بابری مسجد کی تاریخی داستان پہلا حصہ

متبادل زمین ہمارے زخموں پرکسی طور مرہم نہیں رکھ سکتی۔

shabbirarman@yahoo.com

ISLAMABAD:
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایودھیا میں بابری مسجد کیس میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائرکرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل 30 روز کے اندر دائر کی جائے گی ۔بورڈ کا کہنا ہے کہ انھیں عدالت کی جانب سے حکم کے مطابق 5 ایکڑ متبادل جگہ نہیں چاہیے۔

متبادل زمین ہمارے زخموں پرکسی طور مرہم نہیں رکھ سکتی۔ واضح ہوکہ بورڈ کی ایگزیکٹو میٹنگ اتوار 17نومبر 2019ء کو ہوئی جس میں بھارتی سپریم کورٹ کے 9 نومبر کے فیصلے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ۔آل انڈیا مسلم بورڈ کے سیکریٹری ظفر یاب جیلانی ، ممبر بورڈ قاسم رسول الیاس اور ان کے دیگرساتھیوں نے صحافیوں سے بات چیت کی۔ پریس کانفرنس کے دوران ظفریاب جیلانی کا کہنا تھا کہ ملک کی مسلم جماعتوں کے درمیان ، مصباح الدین ، مولانا محفوظ الرحمان ، محمد عمر اور حاجی محبوب سب کا اتفاق رائے ہے کہ نظر ثانی کی اپیل دائر کی جائے۔

دانشوروں اور مختلف تنظیموں کے گروپ ( آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک رکن سید قاسم الیاس نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں واضح خامیاں ہیں۔ ایودھیا فیصلے کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کی مجلس عاملہ کا مذکورہ بالا اہم ہنگامی اجلاس ندوہ میں منعقد ہونے والا تھا لیکن انتظامیہ نے یہاں اجلاس منعقد کرنے سے روک دیا جس کے بعد مقام کو تبدیل کر دیا گیا اور دوسرے مقام پر اجلاس منعقد ہوا۔ انتظامیہ کی جانب سے اختیارکیے گئے رویے پر ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے سخت تنقید کی۔

ساؤتھ ایشین وائرکے مطابق انھوں نے کہا کہ اجلاس کو منعقد نہ کرنے کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی اور دیگر ذمے داران کو ڈرایا اور دھمکایا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ضلع انتظامیہ نے باضابطہ ندوہ کے ذمے داروں کو دھمکایا اورکہا گیا کہ اگر اجلاس یہاں منعقد ہوتا ہے تو اس کے نتائج ندوہ کے خلاف ہوں گے۔

قبل ازیں ظفر یاب جیلانی نے مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ میں لیے گئے فیصلہ سے واقف کرواتے ہوئے کہا کہ ہم عدالت کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست داخل کریں گے اور فیصلہ میں جو غلطیاں نظر آرہی ہیں ہم اس کی نشاندہی کریں گے اور خامیوں کو معزز ججوں کے سامنے رکھیں گے۔ ساؤتھ ایشین وائرکے مطابق انھوں نے کہا کہ نظر ثانی کی درخواست کے بعد ہمیں قوی امید ہے کہ معزز جج غلطیوں کی نشاندہی پر مثبت ردعمل کا اظہار کریں گے اور ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔

گزشتہ ہفتے انڈیا کی سپریم کورٹ نے ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندرکے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندرکی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا تھا ۔

ساؤتھ ایشین وائرکی رپورٹ کے مطابق ابتدائے تعمیر سے بابری مسجد میں نماز پنج گانہ اور جمعہ ہوتا رہا ہے ، عدالتی کاغذات سے معلوم ہوتا ہے ماضی قریب یعنی 1858ء سے 1870ء تک اس مسجد کے امام و خطیب محمد اصغر تھے۔ سن 1870ء تا 1900ء کی درمیانی مدت میں مولوی عبدالرشید نے امامت کے فرائض انجام دیے، 1901ء سے1930ء کے عرصے میں یہ خدمت مولوی عبدالقادرکے سپرد رہی اور 1930ء سے 1939ء مسجد کے قرق ہونے کی تاریخ تک مولوی عبدالقادرکی اقتدا میں مسلمان اس مسجد میں نماز پنج وقتہ اور جمعہ ادا کرتے تھے۔

تین گنبدوں والی یہ قدیم مسجد شہنشاہ بابرکے دور میں اودھ کے حاکم میر باقی اصفہانی نے 935ہجری ، 1528ء میں تعمیرکرائی تھی۔27مارچ 1932ء کو گؤکشی کے نام پر ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو نشانہ بنا کر پہلی مرتبہ ہنگامہ برپا کیا تھا اور مسجد میں گھس کر ان بلوائیوں نے توڑ پھوڑ کی تھی۔


بابری مسجد کے مصارف کے لیے عہد مغلیہ میں مبلغ ساٹھ روپے سالانہ شاہی خزانے سے ملتے تھے، نوابان اودھ کے دور میں یہ رقم بڑھا کر تین سو دو روپے تین آنہ چھ پائی کردی گئی تھی۔ برطانوی اقتدار میں بھی یہ رقم بحال رہی، پھر بندوبست اول کے وقت نقد کی بجائے دوگال بھورن پور اور شولاپور متصل ایودھیا اس کے مصارف کے لیے دیے گئے، غرض کہ اپنی ابتدا تعمیر 935 ہجری ،1528ء سے 1369ہجری ،1949ء تک یہ مسجد بغیرکسی نزاع و اختلاف کے مسجد ہی کی حیثیت سے مسلمانوں کی ایک مقدس و محترم عبادت گاہ رہی اور مسلمان امن وسکون کے ساتھ اس میں اپنی مذہبی عبادت ادا کرتے تھے۔ مستند تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر سے صدیوں قبل مسلمان ایودھیا میں آباد تھے ، اور یہاں کے ہندو مسلم پوری یک جہتی اور یگانگت کے ساتھ رہتے تھے۔

1855ء، 1272ہجری سے پہلے کسی مذہبی معاملہ میں یہاں کے باشندوں کے درمیان نہ تو کوئی تنازعہ رونما ہوا اور نہ باہمی ٹکراؤ کی نوبت آئی ہو ۔صحیح تاریخوں اور مذہبی نوشتوں سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لیکن جب اس ملک پر انگریزوں نے حکمرانی شروع کی اور ان کا یہاں عمل دخل بڑھا تو انھوں نے اپنی بد نام زمانہ پالیسی ( لڑاؤ اور حکومت کرو) کے تحت یہاں کے لوگوں میں باہمی منافرت اور تصادم پیدا کرنے کی غرض سے مسجد ، مندر ، جنم استھان وغیرہ کا خود ساختہ قضیہ چھیڑ دیا ،جس کے نتیجہ میں سن 1855ء ، 1272ہجری میں ایودھیا کے اندر زبردست خونریزی ہوئی۔

جس کی تفصیلات منظر عام پر اس سے قبل لائی جا چکی ہے۔اسی وقت سے اختلاف کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی ،اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ شاطر انگریزوں نے سب سے پہلے جنم استھان اور سیتا کی رسوئی کا افسانہ ترتیب دیا تھا اور ایک بدھسٹ نجومی کو پہلے سے سکھا پڑھا کر ان دونوں مقامات کی جگہ معلوم کی ، اس نے طے شدہ سازش کے مطابق دائرہ کھینچ کر بتا دیا کہ جنم استھان اور سیتا کی رسوئی بابری مسجد سے متصل احاطہ کے اندر ہے ، پھر اپنے زیر اثر بندوں کو اکسایا کہ ان دونوں پوتر استھانوں کو حاصل کرو۔

نقی علی خاں جو نواب واجد علی کا خسر اور وزیر تھا ، انگریزوں کی اس سازش میں ان کا موید اور طرف دار تھا ،اس نے اپنے اثرو رسوخ کے ذریعہ ناعاقبت اندیش نواب کو اس بات پر راضی کرلیا کہ بابری مسجد سے باہر مگر اس کے احاطہ مسجد کی دیوار سے متصل داہنی سمت سیتا کی رسوئی کے لیے اور صحن مسجد سے باہر بائیں پورب کی جانب جنم استھان کے نام سے 21 فٹ لمبی اور 17فٹ چوڑی جگہ دے دی گئی ، جس پر اسی وقت سے پوجا پاٹھ کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔حالانکہ جس وقت یہ افسانہ مرتب کیا گیا اس سے برسہا برس پہلے سے قلب شہر میں جنم استھان کا مندر موجود تھا اور آج بھی موجود ہے۔ اس وقت مسجد اور جنم استھان کے درمیان حد فاصل قائم کرنے کی غرض سے صحن مسجد کے ارد گرد آہنی سلاخوں کی باڑھ کھڑی کردی گئی ، اسی تاریخ سے ایودھیا میں مذہبی کش مکش شروع ہوگئی اور یہاں کے ہندو مسلم ، مندر مسجد کے نام پر آپس میں دست وگریبان ہوگئے۔

1857ء میں جب کہ ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں نے متحد ہوکر بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا بگل بجایا ، ضلع فیض آباد کے گزیٹر سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت باہمی اتفاق و یگانگت کو مستحکم کرنے کی غرض سے ایودھیا کے مسلم رہنما امیر علی اور ہندو رہنما بابا چرن داس نے رام جنم استھان اور بابری مسجد کے تنازعہ کوہمیشہ کے واسطے ختم کرنے کی غرض سے ایک معاہدہ کیا کہ رام جنم استھان کی مخصوص متنازعہ اراضی ہندوؤں کے حوالہ کردی جائے اور ہندو بابری مسجد کی عمارت سے دست کش ہوجائیں۔

چنانچہ اس معاہدہ پر فریقین خوشی خوشی راضی ہوگئے اور دوسال سے اختلاف کی جو آگ بھڑک رہی تھی وہ ٹھنڈی ہوگئی ،مگر انگریزوں کو یہ ہندو مسلم اتحاد گوارہ نہ ہوا ، انھوں نے بابا رام چرن داس اور امیر علی دونوں کو ایک ساتھ املی کے پیڑ پر لٹکا کر پھانسی دیدی اور مندر مسجد کے نزاع کو از سر نو زندہ کرنے کی غرض سے متنازعہ رام جنم استھان اور بابری مسجد کے درمیان ایک دیوارکھینچ دی ، دونوں کے راستے بھی الگ الگ بنا دیے اور مسجد کے شمالی دروازہ سے مسجد میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔

جذباتی ہندوؤں کو اکسایا کہ وہ اس تقسیم کو مسترد کرکے پوری پوری مسجد پر دعویٰ کریں ، اسی کے ساتھ مسلمانوں کو بھی برا نگیختہ کیا کہ وہ مسجد کی اراضی کے اس بٹوارہ کو تسلیم نہ کریں چنانچہ یہ کشاکش پھر شروع ہوگئی جس کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا۔

(جاری رہے۔)
Load Next Story