یادِ ایام

دولہا بیٹے کا جنازہ دیکھ کر ماں پر جو گزری وہ کون بیان کرسکتا ہے۔

نواب چھتاری، احمد سعید خاں کے دل میں بار بار یہ خیال آتا تھا کہ اپنے گزشتہ زمانے کے کچھ حالات لکھیں۔ وہ اکثر سوچتے تھے کہ انھیں خیال کیوں آتا ہے۔ پھر آخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی یہ خواہش اس بنا پر ہے کہ دل چاہتا ہے کہ عمر کی اس منزل پر پہنچنے کے بعد ایک نگاہ بازگشت ڈالی جائے اور ایام رفتہ کے تصور سے قلب میں ان جذبات کو ٹٹولا جائے جن سے گزشتہ زمانے میں ان کی زندگی متاثر رہی۔

نواب صاحب کی خود نوشت '' یادِ ایام'' اسی خواہش کی تکمیل ہے۔ ایک تو ان کا حافظہ کمال کا تھا، پھر وہ پابندی سے ڈائری لکھتے تھے اس لیے حالات و واقعات کو ان کے صحیح پس منظر میں بیان کرنے میں انھیں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ اس طرح ''یادِ ایام'' سوانح حیات ہی نہیں ایک تاریخی دستاویز بھی بن گئی۔

نواب احمد سعید خاں کے کردار اور ان کی شخصیت کی تعمیر جس ماحول میں ہوئی اس کا اندازہ لگانے کے لیے ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ ایک نو مسلم خاتون احمد سعید کی والدہ کی خدمت گار تھیں۔ ان کا بیٹا کریما تھا جس کی المناک موت نے انھیں احمد سعید کی انا بنا دیا۔ ہوا یہ کہ کریما کی شادی کے دن ہمسایہ کے گھر میں آگ لگی۔ یہ نوجوان گھر سے نکل کر آگ بجھانے میں لگ گیا اور خود جل گیا۔

دولہا بیٹے کا جنازہ دیکھ کر ماں پر جو گزری وہ کون بیان کرسکتا ہے۔ نواب صاحب کے قلعہ کے سامنے جنازہ رکھا تھا۔ احمد سعید کے والد عبدالعلی خاں ادھر سے گزرے۔ بد نصیب ماں کو اس حال میں دیکھا۔ حویلی میں گئے، والدہ سے سارا واقعہ بیان کیا اور ان کی اجازت سے احمد سعید کو جن کی عمر اس وقت کم و بیش ایک سال کی تھی، باہر اٹھا کر لائے۔ کریما کی ماں کا نام لے کر کہا '' اے نصیبن ! تیرا کریما یہ رہا۔ اسے پال اور اس کا بیاہ کرنا۔'' اس کے بعد سے جب تک نصیبن کا انتقال نہیں ہوگیا، ان کو خاندان کا ایک فرد تصور کیا گیا اور احمد سعید خاں کے لیے تو وہ ان کی ماں ہی تھیں۔

نواب احمد سعید خاں لکھتے ہیں '' میں اپنے ماں باپ کی اس ہمدردی اور حوصلے کا خیال کرتا ہوں تو میرے دل میں ان کی طرف سے طرح طرح کے حسین اور برگزیدہ خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ خدا کے فضل و کرم سے میں زندگی کی چاہ و منزلت سے کافی بہرہ ور ہوا ہوں لیکن اپنے جس احساس کو میں سب سے زیادہ گراں مایہ سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں ایسے والدین کا بیٹا ہوں جنھوں نے نصیبن کے جگرگوشہ کی تلافی میں اپنے جگر گوشہ کو پیش کر دیا۔''

احمد سعید خاں کو بچپن میں کئی صدمے سہنے پڑے۔ یہ سات سال کے تھے کہ ارض مقدس کے سفر میں ان کے والد اور والدہ دونوں کا انتقال ہوگیا۔ والد کا مکہ میں اور والدہ کا مدینہ شریف میں۔ دادا نواب محمود علی خاں نے انھیں اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ دو سال بعد وہ بھی چل بسے۔ اب چچا ان کے سرپرست تھے۔ انھوں نے دادا کی زندگی ہی میں قرآن حفظ کرنا شروع کر دیا تھا۔ پھر انگریزی ، فارسی اور عربی کی تعلیم شروع ہوئی۔ علی گڑھ کالج کے اسکول میں جاکر داخل ہوئے۔ نویں کلاس میں تھے کہ تعلیم کا سلسلہ ختم ہوگیا اور چھتاری کی ریاست کے انتظام و انصرام کی ذمے داری ان کے سپرد ہوئی۔

اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے نواب احمد سعید خاں لکھتے ہیں '' میری زندگی اس زمانے میں بہت پرسکون تھی۔ میں اس کا خیال رکھتا تھا کہ آمدنی اور خرچ میں صحیح تناسب قائم رہے اور میرے تعلقات حکام اور میری رعایا دونوں سے اچھے رہیں۔ میری بیوی بہت سیدھی اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ ہم دونوں اپنے بچوں پر دیوانے تھے۔ مجھے گورنمنٹ کی طرف سے سونے کے سگریٹ کیس، دستی چھڑیاں اور سندیں کثرت سے ملیں پھر جب مجھے نواب کا خطاب ملا تو میری بیوی کو بڑی خوشی ہوئی۔ ان کی مسکراہٹ اس وقت تک میری آنکھوں میں پھر رہی ہے۔''

وقت گزرتا گیا۔ نواب احمد سعید کونسل کے ممبر ہوئے، صوبائی وزیر ہوگئے۔ لکھتے ہیں ''میں فرائض منصبی کی ادائیگی میں دورہ بھی کرتا، عصرانہ اور دعوتیں بھی ہوتیں۔ ایڈریس بھی ہوتے مگر گھر اور بچوں کی کشش میرے لیے سب سے زیادہ پرکشش تھی۔ چھوٹے بڑے کام میں میرا جی اس لیے نہیں لگتا تھا کہ میرا جی اپنے بچوں میں لگا رہتا تھا۔''


نواب احمد سعید خاں نے سمندرکا پہلا سفر اس وقت کیا جب وہ پہلی گول میزکانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے۔ اس سفرکے دلچسپ حالات ان کی خود نوشت کا حصہ ہیں۔ لکھتے ہیں ''خلیج سوئزکے قریب میں نے اتنا خوبصورت غروب آفتاب دیکھا جو عمر بھر نہ بھول سکا۔'' قاہرہ میں ممی کو دیکھا تو لگا ''ممی کو دیکھنا یا رکھنا میرے نزدیک تو مذاق سلیم کے خلاف ہے۔''

جب نواب صاحب دوسری گول میزکانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو جہاز پر مقتدر ساتھیوں میں علامہ اقبال بھی تھے، وہ لکھتے ہیں '' اقبال کا کلام خود ان کی زبان سے ہر روز سنتا جہازکی پرسکون فضا میں ایک ایسا پرکیف سماں ہوتا تھا جس کا اندازہ صرف وہی حضرات کر سکتے ہیں جنھیں قدرت نے ذوق سلیم عطا کیا ہے۔ ہم سب ایک شعر بار بار سنتے اور لطف اندوز ہوتے۔''

نواب احمد سعید خاں صاحب دوسری بار یوپی کے گورنر ہوئے تو لکھنو کے ندوۃ العلما دارالعلوم میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں '' مجھ پر سب سے زیادہ اثر اس کا تھا۔ مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کا حق صرف متقی کا تھا اور میں اپنی نظر میں جیسا تھا وہ صرف مجھے معلوم ہے۔''

1941ء میں نظام حیدرآباد نے نواب احمد سعید خاں کو ریاست کا صدر اعظم یعنی وزیر اعظم بننے کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کرلی۔ اپنا عہدہ سنبھالنے کے لیے جب یہ حیدر آباد پہنچے تو نظام سے پہلی ہی ملاقات میں انھوں نے کہہ دیا کہ ان کے تقرر کا زمانہ چاہے کتنا ہو ، نظام جب کہیں گے وہ اپنا استعفیٰ پیش کردیں گے۔ ان کا تقرر پانچ سال کے لیے ہوا تھا۔ اس کے بعد ایک بار پھر وہ بلائے گئے۔

حیدر آباد کے ماحول کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ''حیدرآباد کے افسران اور ملازمین اپنی اہلیت اور قابلیت کے لحاظ سے کسی حکومت کے افسران سے کم نہ تھے مگر درباری سازشوں اور گروہ بندیوں کی وجہ سے ان کی اہلیت و صلاحیت ایک حد تک مفلوج ہوجاتی تھی۔''

ریاست کی پوزیشن یہ تھی کہ رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے یہ ایک سلطنت تھی۔ اس کا اپنا سکہ تھا، ڈاک خانہ اور اسٹیمپ تھے، اپنی ریلوے تھی اور دکن ایئر ویز کے نام سے ہوائی سروس بھی شروع ہوگئی تھی حیدرآباد بینک اور عثمانیہ یونیورسٹی تھی جہاں تعلیم اردو میں دی جاتی تھی۔

حیدرآباد کی تہذیب اور کلچر کے بارے میں نواب احمد سعید خاں لکھتے ہیں ''حیدرآباد کی تہذیب، آداب مجلس، آداب دربار اور فرق مراتب میں مغلیہ سلطنت کی تہذیب و تمدن کی ایک دھندلی سی تصویر تھی۔ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں نظام دکن تو دربار داری کے شائق نہ تھے لیکن ان کے والد مرحوم، نظام میر محبوب علی خاں کے واقعات اورکہانیاں حیدرآباد میں لوگ مزے لے لے کر بہت محبت سے بیان کرتے تھے۔ میر عثمان علی خاں بہت سادہ مزاج اور کفایت شعار تھے لیکن یہ سادہ مزاجی اور کفایت شعاری صرف اپنی ذاتی بود و باش اور رہن سہن سے متعلق تھی۔ فلاحی کاموں اور ضرورت مندوں کی مدد کے معاملے میں ان کا ہاتھ کھلا تھا۔

نواب احمد سعید خاں لکھتے ہیں ''حیدرآباد کی کہانی افسوس ناک ہے اور پرحسرت بھی۔ حسرت اس پر ہے کہ جو کچھ اور جتنا حیدرآباد کو بچا لینا ممکن تھا وہ بھی نہ ہو سکا۔ میرا یہ ہر گز خیال نہ تھا کہ حیدرآباد اسی حیثیت سے قائم رہ سکتا ہے۔ حیدرآباد کے لوگوں کو اس انقلاب عظیم کا اندازہ ہی نہ تھا کہ جب برٹش حکومت وہ امپائر کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئی تھی جس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ برٹن کی حکومت سمندرکی لہروں پر بھی ہے تو حیدرآباد برٹش کے چلے جانے کے بعد حکومت ہندوستان کا مقابلہ کیسے کرسکتا تھا۔ حیدرآباد میں مسلمانوں کی آبادی صرف 13 فیصد تھی۔ چاروں طرف کانگریس حکومتوں سے گھرا ہوا تھا۔ خود ہتھیار بنانا تو درکنار کارتوس تک نہیں بناتے تھے۔ کوئی تعلق دنیا کے کسی حصے سے نہ سمندر کے اور نہ خشکی کے ذریعے تھا۔ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔''

نواب صاحب کی زندگی میں ''یاد ایام'' دلی سے شایع ہوئی تھی۔ اب پاکستان میں راشد اشرف اور ڈاکٹر پرویز حیدر نے پھر سے مرتب کرکے زندہ کتابوں کے سلسلے میں شایع کی ہے یہ نواب چھتاری کی سرگزشت ہی نہیں ہندوستان میں برٹش راج کے آخری ایام اور حیدرآباد کے زوال کی کہانی بھی ہے۔
Load Next Story