وی آئی پی کلچر
سیاسی جماعتیں اور این جی اوز بھی مساوات کے بہت نعرے لگاتی ہیں اگر وہی مساوات یہاں قائم کرنے کی عملی کوشش کریں تو ۔۔۔
حال ہی میں سپریم کورٹ نے منچھر جھیل سے آلودہ پانی کی فراہمی پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ''منچھر جھیل کا آلودہ پانی افسروں کے گھروں میں بھی فراہم کیا جائے، منچھر جھیل میں آلودگی دیکھ کر انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ افسران عوام کے خادم ہیں وڈیرے یا چوہدری نہیں۔''
مذکورہ بالا ریمارکس نہایت غور و فکر کے قابل ہیں، خاص کر چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ منچھر جھیل کا آلودہ پانی سرکاری افسروں کے گھروں میں بھی فراہم کیا جائے، محض طنزیہ نہیں بلکہ حقیقت سے قریب ترین ہے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ آج طبقاتی فرق نے ہی موجودہ مسائل کے انبار کھڑے کیے ہیں۔ VIP کلچر کے فروغ سے بھی طبقاتی فرق بڑھا ہے۔ اس کے سبب مسائل حل کرنیوالے افراد کا تعلق عوام سے منقطع ہوا۔ دوریاں بڑھیں ہیں۔ ان دوریوں نے عوامی مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس غیر حقیقی نہیں، یقینا اس ادارے کے افسران گھروں میں بھی منرل واٹر (معدنیاتی پانی) پیتے ہوں گے اور غریب عوام اس جھیل کا گندا پانی جو بیماریوں کی جڑ ہی نہیں خطرناک بھی ہے آج تمام سرکاری VIP افسران بھی عام نلکے کا پانی پیتے نظر نہیں آئیں گے، میٹنگ ہو یا سیمینار ہر جگہ منرل واٹر کی بوتلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اگر سب کو ایک ہی ''گھاٹ'' سے پانی پینے کو ملے تو پھر کسی سپریم کورٹ کو سو موٹو ایکشن لینے کی ضرورت نہ رہے۔
یہی کچھ حال نظام تعلیم کا ہے کہ ایک وہ سرکاری اسکول جہاں نہ مناسب کمرے ہیں، نہ ڈیسک، نہ باتھ روم اور نہ پینے کا پانی۔ دوسری طرف وہ اسکول ہیں جہاں نہ صرف صاف ستھرا ماحول بلکہ فلٹر شدہ ٹھنڈا پانی بھی دستیاب ہوتا ہے۔ یہ وہ اسکول ہیں جہاں صرف اعلیٰ سرکاری افسران کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرتے بلکہ تمام بیوروکریٹس، سیاسی و غیر سیاسی مالدار شخصیات کے بچے پڑھتے ہیں۔ ان اسکولوں میں لائٹ جانے کی صورت میں جنریٹر کے ذریعے بجلی پہنچانے کا بھی انتظام ہوتا ہے جس طرح تعلیمی سہولیات میں ان دونوں طرح کے اسکولوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ویسے ہی تعلیمی معیار کا بھی فرق ہے۔اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں اقسام کے فرق کو ختم کیا جا سکتا ہے؟
یقینا ایسا کرنا آسان نہیں لیکن کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں، ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اور این جی اوز بھی مساوات کے بہت نعرے لگاتی ہیں اگر وہی مساوات یہاں قائم کرنے کی عملی کوشش کریں تو حالات مختلف ہو سکتے ہیں یعنی طبقاتی نظام تعلیم کے بجائے سب کے لیے یکساں تعلیمی نظام۔ جب اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے بچے ان اسکولوں میں جائینگے جہاں عام لوگوں کے بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو یہ افسران بھی اپنی اپنی ذمے داری پورا کرتے ہوئے تعلیمی بجٹ کا ناجائز استعمال کرنے کے بجائے جائز طریقے سے تعلیم پر خرچ کرینگے اور تعلیمی اداروں کی حالت زار کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کرینگے اور جب ان ہی اسکولوں میں اعلیٰ سیاسی شخصیات کے بچے بھی جائینگے تو وہ بھی اس نظام تعلیم کو بہتر سے بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرینگے۔ یوں مساوات کے اس عمل سے اور دہرے تعلیمی نظام کے خاتمے سے تعلیم کا معیار کلی طور پر پورے ملک میں بہتر ہو جائے گا۔
در حقیقت VIP ماحول کے کلچر نے اور بڑے بڑے لوگوں کے روز مرہ کے ''حساب کتاب'' الگ ہونے کے باعث مسائل کے ڈھیر بڑھ رہے ہیں، الگ الگ سہولیات دینے سے بڑے اور طاقتور لوگوں کے مسائل منٹوں میں حل ہو جاتے ہیں اور باقی عوام مسائل کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ روزمرہ کے معاملات میں بے شمار مثالیں اس کی موجود ہیں مثلاً کسی بھی سرکاری ادارے میں باتھ رومز کی حالت زار دیکھ لیں، افسران اور VIP افراد کے باتھ روم الگ ہوتے ہیں، عوامی الگ، عام لوگوں کے لیے باتھ روم میں صابن نہیں ہوتا، گندگی کے ڈھیر الگ ہوتے ہیں۔ اگر ''صاحب لوگ'' بھی یہی باتھ روم استعمال کریں تو حالت مختلف ہو۔
کراچی شہر کے علاوہ بھی دیگر شہروں میں بھی پوش علاقوں کا منظر ہی اور ہوتا ہے۔ سڑکوں پر جھاڑو تک روزانہ لگتی ہے جب کہ عام علاقوں میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، راستے ٹوٹے پھوٹے، کیوں؟ اس لیے کہ کسی بڑے اور VIP شخصیت کی یہاں رہائش نہیں ہوتی، ہاں البتہ کبھی کسی وزیر یا اس سے اوپر کی شخصیت کا گزر ہو تو راتوں رات راستے بھی صاف ہو جاتے ہیں، سڑکوں کی مرمت بھی ہو جاتی ہے، ایک مرتبہ جامعہ کراچی میں آئی بی اے کے کیمپس کے لیے کیبل ڈالنے کا کام جاری تھا، سڑکوں کے کنارے کھودے گئے، کام سست روی سے ہو رہا تھا، آتے جاتے گرد و غبار کا طوفان ہر کوئی دیکھتا، اتفاقاً گورنر صاحب جامعہ کراچی تشریف لیے آئے ان کی آمد سے چند گھنٹوں قبل تمام راستے ایسے صاف کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔
ایک صاحب نے اس سلسلے میں راقم پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کے بڑے مزے ہیں، شہر کراچی میں ڈبل سواری پر گھومتے ہیں اور عوام پر پابندی ہے (ان دنوں شہر میں ڈبل سواری پر پابندی عائد تھی) ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صحافیوں کو پابندی سے اس لیے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے کہ وہ میڈیا پر شور نہ مچائیں، ایسا ہی اعتراض انھوں نے پارکنگ فیس میں صحافیوں کے استثنیٰ پر بھی کیا۔
یہ بظاہر وہ بات تھی جو دل کو بری لگنے والی تھی مگر بات میں وزن ہے جب بڑی طاقتیں اور اعلیٰ طبقات کے لیے سہولیات الگ سے دے دی جائیں تو عوام کی تکالیف کا کسی بڑے کو احساس کیسے اور کیونکر ہو سکتا ہے؟
عوام کی تکلیف کا احساس اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب سہولیات میں تفریق نہ ہو،VIP کلچر نہ ہو، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے VIP کلچر کے خلاف بات کر کے شہرت حاصل کی تھی، یہ اب ان کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ دیگر سیاست دانوں کی طرح عوام میں اپنا اعتماد ختم نہ کریں اور اپنے قول کو درست ثابت کرنے کے لیے کوششیں بھی کریں۔
مذکورہ بالا ریمارکس نہایت غور و فکر کے قابل ہیں، خاص کر چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ منچھر جھیل کا آلودہ پانی سرکاری افسروں کے گھروں میں بھی فراہم کیا جائے، محض طنزیہ نہیں بلکہ حقیقت سے قریب ترین ہے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ آج طبقاتی فرق نے ہی موجودہ مسائل کے انبار کھڑے کیے ہیں۔ VIP کلچر کے فروغ سے بھی طبقاتی فرق بڑھا ہے۔ اس کے سبب مسائل حل کرنیوالے افراد کا تعلق عوام سے منقطع ہوا۔ دوریاں بڑھیں ہیں۔ ان دوریوں نے عوامی مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس غیر حقیقی نہیں، یقینا اس ادارے کے افسران گھروں میں بھی منرل واٹر (معدنیاتی پانی) پیتے ہوں گے اور غریب عوام اس جھیل کا گندا پانی جو بیماریوں کی جڑ ہی نہیں خطرناک بھی ہے آج تمام سرکاری VIP افسران بھی عام نلکے کا پانی پیتے نظر نہیں آئیں گے، میٹنگ ہو یا سیمینار ہر جگہ منرل واٹر کی بوتلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اگر سب کو ایک ہی ''گھاٹ'' سے پانی پینے کو ملے تو پھر کسی سپریم کورٹ کو سو موٹو ایکشن لینے کی ضرورت نہ رہے۔
یہی کچھ حال نظام تعلیم کا ہے کہ ایک وہ سرکاری اسکول جہاں نہ مناسب کمرے ہیں، نہ ڈیسک، نہ باتھ روم اور نہ پینے کا پانی۔ دوسری طرف وہ اسکول ہیں جہاں نہ صرف صاف ستھرا ماحول بلکہ فلٹر شدہ ٹھنڈا پانی بھی دستیاب ہوتا ہے۔ یہ وہ اسکول ہیں جہاں صرف اعلیٰ سرکاری افسران کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرتے بلکہ تمام بیوروکریٹس، سیاسی و غیر سیاسی مالدار شخصیات کے بچے پڑھتے ہیں۔ ان اسکولوں میں لائٹ جانے کی صورت میں جنریٹر کے ذریعے بجلی پہنچانے کا بھی انتظام ہوتا ہے جس طرح تعلیمی سہولیات میں ان دونوں طرح کے اسکولوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ویسے ہی تعلیمی معیار کا بھی فرق ہے۔اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں اقسام کے فرق کو ختم کیا جا سکتا ہے؟
یقینا ایسا کرنا آسان نہیں لیکن کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں، ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اور این جی اوز بھی مساوات کے بہت نعرے لگاتی ہیں اگر وہی مساوات یہاں قائم کرنے کی عملی کوشش کریں تو حالات مختلف ہو سکتے ہیں یعنی طبقاتی نظام تعلیم کے بجائے سب کے لیے یکساں تعلیمی نظام۔ جب اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے بچے ان اسکولوں میں جائینگے جہاں عام لوگوں کے بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو یہ افسران بھی اپنی اپنی ذمے داری پورا کرتے ہوئے تعلیمی بجٹ کا ناجائز استعمال کرنے کے بجائے جائز طریقے سے تعلیم پر خرچ کرینگے اور تعلیمی اداروں کی حالت زار کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کرینگے اور جب ان ہی اسکولوں میں اعلیٰ سیاسی شخصیات کے بچے بھی جائینگے تو وہ بھی اس نظام تعلیم کو بہتر سے بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرینگے۔ یوں مساوات کے اس عمل سے اور دہرے تعلیمی نظام کے خاتمے سے تعلیم کا معیار کلی طور پر پورے ملک میں بہتر ہو جائے گا۔
در حقیقت VIP ماحول کے کلچر نے اور بڑے بڑے لوگوں کے روز مرہ کے ''حساب کتاب'' الگ ہونے کے باعث مسائل کے ڈھیر بڑھ رہے ہیں، الگ الگ سہولیات دینے سے بڑے اور طاقتور لوگوں کے مسائل منٹوں میں حل ہو جاتے ہیں اور باقی عوام مسائل کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ روزمرہ کے معاملات میں بے شمار مثالیں اس کی موجود ہیں مثلاً کسی بھی سرکاری ادارے میں باتھ رومز کی حالت زار دیکھ لیں، افسران اور VIP افراد کے باتھ روم الگ ہوتے ہیں، عوامی الگ، عام لوگوں کے لیے باتھ روم میں صابن نہیں ہوتا، گندگی کے ڈھیر الگ ہوتے ہیں۔ اگر ''صاحب لوگ'' بھی یہی باتھ روم استعمال کریں تو حالت مختلف ہو۔
کراچی شہر کے علاوہ بھی دیگر شہروں میں بھی پوش علاقوں کا منظر ہی اور ہوتا ہے۔ سڑکوں پر جھاڑو تک روزانہ لگتی ہے جب کہ عام علاقوں میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، راستے ٹوٹے پھوٹے، کیوں؟ اس لیے کہ کسی بڑے اور VIP شخصیت کی یہاں رہائش نہیں ہوتی، ہاں البتہ کبھی کسی وزیر یا اس سے اوپر کی شخصیت کا گزر ہو تو راتوں رات راستے بھی صاف ہو جاتے ہیں، سڑکوں کی مرمت بھی ہو جاتی ہے، ایک مرتبہ جامعہ کراچی میں آئی بی اے کے کیمپس کے لیے کیبل ڈالنے کا کام جاری تھا، سڑکوں کے کنارے کھودے گئے، کام سست روی سے ہو رہا تھا، آتے جاتے گرد و غبار کا طوفان ہر کوئی دیکھتا، اتفاقاً گورنر صاحب جامعہ کراچی تشریف لیے آئے ان کی آمد سے چند گھنٹوں قبل تمام راستے ایسے صاف کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔
ایک صاحب نے اس سلسلے میں راقم پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کے بڑے مزے ہیں، شہر کراچی میں ڈبل سواری پر گھومتے ہیں اور عوام پر پابندی ہے (ان دنوں شہر میں ڈبل سواری پر پابندی عائد تھی) ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صحافیوں کو پابندی سے اس لیے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے کہ وہ میڈیا پر شور نہ مچائیں، ایسا ہی اعتراض انھوں نے پارکنگ فیس میں صحافیوں کے استثنیٰ پر بھی کیا۔
یہ بظاہر وہ بات تھی جو دل کو بری لگنے والی تھی مگر بات میں وزن ہے جب بڑی طاقتیں اور اعلیٰ طبقات کے لیے سہولیات الگ سے دے دی جائیں تو عوام کی تکالیف کا کسی بڑے کو احساس کیسے اور کیونکر ہو سکتا ہے؟
عوام کی تکلیف کا احساس اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب سہولیات میں تفریق نہ ہو،VIP کلچر نہ ہو، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے VIP کلچر کے خلاف بات کر کے شہرت حاصل کی تھی، یہ اب ان کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ دیگر سیاست دانوں کی طرح عوام میں اپنا اعتماد ختم نہ کریں اور اپنے قول کو درست ثابت کرنے کے لیے کوششیں بھی کریں۔