اعتماد کی بحالی
بات تلخ ہے لیکن مجھے معاف فرمائیے گا کہ مجھ سمیت ہم سب میں سے بڑی اکثریت جھوٹ اور ڈر کی مریض بن چکی ہے۔
اب تو انٹر نیٹ کی وجہ سے بہت سے معاملات میں بڑی ہی آسانی ہوگئی ہے خاص طور پر اخبارات وغیرہ کے حوالے سے اور جو بھی چاہے وہ پرانے سے پرانا ریکارڈ نکال کر بڑی آسانی سے کمپیوٹر یا موبائل اسکرین پر دیکھ سکتا ہے کہ دس بیس سال بلکہ اس سے بھی زیادہ پہلے کے عرصے میں جائیں اورآج کی خبروں کا موازنہ اس زمانے کی خبروں سے کریں تو خوشگوار یا ناگوار حیرت سے سابقہ پڑتا ہے کہ کم و بیش ملکی،سیاسی، سماجی معاشی اور معاشرتی حالات پر آنے والی خبریں جو سالوں پہلے لگا کرتی تھیں آج بھی کم و بیش تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ بلکل ڈیٹو کاپی لگتی ہیں۔
وہی ملکی سلامتی کے واویلے، وہی عوام کو تسلیوں کے لولی پاپ،وہی معاشی حالات دگرگوں ہونے کے فسانے، وہی بین الاقوامی پیچیدگیوں کے دلچسپ بہانے، وہی خوشگوارمستقبل کے دکھائے جانے والے خواب سہانے، وہی امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزائم،وہی بلند و بانگ دعوے اور وہی رفتار تیز تر اور سفر آہستہ کا جاری و ساری فسوں اور طلسم اور وہی رفتارِ بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔
کچھ بھی نہیں بدلا،، نہ خبروں کا متن ،نہ وزن ، نہ طور نہ طریقہ بس نام اور چہرے تھوڑا بہت تبدیل ہوئے ہیں، اور ہم جیسے ایک دائرے کے سفر میں جٹے اور لگے ہوئے نظر آتے ہیں ہر تھوڑے عرصے کے بعد گھوم پھر کر،چکر پورا کرکے پھر وہیں نقطۂ آغاز پر آجاتے ہیں اور دوبارہ سر جھکائے نقطۂ آغآز سے سفردوبارہ شروع کردیتے ہیں اور یہ چکر یا دائرے کا سفر اپنا تسلسل برقرار رکھے ہوئے ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی آسیب مسلط ہوگیا ہے کسی سحر ،طلسم یا بد دعا کا ہم شکار ہیں کہ قدم آگے بڑھاتے ہیں لیکن مزید پیچھے چلے جاتے ہیں۔من حیث الامہ کی تو بات ہی چھوڑیں وہ تو بہت ہی آگے کی چیز ہے من حیث القوم بھی ہم بڑی معذرت کے ساتھ ایک قوم ہونے سے زیادہ ایک بھیڑ یا ایک مجمع ہیں اور بس، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ سن سنتالیس سے پہلے ہم ایک قوم تھے جو ایک وطن ڈھونڈ رہے تھے اور فی زمانہ وہ مل جانے والا وطن اب ایک قوم کو ڈھونڈ رہا ہے۔
اب اس ساری صورتحال کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے تو وہ کوئی ایک فریق نہیں جسے ہم نشان زد کرسکیں اس بگاڑ میں سب کا حصہ بقدر جثہ ہے اور سب نے ہی اپنا اپنا رنگ جمایا ہے لیکن بہرحال ہر دور کے صاحبان اقتدار اس بد ترین سے بھی بدتر صورتحال کے سب سے زیادہ ذمے دار ہیں کیونکہ جس کے پاس اختیار ہوتا ہے جوابدہی بھی اسی کی بنتی ہے اور ہم عوام بھی کچھ نہ کچھ اس کے ذمے دار ہیں جو آج ہم جھیل رہے ہیں۔
چلو جی! ہوگیا تعین ذمے داروں کا اب کیا کریں۔ اب بہت سے طریقے ہیں اور کام ہیں کرنے کے لیے کہ ایک تو یہ ہے،قولا،عملا،تحریرا،تقریرا ہم طعن و تشنیع کا بازار مزید گرم کریں جو کہ دہائیوں سے گرما گرم ہے ، یا پھر وہ جو ہمارا عوامی مشغلہ ہے کہ وطن عزیز کو،اس نعمت خداداد کو بات بات پر پھٹکارنا جاری رکھیں اور جیسا کہ ہمارا عوام و خواص کی سطح پر تکیہ کلام بن گیا ہے کہ یار یہاں کیا رکھا ہے،یہاں کچھ نہیں ہوسکتا وغیرہ وغیرہ جیسی باتیں کرکے دنیا میں اپنا مزید مذاق بنوائیں یا پھرصدیوں سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا کے فارمولے پر عمل کرتے رہیں اور خود کو احمقوں کی جنت میں زبردستی مطمئن و مسرور رکھیں کہ سب ٹھیک ہوجائے گا کہ بس آسمانی مدد آیا ہی چاہتی ہے۔
آسمانی مدد ان کے لیے آیا کرتی ہے جو قوت عمل اور عزم و ہمت سے کام لیتے ہیں اور ہم صرف بڑے بڑے نام لیتے ہیں تو پھر مشکل ہی ہے کہ ایسی کوئی مدد اترے۔ تو ہم مذکورہ بالا سارے گنوائے ہوئے کاموں اور باتوں کے علاوہ کچھ واقعی مثبت کرنے کے جوگے سچی بات ہے کہ کم کم ہی رہ گئے ہیں لیکن پھر بھی ناامید نہیں ہونا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ کیسے اس سب دائروی شیطانی چکر سے اس رائگاں سے سفر سے نکلا جاسکتا ہے۔
تجاویز دینے والوں نے، راستے اور طریقے سجھانے والوں نے ہر طرح کی تجاویز اور طریقے بتا دیے ہیں جن کے استعمال سے ملک اور اقوام ترقی کیا کرتی ہیں اور دنیا میں اپنا نام اور مقام پیدا کرتی ہیں اور ان میں سب سے اہم ہوتا ہے اعتماد،یقین اور اعتماد کی بحالی۔ عوام کا اعتماد اپنی قیادت پر بحال ہو، قیادت کا اعتماد اپنی عوام پر ہو۔ ہر شعبۂ مملکت کا اعتماد اور یقین ایک دوسرے کے تعاون سے روبہ عمل ہو تو پھر کام بننا شروع ہوتا ہے اور فی الحال تو صورتحال یہ ہے کہ اداروں کا ایک دوسرے پر، عوام کاسرکار پر،سرکار شہریوں پر اعتماد اور یقین بحال ہونا تو درکنارسرے سے ہے ہی نہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، طرح طرح کی آوازوں کا اتنا غلغلہ اور اتنا شور ہے کہ معلوم نہیں ہو پارہا کہ حقیقت کیا ہے اور اس سب کی ایک ہی وجہ ہے وہ ہے جھوٹ!
بات تلخ ہے لیکن مجھے معاف فرمائیے گا کہ مجھ سمیت ہم سب میں سے بڑی اکثریت جھوٹ اور ڈر کی مریض بن چکی ہے جو کہ ہماری زبوں حالی اور زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہمارے عوام،اشرافیہ، صاحبان اقتدار، مملکت کا کار پرداز، چھوٹے،بڑے، صغیر ،کبیر، دین دار ،دنیا دار سب کے سب ہی الا ماشااللہ ایک قلیل اقلیت کے سوا جھوٹ اور ڈر کی خوگر ہوگئی ہے اور اس عادت بد نے ہم سے ہمارا انفرادی اور قومی وقار،تشخص،اعتماد اورفخر جیسے چھین لیا ہے۔
چناچہ ضرورت اس امر کی ہے اور بہت زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ باہمی اعتماد کو بحال کیا جائے جس کا طریقہ واضح ہے کہ خوامخواہ کی اندیشوں اور عجیب و غریب بلکہ خود ساختہ وجوہات کی بنا پر باتوں کو چھپانے اور گھمانے کی بجائے سچ بولا جائے، وہ جو جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب نے کیا خوب لکھا ہے نا کہ جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں،جھوٹ،سفید جھوٹ اور اعداد و شمار تو ان تینوں قسموں سے پرہیز کو ذرا اب اپنا ہی لیا جائے کہ ہم تو وہ ستم ظریف لوگ ہیں۔
جنہوں نے بین الاقوامی اداروں کی بھی شنید ہے کہ بناوٹی اعداد و شمار پیش کر ڈالے تھے جس پر بعد میں بڑی بھد اڑی تھی۔ تو ملکی ترقی کے لیے مخلصین کی جانب سے بڑی بڑی ذہانت آمیز اور غورو فکر سے ترتیب دی گئی حکمت عملیوں اور طریقوں کے فارمولوں میں اگر ہم سچ بولنے کا عمل انگیز بھی شامل کرلیں اور باہمی اعتماد کو بحال کر لیں تو میرا نہیں خیال کہ کوئی وجہ ہو سکتی ہے جو اتنی باصلاحیت قوم کو ترقی کرنے سے اور دنیا میں اپنا اصل مقام حاصل کرنے سے کسی بھی طرح سے روک سکتی ہو۔
وہی ملکی سلامتی کے واویلے، وہی عوام کو تسلیوں کے لولی پاپ،وہی معاشی حالات دگرگوں ہونے کے فسانے، وہی بین الاقوامی پیچیدگیوں کے دلچسپ بہانے، وہی خوشگوارمستقبل کے دکھائے جانے والے خواب سہانے، وہی امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزائم،وہی بلند و بانگ دعوے اور وہی رفتار تیز تر اور سفر آہستہ کا جاری و ساری فسوں اور طلسم اور وہی رفتارِ بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔
کچھ بھی نہیں بدلا،، نہ خبروں کا متن ،نہ وزن ، نہ طور نہ طریقہ بس نام اور چہرے تھوڑا بہت تبدیل ہوئے ہیں، اور ہم جیسے ایک دائرے کے سفر میں جٹے اور لگے ہوئے نظر آتے ہیں ہر تھوڑے عرصے کے بعد گھوم پھر کر،چکر پورا کرکے پھر وہیں نقطۂ آغاز پر آجاتے ہیں اور دوبارہ سر جھکائے نقطۂ آغآز سے سفردوبارہ شروع کردیتے ہیں اور یہ چکر یا دائرے کا سفر اپنا تسلسل برقرار رکھے ہوئے ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی آسیب مسلط ہوگیا ہے کسی سحر ،طلسم یا بد دعا کا ہم شکار ہیں کہ قدم آگے بڑھاتے ہیں لیکن مزید پیچھے چلے جاتے ہیں۔من حیث الامہ کی تو بات ہی چھوڑیں وہ تو بہت ہی آگے کی چیز ہے من حیث القوم بھی ہم بڑی معذرت کے ساتھ ایک قوم ہونے سے زیادہ ایک بھیڑ یا ایک مجمع ہیں اور بس، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ سن سنتالیس سے پہلے ہم ایک قوم تھے جو ایک وطن ڈھونڈ رہے تھے اور فی زمانہ وہ مل جانے والا وطن اب ایک قوم کو ڈھونڈ رہا ہے۔
اب اس ساری صورتحال کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے تو وہ کوئی ایک فریق نہیں جسے ہم نشان زد کرسکیں اس بگاڑ میں سب کا حصہ بقدر جثہ ہے اور سب نے ہی اپنا اپنا رنگ جمایا ہے لیکن بہرحال ہر دور کے صاحبان اقتدار اس بد ترین سے بھی بدتر صورتحال کے سب سے زیادہ ذمے دار ہیں کیونکہ جس کے پاس اختیار ہوتا ہے جوابدہی بھی اسی کی بنتی ہے اور ہم عوام بھی کچھ نہ کچھ اس کے ذمے دار ہیں جو آج ہم جھیل رہے ہیں۔
چلو جی! ہوگیا تعین ذمے داروں کا اب کیا کریں۔ اب بہت سے طریقے ہیں اور کام ہیں کرنے کے لیے کہ ایک تو یہ ہے،قولا،عملا،تحریرا،تقریرا ہم طعن و تشنیع کا بازار مزید گرم کریں جو کہ دہائیوں سے گرما گرم ہے ، یا پھر وہ جو ہمارا عوامی مشغلہ ہے کہ وطن عزیز کو،اس نعمت خداداد کو بات بات پر پھٹکارنا جاری رکھیں اور جیسا کہ ہمارا عوام و خواص کی سطح پر تکیہ کلام بن گیا ہے کہ یار یہاں کیا رکھا ہے،یہاں کچھ نہیں ہوسکتا وغیرہ وغیرہ جیسی باتیں کرکے دنیا میں اپنا مزید مذاق بنوائیں یا پھرصدیوں سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا کے فارمولے پر عمل کرتے رہیں اور خود کو احمقوں کی جنت میں زبردستی مطمئن و مسرور رکھیں کہ سب ٹھیک ہوجائے گا کہ بس آسمانی مدد آیا ہی چاہتی ہے۔
آسمانی مدد ان کے لیے آیا کرتی ہے جو قوت عمل اور عزم و ہمت سے کام لیتے ہیں اور ہم صرف بڑے بڑے نام لیتے ہیں تو پھر مشکل ہی ہے کہ ایسی کوئی مدد اترے۔ تو ہم مذکورہ بالا سارے گنوائے ہوئے کاموں اور باتوں کے علاوہ کچھ واقعی مثبت کرنے کے جوگے سچی بات ہے کہ کم کم ہی رہ گئے ہیں لیکن پھر بھی ناامید نہیں ہونا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ کیسے اس سب دائروی شیطانی چکر سے اس رائگاں سے سفر سے نکلا جاسکتا ہے۔
تجاویز دینے والوں نے، راستے اور طریقے سجھانے والوں نے ہر طرح کی تجاویز اور طریقے بتا دیے ہیں جن کے استعمال سے ملک اور اقوام ترقی کیا کرتی ہیں اور دنیا میں اپنا نام اور مقام پیدا کرتی ہیں اور ان میں سب سے اہم ہوتا ہے اعتماد،یقین اور اعتماد کی بحالی۔ عوام کا اعتماد اپنی قیادت پر بحال ہو، قیادت کا اعتماد اپنی عوام پر ہو۔ ہر شعبۂ مملکت کا اعتماد اور یقین ایک دوسرے کے تعاون سے روبہ عمل ہو تو پھر کام بننا شروع ہوتا ہے اور فی الحال تو صورتحال یہ ہے کہ اداروں کا ایک دوسرے پر، عوام کاسرکار پر،سرکار شہریوں پر اعتماد اور یقین بحال ہونا تو درکنارسرے سے ہے ہی نہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، طرح طرح کی آوازوں کا اتنا غلغلہ اور اتنا شور ہے کہ معلوم نہیں ہو پارہا کہ حقیقت کیا ہے اور اس سب کی ایک ہی وجہ ہے وہ ہے جھوٹ!
بات تلخ ہے لیکن مجھے معاف فرمائیے گا کہ مجھ سمیت ہم سب میں سے بڑی اکثریت جھوٹ اور ڈر کی مریض بن چکی ہے جو کہ ہماری زبوں حالی اور زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہمارے عوام،اشرافیہ، صاحبان اقتدار، مملکت کا کار پرداز، چھوٹے،بڑے، صغیر ،کبیر، دین دار ،دنیا دار سب کے سب ہی الا ماشااللہ ایک قلیل اقلیت کے سوا جھوٹ اور ڈر کی خوگر ہوگئی ہے اور اس عادت بد نے ہم سے ہمارا انفرادی اور قومی وقار،تشخص،اعتماد اورفخر جیسے چھین لیا ہے۔
چناچہ ضرورت اس امر کی ہے اور بہت زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ باہمی اعتماد کو بحال کیا جائے جس کا طریقہ واضح ہے کہ خوامخواہ کی اندیشوں اور عجیب و غریب بلکہ خود ساختہ وجوہات کی بنا پر باتوں کو چھپانے اور گھمانے کی بجائے سچ بولا جائے، وہ جو جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب نے کیا خوب لکھا ہے نا کہ جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں،جھوٹ،سفید جھوٹ اور اعداد و شمار تو ان تینوں قسموں سے پرہیز کو ذرا اب اپنا ہی لیا جائے کہ ہم تو وہ ستم ظریف لوگ ہیں۔
جنہوں نے بین الاقوامی اداروں کی بھی شنید ہے کہ بناوٹی اعداد و شمار پیش کر ڈالے تھے جس پر بعد میں بڑی بھد اڑی تھی۔ تو ملکی ترقی کے لیے مخلصین کی جانب سے بڑی بڑی ذہانت آمیز اور غورو فکر سے ترتیب دی گئی حکمت عملیوں اور طریقوں کے فارمولوں میں اگر ہم سچ بولنے کا عمل انگیز بھی شامل کرلیں اور باہمی اعتماد کو بحال کر لیں تو میرا نہیں خیال کہ کوئی وجہ ہو سکتی ہے جو اتنی باصلاحیت قوم کو ترقی کرنے سے اور دنیا میں اپنا اصل مقام حاصل کرنے سے کسی بھی طرح سے روک سکتی ہو۔