور بلدیہ کے عملے کے علم میں یہ باتیں لائیں۔ ان کو اپنے کام سے غرض ہوتی ہے چاہے دکاندار سے کتنی ہی دوستی ہو یا بے تکلفی ہو تو گاہک کبھی دکاندار کے حربوں پر غور نہیں کرتا نہ کوئی سوال کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس وضاحت کے بعد یقینا وہ مطمئن ہوگئے ہوں گے کہ ناجائز تجاوزات کے قیام کا منبع کون ہے؟ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا منتظر رہتا ہے۔ چاہے دکاندار ہو یا گاہک۔
ان تمام وجوہ کے باوجود بلدیہ عظمیٰ کے کارندوں کو بری الذمہ نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ان کو ہر صورت اپنے فرائض انجام دینا ہوتے ہیں اپنے فرائض سے غفلت برتتنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں، یعنی ''مٹھی گرم ہونا''۔ جب مٹھی گرم ہوجائے تو نظریں بھی پھیر لینا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ کریں تو پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اور آج کل تو بدلہ لینا بہت آسان ہوگیا ہے۔ دکاندار کے لیے بھی اور گاہک کے لیے بھی۔ کیونکہ نیتوں کا حال تو خدا ہی جانتا ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کے کارندوں نے تجاوزات منہدم تو کردیے مگر ملبہ سارا چھوڑ گئے۔ جگہ جگہ آپ کو اس منہدم شدہ ملبے کے ڈھیر نظر آئیں گے۔ نتیجہ کیا نکلا کہ اس منہدم شدہ ملبے پر کچرہ پھینکے جانے لگا۔ دکاندار بھی، جمعدار بھی اور فلیٹوں کے مکین بھی۔ یعنی تجاوزات تو ہٹ گئیں مگر جگہ جگہ کچرہ گھروں کو جنم دے دیا۔ آخر یہ ایسا کیوں ہوا؟ بلدیہ عظمیٰ کے عملے کی نااہلی، غفلت اور غیر ذمے داری کی وجہ سے۔ یہی حال بلدیہ عظمیٰ کے سینیٹری عملے کا ہے۔ سیوریج لائنوں اور مین ہولز کی صفائی کرکے تمام گندگی ، مین ہولز کے باہر ہی ڈھیر لگا کر چلے جاتے ہیں وہ گندگی کا ڈھیر پڑے پڑے دھوپ سے سوکھ جاتا ہے اور ریت یا مٹی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ سڑک کی صفائی کرنے والا جمعدار آتا ہے وہ اس ریت کو یا مٹی کو دوبارہ مین ہولز میں دھکیل دیتا ہے ۔
یہ کام وہ اتنی آسانی سے اس لیے کرلیتا ہے کہ اکثر مین ہولز کھلے ہی ہوتے ہیں۔ ڈھکنے معلوم نہیں کہاں چلے جاتے ہیں یا چوری ہوجاتے ہیں۔ ہاں یہاں ایک اور بات بتاتا چلوں کہ جن علاقوں میں مین ہولز کھلے رہتے ہیں اگر وہاں کے لوگ شور شرابہ کریں یعنی احتجاج کریں یا بلدیہ میں شکایت کریں تو یہ ترکیب استعمال کی جاتی ہے کہ جہاں مین ہولز کی زیادہ تعداد ڈھکی ہوتی ہے وہاں سے ڈھکنے اٹھاکر شکایت کنندہ علاقے کے کھلے مین ہولز پر ڈھک دیے جاتے ہیں اور جو مین ہولز بغیر ڈھکنے کے ہوتے ہیں ان میں بانس یا تختے کھڑے کردیے جاتے ہیں یعنی ''خبردار'' کا نشان بنادیتے ہیں اور بعض جگہوں پر اینٹوں یا تختوں سے کھلے مین ہولز کو ڈھک دیا جاتا ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ بلدیہ عظمیٰ کا عملہ عام دنوں میں بلدیاتی کاموں میں اتنی غفلت اور غیر ذمے داری برتتا ہے تو وہ تجاوزات کے انہدام میں کیوں غفلت نہ برتے اور پھر ذمے داری کا ثبوت کیوں نہ دے۔ یہی حال کچرے کی کنڈیوں کا ہے جگہ جگہ کچرے کی کنڈیاں ابل رہی ہیں تعفن پھیل رہا ہے۔ مکھیوں اور مچھروں کے ذریعے جراثیم گھروں میں پہنچ رہے ہیں مکین ملیریا، ہیضہ وغیرہ کا شکار ہورہے ہیں مگر ہمارا بلدیہ عظمیٰ کا عملہ سو رہا ہے۔ عوام کی بدحالی کا تمسخر اڑا رہا ہے کہ کرلو جو کرنا ہے۔
ہم تو بھی موج اڑاتے رہیں گے۔ جہاں مٹھی گرم ہوگی وہاں کام فٹافٹ ہوجائے گا اور جہاں معاملہ ٹھنڈا ہوگا وہاں ہمارا کام کرنے کا جذبہ بھی ٹھنڈا رہے گا۔ بات ہے سمجھنے کی۔ ہر کوئی اتنی آسانی سے ان بلدیاتی پیچیدگیوں کو سمجھ نہیں سکتا ہے۔ اس لیے ذرا صبر کیجیے اور دیکھیے کہ یہ منہدم تجاوزات کا ملبہ ،جو اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچرہ کنڈی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے کب صاف کیا جاتا ہے۔ خدا کرے کہ بلدیہ کے افسران و ذمے داران کا دھیان اس طرف ہوجائے۔ ورنہ یوں ہی کچرے کی کنڈیاں قائم رہیں گی اور تجاوزات کا روپ دھار لیں گی۔
کیونکہ ان پتھارے داروں اور ٹھیلے برداروں کا روزگار کا مسئلہ ہے اس لیے وہ مجبور ہیں جہاں جگہ مل جاتی ہے وہیں کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان پتھارے داروں اور ٹھیلے والوں کو کوئی مخصوص جگہ بلدیہ عظمیٰ کی طرف سے کیوں نہیں الاٹ کی جاتی یا حدود کیوں مقرر نہیں کی جاتیں۔ اگر بلدیہ عظمیٰ اس جانب توجہ دے اور سخت نگرانی کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ پتھارے دار یا ٹھیلہ بردار کسی بدنظمی کا باعث بنیں۔ بلدیہ کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ ہر علاقے کے کمرشل ایریاز کی نگرانی کرے۔
ٹھیلے والے ہوں یا پتھارے والے یا پھر دکاندار حضرات کی طرف سے بھی ناجائز تجاوزات کی تعمیرات ہوں ان کو شروع ہی سے تجاوزات قائم کرنے سے روک دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ناجائز تجاوزات قائم ہوں۔ مگر مسئلہ تو کچھ اور ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ جس کے ذمے دار بلدیہ کے ملازمین اور دکاندار حضرات ہی ہیں۔ ایک طرف بلدیہ کے ملازمین چشم پوشی کرتے ہیں تو دوسری طرف دکاندار بھی اپنے کاروباری مفادات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ بلدیہ کے ملازمین میں ایسا ربط رہتا ہے کہ دکاندار اپنی دکان کے باہر سامان رکھنا شروع کردیتے ہیں۔
اور بعض دکاندار تو خود اپنا سامان ٹھیلوں پر رکھواکر دکانوں کے سامنے ، فٹ پاتھوں پر یا روڈ آئی لینڈز کے درمیان کھڑا کروا دیتے ہیں تاکہ دکان کی سیل کے مدھم ہونے پر ٹھیلے پر فروخت جاری رہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ عوام (خریدار) ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ دکان پر جو اشیا ایک مقررہ قیمت پر ملتی ہے وہی چیزیں ٹھیلوں پر سستی ملتی ہیں اور پھر بھاؤ تاؤ کرنے کی گنجائش بھی رہتی ہے۔ عام لوگوں کا مشاہدہ ضرور ہوگا کہ ایک سبزی والا اپنی دکان کے سامنے ہی ایک ٹھیلے والے کو کھڑا کرتا ہے حالانکہ سامان اسی کا ہوتا ہے لیکن عوام کیا جانیں کہ یہ اسی دکان والے کا ٹھیلہ ہے وہ تو ٹھیلے پر خریدنے کے فوائد سے مطلب رکھتے ہیں بہ نسبت دکان سے خریدنے کے۔ دیکھا آپ نے یہی سلسلہ دوسرے دکاندار (یعنی کریانہ مرچنٹ، چکی والے، مصالحے والے اور دیگر اشیا والے) حضرات نے بھی اپنایا ہوتا ہے۔
لہٰذا پتھاروں یا ٹھیلوں کے ذریعے تجاوزات کا قیام لازمی ہوتا ہے اور تو اور آج کل دکاندار حضرات نے ایک نیا حربہ استعمال کرنا شروع کیا ہے کہ دکان کے آگے چبوترے بنوا لیتے ہیں یا پھر اسٹیل کے ڈبے یا ریکس بنوا کر رکھ لیتے ہیں اور وہ بھی پہیے والے ہوتے ہیں جنھیں بوقت ضرورت ہٹایا جاسکے۔ جیسے بلدیہ کے عملے کا چھاپہ ایڈمنسٹریٹر یا مجسٹریٹ حضرات کا دورہ ہوجائے تو فوراً باہر رکھے ہوئے سامان کو اندر دھکیل دیا جاتا ہے۔
اس طرح مجسٹریٹ یا ایڈمنسٹریٹر کو چقمہ دے کر جرمانوں سے بچا لیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے کارنامے اور حربے ہوتے ہیں ان دکانداروں کے ہر کوئی (یعنی اچانک آنے والا) ان حربوں یا کارناموں کو نہیں سمجھ سکتا بلکہ جو روز مرہ کے ان سے رابطے میں رہنے والے ہوتے ہیں یعنی گاہک یا محلے کے رہائشی۔ جن سے دکانداروں کے تعلقات قائم ہوجاتے ہیں وہی ان کی (دکانداروں) حکمت عملیوں کو سمجھتے ہیں۔ لیکن وہ قانون نافذ کرنے والے تو نہیں ہوتے جو ان محرکات کا نوٹس لیں اور بلدیہ کے عملے کے علم میں یہ باتیں لائیں۔ ان کو اپنے کام سے غرض ہوتی ہے چاہے دکاندار سے کتنی ہی دوستی ہو یا بے تکلفی ہو تو گاہک کبھی دکاندار کے حربوں پر غور نہیں کرتا نہ کوئی سوال کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس وضاحت کے بعد یقینا وہ مطمئن ہوگئے ہوں گے کہ ناجائز تجاوزات کے قیام کا منبع کون ہے؟ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا منتظر رہتا ہے۔ چاہے دکاندار ہو یا گاہک۔
ان تمام وجوہ کے باوجود بلدیہ عظمیٰ کے کارندوں کو بری الذمہ نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ان کو ہر صورت اپنے فرائض انجام دینا ہوتے ہیں اپنے فرائض سے غفلت برتتنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں، یعنی ''مٹھی گرم ہونا''۔ جب مٹھی گرم ہوجائے تو نظریں بھی پھیر لینا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ کریں تو پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اور آج کل تو بدلہ لینا بہت آسان ہوگیا ہے۔ دکاندار کے لیے بھی اور گاہک کے لیے بھی۔ کیونکہ نیتوں کا حال تو خدا ہی جانتا ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کے کارندوں نے تجاوزات منہدم تو کردیے مگر ملبہ سارا چھوڑ گئے۔ جگہ جگہ آپ کو اس منہدم شدہ ملبے کے ڈھیر نظر آئیں گے۔ نتیجہ کیا نکلا کہ اس منہدم شدہ ملبے پر کچرہ پھینکے جانے لگا۔ دکاندار بھی، جمعدار بھی اور فلیٹوں کے مکین بھی۔ یعنی تجاوزات تو ہٹ گئیں مگر جگہ جگہ کچرہ گھروں کو جنم دے دیا۔ آخر یہ ایسا کیوں ہوا؟ بلدیہ عظمیٰ کے عملے کی نااہلی، غفلت اور غیر ذمے داری کی وجہ سے۔ یہی حال بلدیہ عظمیٰ کے سینیٹری عملے کا ہے۔ سیوریج لائنوں اور مین ہولز کی صفائی کرکے تمام گندگی ، مین ہولز کے باہر ہی ڈھیر لگا کر چلے جاتے ہیں وہ گندگی کا ڈھیر پڑے پڑے دھوپ سے سوکھ جاتا ہے اور ریت یا مٹی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ سڑک کی صفائی کرنے والا جمعدار آتا ہے وہ اس ریت کو یا مٹی کو دوبارہ مین ہولز میں دھکیل دیتا ہے ۔
یہ کام وہ اتنی آسانی سے اس لیے کرلیتا ہے کہ اکثر مین ہولز کھلے ہی ہوتے ہیں۔ ڈھکنے معلوم نہیں کہاں چلے جاتے ہیں یا چوری ہوجاتے ہیں۔ ہاں یہاں ایک اور بات بتاتا چلوں کہ جن علاقوں میں مین ہولز کھلے رہتے ہیں اگر وہاں کے لوگ شور شرابہ کریں یعنی احتجاج کریں یا بلدیہ میں شکایت کریں تو یہ ترکیب استعمال کی جاتی ہے کہ جہاں مین ہولز کی زیادہ تعداد ڈھکی ہوتی ہے وہاں سے ڈھکنے اٹھاکر شکایت کنندہ علاقے کے کھلے مین ہولز پر ڈھک دیے جاتے ہیں اور جو مین ہولز بغیر ڈھکنے کے ہوتے ہیں ان میں بانس یا تختے کھڑے کردیے جاتے ہیں یعنی ''خبردار'' کا نشان بنادیتے ہیں اور بعض جگہوں پر اینٹوں یا تختوں سے کھلے مین ہولز کو ڈھک دیا جاتا ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ بلدیہ عظمیٰ کا عملہ عام دنوں میں بلدیاتی کاموں میں اتنی غفلت اور غیر ذمے داری برتتا ہے تو وہ تجاوزات کے انہدام میں کیوں غفلت نہ برتے اور پھر ذمے داری کا ثبوت کیوں نہ دے۔ یہی حال کچرے کی کنڈیوں کا ہے جگہ جگہ کچرے کی کنڈیاں ابل رہی ہیں تعفن پھیل رہا ہے۔ مکھیوں اور مچھروں کے ذریعے جراثیم گھروں میں پہنچ رہے ہیں مکین ملیریا، ہیضہ وغیرہ کا شکار ہورہے ہیں مگر ہمارا بلدیہ عظمیٰ کا عملہ سو رہا ہے۔ عوام کی بدحالی کا تمسخر اڑا رہا ہے کہ کرلو جو کرنا ہے۔
ہم تو بھی موج اڑاتے رہیں گے۔ جہاں مٹھی گرم ہوگی وہاں کام فٹافٹ ہوجائے گا اور جہاں معاملہ ٹھنڈا ہوگا وہاں ہمارا کام کرنے کا جذبہ بھی ٹھنڈا رہے گا۔ بات ہے سمجھنے کی۔ ہر کوئی اتنی آسانی سے ان بلدیاتی پیچیدگیوں کو سمجھ نہیں سکتا ہے۔ اس لیے ذرا صبر کیجیے اور دیکھیے کہ یہ منہدم تجاوزات کا ملبہ ،جو اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچرہ کنڈی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے کب صاف کیا جاتا ہے۔ خدا کرے کہ بلدیہ کے افسران و ذمے داران کا دھیان اس طرف ہوجائے۔ ورنہ یوں ہی کچرے کی کنڈیاں قائم رہیں گی اور تجاوزات کا روپ دھار لیں گی۔