داستان الم 31 اکتوبر
انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ اگر اس پر ظلم و جبر کیا جائے تو وہ اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے سر دھڑ کی، یہاں تک کہ...
انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ اگر اس پر ظلم و جبر کیا جائے تو وہ اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے سر دھڑ کی، یہاں تک کہ جان کی بازی لگا دیتا ہے، حق و باطل کی یہ جنگ ازل سے جاری ہے اور ا بد تک رہے گی۔ ہر انسان کو یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ وہ جو بوئے گا وہی کاٹے گا پھر بھی انسان ہی انسان کا دشمن نظر آتا ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ انسان نے خود اپنی تباہی کا سامان پیدا کیا ہے۔ ایٹمی و کیمیائی ہتھیاروں کے انبار انسان نے ہی بنائے ہیں۔ اگر انسان، انسان کا دشمن نہ ہوتا تو ان سب ہتھیاروں کی کوئی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ امن و آشتی، پیار و محبت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ اب تک جو عالمی جنگیں ہوئی ہیں ان میں لاکھوں لوگ اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے لیکن ان اموات ہونے کے باوجود آخری راستہ امن و آشتی کو ہی تسلیم کیا گیا ہے۔ جنگ عظیم کے بعد ٹیبل ٹاک کے ذریعے ہی مسئلے کا حل نکالا گیا۔ دنیا میں کوئی بھی مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی انسان کا ناحق خون بہایا جائے لیکن اس کے باوجود ظلم و ستم کی نہ ختم ہونے والی داستانیںبڑی تیزی کے ساتھ رقم کی جارہی ہیں۔
ایک ایسی ہی داستان الم 31 اکتوبر 1986 کو کراچی کے معصوم، بے گناہ افراد کے لہو سے لکھی گئی، جب حیدرآباد میں ہونے والے ایم کیو ایم کے جلسے میں شرکت کے لیے جانے والے حق پرست عوام کے پر امن جلوس پر سہراب گوٹھ کے قریب بے دردی کے ساتھ بلاجواز گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی اور مظلوم عوام کو نشانہ بنایا گیا جس میں درجنوں حق پرست ہمدرد اور کارکنوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تھا کہ 8 اگست 1986 کو ایم کیو ایم کا پہلا جلسہ جو کراچی کے مشہور سیاسی گرائونڈ نشتر پارک میں ہوا تھا اور اس میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اس بات کی دلیل تھا کہ حق پرست عوام کی ایک بڑی قوت قائد تحریک الطاف حسین پر اعتماد کا اظہارکررہی ہے اور عوام ایک پلیٹ فارم پر متحد ہورہے ہیں۔ ان حالات سے گھبرا کر اور ایم کیو ایم کی مقبولیت سے خائف ہو کر اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کاروں نے 31 اکتوبر کو ایم کیو ایم کے بڑے جلسے کو ناکام بنانے کے لیے جو کہ حیدرآباد میں منعقد کیا گیا تھا، جلسے میں جانے والے قافلے پر سہراب گوٹھ کے قریب فائرنگ کروائی اور قتل و غارتگری کا بازار گرم کردیا۔
لیکن اس کے باوجود حق پرست عوام نے حیدرآباد کے جلسے کو کامیاب بنایا۔ 31 اکتوبر کو سانحہ سہراب گوٹھ میں شہید ہونے والے درجنوں ایم کیو ایم کے ہمدرد ، کارکنان و عزیز اقارب آج بھی اپنے پیاروں کے غم میں خون کے آنسو رونے پر مجبور ہیںکیونکہ کوئی بھی شخص جو گھر سے ہشاش بشاش باہر نکلے اور گھر واپسی پر اس کا جنازہ آئے تو دل رکھنے والے سوچیں کہ اس کے گھر والوں کا کیا حال ہوگا؟ ماں کی ممتا انمول ہے، اس کا غم دنیا کی کوئی بھی دولت بھلا نہیں سکتی، بہنوں کی محبت اور ان کا غم اپنی جگہ لیکن معصوم بچوں کی آہیں سسکیاں، بابا کے غم کو بھلا نہیں سکتیں، ہرآہٹ معصوم بچوں کے دل پر یہ دستک دیتی ہے کہ ہائے بابا تم کہاں چلے گئے؟ ماں کی ممتا بھی اسے تسلی نہیں دے سکتی۔ گھر کی کفالت کرنے والوں کو اگر ظالم چھین لیں تو ان کے گھروں پر قیامت صرف ایک دن نہیں ہوا کرتی، یتیم بچوں سے پوچھو جن کے باپ حادثاتی موت نہیں بلکہ بڑی بے دردی سے خون میں نہلا دیے جائیں اور وقت کے فرعون طاقت کے نشے میں اندھے ہوکر انھیں اپنی ہوس کا شکار بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیں۔ 31 اکتوبر 1986 بھی ایسی ہی داستان الم میں سے ایک ہے۔
31 اکتوبر سانحہ سہراب گوٹھ اور تمام تحریکی شہدائوں کو سلام تحسین پیش کرتا ہوں جن کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ آج MQM سے متحدہ قومی موومنٹ کے اس کٹھن سفر میں شہداؤں نے فرعونی طاقتوں کے سامنے اپنا سر کٹا کر حق پرستی کی وہ شمع روشن کی ہے جس کی روشنی سارے پاکستان میں عوام کو حق پرستی کی نوید سنارہی ہے۔ ان شہدا کا لہو ہم سے تقاضا کررہا ہے کہ ہم پاکستانی عوام اپنی ذاتیات، انا پرستی، زبان کی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر قومی یکجہتی کو فروغ دیں اور اس ملک کے ظالم و جابروں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیں کیونکہ یہ مفاد پرست عناصر حق پرستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ آج ہمیں جتنی بھی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہ سب شہیدوں کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے کہ انھوں نے اپنی جانیں قربان کرکے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ سچی تحریک کے لیے کام کرنے والے ساتھی اپنی جانیں قربان کرکے ہی تحریک کو جلا بخشتے ہیں۔ اگر شہدائے حق تحریک کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش نہ کرتے تو یہ کامیابیاں جو آج ہمیں ملی ہیں وہ ناممکن تھیں کیونکہ اس دور کو اگر یاد کیا جائے تو لوگ اپنے سایے سے بھی ڈرتے تھے، لیکن آفرین ہے ان شہدائے حق کو جنہوں نے اپنے لہو سے اس تحریک کی آبیاری کے لیے تمام حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے آپ کو قربان کردیا۔
آیئے! ہم سب مل کر سانحہ سہراب گوٹھ اور تمام شہدا کو خراج تحسین پیش کریں اور یہ عہد کریں کہ تحریک کی کامیابی کے لیے ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
ایک ایسی ہی داستان الم 31 اکتوبر 1986 کو کراچی کے معصوم، بے گناہ افراد کے لہو سے لکھی گئی، جب حیدرآباد میں ہونے والے ایم کیو ایم کے جلسے میں شرکت کے لیے جانے والے حق پرست عوام کے پر امن جلوس پر سہراب گوٹھ کے قریب بے دردی کے ساتھ بلاجواز گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی اور مظلوم عوام کو نشانہ بنایا گیا جس میں درجنوں حق پرست ہمدرد اور کارکنوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تھا کہ 8 اگست 1986 کو ایم کیو ایم کا پہلا جلسہ جو کراچی کے مشہور سیاسی گرائونڈ نشتر پارک میں ہوا تھا اور اس میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اس بات کی دلیل تھا کہ حق پرست عوام کی ایک بڑی قوت قائد تحریک الطاف حسین پر اعتماد کا اظہارکررہی ہے اور عوام ایک پلیٹ فارم پر متحد ہورہے ہیں۔ ان حالات سے گھبرا کر اور ایم کیو ایم کی مقبولیت سے خائف ہو کر اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کاروں نے 31 اکتوبر کو ایم کیو ایم کے بڑے جلسے کو ناکام بنانے کے لیے جو کہ حیدرآباد میں منعقد کیا گیا تھا، جلسے میں جانے والے قافلے پر سہراب گوٹھ کے قریب فائرنگ کروائی اور قتل و غارتگری کا بازار گرم کردیا۔
لیکن اس کے باوجود حق پرست عوام نے حیدرآباد کے جلسے کو کامیاب بنایا۔ 31 اکتوبر کو سانحہ سہراب گوٹھ میں شہید ہونے والے درجنوں ایم کیو ایم کے ہمدرد ، کارکنان و عزیز اقارب آج بھی اپنے پیاروں کے غم میں خون کے آنسو رونے پر مجبور ہیںکیونکہ کوئی بھی شخص جو گھر سے ہشاش بشاش باہر نکلے اور گھر واپسی پر اس کا جنازہ آئے تو دل رکھنے والے سوچیں کہ اس کے گھر والوں کا کیا حال ہوگا؟ ماں کی ممتا انمول ہے، اس کا غم دنیا کی کوئی بھی دولت بھلا نہیں سکتی، بہنوں کی محبت اور ان کا غم اپنی جگہ لیکن معصوم بچوں کی آہیں سسکیاں، بابا کے غم کو بھلا نہیں سکتیں، ہرآہٹ معصوم بچوں کے دل پر یہ دستک دیتی ہے کہ ہائے بابا تم کہاں چلے گئے؟ ماں کی ممتا بھی اسے تسلی نہیں دے سکتی۔ گھر کی کفالت کرنے والوں کو اگر ظالم چھین لیں تو ان کے گھروں پر قیامت صرف ایک دن نہیں ہوا کرتی، یتیم بچوں سے پوچھو جن کے باپ حادثاتی موت نہیں بلکہ بڑی بے دردی سے خون میں نہلا دیے جائیں اور وقت کے فرعون طاقت کے نشے میں اندھے ہوکر انھیں اپنی ہوس کا شکار بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیں۔ 31 اکتوبر 1986 بھی ایسی ہی داستان الم میں سے ایک ہے۔
31 اکتوبر سانحہ سہراب گوٹھ اور تمام تحریکی شہدائوں کو سلام تحسین پیش کرتا ہوں جن کی قربانیوں کا ثمر ہے کہ آج MQM سے متحدہ قومی موومنٹ کے اس کٹھن سفر میں شہداؤں نے فرعونی طاقتوں کے سامنے اپنا سر کٹا کر حق پرستی کی وہ شمع روشن کی ہے جس کی روشنی سارے پاکستان میں عوام کو حق پرستی کی نوید سنارہی ہے۔ ان شہدا کا لہو ہم سے تقاضا کررہا ہے کہ ہم پاکستانی عوام اپنی ذاتیات، انا پرستی، زبان کی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر قومی یکجہتی کو فروغ دیں اور اس ملک کے ظالم و جابروں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیں کیونکہ یہ مفاد پرست عناصر حق پرستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ آج ہمیں جتنی بھی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہ سب شہیدوں کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے کہ انھوں نے اپنی جانیں قربان کرکے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ سچی تحریک کے لیے کام کرنے والے ساتھی اپنی جانیں قربان کرکے ہی تحریک کو جلا بخشتے ہیں۔ اگر شہدائے حق تحریک کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش نہ کرتے تو یہ کامیابیاں جو آج ہمیں ملی ہیں وہ ناممکن تھیں کیونکہ اس دور کو اگر یاد کیا جائے تو لوگ اپنے سایے سے بھی ڈرتے تھے، لیکن آفرین ہے ان شہدائے حق کو جنہوں نے اپنے لہو سے اس تحریک کی آبیاری کے لیے تمام حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے آپ کو قربان کردیا۔
آیئے! ہم سب مل کر سانحہ سہراب گوٹھ اور تمام شہدا کو خراج تحسین پیش کریں اور یہ عہد کریں کہ تحریک کی کامیابی کے لیے ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔