مان لیں بھائی کہ آپ یہیں کے ہی ہیں
رہا جنوبی ایشیا تو یہاں کے بنگالی بھلے مسلمان ہوں کہ غیر مسلم وہ اپنی جڑیں بنگال میں ہی دیکھتے ہیں۔
یہودی بھلے کسی بھی ملک میں رہتا ہو پہلے یہودی ہے پھر کچھ اور۔اس لیے دنیا کے کسی کونے سے جو بھی یہودی چاہے اپنی غیر اسرائیلی شناخت سمیت اسرائیل میں آباد ہوسکتا ہے۔آ کے پھر جا سکتا ہے اور پھر آسکتا ہے۔
کم وبیش یہی حال عربوں کا بھی ہے۔ جتنا عرب ایک مسلمان ہے اتنا ہی عرب ایک فلسطینی و لبنانی عیسائی بھی ہے اور جتنا عرب ایک کویتی سنی ہے اتنا ہی عرب ایک عراقی شیعہ بھی۔
اور یہ صرف عربوں کا ہی حال نہیں۔صحرائے اعظم کا بربر اور نائجیریا کا بلالی مسلمان ہو کہ بپتسمہ زدہ جنوبی سوڈانی عیسائی زادہ۔خود کو بیچ ڈالے گا مگر اپنی افریقی شناخت کسی قیمت فروخت نہیں کرے گا۔
رہا جنوبی ایشیا تو یہاں کے بنگالی بھلے مسلمان ہوں کہ غیر مسلم وہ اپنی جڑیں بنگال میں ہی دیکھتے ہیں۔ انھیں زمین زادہ ہونے پر اتنا ہی فخر ہے جتنا ہندو یا مسلمان یا بودھ ہونے پر۔یہی حال ملے اور انڈونیشائیوں کا بھی ہے۔ ان کے پرکھے ہزاروں برس پہلے کہیں سے آئے بھی ہوں گے تو ان کی بلا سے۔
مگر ( علاوہ بنگال ) جنوبی ایشیا کے مسلمان کون ہیں؟
جب اپنے گردو پیش پر نظر ڈالتا ہوں تو بہت کم ایسے مسلمان نظر آتے ہیں جو خود کو یہیں کا کہتے ہوں اور اپنی شناخت باہر ڈھونڈنے میں فخر نہ محسوس کرتے ہوں۔
آپ خود ہی سوچیے کہ محمد بن قاسم سے بہادر شاہ ظفر تک عرب ، ایران ، افغانستان اور وسطی ایشیا سے زیادہ سے زیادہ کتنے مسلمانوں نے ہندوستان کی طرف ہجرت کی ہو گی ؟ دس لاکھ ، پچاس لاکھ ، حد ایک کروڑ۔آج بھارت اور پاکستان میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد اڑتیس سے چالیس کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے ( یہ آبادی پورے مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ سے زیادہ ہے)۔
حقیقت یہ ہے کہ ان چالیس کروڑ میں سے نوے فیصد وہ ہیں جن کے آبا و اجداد صوفیا کے طفیل مسلمان ہوئے۔لیکن ان میں سے اگر جاٹ راجپوت اور بنگالی مسلمان نکال دیے جائیں تو باقی سب اپنے ڈانڈے آج بھی برِصغیر سے باہر تلاش کرتے ہیں۔
منگول حملوں کے بعد بالخصوص بخارا و سمرقند ، ایران اور عربستان سے لوگوں نے برصغیر کی جانب ہجرت کی۔ کیا یہ تمام کے تمام علما ، صوفیا اور اشرافیہ اور سید ہی تھے ؟ کوئی ایک آدھ ترکھان ، جولاہا ، لوہار ، مزدور اور کاشتکار بھی تو ان علاقوں سے آیا ہوگا ؟ وہ آج کہاں ہیں؟
کہا جاتا ہے ہندوستان پر مسلمانوں نے ایک ہزار برس حکومت کی۔خاندانِ غلاماں سے مغلوں تک سب یہیں آ کر بسے ، مقامی رسوم و رواجات سے بھی متاثر ہوئے اور اپنی روایات سے مقامی لوگوں کو بھی متاثر کیا۔دفن بھی یہیں ہوئے لیکن خود کو مرتے دم تک ہندوستانی کے بجائے ترک ، مغل اور افغان بچہ ہی کہتے رہے اور کہتے ہیں۔آج بیشتر مغل آخر پنجاب میں ہی کیوں پائے جاتے ہیں ؟ پاکستان کے دیگر صوبوں میں اتنے کیوں دکھائی نہیں دیتے۔اور ساری مغلیت مغلئی کھانوں پر ہی کیوں ختم ہے۔
اسی طرح بہت سے پشتونوں کا خیال ہے کہ وہ مقامی یا آریائی النسل نہیں بلکہ بنی اسرائیل کا بارہواں گمشدہ قبیلہ ہیں۔ تو پھر باقی گیارہ قبیلوں کے وارث انھیں اپنا گمشدہ بھائی تسلیم کیوں نہیں کرتے؟آپ کہیں گے چونکہ بنی اسرائیل کا یہ گمشدہ قبیلہ مسلمان ہوگیا اس لیے یہودی کیوں انھیں تسلیم کرنے لگے ؟ تو عرض یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کی دو سرکاری زبانیں ہیں۔عبرانی اور عربی۔اور اسرائیل کی بیس فیصد آبادی عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے ( مقبوضہ علاقوں کے فلسطینی نکال کے)۔ آپ بھلے اسرائیل سے نفرت کرتے رہیں لیکن اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروا کے یہ اطمینان تو کرلیں کہ آپ اصل میں ہیں کون ؟
مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں۔لیکن جہاں جڑوں کی بحث چھڑتی ہے تو کلہوڑے اور داؤد پوترے فوراً سلطنتِ عباسیہ سے رشتے جوڑ لیتے ہیں۔ تالپور، چانڈیہ، جتوئی، زرداری وغیرہ بلوچ ہیں اور بلوچ خود کو کردوں کا ایک قبیلہ سمجھتے ہیں۔صرف براہوی ایسے ہیں جو اپنے کو یہیں کا کہتے ہیں۔سومرہ جانے کب سے سندھی ہیں مگر گفتگو میں وہ آپ کو عربستان سے اپنی آمد کا بتانا نہیں بھولیں گے۔سید ایسوسی ایشن بھی آپ کو سندھ میں ہی ملے گی۔
سندھ کے سماٹ قبائل خود کو یہیں کا بتاتے ہیں لیکن کسی کو بھی یہ کہنا سننا اچھا نہیں لگتا کہ ان کے پرکھے راجہ داہر کی بھی رعایا یا ہم مذہب رہے ہوں گے۔ آخر میں صرف کوہلی ، بھیل میگھواڑ اور ٹھاکر ہی بچتے ہیں جو سندھ میں نہ کہیں سے آئے نہ کہیں گئے۔
قبل از ضیا دور کے تعلیمی نصاب میں کم ازکم اتنا ضرور تھا کہ موہن جو دڑو ، ہڑپہ اور ٹیکسلا کو بھی پاکستان کا تہذیبی و نسلی ورثہ شمار کیا جاتا تھا۔لیکن لگ بھگ نو برس پہلے جب میں نے موہن جودڑو میوزیم کے ایک کیوریٹر سے ان آثار کی دن بدن خستہ حالی کی بابت پوچھا تو اس نے کہا '' یہ تو ہندوؤں کا ورثہ ہے۔ہندو تو اب یہاں سے چلے گئے۔ہم سے جتنی دیکھ بھال ہو سکتی ہے کررہے ہیں۔ ابھی اور کیا کریں سائیں''۔۔۔۔
ایک جانب تو برِ صغیر کے مسلمانوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ ان کی رگوں میں آج بھی وسطی ایشیا سے لے کے حجاز اور یمن تک کا خون دوڑ رہا ہے اور اسی سبب ان مقامات سے ان کی عقیدت بھی باقی دنیا کے مسلمانوں کے مقابلے میں دو چند ہے۔لیکن جب انھی مسلمانوں کا آج کے کسی ایرانی، ترک یا عرب سے سامنا ہوتا ہے تو وہ انھیں ہندوستانی اور پاکستانی کے سواکچھ نہیں سمجھتا۔اور اپنے ہی ملک میں تین تین نسلوں سے آباد بہت سے برصغیریوں کو شہریت دینا تو کجا انھیں رفیق اور مسکین سے اوپر اخی تک کہنے پر آمادہ نہیں۔اس کے باوجود برصغیر کا مسلمان اپنی اصل شناخت کو کھوجنے اور اس پر فخر کی عادت ڈالنے کے بجائے اپنے بدیسی شجرے سنبھال سنبھال کے خود ہی خوش ہوتا رہتا ہے۔
جب تک اندر کے بجائے باہر کی طرف دیکھنے کی عادت رہے گی تب تک نہ اپنی نگاہوں میں اپنی توقیر ہوسکتی ہے اور نہ دوسروں کی نظروں میں۔پتھر اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے۔ آپ یہاں کے ہیں اور یہیں کے ہی رہیں گے۔ مانیں یا نہ مانیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
کم وبیش یہی حال عربوں کا بھی ہے۔ جتنا عرب ایک مسلمان ہے اتنا ہی عرب ایک فلسطینی و لبنانی عیسائی بھی ہے اور جتنا عرب ایک کویتی سنی ہے اتنا ہی عرب ایک عراقی شیعہ بھی۔
اور یہ صرف عربوں کا ہی حال نہیں۔صحرائے اعظم کا بربر اور نائجیریا کا بلالی مسلمان ہو کہ بپتسمہ زدہ جنوبی سوڈانی عیسائی زادہ۔خود کو بیچ ڈالے گا مگر اپنی افریقی شناخت کسی قیمت فروخت نہیں کرے گا۔
رہا جنوبی ایشیا تو یہاں کے بنگالی بھلے مسلمان ہوں کہ غیر مسلم وہ اپنی جڑیں بنگال میں ہی دیکھتے ہیں۔ انھیں زمین زادہ ہونے پر اتنا ہی فخر ہے جتنا ہندو یا مسلمان یا بودھ ہونے پر۔یہی حال ملے اور انڈونیشائیوں کا بھی ہے۔ ان کے پرکھے ہزاروں برس پہلے کہیں سے آئے بھی ہوں گے تو ان کی بلا سے۔
مگر ( علاوہ بنگال ) جنوبی ایشیا کے مسلمان کون ہیں؟
جب اپنے گردو پیش پر نظر ڈالتا ہوں تو بہت کم ایسے مسلمان نظر آتے ہیں جو خود کو یہیں کا کہتے ہوں اور اپنی شناخت باہر ڈھونڈنے میں فخر نہ محسوس کرتے ہوں۔
آپ خود ہی سوچیے کہ محمد بن قاسم سے بہادر شاہ ظفر تک عرب ، ایران ، افغانستان اور وسطی ایشیا سے زیادہ سے زیادہ کتنے مسلمانوں نے ہندوستان کی طرف ہجرت کی ہو گی ؟ دس لاکھ ، پچاس لاکھ ، حد ایک کروڑ۔آج بھارت اور پاکستان میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد اڑتیس سے چالیس کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے ( یہ آبادی پورے مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ سے زیادہ ہے)۔
حقیقت یہ ہے کہ ان چالیس کروڑ میں سے نوے فیصد وہ ہیں جن کے آبا و اجداد صوفیا کے طفیل مسلمان ہوئے۔لیکن ان میں سے اگر جاٹ راجپوت اور بنگالی مسلمان نکال دیے جائیں تو باقی سب اپنے ڈانڈے آج بھی برِصغیر سے باہر تلاش کرتے ہیں۔
منگول حملوں کے بعد بالخصوص بخارا و سمرقند ، ایران اور عربستان سے لوگوں نے برصغیر کی جانب ہجرت کی۔ کیا یہ تمام کے تمام علما ، صوفیا اور اشرافیہ اور سید ہی تھے ؟ کوئی ایک آدھ ترکھان ، جولاہا ، لوہار ، مزدور اور کاشتکار بھی تو ان علاقوں سے آیا ہوگا ؟ وہ آج کہاں ہیں؟
کہا جاتا ہے ہندوستان پر مسلمانوں نے ایک ہزار برس حکومت کی۔خاندانِ غلاماں سے مغلوں تک سب یہیں آ کر بسے ، مقامی رسوم و رواجات سے بھی متاثر ہوئے اور اپنی روایات سے مقامی لوگوں کو بھی متاثر کیا۔دفن بھی یہیں ہوئے لیکن خود کو مرتے دم تک ہندوستانی کے بجائے ترک ، مغل اور افغان بچہ ہی کہتے رہے اور کہتے ہیں۔آج بیشتر مغل آخر پنجاب میں ہی کیوں پائے جاتے ہیں ؟ پاکستان کے دیگر صوبوں میں اتنے کیوں دکھائی نہیں دیتے۔اور ساری مغلیت مغلئی کھانوں پر ہی کیوں ختم ہے۔
اسی طرح بہت سے پشتونوں کا خیال ہے کہ وہ مقامی یا آریائی النسل نہیں بلکہ بنی اسرائیل کا بارہواں گمشدہ قبیلہ ہیں۔ تو پھر باقی گیارہ قبیلوں کے وارث انھیں اپنا گمشدہ بھائی تسلیم کیوں نہیں کرتے؟آپ کہیں گے چونکہ بنی اسرائیل کا یہ گمشدہ قبیلہ مسلمان ہوگیا اس لیے یہودی کیوں انھیں تسلیم کرنے لگے ؟ تو عرض یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کی دو سرکاری زبانیں ہیں۔عبرانی اور عربی۔اور اسرائیل کی بیس فیصد آبادی عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے ( مقبوضہ علاقوں کے فلسطینی نکال کے)۔ آپ بھلے اسرائیل سے نفرت کرتے رہیں لیکن اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروا کے یہ اطمینان تو کرلیں کہ آپ اصل میں ہیں کون ؟
مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں۔لیکن جہاں جڑوں کی بحث چھڑتی ہے تو کلہوڑے اور داؤد پوترے فوراً سلطنتِ عباسیہ سے رشتے جوڑ لیتے ہیں۔ تالپور، چانڈیہ، جتوئی، زرداری وغیرہ بلوچ ہیں اور بلوچ خود کو کردوں کا ایک قبیلہ سمجھتے ہیں۔صرف براہوی ایسے ہیں جو اپنے کو یہیں کا کہتے ہیں۔سومرہ جانے کب سے سندھی ہیں مگر گفتگو میں وہ آپ کو عربستان سے اپنی آمد کا بتانا نہیں بھولیں گے۔سید ایسوسی ایشن بھی آپ کو سندھ میں ہی ملے گی۔
سندھ کے سماٹ قبائل خود کو یہیں کا بتاتے ہیں لیکن کسی کو بھی یہ کہنا سننا اچھا نہیں لگتا کہ ان کے پرکھے راجہ داہر کی بھی رعایا یا ہم مذہب رہے ہوں گے۔ آخر میں صرف کوہلی ، بھیل میگھواڑ اور ٹھاکر ہی بچتے ہیں جو سندھ میں نہ کہیں سے آئے نہ کہیں گئے۔
قبل از ضیا دور کے تعلیمی نصاب میں کم ازکم اتنا ضرور تھا کہ موہن جو دڑو ، ہڑپہ اور ٹیکسلا کو بھی پاکستان کا تہذیبی و نسلی ورثہ شمار کیا جاتا تھا۔لیکن لگ بھگ نو برس پہلے جب میں نے موہن جودڑو میوزیم کے ایک کیوریٹر سے ان آثار کی دن بدن خستہ حالی کی بابت پوچھا تو اس نے کہا '' یہ تو ہندوؤں کا ورثہ ہے۔ہندو تو اب یہاں سے چلے گئے۔ہم سے جتنی دیکھ بھال ہو سکتی ہے کررہے ہیں۔ ابھی اور کیا کریں سائیں''۔۔۔۔
ایک جانب تو برِ صغیر کے مسلمانوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ ان کی رگوں میں آج بھی وسطی ایشیا سے لے کے حجاز اور یمن تک کا خون دوڑ رہا ہے اور اسی سبب ان مقامات سے ان کی عقیدت بھی باقی دنیا کے مسلمانوں کے مقابلے میں دو چند ہے۔لیکن جب انھی مسلمانوں کا آج کے کسی ایرانی، ترک یا عرب سے سامنا ہوتا ہے تو وہ انھیں ہندوستانی اور پاکستانی کے سواکچھ نہیں سمجھتا۔اور اپنے ہی ملک میں تین تین نسلوں سے آباد بہت سے برصغیریوں کو شہریت دینا تو کجا انھیں رفیق اور مسکین سے اوپر اخی تک کہنے پر آمادہ نہیں۔اس کے باوجود برصغیر کا مسلمان اپنی اصل شناخت کو کھوجنے اور اس پر فخر کی عادت ڈالنے کے بجائے اپنے بدیسی شجرے سنبھال سنبھال کے خود ہی خوش ہوتا رہتا ہے۔
جب تک اندر کے بجائے باہر کی طرف دیکھنے کی عادت رہے گی تب تک نہ اپنی نگاہوں میں اپنی توقیر ہوسکتی ہے اور نہ دوسروں کی نظروں میں۔پتھر اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے۔ آپ یہاں کے ہیں اور یہیں کے ہی رہیں گے۔ مانیں یا نہ مانیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)