ٹارگیٹڈ آپریشن کی غیرجانبداری یقینی بنائی جائے

آپریشن کے دوران رینجرز پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اپنے ایک کارکن کی ماورائے عدالت ہلاکت کا الزام لگایا ہے۔ فوٹو: فائل

کراچی میں رینجرز کی نگرانی میں ہونے والا ٹارگیٹڈ آپریشن اسی راستے پر چل پڑا ہے، جو بالآخر اسے ناکامی کی طرف لے جائے گا۔

آپریشن کے دوران رینجرز پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں ۔ لیاری میں ہونے والے بعض مقابلوں میں ایسی ہلاکتیں ہوئی ہیں ، جنہیں مقتولین کے ورثاء ماورائے عدالت ہلاکتوں سے تعبیر کررہے ہیں ۔ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) نے بھی اپنے ایک کارکن کی ماورائے عدالت ہلاکت کا الزام لگایا ہے ۔ اس صورت حال میں آپریشن کی سیاسی حمایت میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے ۔ یہ بات آپریشن کی ناکامی کا اہم سبب بن سکتی ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن میں صرف لیاری کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔

آپریشن سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ کراچی کا مسئلہ اس سے کہیں بڑا اور انتہائی پیچیدہ ہے ۔ اس سے نہ صرف آپریشن کی غیر جانبداری کے حوالے سے سوالات پیدا ہو رہے ہیں بلکہ رینجرز ان قوتوں کی سیاسی چالوں میں الجھتی جا رہی ہے، جو منصوبہ بندی کے تحت لیاری کے حالات خراب کرتی ہیں اور گزشتہ کچھ سالوں سے کراچی میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی ہر کارروائی کا رخ لیاری کی طرف موڑ دیتی ہیں ۔ ٹارگیٹڈ آپریشن کی ناکامی کے امکانات کو تقویت پہنچانے کا تیسرا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ رینجرز صوبہ سندھ میں کسی کو جوابدہ نہیں ہیں خصوصاً صوبے کی سیاسی قیادت اور حکومت کی اجتماعی دانش اور رہنمائی سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں ۔آپریشن میں یہ انتہائی سنگین نوعیت کی خامی ہے۔

چوتھا سبب یہ ہے کہ آپریشن میں پولیس کو فرنٹ لائن پر نہیں رکھا گیا ہے جو رینجرز کے مقابلے میں زمینی حقائق سے زیادہ واقع ہے۔ پولیس کو آپریشن کی حکمت عملی میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے اور اسے فیصلہ سازی کے معاملات سے بھی دور رکھا جا رہا ہے۔ پانچواں اور سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں دوبارہ اضافہ ہوگیا ہے۔

آپریشن کے آغاز میں کچھ وقت کے لیے ٹارگٹ کلنگ میں کمی واقع ہوئی تھی اور روزانہ دس سے کم افراد مارے جا رہے تھے ۔ طویل عرصے بعد ایک دن ایسا بھی آیا تھا ، جب کراچی میں ایک بھی شخص قتل نہیں ہوا لیکن دوسرے دن دہشت گردوں نے 15 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اوسطاً دس افراد سے کم روزانہ ہلاکتوں کا یہ دور مختصر ثابت ہوا ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دس سے پندرہ افراد روزانہ قتل ہو رہے ہیں ۔ شروع شروع میں ٹارگٹ کلنگ میں کمی کی وجہ سے کراچی کے لوگوں کا ٹارگیٹڈ آپریشن پر اعتماد بڑھا تھا ۔ اب ٹارگٹ کلنگ میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد کم ہو رہا ہے ۔ اس سے یہ بھی تاثر پیدا ہوا ہے کہ اصل دہشت گرد نہ تو کراچی سے بھاگے ہیں اور نہ ہی وہ گرفتار ہوئے ہیں ۔


مذکورہ بالا صورت حال میں کراچی کے لوگوں میں زبردست مایوسی اور بے چینی پیدا ہو رہی ہے ۔ رینجرز کی اصل توجہ لیاری پر ہے جبکہ لیاری سے باہر دیگر علاقوں میں زیادہ ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے جیسے جیسے بلدیاتی انتخابات قریب آرہے ہیں، ویسے ویسے لوگوں کے خوف میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ کراچی میں ہر الیکشن سے پہلے خونریزی بڑھ جاتی ہے ۔ نہ صرف سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ عام لوگوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ خوف اور دہشت کا ماحول پیدا ہو ۔

آئندہ بلدیاتی انتخابات بھی کراچی کے شہریوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بنے ہوئے ہیں ۔ ٹارگیٹڈ آپریشن میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے لوگ پہلے سے زیادہ خوفزدہ ہیں۔ امن وامان کی خراب صورت حال کے باوجود حکومت سندھ نے بلدیاتی انتخابات کرانے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ہمیشہ پیپلز پارٹی پر الزامات عائد کرتی رہی ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات سے بھاگتی ہے ۔ اب پیپلز پارٹی کی قیادت یہ کہہ سکتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) بلدیاتی انتخابات سے بھاگ رہی ہے اور پنجاب میں ایک مضبوط حکومت ہونے کے باوجود لیت ولعل سے کام لے رہی ہے ۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو شاید اس بات کا پوری طرح احساس نہیں ہے کہ وفاقی حکومت نے کراچی میں امن وامان کی ذمہ داری قبول کی ہے کیونکہ رینجرز وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں۔ لہٰذا سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا پر امن انعقاد وفاقی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہے کہ اگر ٹارگیٹڈ آپریشن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتا ہے اور خدانخواستہ ناکام ہوتا ہے تو اس کے کراچی پر خصوصاً پورے ملک کی معیشت اور داخلی استحکام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ کراچی کے حالات پھر کسی سے سنبھل نہیں سکیں گے کیونکہ آپریشن کی ناکامی کا ردعمل انتہائی خوف ناک ہوسکتا ہے ۔ کراچی شہر پر دہشت گردوںکا قبضہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے گا اور شہری پہلے سے زیادہ بے بسی کا شکار ہوں گے ۔

سندھ حکومت اور سندھ پولیس کے لیے حالات کو کنٹرول کرنا پہلے سے زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ آپریشن کے دوران سندھ پولیس کے افسروں اور اہل کاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا ہے ۔ آپریشن کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہونے کی صورت میں سندھ پولیس کو زیادہ نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کراچی کے لوگوں کا اعتماد کھو دے گی ۔

اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت پر قیام امن کی ناکامی کا الزام عائد نہیں کرسکے گی اور آپریشن کی ناکامی کا ملبہ بھی پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر نہیں ڈال سکے گی ۔ اب بھی وقت ہے کہ اب تک ہونے والے ٹارگیٹڈ آپریشن کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا جائے اور اس بات پر خصوصاً غور کیا جائے کہ کہیں کچھ قوتوں نے آپریشن کا رخ تو نہیں موڑ دیا ہے ۔ سندھ کی سیاسی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر آپریشن کی حکمت عملی بھی از سر نو مرتب کی جائے ۔
Load Next Story