معذوروں کے لیے ملازمتیں
حکومت پانچ فیصد کو ملازمتیں فراہم کرنے کی دعوے دار ہے
جس ملک اور معاشرے میں تعلیم یافتہ نوجوان اپنی تعلیمی اسناد ہاتھ میں لیے ملازمتوں کی تلاش میں بھٹکتے رہے ہوں وہاں کسی جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار افراد کے لیے کہاں ملازمتیں ہوں گی، تاہم اپنی قوت یموت کے لیے انھیں بھی روز گار کی ضرورت رہتی ہے لیکن وہ سرکاری اور نجی اداروں میں اپنی دادرسی کے لیے بھٹکتے پائے جاتے ہیں۔
حال ہی میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کا حال معلوم ہوا ہے جس کی دوران تعلیم سر پر شدید چوٹ لگنے سے قوت گویائی جاتی رہی لیکن اس کے باوجود اسنے پینٹنگ میں ایم فل کی سند حاصل کر لی لیکن اسے ملازمت کے لیے در بدر بھٹکایا جا رہا ہے۔ سرکاری طور پر معذوری کا شکار افراد کے لیے جنھیں اصطلاح میں PWD (پی ڈبلیو ڈی) یعنی پیپلز ود ڈس ایبلٹی کہا جاتا ہے ان کے لیے حکومت نے تمام ملازمتوں میں 5 فیصد کوٹہ مقرر کر رکھا ہے تاکہ وہ آزادانہ طور پر کام کرتے ہوئے خود کو معاشرے کا کارآمد شخص ثابت کر سکیں۔
حال ہی میں کراچی میں ایک غیرسرکاری تنظیم نے مختلف قسم کی 30کمپنیوں کے اشتراک سے ایک تقریب کا اہتمام کیا جن میں ٹیکسٹائل ملز اور بینکوں سمیت دیگر اداروں میں جسمانی یا ذہنی طور پر معذوری کا شکار افراد کے لیے ملازمتوں کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔
اس تقریب میں خصوصی قسم کے ریمپ اور فلورنگ کا انتظام کیا گیا جن کو رنگ برنگی روشنیوں سے آراستہ کیا گیا تھا تاکہ کسی معذوری کا شکار افراد اپنا راستہ خود تلاش کر سکیں لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ زیادہ تر سرکاری عمارتوں پر اس قسم کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا یعنی اسکول' یونیورسٹیاں سرکاری دفاتر کی عمارات یا پبلک پلیز بھی اس قسم کے خصوصی انتظامات سے محروم ہوتی ہیں حتیٰ کہ کارپوریٹ کمپنیاں یعنی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بھی کوئی ایسا انتظام نہیں ہوتا کہ معذوری کا شکار افراد از خود وہاں تک پہنچ سکیں اس ساری صورت حال سے حکومتوں اور نجی شعبے کی لاپرواہی کا احساس ہوتا ہے اور سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت نے معذوری کا شکار افراد کے لیے جو کوٹہ مختص کیا ہوتا ہے وہ کچھ پورا ہی نہیں ہوتا۔
جہاں تک حکومت کا تعلق ہے اس کی غیر ذمے داری اس بات سے عیاں ہے کہ ابھی تک انھوں نے معذور لوگوں کے اعداد و شمار بھی اکٹھے نہیں کیے کہ ملک میں ان کی تعداد کیا ہے جس میں سے حکومت پانچ فیصد کو ملازمتیں فراہم کرنے کی دعوے دار ہے۔ علاوہ ازیں معذوری ایکٹ 2018میں بہت سی خامیاں موجود ہیں جن کا ذکر انسانی حقوق کی وزارت نے گزشتہ برس کیا تھا اور اس بات پر زور دیا تھا کہ ان تمام خامیوں کو درست کیا جانا چاہیے۔
اگر اس ایکٹ کو باقاعدہ قانون کا درجہ دیا جانا ہے تو جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان کو درست کرنا اولین شرط ہے۔ یہ بات لازم ہے کہ حکومت اور معاشرہ مجموعی طور پر معذور افرادکی ذیل میں آنے والے لوگوں کا خصوصی خیال کرتے ہوئے ان کے مسائل کو احسن طریقے سے نمٹانے کا راستہ نکالے۔
حال ہی میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کا حال معلوم ہوا ہے جس کی دوران تعلیم سر پر شدید چوٹ لگنے سے قوت گویائی جاتی رہی لیکن اس کے باوجود اسنے پینٹنگ میں ایم فل کی سند حاصل کر لی لیکن اسے ملازمت کے لیے در بدر بھٹکایا جا رہا ہے۔ سرکاری طور پر معذوری کا شکار افراد کے لیے جنھیں اصطلاح میں PWD (پی ڈبلیو ڈی) یعنی پیپلز ود ڈس ایبلٹی کہا جاتا ہے ان کے لیے حکومت نے تمام ملازمتوں میں 5 فیصد کوٹہ مقرر کر رکھا ہے تاکہ وہ آزادانہ طور پر کام کرتے ہوئے خود کو معاشرے کا کارآمد شخص ثابت کر سکیں۔
حال ہی میں کراچی میں ایک غیرسرکاری تنظیم نے مختلف قسم کی 30کمپنیوں کے اشتراک سے ایک تقریب کا اہتمام کیا جن میں ٹیکسٹائل ملز اور بینکوں سمیت دیگر اداروں میں جسمانی یا ذہنی طور پر معذوری کا شکار افراد کے لیے ملازمتوں کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔
اس تقریب میں خصوصی قسم کے ریمپ اور فلورنگ کا انتظام کیا گیا جن کو رنگ برنگی روشنیوں سے آراستہ کیا گیا تھا تاکہ کسی معذوری کا شکار افراد اپنا راستہ خود تلاش کر سکیں لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ زیادہ تر سرکاری عمارتوں پر اس قسم کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا یعنی اسکول' یونیورسٹیاں سرکاری دفاتر کی عمارات یا پبلک پلیز بھی اس قسم کے خصوصی انتظامات سے محروم ہوتی ہیں حتیٰ کہ کارپوریٹ کمپنیاں یعنی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بھی کوئی ایسا انتظام نہیں ہوتا کہ معذوری کا شکار افراد از خود وہاں تک پہنچ سکیں اس ساری صورت حال سے حکومتوں اور نجی شعبے کی لاپرواہی کا احساس ہوتا ہے اور سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت نے معذوری کا شکار افراد کے لیے جو کوٹہ مختص کیا ہوتا ہے وہ کچھ پورا ہی نہیں ہوتا۔
جہاں تک حکومت کا تعلق ہے اس کی غیر ذمے داری اس بات سے عیاں ہے کہ ابھی تک انھوں نے معذور لوگوں کے اعداد و شمار بھی اکٹھے نہیں کیے کہ ملک میں ان کی تعداد کیا ہے جس میں سے حکومت پانچ فیصد کو ملازمتیں فراہم کرنے کی دعوے دار ہے۔ علاوہ ازیں معذوری ایکٹ 2018میں بہت سی خامیاں موجود ہیں جن کا ذکر انسانی حقوق کی وزارت نے گزشتہ برس کیا تھا اور اس بات پر زور دیا تھا کہ ان تمام خامیوں کو درست کیا جانا چاہیے۔
اگر اس ایکٹ کو باقاعدہ قانون کا درجہ دیا جانا ہے تو جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان کو درست کرنا اولین شرط ہے۔ یہ بات لازم ہے کہ حکومت اور معاشرہ مجموعی طور پر معذور افرادکی ذیل میں آنے والے لوگوں کا خصوصی خیال کرتے ہوئے ان کے مسائل کو احسن طریقے سے نمٹانے کا راستہ نکالے۔