نئے صوبے کی تشکیل آئین میں تشریح کی ضرورت ہے مراد علی شاہ
چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کیلیے محنت کش کی کم از کم عمر 16 سال کی جاسکتی ہے
PESHAWAR:
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ نئے صوبے کی تشکیل کے حوالے سے آئین میں تشریح کی ضرورت ہے۔
سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے ایک وفد جس کی قیادت محمد جاوید عباسی کر رہے تھے سے باتیں کرتے ہوئے سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ نئے صوبے کی تشکیل کے حوالے سے آئین میں تشریح کی ضرورت ہے، جہاں تک میری ذاتی رائے کا تعلق ہے تو آئین صوبے کی حدود میں ردوبدل کی اجازت دیتا ہے اور نئے صوبے کی تشکیل کے حوالے سے کوئی بات واضح نہیں ہے۔
وفد کے دیگر اراکین میں سینیٹر غوث محمد خان، سینیٹر مصدق مسعود ملک، سینیٹر ولید اقبال، سینیٹر ثنا جمالی اور دیگر شامل تھے جبکہ وزیراعلیٰ سندھ کی معاونت مشیرقانون مرتضیٰ وہاب ، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری ساجد جمال ابڑو، سیکریٹری داخلہ عثمان چاچڑ اور سیکریٹری قانون شارق حسین نے کی۔
سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ 3 ایشوز پر تبادلہ کیا جس میں نئے صوبوں کی تشکیل ، جنوبی پنجاب اور ہزارہ اور چائلڈ لیبر قوانین کی روشنی میں کارکن کی عمر مقرر کرنا شامل تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ کوئی باقاعدہ وکیل نہیں ہیں مگر ان کے خیال میں آئین میں نئے صوبوں کی تشکیل کے لیے تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔ آئین حدود کی موڈیفیکیشن کی اجازت دیتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ موڈیفیکیشن(حدود کی) نئے صوبوں کی تشکیل پر لاگو ہوتی ہے یا یہ دو صوبوں کے درمیان حدود کی ری سیٹلمنٹ سے متعلق ہے۔
صوبائی مشیر برائے قانون مرتضیٰ وہاب نے صوبائی حکومت کی صورتحال سے متعلق کمیٹی کو بریفنگ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی پہلے ہی جنوبی پنجاب صوبے کی تشکیل کے لیے قرار داد پاس کرچکی ہے اور اب یہ وفاقی حکومت کے پاس زیر التوا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اْس وقت تک ایک علیحدہ صوبے کا مطالبہ نہیں کیاجاسکتا جب تک کہ متعلقہ صوبائی اسمبلی اس کا مطالبہ کرے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کے لیے محنت کش کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی ہے جسے 16 سال کیاجاسکتا ہے۔
نئے صوبے ؟آئینی ترامیم پرپہلی بارعوامی سماعت شروع
پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں نئی تاریخ رقم ہوگئی۔ مفاد عامہ کی آئینی ترامیم پر کھلی بحث شروع کردی گئی۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون وانصاف نے نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے پانچ گھنٹے طویل عوامی سماعت کی، 30سے زائد مردوخواتین،وکلا ،ارکان اسمبلی، سول سوسائٹی کے نمائندوں نے حصہ لیا۔ کمیٹی نے عوامی سماعت کا آغاز سندھ سے کیا،4دسمبرسے کوئٹہ میں سماعت کریگی،جس کے بعدخیبرپختونخواہ اور پنجاب میں سماعت کریگی۔
چیئرمین کمیٹی مرتضیٰ عباسی نے میڈیا کوبتایا ہم نے تاریخ میں پہلی مرتبہ عوامی سماعت کرائی، اسلام آباد میں بیٹھ کر ہم حساس مسئلے کو سمجھ نہیں سکتے، ملک مکالمے سے نہیں ٹوٹے گابلکہ بچے گا۔ لوگوں نے نئے صوبوں سے متعلق کھل کر رائے دی، آج سندھ اسمبلی کے تمام ارکان کو بلایاہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ نئے صوبے کی تشکیل کے حوالے سے آئین میں تشریح کی ضرورت ہے۔
سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے ایک وفد جس کی قیادت محمد جاوید عباسی کر رہے تھے سے باتیں کرتے ہوئے سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ نئے صوبے کی تشکیل کے حوالے سے آئین میں تشریح کی ضرورت ہے، جہاں تک میری ذاتی رائے کا تعلق ہے تو آئین صوبے کی حدود میں ردوبدل کی اجازت دیتا ہے اور نئے صوبے کی تشکیل کے حوالے سے کوئی بات واضح نہیں ہے۔
وفد کے دیگر اراکین میں سینیٹر غوث محمد خان، سینیٹر مصدق مسعود ملک، سینیٹر ولید اقبال، سینیٹر ثنا جمالی اور دیگر شامل تھے جبکہ وزیراعلیٰ سندھ کی معاونت مشیرقانون مرتضیٰ وہاب ، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری ساجد جمال ابڑو، سیکریٹری داخلہ عثمان چاچڑ اور سیکریٹری قانون شارق حسین نے کی۔
سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ 3 ایشوز پر تبادلہ کیا جس میں نئے صوبوں کی تشکیل ، جنوبی پنجاب اور ہزارہ اور چائلڈ لیبر قوانین کی روشنی میں کارکن کی عمر مقرر کرنا شامل تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ کوئی باقاعدہ وکیل نہیں ہیں مگر ان کے خیال میں آئین میں نئے صوبوں کی تشکیل کے لیے تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔ آئین حدود کی موڈیفیکیشن کی اجازت دیتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ موڈیفیکیشن(حدود کی) نئے صوبوں کی تشکیل پر لاگو ہوتی ہے یا یہ دو صوبوں کے درمیان حدود کی ری سیٹلمنٹ سے متعلق ہے۔
صوبائی مشیر برائے قانون مرتضیٰ وہاب نے صوبائی حکومت کی صورتحال سے متعلق کمیٹی کو بریفنگ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی پہلے ہی جنوبی پنجاب صوبے کی تشکیل کے لیے قرار داد پاس کرچکی ہے اور اب یہ وفاقی حکومت کے پاس زیر التوا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اْس وقت تک ایک علیحدہ صوبے کا مطالبہ نہیں کیاجاسکتا جب تک کہ متعلقہ صوبائی اسمبلی اس کا مطالبہ کرے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کے لیے محنت کش کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی ہے جسے 16 سال کیاجاسکتا ہے۔
نئے صوبے ؟آئینی ترامیم پرپہلی بارعوامی سماعت شروع
پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں نئی تاریخ رقم ہوگئی۔ مفاد عامہ کی آئینی ترامیم پر کھلی بحث شروع کردی گئی۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون وانصاف نے نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے پانچ گھنٹے طویل عوامی سماعت کی، 30سے زائد مردوخواتین،وکلا ،ارکان اسمبلی، سول سوسائٹی کے نمائندوں نے حصہ لیا۔ کمیٹی نے عوامی سماعت کا آغاز سندھ سے کیا،4دسمبرسے کوئٹہ میں سماعت کریگی،جس کے بعدخیبرپختونخواہ اور پنجاب میں سماعت کریگی۔
چیئرمین کمیٹی مرتضیٰ عباسی نے میڈیا کوبتایا ہم نے تاریخ میں پہلی مرتبہ عوامی سماعت کرائی، اسلام آباد میں بیٹھ کر ہم حساس مسئلے کو سمجھ نہیں سکتے، ملک مکالمے سے نہیں ٹوٹے گابلکہ بچے گا۔ لوگوں نے نئے صوبوں سے متعلق کھل کر رائے دی، آج سندھ اسمبلی کے تمام ارکان کو بلایاہے۔