حکمرانی آسان کام نہیں
حکمرانی آسان کام نہیں۔ میں حسن ظن رکھنے والا آدمی ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ تھرڈ ایمپائر والا کام کروں۔ بار بار ری پلے...
حکمرانی آسان کام نہیں۔ میں حسن ظن رکھنے والا آدمی ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ تھرڈ ایمپائر والا کام کروں۔ بار بار ری پلے دیکھوں اور شک کا فائدہ بیٹسمین کو دے دوں۔ سنی سنائی کو خاطر میں نہ لاؤں اور جب تک ناقابل تردید ثبوت گواہی نہ دیں کسی کے خلاف فیصلہ نہ دوں۔ ہاں وہ جو آمر تھے اور بدعہد تھے اور جنہوں نے شب خون مارا، وہ تو کھیل کے لیے فٹ ہی نہیں تھے۔ سو ان کے لیے کیسی ہمدردی اور ان کے لیے کیسا شک اور کیسا شک کا فائدہ۔ ان کا تو آغاز بھی آرٹیکل 6 اور انجام بھی آرٹیکل 6 ہر شک سے بالاتر۔محض سن کے بات کو آگے بڑھا دینے والا کون ہوتا ہے، یہ آپ خوب جانتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ''کانا باتی'' دو جمع دو، پانچ سے شروع ہوتی ہے اور دو جمع دو، پانچ ہزار پر جا کے دم لیتی ہے۔ اس کے مظاہرے آپ ہر روز دیکھتے ہیں۔ دیکھنے کو کچھ نہ بھی ہو تو دکھانے والے کوشش جاری رکھتے ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو دن بھر بس اسٹاپ پر سانڈے کا تیل بیچتے ہیں اور شام ڈھلے گفتگو کی منڈلی سجا لیتے ہیں۔ تب پتہ چلتا ہے کہ سانڈے کا تیل یقیناً ان کی گفتگو سے بہتر چیز ہے۔ ان دنوں حکمرانوں کے دورے ان کی زد میں ہیں۔
دورے پہ دورہ دیکھ کے انھیں اعتراضات کا دورہ پڑا ہوا ہے۔ حکمران ادھر ادھر بھاگے پھر رہے ہیں تو کچھ کام ہی کرتے ہوں گے۔ لیکن ان کے کام کے بارے میں سنجیدگی سے کچھ جاننے اور سمجھنے کی بجائے یہ لٹھ لے کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں اور ٹین ڈبے کھڑکا رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ سب تفریحی دورے ہیں اور سیر سپاٹا ہے۔ گویا حکمران صرف ہریسہ کھانے کو دو ایک دن کے لیے وطن تشریف لاتے ہیں اور شاید پھر 5 ہزار ڈالر مالیت کا FLEUR برگر کھانے باہر چلے جاتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ابھی شک کا فائدہ دینے کا وقت ہے۔ یہ تو تگ و دو کا آغاز ہے۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو تو اسے ٹھیک کرنے کے لیے مشینی انداز میں حرکت کرنا پڑتی ہے۔ حکمرانی آسان کام نہیں۔ خصوصاً ایسی جگہ پر جہاں خرابی اور گندگی کو کم کرنیوالے دور دور تک دکھائی نہ دیے ہوں۔ ایک سے بڑھ کر ایک آیا ہو اور ہٹ دھرمی چھاپ کے چلا گیا ہو۔ کوئی نو، کوئی دس اور کوئی گیارہ سال۔
جمہوریت سے آشنائی کا پہلا دور آمریت کے آفٹر شاکس سہتے سہتے بیت گیا۔ دوسرے دور کے آغاز میں بھی مسائل اور جبر کے اژدھے اپنا شکنجہ کس رہے ہیں۔ ایسے میں عوام نے جن لوگوں کو مسیحائی کا کام سونپا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایک ایک قدم ہم سے پوچھ کے اور ہماری مرضی سے اٹھائیں اور ہر ایک گھنٹے کے بعد اپنی پراگریس رپورٹ بھی ہمارے سامنے پیش کریں۔ بدگمانی کا عالم یہ ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی دیانتداری اور خلوص سے اس ملک کی فلاح کا کام کر سکتا ہے۔ ہم شک کا فائدہ دینے کو بھی تیار نہیں۔ حالانکہ جن گمبھیر مسائل کا اور بیماری کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی معیشت کا ہمیں سامنا ہے اگر کوئی اس سے نمٹنے کی کوشش میں ہے تو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ کارکردگی اچھی نہ ہو تو پھر جیسے چاہے خبر لیں۔ فی الحال تو کام کرنے والا ہی اندر کی خبر رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اس پر کیا بیت رہی ہے اور وہ مسکراتا کیوں نہیں۔
شاعر کہتا ہے کہ ''جس طرح شاکر کی عمر گزری ہے۔ تم ایک منٹ بھی گزار کے دکھاؤ تو لگ پتہ جائے گا''
جیویں عمر گزاری اے شاکر دی
ہک منٹ گزار' پتہ لگ ویسوں
لیجیے موقع کی مناسبت سے شجاع آباد کے رہنے والے درویش سرائیکی شاعر کا ایک اور شعر یاد آ گیا۔ قسمت نے شاکر شجاع آبادی کو فالج زدہ اور معذور کر دیا ہے لیکن وہ کیسی کمال کی شاعری کرتا ہے۔۔۔۔ ''نجومی، تم مجھے یہ کہہ کے مت ڈراؤ کہ تمہارا تو نصیب ہی خراب ہے جب ہاتھ چھالوں سے بھر جائینگے تو قسمت کی لکیریں خود ہی بدل جائیں گی۔''
نجومی نہ ڈراوے ڈے اساکوں بد نصیبی دے
جڈاں ہتھاں تے چھالے تھئے' لکیراں خود بدل ویسن
ہمارے ہاں بھی ظلم و ستم اور خرابیاں آخری حدوں کو چھو رہی ہیں۔ اب قسمت کی لکیریں بدلنی چاہئیں۔ ہماری سخت جانی ہی کامیابی کی نوید ہو گی۔ بس دیکھنا ہے کہ ہم کسی کو کامیابی کی یہ منزل حاصل کرنے کا موقع بھی دیتے ہیں یا نہیں۔ ہر قدم پر ٹانگ پکڑ کے کھینچتے رہے تو پھر سفر ہو چکا۔
ویسے ان اعتراضات کا ایک مزاحیہ پہلو بھی ہے۔ ان میں بیشتر ایسے ہیں جیسے کوئی فلم ڈائریکٹر اپنے کسی کردار کو ہدایات دے رہا ہو۔ ملاقات سے پہلے تیاری کیوں نہیں کی تھی۔ ڈنڈ بیٹھکیں کیوں نہیں نکالی تھیں۔ بال کیوں بکھرے ہوئے تھے۔ہاتھ میں کاغذ کیوں پکڑے تھے۔ رٹا کیوں نہیں لگایا تھا۔ نظریں اوباما کی ٹائی پر کیوں تھیں اور بڑھک کیوں نہیں ماری۔ وغیرہ وغیرہ۔ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ یہ اوباما سے زیادہ تجربہ رکھنے والے ایک وزیر اعظم کا اسٹائل تھا۔ آئیے! اس بات کی وضاحت ایک تمثیل سے کرتا ہوں۔
زندگی کی بیمہ پالیسی فروخت کرنیوالا ایک نوجوان بڑی کوشش کے بعد ایک بڑی کمپنی کے ایم ڈی سے ملاقات کا وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے کمرے میں داخل ہوا تو گھبراہٹ کے مارے ٹھوکر کھا کے لڑکھڑا گیا۔ اس نے کرسی پر بیٹھنے کو کہا تو اس پر آگے کو جھک کے بیٹھا۔ انشورنس پالیسی کا بروشر آگے بڑھایا تو اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ کپکپاتی ہوئی آواز میں گفتگو شروع کی بار بار تھوک نگلتا اور ماتھے پر سے پسینہ پونچھتا رہا۔ ایم ڈی نے اسے ٹھنڈا پانی پلایا، تسلی دی اور پھر اس کا کام کر دیا۔ بیمہ پالیسی پر دستخط کر کے اس کے حوالے کی اور کہا ''دیکھو میں پالیسی تو لے رہا ہوں لیکن تمہارا طریقہ درست نہیں تھا۔ آیندہ کہیں جاؤ تو ڈھنگ کے کپڑے پہن کے جاؤ اور پورے اعتماد سے گفتگو کرو'' پھر اس نے نوجوان کو تفصیل سے بتایا کہ کس قسم کے لوگوں سے کس طرح گفتگو کرنی چاہیے۔ نوجوان نے کاغذ سمیٹے اور اٹھتے ہوئے بولا۔ ''سر! میں نے مارکیٹنگ میں ایم بی اے کیا ہے۔ میں یہ سب طریقے جانتا ہوں اور میں نے آپ سے پالیسی حاصل کرنے کے لیے وہی طریقہ استعمال کیا ہے جو آپ جیسے لوگوں کے لیے کرنا چاہیے تھا۔''
حقیقت کیا ہے؟ مجھے نہیں معلوم لیکن اتنا جانتا ہوں کہ حکمرانی آسان نہیں ہے۔ یہ بڑا کٹھن کام ہے۔ بہت کچھ کہنا پڑتا ہے، سننا پڑتا ہے، سہنا پڑتا ہے، چھپانا پڑتا ہے، پِتہ مارنا پڑتا ہے اور بہت سے روپ بدلنا پڑتے ہیں۔
دورے پہ دورہ دیکھ کے انھیں اعتراضات کا دورہ پڑا ہوا ہے۔ حکمران ادھر ادھر بھاگے پھر رہے ہیں تو کچھ کام ہی کرتے ہوں گے۔ لیکن ان کے کام کے بارے میں سنجیدگی سے کچھ جاننے اور سمجھنے کی بجائے یہ لٹھ لے کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں اور ٹین ڈبے کھڑکا رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ سب تفریحی دورے ہیں اور سیر سپاٹا ہے۔ گویا حکمران صرف ہریسہ کھانے کو دو ایک دن کے لیے وطن تشریف لاتے ہیں اور شاید پھر 5 ہزار ڈالر مالیت کا FLEUR برگر کھانے باہر چلے جاتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ابھی شک کا فائدہ دینے کا وقت ہے۔ یہ تو تگ و دو کا آغاز ہے۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو تو اسے ٹھیک کرنے کے لیے مشینی انداز میں حرکت کرنا پڑتی ہے۔ حکمرانی آسان کام نہیں۔ خصوصاً ایسی جگہ پر جہاں خرابی اور گندگی کو کم کرنیوالے دور دور تک دکھائی نہ دیے ہوں۔ ایک سے بڑھ کر ایک آیا ہو اور ہٹ دھرمی چھاپ کے چلا گیا ہو۔ کوئی نو، کوئی دس اور کوئی گیارہ سال۔
جمہوریت سے آشنائی کا پہلا دور آمریت کے آفٹر شاکس سہتے سہتے بیت گیا۔ دوسرے دور کے آغاز میں بھی مسائل اور جبر کے اژدھے اپنا شکنجہ کس رہے ہیں۔ ایسے میں عوام نے جن لوگوں کو مسیحائی کا کام سونپا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایک ایک قدم ہم سے پوچھ کے اور ہماری مرضی سے اٹھائیں اور ہر ایک گھنٹے کے بعد اپنی پراگریس رپورٹ بھی ہمارے سامنے پیش کریں۔ بدگمانی کا عالم یہ ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی دیانتداری اور خلوص سے اس ملک کی فلاح کا کام کر سکتا ہے۔ ہم شک کا فائدہ دینے کو بھی تیار نہیں۔ حالانکہ جن گمبھیر مسائل کا اور بیماری کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی معیشت کا ہمیں سامنا ہے اگر کوئی اس سے نمٹنے کی کوشش میں ہے تو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ کارکردگی اچھی نہ ہو تو پھر جیسے چاہے خبر لیں۔ فی الحال تو کام کرنے والا ہی اندر کی خبر رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اس پر کیا بیت رہی ہے اور وہ مسکراتا کیوں نہیں۔
شاعر کہتا ہے کہ ''جس طرح شاکر کی عمر گزری ہے۔ تم ایک منٹ بھی گزار کے دکھاؤ تو لگ پتہ جائے گا''
جیویں عمر گزاری اے شاکر دی
ہک منٹ گزار' پتہ لگ ویسوں
لیجیے موقع کی مناسبت سے شجاع آباد کے رہنے والے درویش سرائیکی شاعر کا ایک اور شعر یاد آ گیا۔ قسمت نے شاکر شجاع آبادی کو فالج زدہ اور معذور کر دیا ہے لیکن وہ کیسی کمال کی شاعری کرتا ہے۔۔۔۔ ''نجومی، تم مجھے یہ کہہ کے مت ڈراؤ کہ تمہارا تو نصیب ہی خراب ہے جب ہاتھ چھالوں سے بھر جائینگے تو قسمت کی لکیریں خود ہی بدل جائیں گی۔''
نجومی نہ ڈراوے ڈے اساکوں بد نصیبی دے
جڈاں ہتھاں تے چھالے تھئے' لکیراں خود بدل ویسن
ہمارے ہاں بھی ظلم و ستم اور خرابیاں آخری حدوں کو چھو رہی ہیں۔ اب قسمت کی لکیریں بدلنی چاہئیں۔ ہماری سخت جانی ہی کامیابی کی نوید ہو گی۔ بس دیکھنا ہے کہ ہم کسی کو کامیابی کی یہ منزل حاصل کرنے کا موقع بھی دیتے ہیں یا نہیں۔ ہر قدم پر ٹانگ پکڑ کے کھینچتے رہے تو پھر سفر ہو چکا۔
ویسے ان اعتراضات کا ایک مزاحیہ پہلو بھی ہے۔ ان میں بیشتر ایسے ہیں جیسے کوئی فلم ڈائریکٹر اپنے کسی کردار کو ہدایات دے رہا ہو۔ ملاقات سے پہلے تیاری کیوں نہیں کی تھی۔ ڈنڈ بیٹھکیں کیوں نہیں نکالی تھیں۔ بال کیوں بکھرے ہوئے تھے۔ہاتھ میں کاغذ کیوں پکڑے تھے۔ رٹا کیوں نہیں لگایا تھا۔ نظریں اوباما کی ٹائی پر کیوں تھیں اور بڑھک کیوں نہیں ماری۔ وغیرہ وغیرہ۔ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ یہ اوباما سے زیادہ تجربہ رکھنے والے ایک وزیر اعظم کا اسٹائل تھا۔ آئیے! اس بات کی وضاحت ایک تمثیل سے کرتا ہوں۔
زندگی کی بیمہ پالیسی فروخت کرنیوالا ایک نوجوان بڑی کوشش کے بعد ایک بڑی کمپنی کے ایم ڈی سے ملاقات کا وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے کمرے میں داخل ہوا تو گھبراہٹ کے مارے ٹھوکر کھا کے لڑکھڑا گیا۔ اس نے کرسی پر بیٹھنے کو کہا تو اس پر آگے کو جھک کے بیٹھا۔ انشورنس پالیسی کا بروشر آگے بڑھایا تو اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ کپکپاتی ہوئی آواز میں گفتگو شروع کی بار بار تھوک نگلتا اور ماتھے پر سے پسینہ پونچھتا رہا۔ ایم ڈی نے اسے ٹھنڈا پانی پلایا، تسلی دی اور پھر اس کا کام کر دیا۔ بیمہ پالیسی پر دستخط کر کے اس کے حوالے کی اور کہا ''دیکھو میں پالیسی تو لے رہا ہوں لیکن تمہارا طریقہ درست نہیں تھا۔ آیندہ کہیں جاؤ تو ڈھنگ کے کپڑے پہن کے جاؤ اور پورے اعتماد سے گفتگو کرو'' پھر اس نے نوجوان کو تفصیل سے بتایا کہ کس قسم کے لوگوں سے کس طرح گفتگو کرنی چاہیے۔ نوجوان نے کاغذ سمیٹے اور اٹھتے ہوئے بولا۔ ''سر! میں نے مارکیٹنگ میں ایم بی اے کیا ہے۔ میں یہ سب طریقے جانتا ہوں اور میں نے آپ سے پالیسی حاصل کرنے کے لیے وہی طریقہ استعمال کیا ہے جو آپ جیسے لوگوں کے لیے کرنا چاہیے تھا۔''
حقیقت کیا ہے؟ مجھے نہیں معلوم لیکن اتنا جانتا ہوں کہ حکمرانی آسان نہیں ہے۔ یہ بڑا کٹھن کام ہے۔ بہت کچھ کہنا پڑتا ہے، سننا پڑتا ہے، سہنا پڑتا ہے، چھپانا پڑتا ہے، پِتہ مارنا پڑتا ہے اور بہت سے روپ بدلنا پڑتے ہیں۔