شاہی قلعہ کے مختلف حصوں سے سیکڑوں برس پرانی باقیات برآمد
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کا شاہی قلعہ کے نوگو ایریاز عوام کیلیے کھولنے کا فیصلہ
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی نے شاہی قلعہ کے مختلف حصوں سے سینکڑوں برس پرانی باقیات اورنوادرات ملنے کے بعد قلعہ کے نوگوایریازکوعوام کے لئے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی نے حال ہی میں دیوان عام کے نیچے تہہ خانوں کا ایک نیا سلسلہ دریافت کیا ہے بلکہ قلعہ کی مشرقی جانب دریافت کئے گئے اکبری دورکے حمام کے اطراف میں کھدائی کے دوران قدیم دورکے برتنوں کی باقیات بھی ملی ہیں۔
ڈائریکٹرکنزرویشن لاہوروالڈ سٹی اتھارٹی نجم الثاقب نے ایکسپریس کو بتایا کہ شاہی قلعہ کے کئی حصے برسوں سے عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں اوران حصوں میں سیاحوں کا جانا منع تھا یا پھر ان کی وہاں تک رسائی نہیں تھی ، اب ہم نے اس تاریخی قلعہ کے نوگوایریازکوشہریوں کے لئے اوپن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جس طرح بارود خانہ اور رائل کچن کو بحال کرکے عوام کے لئے کھولاگیا اسی طرح اب اکبری دورکے شاہی حمام کے حصے کو بھی شہر ی دیکھ سکیں گے۔
نجم الثاقب نے بتایا کہ گزشتہ سال کوڑے اورملبے کے ڈھیروں کی کھدائی کے نیچے سے شاہی حمام برآمد ہوئے تھے، اس کے بعد ہم نے ناصرف اس کے اطراف میں کھدائی کا عمل جاری رکھا بلکہ ان دریافت ہونیوالے حمام کی درست تاریخی حیثیت جاننے کے لئے ملکی اورغیرملکی ماہرین بھی بلائے گئے تھے۔ یہاں کھدائی کے دوران آپس میں جڑے ہوئی کئی راہداریاں اورراستے ملے ہیں جن کے بارے گمان ہے کہ شاہی خاندان کے لوگ یہاں سے گزرتے ہوں گے۔ اسی طرح مٹی کے برتنوں کی باقیات ملی ہیں جن پرتحقیقات کی جارہی ہیں کہ ان برتنوں کا استعمال کس دورمیں ہوتا تھا۔
دنیا میں شاید ہی لاہور کے شاہی قلعے جیسا کوئی دوسرا مقام ہو جہاں متعدد بادشاہوں کے ادوار میں کی گئی تعمیرات ایک ہی جگہ پر ملتی ہوں۔ اکبری دور میں قلعے کو مضبوط بنیادوں پر تعمیر کیا گیا تو اُس کے بعد شاہ جہاں اور جہانگیر نے اِس میں مزید توسیع کی، دیگر مغل بادشاہوں کے بعد سکھوں اور انگریزوں کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اِن متعدد ادوار کی تعمیرات نے شاہی قلعے کو منفرد مقام میں تبدیل کر دیا ہے۔
ڈائریکٹرکنزرویشن نے بتایا کہ اب ان کی ٹیم پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی اوردیگراین جی اوزکے ساتھ مل کر یہاں سے ملنے والی باقیات ، نوادارت پرتحقیق کررہے ہیں اس کے علاوہ مزید پوشیدہ حصوں تک رسائی کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ آئندہ ایک ،دوماہ میں کام مکمل کرلیا جائے ، مارچ میں انگلینڈکے ماہرآثارقدیمہ سٹیفن دوبارہ پاکستان آئیں گے تواس وقت تک ہم تمام تیاریاں مکمل کرلیں گے پھریہاں آنیوالے قلعہ کے اس منفردحصوں کو بھی دیکھ سکیں گے۔
والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی نے حال ہی میں دیوان عام کے نیچے تہہ خانوں کا ایک نیا سلسلہ دریافت کیا ہے بلکہ قلعہ کی مشرقی جانب دریافت کئے گئے اکبری دورکے حمام کے اطراف میں کھدائی کے دوران قدیم دورکے برتنوں کی باقیات بھی ملی ہیں۔
ڈائریکٹرکنزرویشن لاہوروالڈ سٹی اتھارٹی نجم الثاقب نے ایکسپریس کو بتایا کہ شاہی قلعہ کے کئی حصے برسوں سے عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں اوران حصوں میں سیاحوں کا جانا منع تھا یا پھر ان کی وہاں تک رسائی نہیں تھی ، اب ہم نے اس تاریخی قلعہ کے نوگوایریازکوشہریوں کے لئے اوپن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جس طرح بارود خانہ اور رائل کچن کو بحال کرکے عوام کے لئے کھولاگیا اسی طرح اب اکبری دورکے شاہی حمام کے حصے کو بھی شہر ی دیکھ سکیں گے۔
نجم الثاقب نے بتایا کہ گزشتہ سال کوڑے اورملبے کے ڈھیروں کی کھدائی کے نیچے سے شاہی حمام برآمد ہوئے تھے، اس کے بعد ہم نے ناصرف اس کے اطراف میں کھدائی کا عمل جاری رکھا بلکہ ان دریافت ہونیوالے حمام کی درست تاریخی حیثیت جاننے کے لئے ملکی اورغیرملکی ماہرین بھی بلائے گئے تھے۔ یہاں کھدائی کے دوران آپس میں جڑے ہوئی کئی راہداریاں اورراستے ملے ہیں جن کے بارے گمان ہے کہ شاہی خاندان کے لوگ یہاں سے گزرتے ہوں گے۔ اسی طرح مٹی کے برتنوں کی باقیات ملی ہیں جن پرتحقیقات کی جارہی ہیں کہ ان برتنوں کا استعمال کس دورمیں ہوتا تھا۔
دنیا میں شاید ہی لاہور کے شاہی قلعے جیسا کوئی دوسرا مقام ہو جہاں متعدد بادشاہوں کے ادوار میں کی گئی تعمیرات ایک ہی جگہ پر ملتی ہوں۔ اکبری دور میں قلعے کو مضبوط بنیادوں پر تعمیر کیا گیا تو اُس کے بعد شاہ جہاں اور جہانگیر نے اِس میں مزید توسیع کی، دیگر مغل بادشاہوں کے بعد سکھوں اور انگریزوں کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اِن متعدد ادوار کی تعمیرات نے شاہی قلعے کو منفرد مقام میں تبدیل کر دیا ہے۔
ڈائریکٹرکنزرویشن نے بتایا کہ اب ان کی ٹیم پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی اوردیگراین جی اوزکے ساتھ مل کر یہاں سے ملنے والی باقیات ، نوادارت پرتحقیق کررہے ہیں اس کے علاوہ مزید پوشیدہ حصوں تک رسائی کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ آئندہ ایک ،دوماہ میں کام مکمل کرلیا جائے ، مارچ میں انگلینڈکے ماہرآثارقدیمہ سٹیفن دوبارہ پاکستان آئیں گے تواس وقت تک ہم تمام تیاریاں مکمل کرلیں گے پھریہاں آنیوالے قلعہ کے اس منفردحصوں کو بھی دیکھ سکیں گے۔