کتاب اور لائبریری کلچر
جب سے انٹرنیٹ آیا نہ توکسی نے ایسا کوئی خواب دیکھا ہے نہ اس قسم کے پرچے آئے ہیں۔
کسی کتاب''میلے''کے حوالے سے ایک سابق وزیر نے اپنے زریں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ کتاب میلے کی روایت بڑی اچھی اور مثبت ہے۔ کتابیں لکھنا، پڑھنا اور لائیبر یریوں کو آباد کرنا وقت کا تقاضا ہے۔اور بھی بہت ساری اچھی باتیں اس بیان میں کی گئی ہیں،لیکن ہمارے پیش نظر تو سب سے پہلے ''وقت''ہے اور دوسرا ''تقاضا'' ہے۔
یہ دو الفاظ بڑے پہلودار اور کثیرالمعانی ہیں اور پھر خاص طور پر یہ ''تقاضا'' کیونکہ ''تقاضا''پرانے ارود ادب میں ''وصولی''کے معنی دیتاتھا جیسے ''کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور''۔لیکن دور جدید میں ''تقاضا''کچھ اور معنی کے حامل ہواہے خاص طور پر ''اچھے''لوگوں کی لغت میں۔خیریہ تو زبان وبیان کا معاملہ ہے جس میں ہماری جگہ آخری صف میں ہے۔ ہو سکتاہے ہم ہی کچھ زیادہ''تقاضا''کو نہ سمجھتے ہوں۔لیکن ''کتاب'' کے بارے میں بھی ہمیں بہت جانکاری ہے اور''میلے''کے بارے میں بھی ۔کہ ہم بھی
واں کے نہیں یہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
ان میلوں میں انٹری ٹیسٹ ہوتے ہیں جن میں صرف وہ امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جو دبئی وغیرہ میں انگریزی کتابوں کے ڈیٹ ایکسپائر لاٹ خریدتے ہیں اور پھر ردی کے بھاؤ خریدی ہوئی کتابوں کو ایسے میلوں میں سجاکر سرکاری لائیبریریوں کو اصل قیمت پردیتے ہیں۔یوںبہت سوں کا ''بھلا''ہوجاتاہے، سوائے پڑھنے والوں کے۔اور اب تو یہ نیا شوشا بھی مددگار بن گیاہے کہ ''کتاب کلچر''کا خاتمہ ہوگیاہے کہ ساری بھیڑانٹرنیٹ نے کھینچ لی ہے اوراتنا ہی جھوٹ ہے جتنے اس کے بولنے والے جھوٹے ہیں کیونکہ انٹرنیٹ بہرحال ایک فاسٹ فوڈ کی دکان ہے، اس کے پکوان کتنے ہی چسکے دار ہوں، اصل اور گھر کے کھانے کی جگہ نہیں لے سکتے ہیں جوکتاب ہے۔
فاسٹ فوڈ سے وقتی ضرورت تو پوری ہوجاتی ہے ،زبان کا چٹخارہ بھی مل جاتاہے لیکن نہ تو فاسٹ فوڈ سے گھریلو کھانے کی تسکین ملتی ہے اور نہ ہی جزوبدن ہوکر انسان کے لیے فائدہ مندہوتاہے۔جس طرح فاسٹ فوڈ یا باربی کیو میں مضرصحت اجزا ہوتے ہیں، اسی طرح انٹرنیٹ سے میسر ہونے والے علم میں بھی یہودی عالمی مافیا نے بہت کچھ ڈالا ہواہے۔بہت عرصہ ہوا جب الیکٹرانک میڈیا منصہ شہود پر نہیں آیاتھا تو اچانک کہیں سے کاغذ کا ایک پرچہ گردش کرنے لگتاتھا جس میں امام کعبہ یا امام مسجد نبوی یا کسی خادم الشرفین کے ایک خواب کا ذکر ہوتاتھا کہ اس نے کسی درویش کو بہت اداس اور یہ کہتے ہوئے پایا کہ مسلمان یہ ہوگئے ہیں، وہ ہوگئے ہیں،امت مسلمہ تباہی کے قریب ہے اور وہ عیوب جو امت میں بتائے جاتے تھے۔
ان سب کا تعلق عبادات وظائف سے ہوتاتھا حقوق العباد یا زکوۃ یا مال حرام کا ذکر نہیں ہوتا تھا، پھر آخر میں یہ شوشا بھی اگر کسی نے اسے پڑھنے کے بعد اتنے افراد کو نہ بھیجا تو یہ یہ ہوجائے گا۔اس سارے عمل کے پیچھے مسلمانوں کو احساس کمتری، احساس بے راہروی اور ندامت کا احساس دلانا، کار دنیا سے برگشتہ کرنا اور صرف عبادات میں الجھا کر اقتصادی طور پر پسماندہ اور اپنی منڈی بنانا ہوتاتھا اور یہ ساری کارستانی عالمی مالیاتی مافیا اور انڈسٹری کے لیے مارکیٹ بناناہوتاتھا۔
لیکن جب سے انٹرنیٹ آیا نہ توکسی نے ایسا کوئی خواب دیکھا ہے نہ اس قسم کے پرچے آئے ہیں۔اس لیے کہ اب ان کے ہاتھ ایک اور بہتر ذریعہ لگ گیاہے ابلاغ کے ہر ہر پہلو پر ان کی گرفت ہے اور صرف ان علوم کی ترویج ہورہی ہے جو مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ بے عمل، تن آسان اور بے فیض کاموں میں الجھایا جائے تاکہ ان کی منڈی اور مارکیٹ بنے رہیں، ان کے پنجے میں رہیں۔
اس حال میں یہ سوشل میڈیا کا سیلاب بھی ایک دن بیٹھ جائے گا اور لوگوں کے پاس خالی ذہن یابے ترتیب اور چوں چوں کا مربہ باقی رہ جائے گا جیسا کہ ریڈیو کے بارے میں کہاجاتاتھا کہ ٹیلی وژن نے ریڈیو کو ختم کردیاہے۔لیکن ریڈیو دوبارہ مروج ہورہاہے کیونکہ اسے کام کرتے ہوئے، گاڑی چلاتے ہوئے، سفر کرتے ہوئے ہرجگہ صرف کانوں سے اخذ کیا جاسکتا ہے جب کہ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے لیے کہیں آرام سے بیٹھ کر آنکھوں اور کانوں دونوں کو مصروف کرنا پڑتاہے اور کتاب کا تو کہنا ہی کیا کہ ایک مرتبہ ذہن میں بٹھا دیاتو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ لائبریری ہاتھ لگ گئی۔
انٹرنیٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک انگلی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔آخر میں اس بدنصیب ملک اور کرپشن سے بھرے ہوئے ملک کی لائبریریوں سے متعلق بھی بتادیں کہ ہم نے یہاں سے لے کر پٹھانکوٹ کی خدابخش لائبریری تک کی خاک چھانی ہے اور اس کو سمجھانے کے لیے ہم صرف ایک واقعہ پیش کریں گے۔
ایک مرتبہ پشاوریونیورسٹی کے ایک متعلقہ ادارے کی لائبریری میں ہم کوئی کتاب ڈھونڈنے گئے۔ الماریاں بھی بھری ہوئی تھیں، زمین پر بنڈلوں اور پیٹیوں میں بھی بہت ساری کتابیں پڑی تھیں۔ ہم خوش ہوئے اس ادارے کا ایک رکن ہمارے ساتھ تھا۔چنانچہ اسے کہا کہ باقی تو یہ ادارہ کسی کام کا نہیں ہے لیکن لائبریری خاصی بھرپور ہے۔
اس نے بصیغہ راز بتایا کہ یہ کسی علم دوستی یا کتاب دوستی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ جب مئی جون میں باوجود بندربانٹ کے کچھ فنڈز باقی رہ جاتے ہیں چنانچہ اسے ہضم کرنے کے لیے ''کتابیں''خریدی جاتی ہیں جو خاص الخاص دکانوں اور اداروں سے خریدی جاتی ہیں، انھیں صرف یہ بتایاجاتاہے کہ اتنی رقم کی کتابیں چاہیئں، وہ اپنی وہ تمام کتابیں نکال کرباندھ دیتاہے جو بکنے کی نہیں ہوتیں اور یہ سارا کچرا لائبریری میں کھپ جاتا اور اس کا ثبوت بھی ہمیں اسی وقت مل گیا کہ اس لائبریری میں ہماری مطلوبہ کتاب بھی نہیں تھی اور دوسری بھی کوئی کام کی کتاب دکھائی نہیں دی۔ لائبریری فضول کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔
یہ دو الفاظ بڑے پہلودار اور کثیرالمعانی ہیں اور پھر خاص طور پر یہ ''تقاضا'' کیونکہ ''تقاضا''پرانے ارود ادب میں ''وصولی''کے معنی دیتاتھا جیسے ''کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور''۔لیکن دور جدید میں ''تقاضا''کچھ اور معنی کے حامل ہواہے خاص طور پر ''اچھے''لوگوں کی لغت میں۔خیریہ تو زبان وبیان کا معاملہ ہے جس میں ہماری جگہ آخری صف میں ہے۔ ہو سکتاہے ہم ہی کچھ زیادہ''تقاضا''کو نہ سمجھتے ہوں۔لیکن ''کتاب'' کے بارے میں بھی ہمیں بہت جانکاری ہے اور''میلے''کے بارے میں بھی ۔کہ ہم بھی
واں کے نہیں یہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
ان میلوں میں انٹری ٹیسٹ ہوتے ہیں جن میں صرف وہ امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جو دبئی وغیرہ میں انگریزی کتابوں کے ڈیٹ ایکسپائر لاٹ خریدتے ہیں اور پھر ردی کے بھاؤ خریدی ہوئی کتابوں کو ایسے میلوں میں سجاکر سرکاری لائیبریریوں کو اصل قیمت پردیتے ہیں۔یوںبہت سوں کا ''بھلا''ہوجاتاہے، سوائے پڑھنے والوں کے۔اور اب تو یہ نیا شوشا بھی مددگار بن گیاہے کہ ''کتاب کلچر''کا خاتمہ ہوگیاہے کہ ساری بھیڑانٹرنیٹ نے کھینچ لی ہے اوراتنا ہی جھوٹ ہے جتنے اس کے بولنے والے جھوٹے ہیں کیونکہ انٹرنیٹ بہرحال ایک فاسٹ فوڈ کی دکان ہے، اس کے پکوان کتنے ہی چسکے دار ہوں، اصل اور گھر کے کھانے کی جگہ نہیں لے سکتے ہیں جوکتاب ہے۔
فاسٹ فوڈ سے وقتی ضرورت تو پوری ہوجاتی ہے ،زبان کا چٹخارہ بھی مل جاتاہے لیکن نہ تو فاسٹ فوڈ سے گھریلو کھانے کی تسکین ملتی ہے اور نہ ہی جزوبدن ہوکر انسان کے لیے فائدہ مندہوتاہے۔جس طرح فاسٹ فوڈ یا باربی کیو میں مضرصحت اجزا ہوتے ہیں، اسی طرح انٹرنیٹ سے میسر ہونے والے علم میں بھی یہودی عالمی مافیا نے بہت کچھ ڈالا ہواہے۔بہت عرصہ ہوا جب الیکٹرانک میڈیا منصہ شہود پر نہیں آیاتھا تو اچانک کہیں سے کاغذ کا ایک پرچہ گردش کرنے لگتاتھا جس میں امام کعبہ یا امام مسجد نبوی یا کسی خادم الشرفین کے ایک خواب کا ذکر ہوتاتھا کہ اس نے کسی درویش کو بہت اداس اور یہ کہتے ہوئے پایا کہ مسلمان یہ ہوگئے ہیں، وہ ہوگئے ہیں،امت مسلمہ تباہی کے قریب ہے اور وہ عیوب جو امت میں بتائے جاتے تھے۔
ان سب کا تعلق عبادات وظائف سے ہوتاتھا حقوق العباد یا زکوۃ یا مال حرام کا ذکر نہیں ہوتا تھا، پھر آخر میں یہ شوشا بھی اگر کسی نے اسے پڑھنے کے بعد اتنے افراد کو نہ بھیجا تو یہ یہ ہوجائے گا۔اس سارے عمل کے پیچھے مسلمانوں کو احساس کمتری، احساس بے راہروی اور ندامت کا احساس دلانا، کار دنیا سے برگشتہ کرنا اور صرف عبادات میں الجھا کر اقتصادی طور پر پسماندہ اور اپنی منڈی بنانا ہوتاتھا اور یہ ساری کارستانی عالمی مالیاتی مافیا اور انڈسٹری کے لیے مارکیٹ بناناہوتاتھا۔
لیکن جب سے انٹرنیٹ آیا نہ توکسی نے ایسا کوئی خواب دیکھا ہے نہ اس قسم کے پرچے آئے ہیں۔اس لیے کہ اب ان کے ہاتھ ایک اور بہتر ذریعہ لگ گیاہے ابلاغ کے ہر ہر پہلو پر ان کی گرفت ہے اور صرف ان علوم کی ترویج ہورہی ہے جو مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ بے عمل، تن آسان اور بے فیض کاموں میں الجھایا جائے تاکہ ان کی منڈی اور مارکیٹ بنے رہیں، ان کے پنجے میں رہیں۔
اس حال میں یہ سوشل میڈیا کا سیلاب بھی ایک دن بیٹھ جائے گا اور لوگوں کے پاس خالی ذہن یابے ترتیب اور چوں چوں کا مربہ باقی رہ جائے گا جیسا کہ ریڈیو کے بارے میں کہاجاتاتھا کہ ٹیلی وژن نے ریڈیو کو ختم کردیاہے۔لیکن ریڈیو دوبارہ مروج ہورہاہے کیونکہ اسے کام کرتے ہوئے، گاڑی چلاتے ہوئے، سفر کرتے ہوئے ہرجگہ صرف کانوں سے اخذ کیا جاسکتا ہے جب کہ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے لیے کہیں آرام سے بیٹھ کر آنکھوں اور کانوں دونوں کو مصروف کرنا پڑتاہے اور کتاب کا تو کہنا ہی کیا کہ ایک مرتبہ ذہن میں بٹھا دیاتو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ لائبریری ہاتھ لگ گئی۔
انٹرنیٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک انگلی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔آخر میں اس بدنصیب ملک اور کرپشن سے بھرے ہوئے ملک کی لائبریریوں سے متعلق بھی بتادیں کہ ہم نے یہاں سے لے کر پٹھانکوٹ کی خدابخش لائبریری تک کی خاک چھانی ہے اور اس کو سمجھانے کے لیے ہم صرف ایک واقعہ پیش کریں گے۔
ایک مرتبہ پشاوریونیورسٹی کے ایک متعلقہ ادارے کی لائبریری میں ہم کوئی کتاب ڈھونڈنے گئے۔ الماریاں بھی بھری ہوئی تھیں، زمین پر بنڈلوں اور پیٹیوں میں بھی بہت ساری کتابیں پڑی تھیں۔ ہم خوش ہوئے اس ادارے کا ایک رکن ہمارے ساتھ تھا۔چنانچہ اسے کہا کہ باقی تو یہ ادارہ کسی کام کا نہیں ہے لیکن لائبریری خاصی بھرپور ہے۔
اس نے بصیغہ راز بتایا کہ یہ کسی علم دوستی یا کتاب دوستی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ جب مئی جون میں باوجود بندربانٹ کے کچھ فنڈز باقی رہ جاتے ہیں چنانچہ اسے ہضم کرنے کے لیے ''کتابیں''خریدی جاتی ہیں جو خاص الخاص دکانوں اور اداروں سے خریدی جاتی ہیں، انھیں صرف یہ بتایاجاتاہے کہ اتنی رقم کی کتابیں چاہیئں، وہ اپنی وہ تمام کتابیں نکال کرباندھ دیتاہے جو بکنے کی نہیں ہوتیں اور یہ سارا کچرا لائبریری میں کھپ جاتا اور اس کا ثبوت بھی ہمیں اسی وقت مل گیا کہ اس لائبریری میں ہماری مطلوبہ کتاب بھی نہیں تھی اور دوسری بھی کوئی کام کی کتاب دکھائی نہیں دی۔ لائبریری فضول کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔