تاریخ کا گرم ترین عشرہ اقوام متحدہ کا انتباہ

ریکارڈ میں بھی ان برسوں کا اندراج گرم ترین برسوں کے طور پر ہے۔

ریکارڈ میں بھی ان برسوں کا اندراج گرم ترین برسوں کے طور پر ہے۔ فوٹو : فائل

دنیا کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے یہ عشرہ تاریخ کا گرم ترین ہو گا۔

اس کا انکشاف اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے جس میں سالانہ آلودگی کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی انسانی برداشت سے باہر ہو جائے گی اور انسان اسے برداشت نہیں کر سکے گا۔ عالمی موسمیاتی تنظیم نے کہا ہے کہ اس سال اب تک درجہ حرارت میں 1.1درجہ سینٹی گریڈیعنی2 درجے فارن ہائٹ تک اضافہ ہوا ہے۔یہ پری انڈسٹریل دور1850ء سے 1900ء کے درمیان رہنے والے درجہ حرارت سے زیادہ ہے۔

اس پیمانے کے مطابق 2019ء تک کے تین سال تاریخ کے گرم ترین سال گزرے ہیں ۔ ریکارڈ میں بھی ان برسوں کا اندراج گرم ترین برسوں کے طور پر ہے۔ پیٹرول' ڈیزل اور دیگر پٹرولیم مصنوعات کے جلنے، عماراتی انفرااسٹرکچر اور بھاری سامان کی نقل و حرکت کے نتیجے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہورہاہے کیونکہ ماحول میں کاربن کی مقدار میں حد سے زیادہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔


رپورٹ کے مطابق دنیا کے سمندر گرین ہاؤس گیسوں کے مضر اثرات کو 90 فیصد سے زیادہ جذب کر لیتے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے تمام سمندروں کا عمومی جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ سمندروں میں تیزابیت کے درجے میں ڈیڑھ سو سال پہلے کی نسبت ایک چوتھائی سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے جس سے دنیا بھر کے کروڑوں اربوں انسان منفی انداز میں متاثر ہوںگے اور انھیں خوراک کی شدید قلت اور ملازمتوں میں ناروا کٹوتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دنیا کا ایکوسسٹم بھی اس سے بہت زیادہ متاثر ہو گا۔ اکتوبر کے مہینے میں سمندروں کی سطح میں ریکارڈ حد تک اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں بہت سے ساحلی ممالک سمندر میں غرقاب ہونے کی سطح پر پہنچ گئے اور اس کے نتیجے میں کم از کم 22 ملین (دو کروڑ بیس لاکھ) لوگ بے گھر ہو گئے ہیں، گرین لینڈ اور آئس لینڈ میں گزشتہ بارہ ماہ میں329 بلین ٹن برف پگھل چکی ہے جو سمندروں کی سطح میں اضافہ کا باعث ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ چار عشروں میں ہر عشرہ گزشتہ عشرے سے کہیں زیادہ گرم تھا۔ ادھر کارخانے اور فیکٹریاں حرارت میں مزید اضافہ کررہی ہیں۔ مالدار ممالک اپنی صنعتی سرگرمیوں میں قطعاً کوئی تخفیف کرنے کے لیے تیار نہیں جس طرح امریکی صدر ٹرمپ نے عین موقعے پر ماحولیات پر کنٹرول کے عالمی اجلاس سے بغیر دستخط کیے باہر نکلنے کا اعلان کر دیا جو پیرس معاہدے کی صریح خلاف ورزی تھی حالانکہ تمام ممالک اس معاہدے کے قریب پہنچ چکے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے 2019ء سال کے پہلے نصف میں ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگ بے گھر ہو گئے تھے جب کہ مزید ستر لاکھ نفوس ان کے علاوہ سیلابوں اور خطرناک طوفانوں کا شکار ہوئے۔ امریکی افریقی اور لاطینی امریکا کے وسیع و عریض جنگلات میں آتش زدگی بھی انھی وجوہات کے نتیجے میں ہوئی۔
Load Next Story