وزیر بلدیات کی غیر سنجیدگی سے بلدیاتی امور متاثر ایس بی سی اے افسران پر دباؤ بڑھ گیا
ایس بی سی اے کے ون ونڈوآپریشن میں نقشے پاس کرانے کیلیے سیکڑوں درخواستیں آئیں لیکن اب تک ایک بھی نقشہ پاس نہیں ہوسکا
وزیربلدیات سندھ کی غیرسنجیدگی اورعدم دلچسپی کے باعث کراچی کے بلدیاتی امور بری طرح متاثر ہیں۔
صوبائی وزیر کی ایس بی سی اے میں غیرضروری مداخلت اور افسران پر دباؤ ڈال کر اپنے مبینہ زبانی احکامات سے ایس بی سی اے کا انتظامی ڈھانچہ متاثر ہورہا ہے، شہر میں بڑے پیمانے نقشوں کی منظوری کے بغیرغیرقانونی عمارتوں کی تعمیر عروج پر ہے، ایس بی سی اے افسران ذہنی دباؤ میں ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے ویسے تو ناصر حسین شاہ پورے محکمہ بلدیات کے وزیر ہے مگر ان کی دلچسپی صرف ایس بی سی اے میں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ باقی محکموں سے ان کا تعلق ہی نہیں ہے ایس بی سی اے میں بھی ان کی دلچسپی کا واحد محور صرف مبینہ زبانی احکامات ہیں، وزیر بلدیات کی وجہ سے امور تیزی سے بگڑرہے ہیں غیرضروری احکامات کی وجہ سے قانونی کام کھٹائی میں پڑگئے ہیں۔
ون ونڈو آپریشن میں ایک ہزار شہریوں نے نقشے جمع کرائے لیکن کئی ماہ گزرنے کے باوجود ایک بھی نقشہ پاس نہیں ہوا جبکہ غیر قانونی تعمیرات بدستور جاری ہیں، ناصر حسین شاہ ایس بی سی اے افسران کو مبینہ طور پر خلاف ضابط احکامات دے رہے ہیں جس سے افسران ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
دباؤ کے شکار افسران کاکہنا ہے کہ چند افراد کو نوازنے کے لیے ایسے احکامات دیے جارہے ہیں جس سے ہمیں جیل ہوسکتی ہے، سینئر افسران نے بلاول بھٹو سے اپیل کی ہے کہ وزیر بلد یات کو کنٹرول کیا جائے ، ناصر حسین شاہ کی بلدیاتی امور چلانے میں دلچپسپی نظر نہیں آرہی ان کے فیصلے ناکامی سے دوچار ہیں۔
ناصر حسین شاہ نے اپنی ٹیم کے ڈی اے میں تعینات کرائی لیکن 3 ماہ میں ادارے امور درہم بر ہم ہوگئے جس کے بعد ڈی جی کے ڈی اے جمیل میندھرو، ڈائریکٹر لینڈ اور ڈائریکٹر فنانس کو عہدوں سے ہٹایا اور نئی ٹیم تعینات کر دی، وزیر بلدیات کی اہم ذمے داری کچرا اٹھانے کے اموردیکھنا ہے لیکن ان کی توجہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بوڈ پر نہیں ہے۔
جس کی وجہ سے کچرا اٹھانے کے امور بھی درہم برہم ہیں، ناصر حسین شاہ ایس بی سی اے کے ایک ایک افسر کو سندھ سیکریٹریٹ طلب کرتے ہیں، تبادلے اور تقرریاں بھی سند سیکریٹریٹ سے کی جارہی ہیں اس وقت قانونی طور پر نقشے پاس کرانا مشکل ہے جبکہ مبینہ رشوت کے عوض غیرقانونی عمارتیں تعمیرکرنا آسان ہے۔
افسران کا کہنا ہے کہ اس طر ح کے احکام موصول ہورہے ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا گیا تو ہمیں جیل ہو نے کا خدشہ ہے ، شہر میں قانونی کام کرنے والے بلڈرز بھی پریشان ہیں، ایس بی سی اے نے ون ونڈوآپریشن شروع کیا نقشے پاس کرانے کیلیے شہریوں نے سیکڑوں درخواستیں جمع کرائیں لیکن اب تک ایک بھی نقشہ پاس نہیں ہوسکا ہے ایس بی سی اے میں ایک سسٹم چل رہا ہے اس وجہ سے قانونی کام نہیں ہورہے ہیں، ناصرحسین شاہ بلدیاتی امور چلانے کے بجائے وزیراعلیٰ بننے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
صوبائی وزیر کی ایس بی سی اے میں غیرضروری مداخلت اور افسران پر دباؤ ڈال کر اپنے مبینہ زبانی احکامات سے ایس بی سی اے کا انتظامی ڈھانچہ متاثر ہورہا ہے، شہر میں بڑے پیمانے نقشوں کی منظوری کے بغیرغیرقانونی عمارتوں کی تعمیر عروج پر ہے، ایس بی سی اے افسران ذہنی دباؤ میں ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے ویسے تو ناصر حسین شاہ پورے محکمہ بلدیات کے وزیر ہے مگر ان کی دلچسپی صرف ایس بی سی اے میں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ باقی محکموں سے ان کا تعلق ہی نہیں ہے ایس بی سی اے میں بھی ان کی دلچسپی کا واحد محور صرف مبینہ زبانی احکامات ہیں، وزیر بلدیات کی وجہ سے امور تیزی سے بگڑرہے ہیں غیرضروری احکامات کی وجہ سے قانونی کام کھٹائی میں پڑگئے ہیں۔
ون ونڈو آپریشن میں ایک ہزار شہریوں نے نقشے جمع کرائے لیکن کئی ماہ گزرنے کے باوجود ایک بھی نقشہ پاس نہیں ہوا جبکہ غیر قانونی تعمیرات بدستور جاری ہیں، ناصر حسین شاہ ایس بی سی اے افسران کو مبینہ طور پر خلاف ضابط احکامات دے رہے ہیں جس سے افسران ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
دباؤ کے شکار افسران کاکہنا ہے کہ چند افراد کو نوازنے کے لیے ایسے احکامات دیے جارہے ہیں جس سے ہمیں جیل ہوسکتی ہے، سینئر افسران نے بلاول بھٹو سے اپیل کی ہے کہ وزیر بلد یات کو کنٹرول کیا جائے ، ناصر حسین شاہ کی بلدیاتی امور چلانے میں دلچپسپی نظر نہیں آرہی ان کے فیصلے ناکامی سے دوچار ہیں۔
ناصر حسین شاہ نے اپنی ٹیم کے ڈی اے میں تعینات کرائی لیکن 3 ماہ میں ادارے امور درہم بر ہم ہوگئے جس کے بعد ڈی جی کے ڈی اے جمیل میندھرو، ڈائریکٹر لینڈ اور ڈائریکٹر فنانس کو عہدوں سے ہٹایا اور نئی ٹیم تعینات کر دی، وزیر بلدیات کی اہم ذمے داری کچرا اٹھانے کے اموردیکھنا ہے لیکن ان کی توجہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بوڈ پر نہیں ہے۔
جس کی وجہ سے کچرا اٹھانے کے امور بھی درہم برہم ہیں، ناصر حسین شاہ ایس بی سی اے کے ایک ایک افسر کو سندھ سیکریٹریٹ طلب کرتے ہیں، تبادلے اور تقرریاں بھی سند سیکریٹریٹ سے کی جارہی ہیں اس وقت قانونی طور پر نقشے پاس کرانا مشکل ہے جبکہ مبینہ رشوت کے عوض غیرقانونی عمارتیں تعمیرکرنا آسان ہے۔
افسران کا کہنا ہے کہ اس طر ح کے احکام موصول ہورہے ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا گیا تو ہمیں جیل ہو نے کا خدشہ ہے ، شہر میں قانونی کام کرنے والے بلڈرز بھی پریشان ہیں، ایس بی سی اے نے ون ونڈوآپریشن شروع کیا نقشے پاس کرانے کیلیے شہریوں نے سیکڑوں درخواستیں جمع کرائیں لیکن اب تک ایک بھی نقشہ پاس نہیں ہوسکا ہے ایس بی سی اے میں ایک سسٹم چل رہا ہے اس وجہ سے قانونی کام نہیں ہورہے ہیں، ناصرحسین شاہ بلدیاتی امور چلانے کے بجائے وزیراعلیٰ بننے کی کوشش میں مصروف ہیں۔