اتنا سناٹا کیوں ہے پی سی بی
ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا مگر اس بار زیادہ پروفیشنل انداز میں کام ہوا۔
''ہمیں نائٹ ٹیسٹ نہیں کھیلنا، آئی سی سی کو جو کرنا ہے کر لے'' گذشتہ کئی برس سے بھارت یہی راگ الاپ رہا تھا، وجہ کرکٹرز کی مخالفت تھی، پھر وہاں حقیقی تبدیلی آئی اور سابق کپتان ساروگنگولی کرکٹ بورڈ کے سربراہ بن گئے، انھوں نے کپتان ویرات کوہلی سے ملاقات کی اور صرف 5 منٹ میں برسوں کے تحفظات دور کر دیے۔
بھارتی ٹیم نائٹ ٹیسٹ کھیلنے کیلیے تیار ہو گئی، بنگلہ دیش سے مقابلہ گنگولی نے اپنے آبائی شہر کولکتہ میں رکھا،کمزورحریف کی وجہ سے میچ تین دن میں ہی ختم ہو گیا اور اس دوران اسٹیڈیم شائقین سے کھچا کھچ بھرا رہا، ٹکٹ بلیک میں فروخت ہوئے،کولکتہ پنک کلر میں نہا گیا، بورڈ نے میچ میں سابق کرکٹرز کو مدعو کر کے عزت افزائی کی، میڈیا میں زبردست ہائپ بنائی گئی، بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ بھی میچ دیکھنے کیلیے آئیں، ٹی وی پر شائقین نے دلچسپی سے میچ دیکھا، یوں بھارت کی نائٹ ٹیسٹ کے حوالے سے ہچکچاہٹ ختم ہو گئی۔
اب تو آئندہ برس آسٹریلیا میں 2میچز فلڈلائٹس میں کھیلنے کی بات چل رہی ہے۔ اب ہم اپنے ملک میں واپس آتے ہیں، ہم نے برطانیہ سے ایم ڈی بنا کر وسیم خان کو امپورٹ کیا، ریکارڈ 30 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ اور دیگر مراعات دیں، پھر ان کا لیبل بدل کر سی ای او کر دیا، مگر انھوں نے سوائے غیرملکی دوروں اور پرانے آفیشلز کو نکالنے کے اب تک کیا کیا ہے؟ کچھ نہیں،الٹا مصباح الحق کو کئی ذمہ داریاں سونپ کر قومی ٹیم کا بھی تیاپانچہ کر دیا، پاکستان میں 10 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی ہو رہی ہے، سری لنکا سے راولپنڈی ٹیسٹ میں چار دن باقی ہیں۔
آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کہ کیا ایسا محسوس ہوا ملک میں اتنا بڑے ایونٹ ہونے والا ہے، ذوالفقار بیگ ''ایکسپریس'' کے اسپورٹس رپورٹر ہیں، ان سمیت راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہائش پذیر کئی شخصیات سے میں نے پوچھا کہ کیا میچ کے حوالے سے جڑواں شہروں میں کوئی گہما گہمی ہے تو انھوں نے نفی میں جواب دیا، ایسا کیوں ہوا اس کی وجہ ترجیحات ہیں، گنگولی کی ترجیح بھارتی کرکٹ کو ٹھیک کرنا ہے، وہ تین سال وہاں رہ کر سامان پیک کر کے برطانیہ نہیں چلے جائیں گے، اس لیے انتھک محنت کر رہے ہیں، ہمارے ملک میں ایسا نہیں۔
وسیم خان کو ملکی کرکٹ سے کوئی ہمدردی نہیں،انھیں بورڈ کی بعض شخصیات نے ہائی جیک کیا ہوا ہے اور غلط مشوروں سے گمراہ کر رہے ہیں، احسان مانی نے بھی سخت مایوس کیا،اسی لیے پی سی بی کا اتنا خراب حال ہو چکا۔
حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق کرکٹ بورڈکے 5بڑے ایک کروڑ 16لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں،ان میں وسیم خان(30لاکھ) مصباح الحق (35لاکھ) بدر منظور(18لاکھ) سمیع الحسن برنی (15لاکھ)وقار یونس (18لاکھ) شامل ہیں،کرکٹرز کیلیے چند ہزار آفیشلز کو لاکھوں کیا یہ ظلم نہیں،من پسند شخصیت کو ذہن میں رکھ کر اشتہار تیار کیا جاتا ہے، نئے بورڈ میں ہر نئی تقرری اسی انداز میں ہوتی ہے، ڈائریکٹر کمرشل بابر حمید کی کارکردگی بھی سامنے آ چکی،کیا کوئی بتائے گا کہ اب تک انھوں نے بورڈ کو کتنا بزنس دلایا ہے۔
قائم مقام سی او او سلمان نصیر ان دنوں ملک سے باہر ہیں، وسیم خان تین ہفتے آسٹریلیا میں گذار کر واپس آئے ہیں،سنا ہے اب پھر برطانیہ جانے کی تیاری ہے، کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی ایسی کون سی میٹنگز تھیں جو اتنا وقت لگ گیا، ان دنوں بنگلہ دیش مسلسل دورۂ پاکستان کے حوالے سے ناز نخرے دکھا رہا ہے، احسان مانی اور وسیم خان کو وہاں جا کر بات کرنی چاہیے تھی کہ ہم نے اب اپنے ملک میں اتنی کرکٹ کرا لی تو آپ کو کس بات کی سیکیورٹی تشویش ہے۔
خود آپ کی جونیئر اور ویمنز ٹیمیں آ کر کھیل چکیں، مگر ڈھاکا جانے میں وہ لطف کہاں جو سڈنی کی ٹھنڈی فضاؤں میں ہے،اس لیے بورڈ آفیشلز سکون سے پانی سر سے اونچا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، یہ نہیں سوچ رہے کہ ایک ٹیم نہ آئی تو ساری محنت پر پانی پھر جائے گا، پی ایس ایل کے معاملات اتنی ابتری کا شکار ہیں کہ آپ کی سوچ ہو گی، ڈرافٹنگ کی رنگینوں پر نہ جائیں۔
پی سی بی کا میڈیا ڈپارٹمنٹ قائد اعظم ٹرافی کی حد سے زیادہ ہائپ بنانے کی ناکام کوشش کرتا رہا مگر ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی پر خاموش ہے، خیر ابھی چار دن باقی ہیں، صرف 50روپے کا ٹکٹ رکھ کر تعلیمی اداروں میں مفت تقسیم کرنے کا اعلان کافی نہیں، شائقین کو اسٹیڈیم آنے پر راغب کرنے کیلیے عملی اقدامات کریں،ان کیلیے بیٹ، شرٹ، کیپ یا اسی قسم کے انعامات رکھیں، چند خوش نصیبوں کی کرکٹرز سے ملاقات کرائیں، مختلف مقامات سے اسٹیڈیم تک لانے کیلیے خصوصی بسیں چلائیں، ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا پر مہم چلائیں۔
شہر میں پوسٹرز اور بورڈز وغیرہ آویزاں کریں، میچ میں سابق ٹیسٹ اسٹارز کو مدعو کریں، لاہور میں سری لنکن ٹیم کے ساتھ ہی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا اور اب وہی 10 سال بعد ملک میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے آ رہی ہے،مہمان کرکٹرز کو یادگاری شیلڈز اور تحائف دیں، ہم ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ ملک کو انٹرنیشنل مقابلوں سے محروم کر دیا گیا،اب واپسی ہو رہی ہے تو جشن کا سماں ہونا چاہیے، اسٹیڈیم میں شائقین نہ ہوئے تو مخالفین کو باتیں بنانے کا موقع مل جائے گا، اس لیے کراؤڈ کو راغب کرنے کیلیے ہرممکن کوشش کریں۔ پی ایس ایل بھی اب زیادہ دور نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر آئندہ برس تمام میچز پاکستان میں ہو رہے ہیں، اس سے قبل یہ ہوم سیریز ٹیسٹ کیس ہے، میڈیا میں کوئی خلاف لکھے تو اسے غلط نہ سمجھیں سب کا مقصد تنقید برائے اصلاح ہی ہے، بدقسمتی سے بورڈ حکام میں قوت برداشت نہیں، اس چھوٹی سے بات سے ہی ذہنیت کا اندازہ لگا لیں کہ خلاف خبریں چھاپنے کا الزام لگا کر نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں بعض اخبارات ہی بند کرا دیے گئے۔
خیر بورڈ نے ایک اچھا کام ڈومیسٹک میچز کی لائیو اسٹریمنگ کا کیا، گوکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا مگر اس بار زیادہ پروفیشنل انداز میں کام ہوا،البتہ کمنٹیئرز کیلیے صرف50 ہزار روپے یومیہ کا بجٹ کم ہے، اس میں اضافہ کریں، ساتھ ہی ایسے صحافیوں کو بھی موقع دیں جو حالات کے سبب ملازمتیں کھو بیٹھے یا اپنے اداروں سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ خیر بورڈ والوں کی مرضی جو بھی کریں ہم تو مشورہ ہی دے سکتے ہیں،ملک میں ٹیسٹ کرکٹ واپس آ رہی ہے ہمیں اسی پر خوش ہونا چاہیے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
بھارتی ٹیم نائٹ ٹیسٹ کھیلنے کیلیے تیار ہو گئی، بنگلہ دیش سے مقابلہ گنگولی نے اپنے آبائی شہر کولکتہ میں رکھا،کمزورحریف کی وجہ سے میچ تین دن میں ہی ختم ہو گیا اور اس دوران اسٹیڈیم شائقین سے کھچا کھچ بھرا رہا، ٹکٹ بلیک میں فروخت ہوئے،کولکتہ پنک کلر میں نہا گیا، بورڈ نے میچ میں سابق کرکٹرز کو مدعو کر کے عزت افزائی کی، میڈیا میں زبردست ہائپ بنائی گئی، بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ بھی میچ دیکھنے کیلیے آئیں، ٹی وی پر شائقین نے دلچسپی سے میچ دیکھا، یوں بھارت کی نائٹ ٹیسٹ کے حوالے سے ہچکچاہٹ ختم ہو گئی۔
اب تو آئندہ برس آسٹریلیا میں 2میچز فلڈلائٹس میں کھیلنے کی بات چل رہی ہے۔ اب ہم اپنے ملک میں واپس آتے ہیں، ہم نے برطانیہ سے ایم ڈی بنا کر وسیم خان کو امپورٹ کیا، ریکارڈ 30 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ اور دیگر مراعات دیں، پھر ان کا لیبل بدل کر سی ای او کر دیا، مگر انھوں نے سوائے غیرملکی دوروں اور پرانے آفیشلز کو نکالنے کے اب تک کیا کیا ہے؟ کچھ نہیں،الٹا مصباح الحق کو کئی ذمہ داریاں سونپ کر قومی ٹیم کا بھی تیاپانچہ کر دیا، پاکستان میں 10 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی ہو رہی ہے، سری لنکا سے راولپنڈی ٹیسٹ میں چار دن باقی ہیں۔
آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کہ کیا ایسا محسوس ہوا ملک میں اتنا بڑے ایونٹ ہونے والا ہے، ذوالفقار بیگ ''ایکسپریس'' کے اسپورٹس رپورٹر ہیں، ان سمیت راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہائش پذیر کئی شخصیات سے میں نے پوچھا کہ کیا میچ کے حوالے سے جڑواں شہروں میں کوئی گہما گہمی ہے تو انھوں نے نفی میں جواب دیا، ایسا کیوں ہوا اس کی وجہ ترجیحات ہیں، گنگولی کی ترجیح بھارتی کرکٹ کو ٹھیک کرنا ہے، وہ تین سال وہاں رہ کر سامان پیک کر کے برطانیہ نہیں چلے جائیں گے، اس لیے انتھک محنت کر رہے ہیں، ہمارے ملک میں ایسا نہیں۔
وسیم خان کو ملکی کرکٹ سے کوئی ہمدردی نہیں،انھیں بورڈ کی بعض شخصیات نے ہائی جیک کیا ہوا ہے اور غلط مشوروں سے گمراہ کر رہے ہیں، احسان مانی نے بھی سخت مایوس کیا،اسی لیے پی سی بی کا اتنا خراب حال ہو چکا۔
حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق کرکٹ بورڈکے 5بڑے ایک کروڑ 16لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں،ان میں وسیم خان(30لاکھ) مصباح الحق (35لاکھ) بدر منظور(18لاکھ) سمیع الحسن برنی (15لاکھ)وقار یونس (18لاکھ) شامل ہیں،کرکٹرز کیلیے چند ہزار آفیشلز کو لاکھوں کیا یہ ظلم نہیں،من پسند شخصیت کو ذہن میں رکھ کر اشتہار تیار کیا جاتا ہے، نئے بورڈ میں ہر نئی تقرری اسی انداز میں ہوتی ہے، ڈائریکٹر کمرشل بابر حمید کی کارکردگی بھی سامنے آ چکی،کیا کوئی بتائے گا کہ اب تک انھوں نے بورڈ کو کتنا بزنس دلایا ہے۔
قائم مقام سی او او سلمان نصیر ان دنوں ملک سے باہر ہیں، وسیم خان تین ہفتے آسٹریلیا میں گذار کر واپس آئے ہیں،سنا ہے اب پھر برطانیہ جانے کی تیاری ہے، کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی ایسی کون سی میٹنگز تھیں جو اتنا وقت لگ گیا، ان دنوں بنگلہ دیش مسلسل دورۂ پاکستان کے حوالے سے ناز نخرے دکھا رہا ہے، احسان مانی اور وسیم خان کو وہاں جا کر بات کرنی چاہیے تھی کہ ہم نے اب اپنے ملک میں اتنی کرکٹ کرا لی تو آپ کو کس بات کی سیکیورٹی تشویش ہے۔
خود آپ کی جونیئر اور ویمنز ٹیمیں آ کر کھیل چکیں، مگر ڈھاکا جانے میں وہ لطف کہاں جو سڈنی کی ٹھنڈی فضاؤں میں ہے،اس لیے بورڈ آفیشلز سکون سے پانی سر سے اونچا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، یہ نہیں سوچ رہے کہ ایک ٹیم نہ آئی تو ساری محنت پر پانی پھر جائے گا، پی ایس ایل کے معاملات اتنی ابتری کا شکار ہیں کہ آپ کی سوچ ہو گی، ڈرافٹنگ کی رنگینوں پر نہ جائیں۔
پی سی بی کا میڈیا ڈپارٹمنٹ قائد اعظم ٹرافی کی حد سے زیادہ ہائپ بنانے کی ناکام کوشش کرتا رہا مگر ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی پر خاموش ہے، خیر ابھی چار دن باقی ہیں، صرف 50روپے کا ٹکٹ رکھ کر تعلیمی اداروں میں مفت تقسیم کرنے کا اعلان کافی نہیں، شائقین کو اسٹیڈیم آنے پر راغب کرنے کیلیے عملی اقدامات کریں،ان کیلیے بیٹ، شرٹ، کیپ یا اسی قسم کے انعامات رکھیں، چند خوش نصیبوں کی کرکٹرز سے ملاقات کرائیں، مختلف مقامات سے اسٹیڈیم تک لانے کیلیے خصوصی بسیں چلائیں، ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا پر مہم چلائیں۔
شہر میں پوسٹرز اور بورڈز وغیرہ آویزاں کریں، میچ میں سابق ٹیسٹ اسٹارز کو مدعو کریں، لاہور میں سری لنکن ٹیم کے ساتھ ہی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا اور اب وہی 10 سال بعد ملک میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے آ رہی ہے،مہمان کرکٹرز کو یادگاری شیلڈز اور تحائف دیں، ہم ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ ملک کو انٹرنیشنل مقابلوں سے محروم کر دیا گیا،اب واپسی ہو رہی ہے تو جشن کا سماں ہونا چاہیے، اسٹیڈیم میں شائقین نہ ہوئے تو مخالفین کو باتیں بنانے کا موقع مل جائے گا، اس لیے کراؤڈ کو راغب کرنے کیلیے ہرممکن کوشش کریں۔ پی ایس ایل بھی اب زیادہ دور نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر آئندہ برس تمام میچز پاکستان میں ہو رہے ہیں، اس سے قبل یہ ہوم سیریز ٹیسٹ کیس ہے، میڈیا میں کوئی خلاف لکھے تو اسے غلط نہ سمجھیں سب کا مقصد تنقید برائے اصلاح ہی ہے، بدقسمتی سے بورڈ حکام میں قوت برداشت نہیں، اس چھوٹی سے بات سے ہی ذہنیت کا اندازہ لگا لیں کہ خلاف خبریں چھاپنے کا الزام لگا کر نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں بعض اخبارات ہی بند کرا دیے گئے۔
خیر بورڈ نے ایک اچھا کام ڈومیسٹک میچز کی لائیو اسٹریمنگ کا کیا، گوکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا مگر اس بار زیادہ پروفیشنل انداز میں کام ہوا،البتہ کمنٹیئرز کیلیے صرف50 ہزار روپے یومیہ کا بجٹ کم ہے، اس میں اضافہ کریں، ساتھ ہی ایسے صحافیوں کو بھی موقع دیں جو حالات کے سبب ملازمتیں کھو بیٹھے یا اپنے اداروں سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ خیر بورڈ والوں کی مرضی جو بھی کریں ہم تو مشورہ ہی دے سکتے ہیں،ملک میں ٹیسٹ کرکٹ واپس آ رہی ہے ہمیں اسی پر خوش ہونا چاہیے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)