گزارش…

مئی2013کےجنرل الیکشن دھاندلی کاعظیم شاہکار تھے جس کے ذریعے سے منتخب ہونے یا کہلائے جانے والے لوگ اور جماعتیں وہ نہیں

محترم چیف جسٹس صاحب! مجھے یقین ہے کہ آپ اور سپریم کورٹ کے دیگر جج صاحبان ''نادرا'' (NADRA) کی وہ رپورٹس ضرور پڑھ رہے ہونگے جو بعد تحقیق اس نے الیکشن ٹریبونلز کے حوالے کی ہیں۔ یہ وہ چند قومی صوبائی اسمبلیز کے حلقے تھے جہاں پر ہر دو فریق میں سے کسی ایک نے دھاندلی کی شکایت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو چھان بین کے لیے درخواست دی تھی لہٰذا جن تین حلقوں کے نتائج نادرا کے توسط سے الیکشن ٹریبونلز تک پہنچے ہیں وہ اس حوالے سے کسی بھی معاشرے یا نظام کے لیے تباہ کن ہیں کہ وہاں پر الیکشن کتنے صاف اور شفاف ہوتے ہیں۔ نادرا کی رپورٹس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ مئی 2013کے جنرل الیکشن دھاندلی کا عظیم شاہکار تھے جس کے ذریعے سے منتخب ہونے یا کہلائے جانے والے لوگ اور جماعتیں وہ نہیں ہیں جنھیں عوام نے ووٹ دیے تھے بلکہ الیکشن میں کامیاب قرار دیے جانے والے امیدوار وہ ہیں جنھیں وطن عزیز میں ابتدا ہی سے کچھ اندرونی و بیرونی ہاتھ وجود میں لاتے ہیں۔ لہٰذا ان نتائج کے موصول ہونے کے بعد یہ امر کم و بیش طے ہو گیا کہ جمہوریت کی روح موجودہ حکومت یا نظام جمہوریت میں سرے سے رواں ہی نہیں ہے۔ اور صورت حال یہ رہی کہ کسی کو کوئی ذمے داری دینے کے حوالے سے منتخب کرنے کا بنیادی مقصد بھی فوت ہو گیا۔

مجھے یاد ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے الیکشن سے قبل موجودہ الیکشن کے لیے جن تحفظات اور شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے تحریک کا آغاز کیا تھا اور پھر چند روز کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دے کر آپ سے اور حکومت سے الیکشن کے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ غلط نہیں تھے۔ لیکن مجھ سمیت ملک کی اکثریت اس وقت ان کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں رکھتی تھی اور من حیث القوم یہ قرار دیا جا رہا تھا کہ علامہ صاحب کا یہ قدم قبل از وقت ہے۔ انھیں نظام پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں ملک میں تیزی سے پھلنے پھولنے والی جمہوریت کی راہ میں روڑے اٹکانے سے بھی باز رہنا چاہیے۔ اور ہوا بھی ایسا ہی ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ صرف ان کی تحریک کے لوگ تھے یا معمولی سی تعداد میں کچھ جوشیلے اور من چلے۔ پھر عمران اور کچھ رہنماؤں نے بھی الیکشن کمیشن کے اراکین و نگران حکومتوں کے قیام اور طریقہ کار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چند ایک تبدیلیوں کا مطالبہ کیا لیکن ایسی تمام آوازیں اس وقت کانوں کو بھی نہ لگیں اور الیکشن جیسے، تیسے کی بنیاد پر ہونے دیے گئے اور جیت ہار کا فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔

حکومتیں بن گئیں، کابینائیں وجود میں آ گئیں، وزرا نے شیروانیاں زیب تن کر لیں صوبوں میں کہیں کسی جماعت کی حکومت بنی تو کہیں کسی کی۔ بعد میں میڈیا پر جب دھاندلی کے ثبوت پیش ہونے لگے تو انھیں الیکشن میں دھاندلی کی ایک مخصوص اور مستقل شرح قرار دے کر نظر انداز کر دیا گیا لیکن محترم چیف جسٹس صاحب نادرا (NADRA) کی تین حلقوں سے متعلق Reports آپ نے ملاحظہ کی ہوں گی۔ جناب اعلیٰ یہ دھاندلی نہیں ہے۔ یہ Rigging نہیں ہے۔ یہ تو انتخاب سے قبل ایک انتخاب کی جانب اشارہ ہے۔ جو پہلے ہی سے منعقد ہو چکا تھا۔ وہ امیدوار جسے چنا جا چکا تھا اور وہ حکومت یا حکومتیں جو بنائی جا چکی تھیں اور حیرت انگیز طور پر وہی نتائج حاصل بھی کر لیے گئے جو طے کیے گئے تھے۔محترم چیف جسٹس صاحب اب اہمیت اس بات کی ہے اور لمحہ فکریہ ہے کہ موجودہ طریقہ انتخاب میں کیا بلدیاتی الیکشن صاف اور شفاف ہو سکیں گے؟ کیا بنیادی جمہوریت کے نظام میں عوام کے حقیقی نمایندے کامیاب ہو پائینگے؟ یا پھر ایک انتخاب کے بعد بڑی تعداد میں وہی بے ایمان قیادت اقتدار میں آ کر بلدیاتی اداروں کو بھی لوٹ رہی ہو گی۔

وہاں بھی ان کی اجارہ داری ہو گی جب کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ اگر طریقہ انتخاب میں بنیادی تبدیلیاں نہ کی گئیں یا بنیاد سے ہی اسے تبدیل نہ کیا گیا تو صورتحال سابقہ یا موجودہ سے مختلف نہیں ہو گی۔ ہم اہل وطن جانتے ہیں کہ آپ کی نیت اور ارادہ یہی ہے کہ ملک بھر میں بلدیاتی ادارے متحرک ہوں۔ لوگوں کے مسائل نچلی سطح سے حل ہونا شروع ہوں، انھیں اپنا مسیحا آسانی سے دستیاب ہو لیکن یقین جانئے آپ کی نیت جس قدر نیک اور ارادے جس قدر بلند ہیں۔ الیکشن کا طریقہ کار اس قدر غلط ہے۔

اس میں بڑے سقم ہیں۔ دھاندلی اور بے ایمانی کرنے کے بہت آسان سے طریقے موجود ہیں چنانچہ آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس معاملے پر ابتدا سے غور فرمائیے اور جیسا کہ آپ کی خواہش ہے کہ ملک میں جمہوریت پھلے پھولے، روز افزوں ترقی کرے اور آمریت کے راستے بند ہو جائیں تو آپ کسی مزید الیکشن کے انعقاد پر اصرار کرنے کے بجائے الیکشن سسٹم (System) کو شفافیت کے حوالے سے اتنا مضبوط بنا دیں اتنا توانا کر جائیں کہ صرف وہی امیدوار کامیاب ہو جسے عوام نے ووٹ دیے ہوں۔ جسے اپنے حلقے میں عوامی پذیرائی، تائید اور حمایت حاصل ہو۔ اگر ایسا ممکن ہوا تو ہم اہل وطن کو یقین ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کا راج ہو گا اور ملک مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا اور بلاشبہ عدلیہ کا وقار بھی وہی نمایندے بلند کریں گے جو واقعی منتخب ہو کر حکومت میں آئے ہوں گے۔ان دونوں ملک بھر، بالخصوص میڈیا پر وزیر اعظم کے دورہ امریکا کا چرچا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور امریکی صدر اوباما کی معرکۃ الآرا ملاقات ہو چکی ہے۔ مشترکہ اعلامیہ یا بہ الفاظ دیگر یکطرفہ اعلامیہ بھی آ چکا ہے۔ جس کا کم و بیش متن آپ کے علم میں ہو گا۔


(i) ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے۔(ii) ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی پر مزید بات چیت نہیں ہو سکتی۔(iii) حافظ محمد سعید کے معاملے پر حکومت پاکستان کو سنجیدگی سے قدم اٹھانا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔گویا کسی طاقتور اور کمزور کے درمیان مساویانہ بنیاد پر مذاکرات ایسی ہی مثال ہے۔ جیسے ایک جنگل میں شیر اور ہرن کے درمیان مصالحت کا فارمولا طے ہو رہا ہو یا ایک اژدھے اور گلہری کی سماجی قدروں پر گفتگو ہو رہی ہے میرے خیال میں تو ایسے دورے اور ملاقاتیں یا تو جہاں پناہ کے انعام و اکرام کے لیے ہوا کرتے ہیں یا کسی قصور پر جاں بخشی کے لیے۔ بہرحال شبھ شبھ بولنا چاہیے۔ اللہ پاک وزیر اعظم کو کامیابی عطا فرمائے (آمین!)لیکن امریکا و یورپ کا جو نقطہ نظر اسلام اور مسلمانوں کے لیے مخصوص ہو چکا ہے۔ اس سے انحراف صرف امریکا یا صدر اوباما کے لیے اب ممکن نہ ہو گا۔ جب کہ وہ طویل عرصے تک اپنے دیگر حمایتیوں کو یہی درس دیتے رہے ہوں کہ اسلام انتہا پسندانہ رجحانات کی حمایت کرتا ہے اور مسلمان اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ چنانچہ ہماری جانب سے پیش کیے گئے مطالبات تو منظور ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ لیکن چند ایک معاملات میں ان کی سرزنش پر ہمیں محتاط رہنا ہو گا۔آئے دن اخبار میں پڑھتے ہیں کہ انڈین آرمی نے ملک کی فلاں سرحد یا وطن عزیز کے فلاں سیکٹر پر بلاجواز فائرنگ کر کے اتنے لوگوں کو زخمی کر دیا یا شہید کر دیا۔ ساتھ انڈین وزیر خارجہ یا سیکریٹری خارجہ کے ایسے بیانات بھی نظر سے گزرے ہیں کہ ''پاکستان کو سبق سکھانے کا وقت آ گیا ہے۔''

ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ فی الحال کسی قسم کے تنازعے کے نہ ہوتے ہوئے ایسی چھیڑ چھاڑ کا کیا مطلب ہے۔ ظاہر ہے کہ جنگ کرنا تو انھیں ہے۔ کیونکہ دونوں ممالک اب کسی مزید جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ تو پھر کیا ہے؟

وزیر اعظم کا دورہ امریکا؟ پاکستان میں جمہوری نظام کا تسلسل؟ طالبان سے مذاکرات کی ابتدا! آخر کیا۔ چلیے بقول شاعر:

اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے

اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی ہے
Load Next Story