کراچی بد امنی کیس ہر کوئی پیسہ بنانے میں لگا ہے سب سوچتے ہیں شہر جائے بھاڑ میں چیف جسٹس
یہ مری ہوئی روحیں ہیں، کراچی آتش فشاں بن گیا ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کر رہا، چیف جسٹس
کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ڈی جی اینٹی نارکوٹکس سے کہا کہ یہاں ہر کوئی پیسہ بنانے میں لگا ہے اور سب سوچتے ہیں کراچی اور عوام جائے بھاڑ میں۔
سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کی، دوران سماعت ڈی جی اینٹی نارکوٹکس میجر جنرل ظفر نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں وضاحت کا موقع دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے ان پر برہمی کا اطہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو وضاحت کا کیا موقع دیا جائے آپ لوگ اپنا کام نہیں کر رہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منیر اے ملک سے کہا کہ آپ ان سب کو گھر بھیج دیں اور نیا خون لائیں کیونکہ عالمی ایجنڈے کے تحت منشیات کی جو اسمگلنگ ہورہی ہے اس میں پولیس، اینٹی نارکوٹکس فورس، کوسٹ گارڈ اور کسٹم اور دیگر ایجنسیاں ملی ہوئیں ہیں، سب پیسہ کمارہے ہیں اور کوئی کام نہیں کر رہا۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ شاہ تک ان کو بٹھا کر پوچھا جائے کہ یہ لوگ صحیح معنوں میں کام کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ کھلی بے حسی ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریامرکس دیئے کہ یہ لوگ کام نہیں کرنا چاہتے، یہ مری ہوئی روحیں ہیں، یہاں ہر کوئی پیسہ بنانے میں لگا ہے، یہ سوچتے ہیں کہ کراچی اور عوام جائے بھاڑ میں، کراچی آتش فشاں بن گیا ہے، اسلحہ اور منشیات کی بھرمار ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کر رہا۔ انہوں نے ڈی جی اینٹی نارکوٹکس کو ایک گھنٹے کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ وہ کالا پل جائیں اور دیکھیں کہ کیا ہورہا ہے اور اس کے بعد آکر عدالت کو بتایا جائے کراچی میں منشیات کھلے عام بک رہی ہے یا نہیں، کوسٹ گارڈز کی 3 ہزار نفری موجود ہے لیکن کچھ ڈیلیور نہیں ہورہا، پولیس، کوسٹ گارڈز، اینٹی نارکوٹکس فورس اور میری ٹائم سب ملے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ڈی جی اینٹی نارکوٹکس سے کہا کہ وہ اس بات کی گارنٹی دیں کہ اب کراچی میں منشیات کی کوئی فروخت نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کی، دوران سماعت ڈی جی اینٹی نارکوٹکس میجر جنرل ظفر نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں وضاحت کا موقع دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے ان پر برہمی کا اطہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو وضاحت کا کیا موقع دیا جائے آپ لوگ اپنا کام نہیں کر رہے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منیر اے ملک سے کہا کہ آپ ان سب کو گھر بھیج دیں اور نیا خون لائیں کیونکہ عالمی ایجنڈے کے تحت منشیات کی جو اسمگلنگ ہورہی ہے اس میں پولیس، اینٹی نارکوٹکس فورس، کوسٹ گارڈ اور کسٹم اور دیگر ایجنسیاں ملی ہوئیں ہیں، سب پیسہ کمارہے ہیں اور کوئی کام نہیں کر رہا۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ شاہ تک ان کو بٹھا کر پوچھا جائے کہ یہ لوگ صحیح معنوں میں کام کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ کھلی بے حسی ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریامرکس دیئے کہ یہ لوگ کام نہیں کرنا چاہتے، یہ مری ہوئی روحیں ہیں، یہاں ہر کوئی پیسہ بنانے میں لگا ہے، یہ سوچتے ہیں کہ کراچی اور عوام جائے بھاڑ میں، کراچی آتش فشاں بن گیا ہے، اسلحہ اور منشیات کی بھرمار ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کر رہا۔ انہوں نے ڈی جی اینٹی نارکوٹکس کو ایک گھنٹے کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ وہ کالا پل جائیں اور دیکھیں کہ کیا ہورہا ہے اور اس کے بعد آکر عدالت کو بتایا جائے کراچی میں منشیات کھلے عام بک رہی ہے یا نہیں، کوسٹ گارڈز کی 3 ہزار نفری موجود ہے لیکن کچھ ڈیلیور نہیں ہورہا، پولیس، کوسٹ گارڈز، اینٹی نارکوٹکس فورس اور میری ٹائم سب ملے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ڈی جی اینٹی نارکوٹکس سے کہا کہ وہ اس بات کی گارنٹی دیں کہ اب کراچی میں منشیات کی کوئی فروخت نہیں ہوگی۔